اب انہیں دیکھیے۔ یہ ہمارے
اکمل زیدی بھائی ہیں۔ سال کے پچیس مہینے ہوتے تو یہ پچیس مہینے سوتے رہتے۔ لیکن ان کے دل کی حسرت اور تمنا دل میں رہ گئی اور کوشش کے باوجود سال میں بارہ سے زیادہ مہینے نہ نکل سکے۔ فی الحال بحالتِ مجبوری یہ بارہ مہینوں پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ گو کہ یہ بارہ مہینے اکمل بھائی کے لیے ایسے ہیں جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ پلیز اس سنجیدہ موضوع پر کوئی مذاق کرنے کی نہیں ہورہی، مطلب کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم نے اکمل بھائی کو اونٹ سے تشبیہ دی ہے یا زیرہ سے۔ ویسے سمجھنے والے جو چاہیں سمجھے، ہم نے ان کی کوئی ذہنی رگ نہیں پکڑ رکھی۔
بہرحال تذکرہ چل رہا تھا اکمل بھائی کا، یا شاید ان کی نیند کا، بہرحال جو بھی تھا مقصد کہنے کا یہ تھا کہ سال کے بارہ مہینے اکمل بھائی کی نیند پوری ہونے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس کا اظہار تب ہوتا ہے جب یہ بے خوابی کا شکار ہوکر وقتاً فوقتاً بیدار ہوتے ہیں۔ اور جب جب بیدار ہوتے ہیں دنیا والوں پر قیامت کے پہاڑ توڑ ڈالتے ہیں۔
ثبوت ان کے حالیہ مضمون کا یہ عنوان ہے :
یقیناً ہماری طرح آپ سب بھی یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ مضمون بالا میں اکمل بھائی نے ملکی سلامتی کی کسی اہم بات کا ڈھکے چھپے انداز میں ذکر کیا ہوگا۔ بعد ازاں اپنے احباب کی دل شکنی نہ ہونے کی غرض سے پہلے ہی عرض کردیا ہوگا کہ بھائی لوگو میں اس انتہائی درجہ کے ہائی کانفیڈنشنل راز سے ہرگز ہرگز پردہ نہیں اٹھانے والا، لہٰذا کوئی مجھ سے اس بارے میں کچھ بھی پوچھنے کی کوشش نہ کرے۔مطلب مجھ سے کچھ نہ پوچھیں کہ ملکی سلامت پر کیا گزری، کیوں کہ یہ ملک کے سربستہ رازوں میں سے ایک راز ہے۔
لیکن جب آپ مضمون بالا پڑھ کر لڑی بالا میں داخل ہوتے ہیں تو کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے کے باوجود اکمل بھائی کی بے تکان مسلسل گنتگو مسلسل سننی پڑتی ہے۔ بتائیے باہر تو ببانگ دہل ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہے ہیں کہ بس کچھ نہ پوچھیں۔ اور اندر کا یہ حال ہے کہ ۔۔۔۔بس کچھ نہ پوچھیں۔
لیکن اس بار کا کچھ نہ پوچھیں اکمل بھائی کا نہیں ہمارا اپنا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہیں۔ ہم جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ جب کہہ دیا کچھ نہ پوچھیں تو مطلب واقعی کچھ نہ پوچھیں۔
اگر شیطان آپ کا ذہن ہماری اوپر والی لمبی چوڑی تمہید کی طرف لے جانے کی کوشش کرے تو اسے ایک شیطانی خیال سمجھ کر ذہن سے جھٹک دیں!!!