سیما علی
لائبریرین
قاری عنوان کی جو افسردگی دل میں لیے اندر آتا ہے وہ سب ہوا ہوجاتی ہے۔
اور قاری افسردگی میں کیرالہ کا رختِ سفر باندھتا ہے اور اُس کو ہری ہری سوجھنے لگتی ہے تو یہ تو بہتری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کیسے ہیں قسم سے آپ 🤭🤭🤭۔ عاجزی اور بے بسی کے عنوان کے پس منظر میں قاری کو صاحب تحریر اپنی تعریفوں کے پل باندھتا نظر آتا ہے۔ اس کی بیاں کردہ ذات کی بلند بانگ عمارتیں کھڑی نظر آتی ہیں۔ ذاتی کاوش کی عظمتوں کے دریا بہتے دکھائی دیتے ہیں۔ تب اسے نظر آتا ہے کہ :
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
کب ہم نے تعریفوں کے پلُ باندھے ۔۔۔۔توبہ توبہ کہاں ذات کی بلند بانگ عمارتیں کھڑی کیں ۔۔۔۔۔اگر کہیں بھی قاری کو ایسا محسوس ہوا تو اس میں قعطناًاپنی خودستائی نہیں بس جیسا ہمیں لکھنا آتا ہے وہی لکھ دیا ۔۔۔اب نہاری ہو یا ۔۔۔۔۔۔////ذاتی کاوش کی عظمتوں کے دریا بہتے دکھائی دیتے ہیں۔
جو چاہے آپ کا حسُنِ کرشمہ ساز کرے۔۔۔۔
نہ کوئی ذاتی کاوش نہ کوئی عظمت ۔۔ادنیٰ ترین بندے ہیں اللہ کے بھلا ہم
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے