عنوان طرح طرح کے

سیما علی

لائبریرین
قاری عنوان کی جو افسردگی دل میں لیے اندر آتا ہے وہ سب ہوا ہوجاتی ہے۔

اور قاری افسردگی میں کیرالہ کا رختِ سفر باندھتا ہے اور اُس کو ہری ہری سوجھنے لگتی ہے تو یہ تو بہتری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

۔ عاجزی اور بے بسی کے عنوان کے پس منظر میں قاری کو صاحب تحریر اپنی تعریفوں کے پل باندھتا نظر آتا ہے۔ اس کی بیاں کردہ ذات کی بلند بانگ عمارتیں کھڑی نظر آتی ہیں۔ ذاتی کاوش کی عظمتوں کے دریا بہتے دکھائی دیتے ہیں۔ تب اسے نظر آتا ہے کہ :
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
کیسے ہیں قسم سے آپ 🤭🤭🤭
ذاتی کاوش کی عظمتوں کے دریا بہتے دکھائی دیتے ہیں۔
کب ہم نے تعریفوں کے پلُ باندھے ۔۔۔۔توبہ توبہ کہاں ذات کی بلند بانگ عمارتیں کھڑی کیں ۔۔۔۔۔اگر کہیں بھی قاری کو ایسا محسوس ہوا تو اس میں قعطناًاپنی خودستائی نہیں بس جیسا ہمیں لکھنا آتا ہے وہی لکھ دیا ۔۔۔اب نہاری ہو یا ۔۔۔۔۔۔////
جو چاہے آپ کا حسُنِ کرشمہ ساز کرے۔۔۔۔

نہ کوئی ذاتی کاوش نہ کوئی عظمت ۔۔ادنیٰ ترین بندے ہیں اللہ کے بھلا ہم ؀
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
 

اکمل زیدی

محفلین
کچھ عنوان ایسے ہوتے ہیں کہ دل خوشی سے کیا شوخی سے بھر دیتے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ عنوان پڑھتے جائیں سر دھنتے جائیں۔سر ہلا ہلا کر جھومتے جائیں۔ اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑے ہوجائیں اور خوب دھما چوکڑی مچائیں۔ زندگی رنگوں سے رنگی لگتی ہے۔ انسان زندہ رہنے کی امنگوں سے سرشار ہوجاتا ہے۔
بعض عنوان دل پر غمزدہ کفیت طاری کردیتے ہیں۔ آدمی کا دل چاہتا ہے سر بگریباں ہوکر اس ناہنجار زندگی کا ماتم کرے، خون کے آنسو بہائے۔ بن باس لینے دور کہیں جنگلوں میں نکل جائے۔ زندہ دلی کے سارے جذبات عنوان کے الفاظ اپنے دھارے میں بہا لے جاتے ہیں۔ پیچھے صرف دھول مٹی اڑاتی ریتیلی خشک سالی رہ جاتی ہے۔ یوں انسان جینے کی تمام امنگیں کھو بیٹھتاہے۔ آج اسی طرح کا ایک عنوان دیکھیے:

اور تعارف ہمارا ہو بھی کیا

لوگ جب یہ عنوان پڑھتے ہیں دل چاہتا ہے کہ سر نیہواڑے اٹواٹی کھٹواٹی لیے پڑے رہیں۔ قلب افسردگی کی یخ بستہ ہواؤں کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ عنوان سے لکھنے والے کی ایسی عاجزی ظاہر ہوتی ہے جیسے وہ دنیا کا سب سے دل شکستہ اور ناکارہ انسان ہو۔ اس کے پاس کرنے کے لیے کچھ کام نہ ہو، بتانے کے لیے کوئی داستاں نہ ہو۔ دنیا نے اسے ناکارہ اور ردی مال سمجھ کر اسٹور کے کونے میں لاپھینکا ہو۔
اس لیے یہ عنوان درد دل کا حامل لگتا ہے۔ لگتا ہے اس عنوان کی آڑ میں اپنی کم مائیگی کے ہزاروں شکوے ہوں گے۔ لکھا ہوگا ہم کہاں کے اچھے ہیں۔ لیکن جب آپ عنوان کا پردہ چاک کر کے اندر جھانکتے ہیں تو آپ کی آنکھیں نیچی ہوجاتی ہیں۔ شرم سے نہیں اس چکاچوند سے جو اس عنوان کے اس پار نظر آتی ہے۔ اپنی زندگی کی ان گنت داستانیں سناتی نظر آتی ہے۔
قاری عنوان کی جو افسردگی دل میں لیے اندر آتا ہے وہ سب ہوا ہوجاتی ہے۔ عاجزی اور بے بسی کے عنوان کے پس منظر میں قاری کو صاحب تحریر اپنی تعریفوں کے پل باندھتا نظر آتا ہے۔ اس کی بیاں کردہ ذات کی بلند بانگ عمارتیں کھڑی نظر آتی ہیں۔ ذاتی کاوش کی عظمتوں کے دریا بہتے دکھائی دیتے ہیں۔ تب اسے نظر آتا ہے کہ :
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
تب قاری پر کائنات کا یہ سربستہ راز کھلتا ہے کہ بغیر حقیقت حال جانے محض عنوان دیکھ کر نہ تو خوشی سے ناچا جائے اور نہ ہی غم منا تے ہوئے رویا پیٹا جائے!!!
واہ واہ کیا خوب منظر کشی کی ہے عمران بھائی ۔ ۔ ۔
 

اکمل زیدی

محفلین
جس کی منظر کشی کی ہے وہ خود کشی تو نہیں کرنے لگیں ناں؟؟؟
عمران بھائی کیسی باتاں کریں ہیں آپ۔۔خودکشی کریں ہماری آپا کے انیمی بولے تو دشمن -۔ایسی باتیں کردیتے ہیں کہ شک ہونے لگتا ہے کے آپ نے اپنا پیش کردہ مضمون بھیا جی سے لکھوایا ہے ۔۔۔:unsure:
 

سید عمران

محفلین
عمران بھائی کیسی باتاں کریں ہیں آپ۔۔خودکشی کریں ہماری آپا کے انیمی بولے تو دشمن -۔ایسی باتیں کردیتے ہیں کہ شک ہونے لگتا ہے کے آپ نے اپنا پیش کردہ مضمون بھیا جی سے لکھوایا ہے ۔۔۔:unsure:
ہاں جی، ہاں جی، یہی بات ہے۔۔۔
آپ بھی آئندہ ان سے ہی لکھوایا کریں۔۔۔
اچھا نہیں لکھتے کیا؟؟؟
 
Top