ہمارے دادا جان نے سیف الملوک کا بہت سا حصہ زبانی یاد کر رکھا تھا اور سنایا کرتے تھے۔ جس وقت سمجھ بھی نہیں تھی۔لیکن کان بچپن میں ہی ان الفاظ سے آشنا تھے، تب سمجھ نہیں آتی تھی کہ پڑھتے پڑھتے ان کی آواز کیوں بھرا جاتی ہے۔ اور جب سمجھ آنی شروع ہوئی تو ایک ایک لفظ دل میں اتر گیا۔اور سب سمجھ آ گئی کہ کیا کیا کیفیات طاری ہو کر دادا جان کی آواز میں اتار چڑھاؤ لاتی تھیں۔
ہمارے پاس اپنے دادا جان کی سیف الملوک محفوظ ہے۔
ماشاءاللہ۔ زبردست
میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ سے پہلی شناسائی سکول کے زمانے میں ہوئی کہ اردو کی درسی کتاب میں کسی کہانی کے اختتام پر ان کا ایک شعر ہوا کرتا تھا۔ (شاید شیر، شکاری اور چوہے والی کہانی تھی، جماعت اب یاد نہیں)
دنیا تے جو کم نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے
اس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے
پھر جب کہیں گاؤں جانا ہوتا توکسی ہل چلاتے ٹریکٹر پر لگی ٹیپ سے اکثر عالم لوہار مرحوم کی جادوئی آواز میں سیف الملوک بھی سننے کو مل جاتی۔ پھر گاؤں کی چوپالوں میں اور شام ہوئے کسی ڈیرے پر جمی نشست میں اکثر سیف الموک کے اشعار سننے کو مل جاتے۔
جوں جوں عمر گزرتی رہی، وہ مشہور شعر جو پہلے صرف سنا کرتے تھے، آہستہ آہستہ مکمل سمجھ آنے لگ گئے۔ سیف الملوک اور میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ سے الفت اور عقیدت بھی بڑھتی ہی چلی گئی، جو شاید ہمشہ برقرار رہے کہ مادری زبان میں سیکھا سب کچھ یاد رہتا ہے۔
اب بھی ضلع راولپنڈی، جہلم، میرپور، گجرات، منڈی بہاؤالدین کے دیہاتی علاقوں میں سیف الملوک کی محفلیں جمتی ہیں اور سخن شناس ان محفلوں کی رونق بڑھائی رکھتے ہیں۔