محمد بلال اعظم
لائبریرین
چھوٹا غالبؔ کہلانے کیلئے مقروض ہونے کی شرط لازمی تھی
تو آپ کس کے مقروض ہوئے؟
چھوٹا غالبؔ کہلانے کیلئے مقروض ہونے کی شرط لازمی تھی
یوفونتو آپ کس کے مقروض ہوئے؟
جی درست کردی ہے ٹائیپو۔ ملاحظہ فرمائیےواہ کیا خوب۔ لطف آ گیا۔
ایک ٹائپو ہے۔۔۔ درست کر لیجیے:
پھر شوق کررہا ہے جو دیدار کی طلب
غزلمحمد خلیل الرحمٰنمدت ہوئی ہے اُن کو پریشاں کیے ہوئےگھر میں کسی حسین کو مہماں کیے ہوئےبیوی چھپا گئی ہے حسینوں کے سب خطوطبیٹھے ہیں ہم تہیہّ طوفاں کیے ہوئےپھر جی میں ہے کہ گھر پہ کسی کے پڑے رہیںاور وہ بھی بس تصوّرِ جاناں کیے ہوئےبیوی ہمیں نہ چھیڑ، غزل کے ہیں موُڈ میںبیٹھے ہیں زلفِ یار پریشاں کیے ہوئےچلتے ہیں یوں حسین جو سڑکوں پہ آج کلاِک دعوتِ نگاہ کا ساماں کیے ہوئےکرتا ہے غیر سے یونہی باتیں وہ ، کیا کریںبتیّسی و نگاہ گلستاں کیے ہوئےپھر شوق کررہا ہے جو دیدار کی طلبکچھ دِن ہوئے ہیں دِل کو بلیداں کیے ہوئے
شکریہ استادِ محترم۔ آپ کی اصلاح کے مطابق تدوین کردی ہےبہت خوب خلیل، لیکن اس خود ستائشی میں ایک غلطی کر گئے، یا ممکن ہے کہ یہ دانستہ ہو۔
نثر میں نظم ہے اور کچھ نئی بحریں پریشاں ہیںاگر صلاح دی جا سکے تو یوں کہوں گایہ نظمیں نثر میں ہیں، اور کچھ بحریں پریشاں ہیں
نام نہاد شاعر کی غزلمحمد خلیل الرحمٰنیہ نظمیں نثر میں ہیں، کچھ نئی بحریں پریشاں ہیںابھی شیرینی ء کام ودہن کی آزمائش ہے
زبردست خلیل، بس ایک صلاح، بلیداں بجائے بلی دان کے درست نہیں، یہ ہندی لفظ ہے، یہاں ’قرباں‘ لانے کی کوشش کریں۔
ایک اور پیروڈی حاضرِ خدمت ہے۔
غزلمحمد خلیل الرحمٰنآج محبوبہ کے گھر جانے کی حسرت دِل میں ہےبس نہیں چلتا ہے کچھ، یہ دِل بڑی مشکل میں ہےایسی محبوبہ ہے، تُف ایسا رقیبِ روسیاہبدلی بدلی سی فضا کچھ آج اِس محفِل میں ہےکاش عاشق ہم پہ بھی ہوپاتی کوئی گُل فِشاںکب سے اُس ظالِم کو تڑپانے کی حسرت دِل میں ہےابتدائے عِشق ہے لیکن ہمیں ایسا لگےکب سے جانے وہ سراپا، شکل و صورت دِل میں ہےعشق جتنے بھی کیے ، ناکامیاں ناکامیاںبس یہی صورت ہماری’سعیٗ بے حاصَل میں ہے‘اپنی بستی میں نئی لڑکی کو جوں دیکھا خلیلؔ’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دِل میں ہے‘
یہ غزل بھائی خلیل نے ”آپ ہی کی طرف سے“ لکھی ہے ۔۔۔ ورنہ جملہ شادی شہداؤں کی طرح اب اُن میں بھی اتنی تاب کہاں کہ کسی کو کنکھیوں سے بھی دیکھ سکیںبے شک میرے دل میں ہے۔
یہ غزل بھائی خلیل نے ”آپ ہی کی طرف سے“ لکھی ہے ۔۔۔ ورنہ جملہ شادی شہداؤں کی طرح اب اُن میں بھی اتنی تاب کہاں کہ کسی کو کنکھیوں سے بھی دیکھ سکیں