ساتھ اپنے کبھی گھر چھوڑ کے بھاگی نہ کوئی
حیف چاہا تھا جو ہم نے وہ کبھی بھی نہ ہوا
کتنا ارمان تھا لے بھاگیں کسی کو ہم بھیخواب ہی رہ گیا شرمندہء معنی نہ ہوا
اب کے بس کچھ ہم نے ٹھانی اور ہے
بہت خوب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔ایک مزید پیروڈی حاضر ہے۔
غزلچار دِن کی یہ کہانی اور ہےجِس کو کہیے زندگانی اور ہےیا الٰہی اپنی مجبوری کی خیراُن کا طرزِ حکم رانی اور ہےدیکھتے اسباب کو ہم رہ گئےاندرونی یہ کہا نی اور ہےکوئی بدہضمی سی بد ہضمی ہے یہآج سینے پر گرانی اور ہےسچ ہے یہ جھیلیں بلائیں سب تماماب تو بس اِک ناگہانی اور ہےخط میں جو لکھا ہے یوں تو خام ہےاُن کا پیغامِ زبانی اور ہےہوچکا ، ہوتا رہا جو کچھ خلیلؔاب کے بس کچھ ہم نے ٹھانی اور ہے
بہت خوب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔
صرف بد ہضمی والا شعر نکال دیجیے تو یہ غالب کی زمین میں آپ کی خوبصورت غزل کہلائے گی بجائے پیروڈی کے۔
سچ ہے یہ جھیلیں بلائیں سب تماماب تو بس اِک ناگہانی اور ہے
خط میں جو لکھا ہے یوں تو خام ہےاُن کا پیغامِ زبانی اور ہے
ہوچکا ، ہوتا رہا جو کچھ خلیلؔاب کے بس کچھ ہم نے ٹھانی اور ہے
انھیں ذرا سا تبدیل کر لیجیے۔۔۔
یوسف ثانی بھائی آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ جو وارداتِ ذاتی ہم شعر میں اِشاروں میں بیان کرتے ہیں، آپ کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں۔کچھ تو پردے داری کی لاج رکھ لیا کیجے۔یا الٰہی اپنی مجبوری کی خیراُن کا طرزِ حکم رانی اور ہےبہت خوب ۔کیا حسب حال شعر ہے۔ زبردست