محمداحمد
لائبریرین
بہت خوب ۔۔۔۔ زبردست۔۔۔۔ ڈھیروں داد و تحسین
بہت شکریہ نظام الدین صاحب!
خوش رہیے۔
بہت خوب ۔۔۔۔ زبردست۔۔۔۔ ڈھیروں داد و تحسین
کیا بات ہے! بہت خوب ۔
تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلےمیں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں
اس قدر خوبصورت اشعار۔ہر شعر ایک فن پارہ ہے۔پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپجہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں
پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں
اُسے جانے کی جلدی تھی، سومیں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہاں تک چھوڑ آیا ہوں
کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں
واہ بھائی
کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورتجیسا عمدہ شعر ’زندان‘ کی وجہ سے پریشان کر رہا ہے۔ اگر یوں کر دیں تو اور اچھا ہو جائے۔
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں
لیکن یہاں
محبت کانچ کا زندان تھی، سنگِ گراں کب تھی
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں
محبت کانچ کا زنداں تھی، یوں سنگِ گراں کب تھی
میں بھی انسان ہوں آسی بھائی، ضروری نہیں کہ ہر خطا پر میری نظر جائے۔ دوڑ پر واقعی میری نظر نہیں پڑی۔آپ نے پھوڑ، توڑ، جوڑ کے ساتھ دَوڑ کو قافیہ بنانے پر کچھ نہیں فرمایا۔ شاید مناسب نہیں جانا ہو گا، مجھے خیال آ گیا سو توجہ دلا دی۔ معذرت!
آپ نے پھوڑ، توڑ، جوڑ کے ساتھ دَوڑ کو قافیہ بنانے پر کچھ نہیں فرمایا۔ شاید مناسب نہیں جانا ہو گا، مجھے خیال آ گیا سو توجہ دلا دی۔ معذرت!
کیا اسے خاتم جمشید اور پرتو خورشید یا پھر جاوید اور امید جیسے امتزاج پر محمول نہیں کیا جاسکتا ؟میں بھی انسان ہوں آسی بھائی، ضروری نہیں کہ ہر خطا پر میری نظر جائے۔ دوڑ پر واقعی میری نظر نہیں پڑی۔
آدابکیا اسے خاتم جمشید اور پرتو خورشید یا پھر جاوید اور امید جیسے امتزاج پر محمول نہیں کیا جاسکتا ؟
اگر چہ لہجےکے لحاظ سے قافیے کی کی نزاکت کے متاثر ہونے کےاحساس کا امکان باقی رہے گا ۔
بجا ارشاد۔میں بھی انسان ہوں آسی بھائی، ضروری نہیں کہ ہر خطا پر میری نظر جائے۔ دوڑ پر واقعی میری نظر نہیں پڑی۔
آداب
کچھ الفاظ ہیں جن کے فارسی میں دو دو لہجے ہیں، اور ہمارے اساتذہ نے بھی اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ مجھے ٹھیک ٹھیک تو یاد نہیں ایک مقام پر غالب گفتگو واو مجہول کے ساتھ لائے ہیں، جبکہ معروف گفتگو، جستجو واو معروف کے ساتھ ہیں۔
رنج کی جب گفتگو ہونے لگیفارسی میں واوِ مجہول یوں بھی کم کم ہی بولتے ہیں۔ ہم دو (2) کہتے ہیں وہ دُو (2) کہتے وغیرہ، ایسا ہی جاوید کے ساتھ ہے۔ وہ جاوِید بولتے ہیں اردو مزاج میں جاوید (یائے مجہول) ہے۔ جب ہم فارسی میں شاعری کریں گے تو ہمیں فارسی اصوات و اعراب کو اختیار کرنا ہو گا، اردو میں ہم کچھ لچک لے لیتے ہیں۔ واوِ لین اور یائے لین کے مقامات عام طور پر نسبتاً زیادہ حتمی ہوتے ہیں۔
آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی
آپ نے بہت عمدہ بات کی "قافیے کی نزاکت" والی۔ شاعر پر اتنا تو واجب ہے نا، کہ اظہار کی نزاکت کا اہتمام نہیں کرتا تو اس کو مجروح بھی نہ ہونے دے۔
غالب کے دور میں ایک چیز آپ کو ملے گی "بصری قافیہ"، (موسیٰ، عالی، کافی، بشریٰ؛ وغیرہ)؛ یہ غزل بھی بصری قافیہ پر ہے کہ قوافی لکھنے میں ایک سے ہوں، صوتیت کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔ بصری قافیہ بعد میں تقریباً ترک کر دیا گیا۔ اس کی وجہ شاید وہی تھی جسے آپ نے کہا: "کچھ گرانی اپنی طبع کی لطافت و نزاکت کے بقدر"۔ سو، میری سفارش ہے کہ اس سے گریز اولیٰ۔آسی بھائی بھلی بات کہی آپ نے ، میں متفق ہوں۔
بر سبیل تذکرہ یاد آیاڈاکٹر اقبال اپنے نثری خطبات میں کوئی نکتہ بیان کر تے ہوئےشیخ معروف کرخی کا حوالہ استعمال کیا ہے ۔
ایک جگہ کچھ اس طرح رقمطراز ہوتے ہوئے "آن دی اتھارٹی آف شیخ معروف کرخی آئی کین سے ۔۔۔۔۔"الخ
برسہا قبل اسلامی فکر کی تشکیل نو مین شاید اس طرح کے الفاظ یاد پڑتے ہیں۔
چنانچہ شاعر اس پس منظر میں غالب کی مندرجہ ذیل غزل میں مستعمل قوافی کی اتھارٹی کے پردے میں امان حاصل کر سکتا ہے اگر چہ محسوس کرنے والے (بشمول راقم ) بہر حال کچھ گرانی اپنی طبع کی لطافت و نزاکت کے بقدرضرورمحسوس کریں گے۔ ویسے اس طرح کے تنوع کی کئی اور مثالیں ملتی ہیں ۔
اس ضمن میں غالب کی ایک معروف غزل یاد آئی تھی۔
عشق، تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری، شجرِ بید نہیں
رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
ہے تجلی تری، سامانِ وجود
ذرّہ، بے پرتوِ خورشید نہیں
گردشِ رنگِ طرب سے ڈرئیے
غمِ محرومئ جاوید نہیں!
سلطنت دست بَدَست آئے ہے
جامِ مے ، خاتمِ جمشید نہیں
کہتے ہیں "جیتی ہے امید پہ خلق"
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل
بادہ، غالبؔ! عرقِ بید نہیں
اس قدر خوبصورت اشعار۔ہر شعر ایک فن پارہ ہے۔
بہت ہی پیاری غزل ہے۔
زبردست پہ زبریں لگاتے جائیں،لگاتے جائیں۔۔۔۔۔زبر زبر زبر زبر زبردست
ڈھیر ساری داد۔
بہت اچھا لگا ۔جی چاہتا ہے کہ پھر سے پڑھیں،پھر سے پڑھیں،پھر سے پڑھیں۔۔۔۔۔
در اصل میں ذہن میں ایک تازہ حوالہ آ گیا، وہ جو کسی نے لکھا تھا کہ جی فلاں صاحب نے ساری کتاب کی اصلاح بھی کی ہے اور دیباچہ بھی لکھا ہے ۔۔ ۔۔ وغیرہ۔ سو، کل ایسا نہ ہو جائے کہ جی اعجاز عبید صاحب نے اس غزل پر بات کی اور دوڑ پر نہیں ٹوکا (لہٰذا یہ قافیہ درست ہے؟؟؟؟)۔
آپ نے پھوڑ، توڑ، جوڑ کے ساتھ دَوڑ کو قافیہ بنانے پر کچھ نہیں فرمایا۔ شاید مناسب نہیں جانا ہو گا، مجھے خیال آ گیا سو توجہ دلا دی۔ معذرت!
کیا اسے خاتم جمشید اور پرتو خورشید یا پھر جاوید اور امید جیسے امتزاج پر محمول نہیں کیا جاسکتا ؟
اگر چہ لہجےکے لحاظ سے قافیے کی کی نزاکت کے متاثر ہونے کےاحساس کا امکان باقی رہے گا ۔
آداب
کچھ الفاظ ہیں جن کے فارسی میں دو دو لہجے ہیں، اور ہمارے اساتذہ نے بھی اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ مجھے ٹھیک ٹھیک تو یاد نہیں ایک مقام پر غالب گفتگو واو مجہول کے ساتھ لائے ہیں، جبکہ معروف گفتگو، جستجو واو معروف کے ساتھ ہیں۔
رنج کی جب گفتگو ہونے لگیفارسی میں واوِ مجہول یوں بھی کم کم ہی بولتے ہیں۔ ہم دو (2) کہتے ہیں وہ دُو (2) کہتے وغیرہ، ایسا ہی جاوید کے ساتھ ہے۔ وہ جاوِید بولتے ہیں اردو مزاج میں جاوید (یائے مجہول) ہے۔ جب ہم فارسی میں شاعری کریں گے تو ہمیں فارسی اصوات و اعراب کو اختیار کرنا ہو گا، اردو میں ہم کچھ لچک لے لیتے ہیں۔ واوِ لین اور یائے لین کے مقامات عام طور پر نسبتاً زیادہ حتمی ہوتے ہیں۔
آپ سے تم تم سے تو ہونے لگی
آپ نے بہت عمدہ بات کی "قافیے کی نزاکت" والی۔ شاعر پر اتنا تو واجب ہے نا، کہ اظہار کی نزاکت کا اہتمام نہیں کرتا تو اس کو مجروح بھی نہ ہونے دے۔