غُبارِ خاطر از مولانا ابُو الکلام آزاد

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 24

مقدمہ

1 - تاریخ واقعاتِ شہاں نانوشتہ ماند (1)
افسانہ کہ لفت نظیری کتاب شد​

اس مجموعے میں جس قدر مکتوبات ہیں، وہ تمام تر نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن خاں صاحب شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے تھے۔ چونکہ قلعہ احمد نگر کی قید کے زمانے میں دوستوں سے خط و کتابت کی اجازت نہ تھی اور حضرت مولانا کی کوئی تحریر باہر نہیں جا سکتی تھی اس لیے یہ مکاتیب وقتاً فوقتاً لکھے گئے اور ایک فائل میں جمع ہوتے رہے۔ 15 جون 1945ء کو جب مولانا رہا ہوئے تو ان مکاتیب کے مکتوب الیہ تک پہنچنے کی راہ باز ہوئی۔

نواب صاحب سے حضرت مولانا کا دوستانہ علاقہ بہت قدیم ہے۔ مولانا نے خود ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ پہلے پہل ان سے ملاقات 1906ء میں ہوئی تھی۔ گویا ایک کم چالیس برس اس رشتہ اخلاص و محبت پر گزر چکے اور ایک قرن سے بھی زیادہ وقت کا امتداد اس کی تازگی اور شگفتگی کو افسردہ نہ کر سکا۔ دوستی و یگانگت کے ایسے ہی علاقےہیں، جن کی نسبت کہا گیا تھا۔

2 – تزول جبال الرامیات و قلبھم
عن الحب لا یخلو ولا یتزلزل (2)​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 25

البتہ یہ علاقہ محبت و اخلاص صرف علمی اور ادبی ذوق کے رشتہ اشتراک میں محدود ہے۔ سیاسی عقائد و اعمال سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ سیاسی میدان میں مولانا کی راہ دوسری ہے اور نواب صاھب اس سے رسم و راہ نہیں رکھتے۔

حضرت مولانا کی زندگی مختلف اور متضاد حیثیتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ وہ ایک ہی زندگی اور ایک ہی وقت میں مصنف بھی ہیں، مقرر بھی ہیں، مفکر بھی ہیں، فلسفی بھی ہیں، ادیب بھی ہیں، مدبر بھی ہیں اور ساتھ ہی سیاسی جد و جہد کے میدان کے سپہ سالار بھی ہیں۔ دینی علوم کے تبخر کے ساتھ عقلیات اور فلسفے کا ذوق بہت کم جمع ہوتا ہےاور علم اور ادب کے ذوق نے ایک ہی دماغ میں بہت کم آشیانہ بنایا ہے۔ پھر علمی اور فکری زندگی کا میدان عملی سیاست کی جد و جہد سے اتنا دور واقع ہوا ہے کہ ایک ہی قدم دونوں میدانوں مین بہت کم اُٹھ سکتے ہیں مگر مولانا آزاد کی زندگی ان تمام مختلف اور متضاد حیثیتوں کی جامع ہے گویا ان کی ایک زندگی میں بہت سے زندگیاں جمع ہو گئی ہیں۔

وہ اپنی ذات سے اک انجمن ہیں​

اس صورت حال کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ علائق کا دائرہ کسی ایک گوشے ہی میں محدود نہیں رہا، علوم دینیہ کے حجروں کے زاویہ نشیں، ادب و شعر کی محفلوں کے بزم طراز، علم اور فلسفے کی کاوشوں کے دقیقہ سنج اور میدان سیاست کے تدبر اور معرکہ آرائیوں کے شہ سوار سب کے لیے ان کی شخصیت یکساں طور پر کشش رکھتی ہے اور سب اس مجمع فضل و کمال کے افادات سے بقدر طلب و حوصلہ مستفید ہوتے رہتے ہیں۔

3- تو نخلِ کوش ثمر کیستی کہ باغ و چمن
ہمہ ز خویش بریدند و در تو پیوستند (3)​

البتہ ان کے ارادت مندوں کا حلقہ جس قدر وسیع اور بین القومی ہے، اتنا ہی دوستوں کا دائرہ تنگ ہے۔

4- کسے کہ زود گسئل نیست، دیر پیوندست (4)​

ایسے کوش قسمت اصحاب جنہین مولانا اپنے "دوستوں" میں تصور کرتے ہوں خال خال ہیں اور صرف وہی ہیں جن سے علم و ذوق کے اشتراک اور رحجانِ طبیعت کی مناسبت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 26

نے انہیں وابستہ کر دیا ہے۔ ایسے ہی خال خال حضرات میں ایک سخصیت نواب صدر یار جنگ کی ہے۔

نواب صاھب مسلمانانِ ہند کے گزشتہ دورِ علم و مجالس کی یادگار ہیں۔ آج سے تین چالیس 40 برس پیشتر کا زمانہ، مولانا آزاد کی ابتدائی علمی زندگی کا زمانہ تھا۔ وہ اس وقت کے تمام اکابر و افاضل سے عمر میں بہت چھوٹے تھے۔ یعنی ان کی عمر سترہ اٹھارہ برس سے زیادہ نہ تھی لیکن اپنی غیر معمولی ذہانت اور محیر العقول علمی قابلیت کی وجہ سے سب کی نظروں میں محترم ہو گئے تھے اور معاصرانہ اور دوستانہ حیثیت سے ملتے تھے۔ نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، خلیفہ محمد حسین (پٹیالہ) خواجہ الطاف حسین حالی، مولانا شبلی نعمانی، ڈاکٹر نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ، حکیم محمد اجمل خاں وغیرہم، سب سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے اور علمی اور ادبی صحبتیں رہا کرتی تھیں۔ اسی عہد کی صحبتوں میں نواب صدر یار جنگ سے بھی ان کی شناسائی ہوئی اور پھر شناسائی نے عمر بھر کی دوستی کی نوعیت پیدا کر لی۔ مولانا اس رشتے کو خصوصیت کے ساتھ عزیز رکھتے ہیں کیونکہ یہ اس عہد کی یادگار ہے جو بہت تیزی کے ساتھ گزر گیا اور ملک کی مجلسیں قدیم صورتوں اور صحبتوں سے یک قلم خالی ہو گئیں۔

مولانا کی سیاسی زندگی کے طوفانی حوادث ان کی تمام دوسری حیثیتوں پر چھا گئے ہیں لیکن خود مولانا نے اپنی سیاسی زندگی کو اپنے علمی اور ادبی علائق سے بالکل الگ تھلگ رکھا ہے۔ جن دوستوں سے ان کا علاقہ محض علم و ادب کے ذوق کا علاقہ ہے، وہ ان کے علائق کو سیاسی زندگی سے ہمیشہ الگ رکتھے ہیں اور اس طرح الگ رکھتے ہیں کہ سیاسی زندگی کی پرچھائیں بھی اُس پر نہیں پڑ سکتی۔ وہ جب کبھی ان دوستوں سے ملیں گے یا خط و کتابت کریں گے تو اس میں سیاسی افکارو اعمال کا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ ایک بے خبر آدمی اگر اس وقت کی باتوں کو سنے تو خیال کرے، اس شخص کو سیاسی دُنیا سے دُور کا علاقہ بھی نہیں ہے اور علم و ادب کے سوا اور کسی ذوق سے آشنا نہیں۔ ایک مرتبہ اس معاملے کا خود مولانا سے ذکر ہوا تو فرمانے لگے جس شخص سے میرا تعلق جس حیثیت سے ہے، میں ہمیشہ اسے اسی حیثیت میں محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ دوسری حیثیتوں سے اسے آلودہ کروں۔ چنانہ نہ تو کبھی وہ اِن دوستوں سے اس کی توقع رکھتے ہیں کہ ان کی سیاسی زندگی کے آلام و مصائب میں شریک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 27

ہوں۔ نہ کبھی اس کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ ان کے سیاسی افکار و اعمال سے اتفاق کریں۔ سیاسی معاملے میں وہ ہر شخص کو خود اس کی پسند اور خواہش پر چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ ان سے کسی علمی مذہبی اور ادبی تعلق سے برسوں ملتے رہیے۔ وہ کبھی بھولے سے بھی سیاسی معاملات کا آپ سے ذکر نہیں کریں گے۔ ایسا معلوم ہو گا، جیسے اس عالم کی انہیں کوئی خبر ہی نہیں۔

بسا اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی سیاسی میدانوں کے طوفانی حوادث سے گھری ہوتی ہے۔ کچھ معلوم نہین ہوتا کہ ایک دن یا ایک گھنٹے کے بعد کیا حوادث پیش آئیں گے۔ ممکن ہے کہ قید و بند کا مرحلہ پیش آ جائے۔ بہت ممکن ہے کہ جلاوطنی یا اس سے بھی زیادہ کوئی خطرناک صورتِ حال ہو لیکن اچانک، عین اسی عالم میں کسی ہم ذوق دوست کی یاد ان کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے اور وہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے سارے گرد و پیش سے یک قلم کنارہ کش ہو کر اس کی جانب ہمہ تن متوجہ ہو جاتے ہیں اور اس استغراق اور انہماک کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں گویا ان کی زندگی پر کسی خطرناک سے خطرناک حادثے کا سایہ بھی نہیں پڑا ہے۔ وہ اس وقت اپنی یکساں اور بے کیف سیاسی مشغولیت کا مزہ بدلنے کے لیے کوئی ایسا موضوع چھیڑ دیں گے جو سیاسی زندگی کے میدانوں سے ہزاروں کوس دُور ہو گا۔ علم و فن کا کوئی مبحث، فلسفیانہ غور و فکر کی کوئی کاوش، طبیعات کا کوئی نیا نظریہ، تصور و اشتراق کا کوئی واردہ یا پھر ادب و انشاء کی سخن طرازی اور شعر و سخن کی بزم آرائی، غرض کہ سیاست کے سوا ہر ذوق کی وہاں گنجائش ہو گی، ہروادی کی وہاں پیمائش کی جا سکے گی۔ اس وقت کوئی انہیں دیکھے تو صاف دکھائی دے کہ زبان حال سے خوجہ حافظ کا یہ شعر دُہرا رہے ہیں :

5- کمندِ صیدِ بہرامی بیفگن، جامِ مے بردار
کہ من پیمودم ایں صحرا، نہ بہرام ست نے گورش (5)​

مولانا اس صورت حال کو "تحمیض" سے تعبیر کیا کرتے ہیں۔ "تحمیض" عربی میں مُنہ کا مزہ بدلنے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ "حموضو امجالسکم" یعنی اپنی مجلسوں کا مزہ بدلتے رہو وہ کہتے ہیں اگر گاہ گاہ میں اس تحمیض کا موقع نہ نکالتا رہوں تو میرا دماغ بے کیف اور خشک مشغولیتوں کے بارِ مسلسل سے تھک کر معطل ہو جائے۔ اس طرح کی "تحمیض" میرے لیے ذہنی عیش و نشاط کا سامان بہم کر دیا کرتی ہے اور دماغ ازسر نو تازہ دم
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 28

ہو جاتا ہے۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عین سیاسی طوفانوں کے موسم میں کوئی ہم ذوق دوست آ نکلتا ہے اور انہیں موقع مل جاتا ہے کہ قلم و تخیل کی جگہ صحبت و مجالست کے ذریعہ اپنی مشغولیت کا ذائقہ بدلیں۔ وہ معاً اپنے گرد و پیش کی دنیا سے باہر نکل آئیں گے اور ایک انقلابی تحول کے ساتھ اپنے آپ کو ایک دوسرے ہی عالم میں پہنچا دیں گے۔ وہ فوراً اپنے خادمِ خاص عبد اللہ کو پکاریں گے کہ چائے لاؤ۔ یہ گویا اس کا اعلان ہو گا کہ ان کے ذوق و کیف کا خاص وقت آ گیا۔ پھر شعر و سخن کی صحبت شروع ہو جائے گی، علم و ادب کا مذاکرہ ہونے لگے گا اور اعلٰی درجہ کی چینی چائے "وہائٹ جسامن" کے چھوٹے چھوٹے فنجانوں کا دور چلنے لگے گا کہ :

6- حاصلِ کارگہِ کون و مکاں ایں ہمہ نیست
بادہ پیش آ رکہ اسباب جہاں ایں ہمہ نیست (6)​

انہیں اپنی طبیعت کے انفعالات پر غالب آنے اور اپنے آپ کو اچانک بدل لینے کی جو غیر معمولی قدرت ھاصل ہو گئی ہے وہ فی الحقیقت ایک حیرت انگیز بات ہے۔ اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں خود اپنی آنکھوں سے اس انقلابی تحول کو دیکھنے کا موقع ملا ہو۔ مجھے آٹھ برس سے یہ موقع حاصل ہے۔

نواب صدر یار جنگ ایک خاندانی رئیس ہیں۔ ملک کے سیاسی معاملات میں ان کا طرزِ عمل وہی رہتا آیا ہے جو عموماً ملک کے طبقہ رؤسا کا ہے۔ یعنی سیاسی کش مکش کے میدانوں سے علیھدگی اور اپنے گوشہ سکون و جمعیت پر قناعت۔ برخلاف اس کے مولانا کی پوری زندگی سیاسی جد و جہد کی جنگ آزمائی اور معرکہ آرائی کی زندگی ہے لیکن صورتِ ھال کا یہ اختلاف بلکہ تضاد، ایک لمحے کے لیے بھی ان کے باہمی علائق کی یگانگت و یک جہتی پر اثر نہیں ڈال سکتا۔ نہ کبھی مولانا سیاسی معاملات کی طرف کوئی اشارہ کریں گے، نہ کبھی نواب صاحب کی جانب سے کوئی ایسا تذکرہ درمیان آئے گا۔ دونوں کا علاقہ ذاتی محبت و اخلاص اور ذوق علم و ادب کے اشتراک کا علاقہ ہے اور ہمیشہ اسی دائرے میں محدود رہتا ہے۔ چنانچہ قلعہ احمد نگر کے ایک مکتوب مورخہ 29 اگست 1942ء میں وہ سیاسی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛ "مجھے یہ قصہ یہاں نہین چھیڑنا چاہیے۔ میری آپ کی مجلس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 29

آرائی افسانہ سرائی کے لیے نہیں ہوا کرتی :

7- از مابجز حکایتِ مہر و وفا مپرس (7)​

"میری دکان سخن میں ایک ہی طرح کی جنس نہیں رہتی لیکن آپ کے لیے کچھ نکالتا ہوں تو احتیاط کی چھلنی میں اچھی طرح چھان لیا کرتا ہوں کہ کسی طرح کی سیاسی ملاوت باقی نہ رہے۔"

15 جون 1945ء کو مولانا تین برس کی قید و بند کے بعد رہا ہوئے اور اس حالت میں رہا ہوئے کہ چوالیس پونڈ وزن کم ہو چکا تھا اور تندرستی جواب دے چکی تھی لیکن رہائی کے بعد ہی انہین فوراً شملہ پہنچنا اور شملہ کانفرنس کی مشغولیتوں میں گم ہو جانا پڑا۔ اب وہ قلعہ احمد نگر اور بانکوڑا کے قید خانے کی جگہ وائسرائے گل لاج شملہ کے مہمان تھے لیکن یہاں بھی صبح چار بجے کی سحر خیزی اور خود مشغولی کے معمولات برابر جاری رہے۔ ایک دن صبح اچانک نواب صاحب کی یاد سامنے آ جاتی ہے اور وہ ایک شعر لکھ کر تین برس پیشتر کی خط و کتابت کا سلسلہ ازسرنو تازہ کر دیتے ہیں۔ پھر تبدیلی آب و ہوا کےلیے کشمیر جاتے ہیں اور تین ہفتے گلمرگ میں مقیم رہتے ہیں۔ گلمرگ سے سرینگر آتے ہیں اور ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم ہو جاتے ہیں۔ یہ ہاؤس بوٹ نسیم باغ کے کنارے لگا دیا گیا تھا اور مولانا کی صُبحیں اسی کے ڈرائنگ روم میں بسر ہونے لگیں تھیں۔ یہاں پھر خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہوتا ہے اور 3 ستمبر 1945ء کو مولانا اپنے ایک مکتوب میں قلعہ احمد نگر کے حالات کی حکایت چھیڑ دیتے ہیں اور ان مکاتیب کی نگارش کے اسباب و محرکات کی تفصیلات لکھتے ہیں جو اس مجموعے میں جمع کیے گئے ہیں۔ چونکہ رہائی کے بعد کے مکاتیب کا یہ حصہ بھی ان مکاتیب سے مربوط ہو گیا ہے، اس لیے مولانا سے اجازت لے کر، میں نے انہیں بھی اس مجموعہ کی ابتداء میں شامل کر دیا ہے۔ رہائی کے بعد کے یہ مکاتیب اس مجموعے کے لیے دیباچے کا کام دیں گے۔

مولانا کو سینکڑوں خطوط لکھنے اور لکھوانے پڑتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کی نقول نہیں رکھی جا سکتیں لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے اپنے خاص علمی و ادبی مکاتیب کی نقول رکھنے کی بھی کبھی کوشش نہیں کی اور اس طرح سینکڑوں مکاتیب ضائع ہو گئے۔

1940ء میں، میں نے مولانا سے درخواست کی کہ جو خاص مکاتیب وہ دوستان خاص
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 30

کو لکھا کرتے ہیں ان کی نقول رکھنے کی مجھے اجازت ملے۔ چنانچہ مولانا نے اجازت دے دی اور اب ایسا ہونے لگا کہ جب کبھی مولانا کوئی مکتوب خاص اپنے ذوق و کیف میں لکھتے، میں پہلے اس کی نقل کر لیتا، پھر ڈاک میں ڈالتا۔ نواب صاحب کے نام 1940ء، 1941ء اور 1942ء میں جس قدر خطوط لکھے گئے، سب کی نقول میں نے رکھ لی تھیں اور میرے پاس موجود ہیں۔ چنانچہ اسی بناء پر رہائی کے بعد مولانا نے قلعہ احمد نگر کے مکاتیب میرے حوالے کیے کہ حسب معمول ان کی نقول رکھ لو اور اصل نواب صاحب کی خدمت میں بیک دفعہ بھیج دوں لیکن میں نے جب ان کا مطالعہ کیا تو خیال ہوا کہ ان تحریرات کا محس نج کےخطوط کی شکل میں رہنا اور شانع نہ ہونا اردو ادب کی بہت بڑی محرورمی اور اربابِ ذوق کی ناقابلِ تلافی حرمانی ہو گی۔ مولانا اس وقت شملہ میں تھے۔ میں نے بہ اصرار ان کے درخواست کی کہ ان مکاتیب کو ایک مجموعے کی شکل میں شائع کرنے کی اجازت دے دیں۔ مجھے یقین ہے کہ ملک کے تمام اربابِ ذوق و نظر اس واقعے کے شکر گزارہوں گے کہ مولانا نے اشاعت کی اجازت دے دی اور اس طرح میں اس قابل ہو گیا کہ یہ مجموعہ دیدہ درانِ علم و ادب کی ضیافتِ ذوق کے لیے پیش کروں۔

1942ء میں گرفتاری سے پہلے مولانا لاہور گئے تھے۔ وہاں انفلوئنزا کی شکایت لاحق ہو گئی تھی۔ اسی حالت میں کلکتہ آئے اور صرف تین دن ٹھہر کر 2 اگست کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی صدارت کرنے کے لیے بمبئی روانہ ہو گئے۔ بمبکئی جاتے ہوئے ریل میں انہوں نے ایک مکتوب نواب صاحب کے نام لکھ کر رکھ لیا تھا کہ بمبئی پہنچ کر مجھے دے دیں گے۔ میں حسب معمول اس کی نقل رکھ کر اصل ڈاک میں ڈال دون گا لیکن بمبئی پہنچنے کے بعد وہ اپنی مصروفیتوں میں غرق ہو گئے اور مکتوبِ سفر ان کے اٹاچی کیس میں پڑا رہ گیا۔ یہاں تک کہ9 اگست کی صبح کو وہ گرفتار ہو گئے۔ چونکہ قلعہ احمد نگر کے پہلے مکتوب میں اس خط کا ذکر آیا ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اسے بھی ابتدا میں شامل کر دیا جائے چنانچہ وہ شامل کر دیا گیا ہے۔

میں نے ارادہ کیا تھا کہ مولانا کے اسلوبِ نگارش (سٹائل) کی نسبت اپنے تاثرات کے اظہار کی جرات کروں گا لیکن جب اس ارادے کو عمل میں لانے کے لیے تیار ہوا تو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 31

معلوم ہوا کہ خاموشی کے سوا چارہ کار نہیں کیونکہ جتنا کچھ اور جیسا کچھ لکھنا چایہے، اس کی یہاں گنجائش نہیں اور جس قدر لکھنے کی گنجائش ہے، وہ اظہار تاثرات کے لیے کافی نہیں۔ صرف اتنا اشارہ کر دینا چاہتا ہوں کہ فرانسیسی ادبیات میں ادب کی جس نوعیت کو "ادبِ اعلٰی" کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اگر اردو ادب میں اس کی کوئی مثال ہمیں مل سکتی ہے تو وہ صرف مولانا کی ادبیات ہیں۔

مولانا نے اپنے اسلوب نگارش کے مختلف ڈھنگ رکھے ہیں۔ کیونکہ ہر موضوع ایک خاص طرح کا اسلوب چاہتا ہے اور اسی اسلوب میں اس کا رنگ ابھر سکتا ہے۔ دینی مباحث کے لیے جو اسلوبِ تحریر موزوں ہو گا، تاریخ کے لیے موزوں نہ ہو گا۔ تاریخی مباحث جس طرزِ کتابت کے متقاضی ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ ادبی نگارشات کے لیے بھی وہ موزوں ہو۔ عام حالت یہ ہے کہ ہر سخص ایک خاص طرح کا اسلوب تحریر اختیار کر لیتا ہے اور پھر جو کچھ لکھتا ہے، اسی رنگ میں لکھتا ہے لیکن مولانا کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے علم و ذوق کے تنوع کی طرح اپنا اسلوب تحریر بھی مختلف قسموں کا رکھا ہے۔ عام دینی اور علمی مطالب کو وہ ایک خاص طرح کے اسلوب میں لکھتے ہیں۔ صحافت نگاری کےلیے انہوں نے ایک دوسرا اسلوب اختیار کیا ہے اور خالص ادبی انشاء پردازی کے لیے ان دونوں سے الگ طریق نگارش ہے۔

جس زمانے میں "الہلال" نکلا کرتا تھا تو اس میں کبھی کبھی وہ خالص ادبی قسم کی چیزیں بھی لکھا کرتے تھے۔ ان تحریروں میں انہوں نے ایک ایسا مجتہدانہ اسلوب اختیار کیا تھا جس کی کوئی دوسری مثال لوگوں کے سامنے موجود نہ تھی۔ اس اسلوب کے لیے اگر کوئی تعبیر اختیار کی جا سکتی ہے تو وہ صرف "شعرِ مشور" کی ہے یعنی وہ نثر میں شاعری کیا کرتے تھے۔ ان کی تحریر ازسرتاپا شعر ہوتی تھی۔ صرف ایک چیز اس میں نہین ہوتی تھی یعنی وزن اور اس لیے اسے نظم کی جگہ نثر کہنا پڑتا تھا۔

اس طرز تحریر کا ایک خاص طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی نثر کی شاعری کو شعرا کی نظم کی شاعری سے مخلوط و مربوط کر کے ترتیب دیتے تھے اور یہ اختلاط اور ارتباط اس طرح وجود میں آتا تھا کہ اشعار صرف مطالب کی مناسب ہی سے نہیں آتے بلکہ بجائے خود مطالب کا ایک جز بن جاتے تھے۔ ایسا جز کہ اگر اسے الگ کر دیجیئے تو خود نفسِ مطلب کا ایک ضروری اور لاینفک جز الگ ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 42

گئی تھی اور اپنی داماندگیوں میں گم تھی۔ اگرچہ اس کے بعد بھی بعض مصنفات کی تسوید و ترتیب کا کام بدستور جاری رہا اور قلعہ احمد نگر کی اور تمام معمولات بھی بغیر کسی تغیر کے جاری رہیں، تاہم یہ حقیقت حال چھپانی نہیں چاہتا کہ قرار و سکون کی یہ جو نمائش تھی، جسم و صورت کی تھی، قلب و باطن کی نہ تھی۔ جسم کو میں نے ہلنے سے بچا لیا تھا مگر دل کو نہیں بچا سکا تھا :

20- دلِ دیوانہ دارم کہ در صحراست پنداری (6)​

اس کے بعد بھی گاہ گاہ حالات کی تحریک کام کرتی رہی اور رشتہ فکر کی گرہیں کھلتی رہیں، مگر اب سلسلہ کتابت کی وہ تیز رفتاری مفقود ہو چکی تھی جس نے اوائلِ حال میں طبیعت کا ساتھ دیا تھا۔ اپریل 1945 میں جب احمد نگر سے بانکوڑا میں قید تبدیل کی کر دی گئی تو طبیعت کی آمادگیوں نے آخری جواب دے دیا۔ اب صرف بعض مصنفات کی تکمیل کا کام جاری رکھا جا سکا اور کسی تحریر و تسوید کے لیے طبیعت مستعد نہ ہوئی۔ آخری مکتوب جو بعض سیاسی مسائل کی نسبت ایک عزیز کے نام قلم بند ہوا ہے 3 مارچ 1945 کا ہے۔ اس مکتوب پر یہ داستانِ بے ستون و کوہکن ختم ہو جاتی ہے، اگرچہ زندگی کی داستان ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے :

21- شمہ از داستانِ عشقِ شور انگیز ماست
ایں حکایتہا کہ از فرہاد و شیریں کردہ اند (7)​

غور کیجیے تو انسان کی زندگی اور اس کے احساسات کا بھی کچھ عجیب حال ہے۔ تین برس کی مدت ہو یا تین دن کی، مگر جب گزرنے پر آتی ہے تو گزر ہی جاتی ہے۔ گزرنے سے پہلے سوچیے تو حیرانی ہوتی ہے کہ یہ پہاڑ سی مدت کیونکر کٹے گی؟ گزرنے کے بعد سوچیے تو تعجب ہوتا ہے کہ جو کچھ گزر چکا، وہ چند لمحوں سے زیادہ نہ تھا۔

رہائی کے بعد جب کانگرس ورکنگ کمیٹی کی صدارت کے لیے 21 جون کو کلکتہ سے بمبئی آیا اور اسی مکان اور اُسی کمرہ میں ٹھہرا جہاں تین برس پہلے اگست 1942 میں ٹھہرا تھا تو یقین کیجیے ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے 9 اگست اور اس کے بعد کا سارا ماجرا کل کی بات ہے اور یہ پورا زمانہ ایک صبح شام سے زیادہ نہ تھا۔ حیران تھا کہ جو کچھ گزر چکا، وہ خواب تھا، یا جو کچھ گزر رہا ہے یہ خواب ہے :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 43

ہیں خواب ہیں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں (8)

15 جون کو جب بانکوڑا میں رہا ہوا، تو تمام مکتوبات نکالے اور ایک فائل میں بہ ترتیب تاریخ جمع کر دیئے۔ خیال تھا کہ انہیں حسب معمول نقل کرنے کے لیے دے دوں گا اور پھر اصل آپ کی خدمت میں بھیج دوں گا لیکن جب مولوی اجمل خاں صاحب کو ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہ بہت مُصِر ہوئے کہ انہیں بلا تاخیر اشاعت کے لیے دے دینا چاہیے۔ چنانچہ ایک خوشنویس کو شملہ میں بُلایا گیا اور پورا مجموعہ کتابت کے لیے دے دیا گیا۔ اب کتابت ہو رہی ہے اُمید ہے کہ عنقریب طباعت کے لیے پریس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اب میں اُن مکتوبات کو قلمی مکتوبات کی صورت میں نہیں بھیجوں گا۔ مطبوعہ مجموعے کی صورت میں پیش کروں گا۔

شملہ اخبار "مدینہ" بجنور کے ایڈیٹر صاحب آئے تھے۔ انہوں نے مولوی اجمل خان صاحب سے اس سلسلہ کے پہلے مکتوب کی نقل لے لی تھی۔ وہ اخبارات میں شائع ہو ہے، شاید آپ کی نظر سے گزرا ہو۔ "صدیق مکرم" کے تخاطب سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ رُوئے سخن آپ ہی کی طرف تھا :

22- چشم سوئے فلک و روئے سخن سُوئے توبود (9)​

مکتوبات کے دو حصے کر دیئے لیں : غیر سیاسی اور سیاسی۔ یہ مجموعہ صرف غیر سیاسی مکاتیب پر مشتمل ہے۔ اس کے تمام مکاتیب بلا استثناٗ آپ کے نام لکھے گئے ہیں۔

پرسوں دہلی کا قصد ہے، چونکہ امریکن فوج کے جنرل مقیم دہلی نے ازراہِ عمایت اپنے خاص ہوائی جہاز کے یہاں بھیجنے کا انتظام کر دیا ہے، اس لیے موٹر کار (10) کے تکلیف دہ سفر سے بچ جاؤں گا اور اڑھائی گھنٹے میں دہلی پہنچ جاؤں گا۔ وہاں عید کی نماز پڑھ کر بمبئی کے لیے روانہ ہوا ہے۔ 10 سے 24 تک بمبئی میں قیام رہے گا۔ (11)

ابو الکلام​
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم

صفحہ نمبر 70
ظاہر پرستیوں اور قواعد سازیوں کی ہے ۔ حقیقی علم اور حقیقی مذاہب اگرچہ چلتے ہیں الگ الگ راستوں سے مگر بالآخر پہنچ جاتے ہیں ایک ہی منزل پر ؛
(٧٩)
عباراتنا شتی و حسنک واحد
و کل الی ذاک الجمال یشیر
علم عالم محسوسات سے سروکار رکھتا ہے ، مذہب ماورائے محسوسات کی خبر دیتا ہے ۔ دونوں میں دائروں کا تعدد ہوا ، مگر تعارض نہیں ہوا ، جو کچھ محسوسات سے ماوراء ہے ہم اسے محسوسات سے معارض سمجھ لیتے ہیں ۔ اور یہیں سے ہمارے دیدہ کج اندیش کی ساری درماندگیاں شروع ہو جاتی ہیں ۔

(٨٠) بر چہرہ حقیقت اگر ماند پردہ
جرم نگاہ دیدہ صورت پرست ماست (٢١)
بہرحال زندگی کی ناگواریوں میں مذہب کی تسکین صرف ایک سلبی تسکین ہی نہیں ہوتی بلکہ ایجابی تسکین ہوتی ہے ۔ کیونکہ وہ ہمیں اعمال کے اخلاقی اقدار ( Moral Values) کا یقین دلاتا ہے اور یہی یقین ہے جس کی روشنی کسی دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی ۔ وہ ہمیں بتلاتا ہے کہ زندگی ایک فریضہ ہے جسے انجام دینا ہے ۔ ایک بوجھ ہے جسے اٹھانا چاہیے ۔

(٨١) جلوہ کاروان ما نیست بہ نالہ جرس
عشق تو راہ می برد ، شوق تو زاد می و ہد (٢٢)
لیکن کیا یہ بوجھ کانٹوں پر چلے بغیر نہیں اٹھایا جا سکتا ۔؟
نہیں اٹھایا جا سکتا کیونکہ یہاں خود زندگی کے تقاضے ہوئے جن کا ہمیں جواب دینا ہے ۔ اور خود زندگی کے مقاصد ہوئے جن کے پیچھے والہانہ دوڑنا ہے ۔ جن باتوں کو ہم زندگی کی راحتوں اور لذتوں سے تعبیر کرتے ہیں ۔ وہ ہمارے لیے راحتیں اور لذتیں ہی کب رہیں گی ۔ اگر ان تقاضوں اور مقصدوں سے منہ موڑ لیں ÷؟ بلاشبہ یہاں زندگی کا بوجھ اٹھا کے کانٹوں کے فرش پر دوڑنا پڑا ۔ لیکن اس لیے دوڑنا پڑا کہ دیبا و مخمل کے فرش پر چل کر ان تقاضوں کا جواب نہیں دیا جا سکتا تھا ۔ کانٹے کبھی دامن سے الجھیں گے کبھی تلوؤں میں چبھیں گے لیکن مقصد کی خلش جو پہلوئے دل میں چبھتی رہے گی ، نہ دامن تار تار کی خبر لینے دے گی ،

صفحہ نمبر 71

”نہ زخمی تلوؤں کی ۔
(٨٢) معشوق در میانہ جاں مدعی کجا ست
گل در دماغ می و ہد آسیب خار چیست ؟(٢٣)
اور پھر زندگی کی جن حالتوں کو ہم راحت و الم سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ان کی حقیقت بھی اس سے زیادہ کیا ہوئی کہ اضافت کے کرشموں کی ایک صورت گری ہے ÷؟ یہاں نہ مطلق راحت ہے نہ مطلق الم ۔ ہمارے تمام احساسات سر تا سر اضافی ہیں ۔
(٨٣) دویدن ، رفتن ، استادن نشستن خفتن مر دن (٢٤)
اضافتیں بدلتے جاؤ ؛ راحت و الم کی نوعتیں بدلتی جائیں گی ۔ یہاں ایک ہی ترازو لے کر ہر طبیعت اور ہر حالت کا احساس نہیں تولا جس سکتا ۔ ایک دہقان کی راحت و الم تولنے کے لیے جس ترازو سے ہم کام لیتے ہیں ۔ اس سے فنون لطیفہ کے ماہر کا معیار راحت و الم نہیں تول سکیں گے ۔ ایک ریاضی دان کو ریاضی کا ایک مسلہ حل کر نے میں جو لذت ملتی ہے وہ ایک ہوس پرست کو شبستان عشرت کی سیہ مستیوں میں کب مل سکے گی ۔ ؟ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پھولوں کی سیج پر لوٹتے ہیں اور چین نہیں پاتے ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کانٹوں پر دوڑتے ہیں اور اس کی ہر چبھن میں راحت سرور کی ایک نئی لذت پانے لگتے ہیں ۔
(٨٤) بہر یک گل ، ذحمت صد خار می باید کشید (٢٥)
راحت و الم کا احساس ہمیں باہر سے لا کر کوئی نہیں دیا کرتا ۔ یہ خود ہمارا ہی احساس ہے جو کبھی زخم لگاتا ہے کبھی مرہم بن جاتا ہے ۔ طلب و سعی کی زندگی بجائے خود زندگی کی سب سے بڑی لذت ہے ۔ بشرطیکہ کسی مطلوب کی راہ میں ہو؛
(٨٥) رہرواں را خستگی راہ نیست
عشق ہم راہ ست وہم خود منزل ست (٢٦)
اور یہ جو کچھ کہہ رہا ہوں ۔ فلسفہ نہیں ہے زندگی کے عام واردات ہیں ۔ عشق و محبت کے واردات کا میں حوالہ نہیں دوں گا کیونکہ وہ ہر شخص کے حصے میں نہیں آ سکتے ۔ لیکن رندی اور ہوسناکی کے کوچوں کی خبر رکھنے والے تو بہت نکلیں گے ۔ وہ خود اپنے دل سے پوچھ دیکھیں کہ کسی کی راہ میں رنج و الم کی تلخیوں نے کبھی خوشگواریوں کے مزے بھی دیئے تھے یا نہیں ؟
 

نایاب

لائبریرین
صفحہ نمبر 72

(86) حریف کاوش مژگان خونریزش نہ ناصح
بدست آور رگ جانے و نشتر را تماشا کن (27)
زندگی بغیر کسی مقصد کے بسر نہیں کی جا سکتی ۔ کوئی اٹکاؤ ، کوئی لگاؤ ، کوئی بندھن ہونا چاہیئے ۔ جس کی خاطر زندگی کے دن کاٹے جا سکیں ۔ یہ مقصد مختلف طبیعتوں کے سامنے مختلف شکلوں میں آتا ہے ۔
(87) زاہد بہ نماز و روزہ ضبطے دارد
سرمد بہ مئے و پیالہ ربطے دارد (28)
کوئی زندگی کی کار بر آریوں (29) ہی کو مقصد زندگی سمجھ کر ان پر قانع ہو جاتا ہے ۔ کوئی ان پر قانع نہیں ہو سکتا ۔ جو قانع نہیں ہو سکتے ان کی حالتیں بھی مختلف ہوئیں ۔ اکثروں کی پیاس ایسے مقصدوں سے سیراب ہو جاتی ہے جو انہیں مشغول رکھ سکیں ۔ لیکن طبیعتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے لیے صرف مشغولیت کافی نہیں ہو سکتی ۔ وہ زندگی کا اضطراب بھی چاہتی ہیں ۔
(88) نہ داغ تازہ می کارد ، نہ زخم کہنہ می خارد
بدہ یا رب ، ولے کیں صورت بے جاں نمی خواہم (30)
پہلوں کے لیے جو دلبستگی اس میں ہوئی کہ مشغول رہیں ، دوسروں کے لیے اس میں ہوئی کہ مضطرب رہیں ۔
(89) دریں چمن کہ ہوا داغ شبنم آرائی ست
تسلیے بہ ہزار اضطراب می با فند (31)
ایک خنک اور نا آشنائے شورش مقصد سے ان کی پیاس نہیں بجھ سکتی ۔ انہیں ایسا مقصد چاہیئے جو اضطراب کے انگاروں سے دہک رہا ہو ۔ جو ان کے اندر شورش و مستی کا ایک تہلکہ مچا دے ۔ جس کے دامن ناز کو پکڑنے کے لیے وہ ہمیشہ اپنا گریبان وحشت چاک کرتے رہیں ۔
دامن اس کا تو بھلا دور ہے ، اے دست جنوں
کیوں ہے بیکار ، گریباں تر مرا دور نہیں ( 32)
ایک ایسا بلائے جاں مقصد جس کے پیچھے انہیں دیوانہ وار دوڑنا پڑے ، جو

صفحہ نمبر 73
دوڑنے والوں کو ہمیشہ نزدیک دکھائی دے ۔ اور ہمیشہ دور بھی ہوتا رہے ۔ نزدیک اتنا کہ جب چاہیں ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیں : دور اتنا کہ اس کی گرد راہ کا بھی سراغ نہ پا سکیں ۔
(90) با من آویزش او الفت موج ست و کنار
و مبدم با من و ہر لحظہ گریزاں از من (33)
پھر نفسیاتی نقطہ نگاہ سے دیکھئے تو معاملہ کا ایک اور پہلو بھی ہے ۔ جسے صرف تہہ رس نگاہیں ہی دیکھ سکتی ہیں ۔ یکسانی ، اگرچہ سکون و راحت کی ہو ، یکسانی ہوئی اور یکسانی بجائے خود زندگی کی سب سے بڑی بے نمکی ہے ۔ تبدیلی اگرچہ سکون سے اضطراب کی ہو مگر پھر تبدیلی ہے اور تبدیلی بجائے خود زندگی کی ایک بڑی لذت ہوئی ۔ عربی میں کہتے ہیں " حمضو امجالسکم " اپنی مجلسوں کا ذائقہ بدلتے رہو ۔ سو یہاں زندگی کا مزہ بھی انہی کو مل سکتا ہے جو اس کی شیرینیوں کے ساتھ اس کی تلخیوں کے بھی گھونٹ لیتے رہتے ہیں ۔ اور اس طرح زندگی کا ذائقہ بدلتے رہتے ہیں ۔ ورنہ وہ زندگی ہی کیا جو ایک ہی طرح کی صبحوں اور ایک ہی طرح کی شاموں میں بسر ہوتی رہے ؟ خواجہ درد کیا خوب کہہ گئے ہیں ۔
آ جائے ایسے جینے سے اپنا تو جی بتنگ
آخر جیے گا کب تلک ، اے خضر : مر کہیں :(34)
یہاں پانے کا مزہ انہیں کو مل سکتا ہے جو کھونا جانتے ہیں ۔ جنہوں نے کچھ کھویا ہی نہیں ، انہیں کیا معلوم کہ پانے کے معنی کیا ہوتے ہیں ۔؟ نظیری کی نظر اسی حقیقت کی طرف گئی تھی ۔ (35)
(91) آنکہ او در کلبہ احزاں پسر گم کردہ یافت
تو کہ چیزے گم نہ کر دی ، از کجا پیدا شود
اور پھر غور و فکر کا ایک قدم اور آگے بڑھائیے تو خود ہماری زندگی بھی حرکت و اضطراب کے ایک تسلسل کے سوا اور کیا ہے ۔ ؟ جس حالت کو ہم سکون سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اگر چاہیں تو اسی کو موت سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ موج جب تک مضطرب ہے ، زندہ ہے ۔ آسودہ ہوئی اور معدوم ہوئی ۔ فارسی کے ایک شاعر نے دو مصرعوں کے اندر سارا فلسفہ حیات ختم کر دیا تھا ۔
 

نایاب

لائبریرین
صفحہ نمبر 74
(92) موجیم کہ آسودگی ما عدم ماست
ما زندہ ازانیم کہ آرام نگیر یم ( 36)
اور پھر یہ راہ اس طرح بھی طے نہیں کی جا سکتی کہ اس کے اٹکاؤ کے ساتھ دوسرے لگاؤ بھی لگائے رکھیے ۔ راہ مقصد کی خاک بڑی ہی غیور واقع ہوئی ہے ۔ وہ رہرہ کی جبین نیاز کے سارے سجدے اس طرح کھینچ لیتی ہے کہ پھر کسی دوسری چوکھٹ کے لیے کچھ باقی ہی نہیں رہتا ۔ دیکھیے ، میں نے یہ تعبیر غالب سے مستعار لی ۔
(93)خاک کویش خود پسند افتاد در جذب سجود
سجدہ از بہر حرم نہ گزا شت در سیمائے من (37)
مقصود اس تمام دراز نفسی سے یہ تھا کہ آج اپنے اوراق فکر پریشاں کا ایک صفحہ آپ کے سامنے کھول دوں ۔
(94) لختے زحال خویش بہ سیما نو شتہ ایم (38)
اس میکدہ ہزار شیوہ و رنگ میں گرفتار دام تخیل نے اپنی خود فراموشیوں کے لیے کوئی نہ کوئی جام سرشاری سامنے رکھ لیا ہے اور اسی میں بیخود رہتا ہے ۔
(95) ساقی بہ ہمہ بادہ زیک خم و ہد اما
در مجلس او مستی ہر یک زشرابے ست
کوئی اپنا دامن پھولوں سے بھرنا چاہتا ہے ۔ کوئی کانٹوں سے اور دونوں سے کوئی بھی پسند نہیں کرے گا کہ تہی دامن رہے ۔ جب لوگ کامجوئیوں اور خوش وقتیوں کے پھول چن رہے تھے تو ہمارے حصے میں تمناؤں اور حسرتوں کے کانٹے آئے ۔ انہوں نے پھول چن لیے اور کانٹے چھوڑ دیے ۔ ہم نے کانٹے چن لیئے اور پھول چھوڑ دیئے ۔
(96) زخار زار محبت دل تیرا چہ خبر
کہ گل بجیب نہ گنجد قبائے تنگ ترا (39)

ابوالکلام

صفحہ نمبر 75

((( 7 )))

قلعہ احمد نگر
15 اگست 1942ء
(97) مارا زبان شکوہ زبیداد چرخ نیست
از ما خطے بہ مہر خموشی گرفتہ اندا (1)
صدیق مکرم
وہی صبح چار بجے کا جانفزا وقت ہے ۔ صراحی لبریز ہے اور جام آمادہ ۔ ایک دور ختم کر چکا ہوں دوسرے کے لیے ہاتھ بڑھا رہا ہوں ۔
وریں زمانہ رفیقے کہ خالی از خلل ست
صراحی مے ناب و سفینہ غزل ست
جریدہ رو کہ گزر گاہ عافیت تنگ ست
پیالہ گیر کہ عمر عزیز بے بدل ست (2)
طبیعت وقت کی کشاکش سے یک قلم فارغ اور دل فکر ایں و آں سے بکلی آسودہ ہے ۔ اپنی حالت دیکھتا ہوں تو وہ عالم دکھائی دیتا ہے ۔ جس کی خبر خواجہ شیراز نے چھ سو سال پہلے دے دی تھی ۔ زندگی کے چالیس سال طرح طرح کی کاوشوں میں بسر ہوئے مگر اب دیکھا تو معلوم ہوا کہ ساری کاوشوں کا حل اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ صبح کا جانفزا وقت ہو اور چین کے چائے کے پے در پے فنجان ۔
(99) چل سال رنج و غصہ کشیدیم و عاقبت
تدبیر ما بدست شراب دو سالہ بود (3)
 

نایاب

لائبریرین
صفحہ نمبر 76

آج تین بجے سے کچھ پہلے آنکھ کھل گئی تھی ۔ صحن میں نکلا تو ہر طرف سناٹا تھا ۔ صرف احاطہ کے باہر سے پہرہ دار کی گشت و باز گشت کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ یہاں رات کو احاطہ کے اندر وارڈروں کا تین تین تین گھنٹے کا پہرہ لگا کرتا ہے ۔ مگر بہت کم جاگتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ اس وقت بھی سامنے کے برآمدے میں ایک وارڈر کمبل بچھائے لیٹا تھا اور زور زور سے خراٹے لے رہا تھا ۔ بے اختیار مومن خان کا شعر یاد آ گیا ۔
ہے اعتماد مرے بخت خفتہ پر کیا کیا
وگرنہ خواب کہاں چشم پاسباں کے لیے (5)
زندانیوں کے اس قافلہ میں کوئی نہیں جو سحر خیزی کے معاملہ میں میرا شریک حال ہو ۔ سب بے خبر سو رہے ہیں ۔ اور اسی وقت میٹھی نیند کے مزے لیتے ہیں ۔
(100)دائم کسے بقافلہ بود ست پاسباں
بیدار شوکہ چشم رفیقاں بخواب شد (6)
سونچتا ہوں تو زندگی کی بہت سی باتوں کی طرح اس معاملہ میں ساری دنیا سے الٹی ہی چال میرے حصے میں آئی ۔ دنیا کے لیے سونے کا جو وقت سب سے بہتر ہوا ، وہی میرے لیے بیداری کی اصلی پونجی ہوئی ۔ لوگ ان گھڑیوں کو اس لیے عزیز رکھتے ہیں کہ میٹھی نیند (7) کے مزے لیتے ہیں ۔ میں اس لیے عزیز رکھتا ہوں کہ بیداری کی تلخ کامیوں سے لذت یاب ہوتا رہوں ۔
(101) خلق را بیدار باید بود ز آب چشم من
ویں عجب کاں دم کہ می گریم کسے بیدار نیست (8)
ایک بڑا فائدہ اس عادت سے یہ ہوا کہ میری تنہائی میں اب کوئی خلل نہیں ڈال سکتا ۔ میں نے دنیا کو ایسی جراتوں کا سرے سے موقع ہی نہیں دیا ۔ وہ جب جاگتی ہے تو میں سو رہتا ہوں ۔ جب سو جاتی ہے تو اٹھ بیٹھتا ہوں ۔
(102) خواب غفلت ہمہ را بردہ و بیدار یکے ست (9)
خلائق کے کتنے ہی ہجوم میں ہوں لیکن اپنا وقت صاف بچا لے جاتا ہوں ۔ کیونکہ میری اس خلوت در انجمن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال ہی نہیں سکتا ۔ میرے عیش و طرب کی بزم اس

صفحہ نمبر 77

وقت آراستہ ہوتی ہے جب نہ کوئی آنکھ دیکھنے والی ہوتی ہے نہ کوئی کان سننے والا ۔ رضی دانش نے میری زبان سے کہا تھا ۔
(103) خوش زمزمہ گوشہ تنہائی خویشم
از جوش و خروش گل و بلبل خبرم نیست
ایک بڑا فائدہ اس سے یہ ہوا کہ دل کی انگھیٹی ہمیشہ گرم رہنے لگی ۔ صبح کی اس مہلت میں تھوڑی سی آگ جو سلگ جاتی ہے ۔ اس کی چنگاریاں بجھنے نہیں پاتیں ۔ راکھ کے تلے دبی دبائی کام کرتی رہتی ہیں ۔
(104) ازاں بہ دیر مغانم عزیز می دارند
کہ آتشے کہ نہ میر دہ ہمیشہ در دل ماست (10)
دن بھر اگر سوز و تپش کا سامان نہ بھی ملے ۔ جب بھی چولہے کے ٹھنڈے پڑ جانے کا اندیشہ نہ رہا ۔ عرفی کیا خوب بات کہہ گیا ہے ۔
(105) سینہ گرم داری مطلب صحبت عشق
آتشے نیست چو ذر مجمرہ ات عود و مخر (11)
اس سحر خیزی کی عادت کے لیے والد مرحوم (12) کا منت گزار ہوں ۔ ان کا معمول تھا کہ رات کی پچھلی پہر (14) ہمیشہ بیداری میں بسر کرتے ۔ بیماری کی حالت بھی اس معمول میں فرق نہیں ڈال سکتی تھی ۔ فرمایا کرتے تھے کہ رات کو جلد سونا اور صبح جلد اٹھنا زندگی کی سعادت کی پہلی علامت ہے ۔ اپنی طالب علمی کے زمانے کے حالات سناتے کہ دہلی میں مفتی صدرالدین (14) مرحوم سے صبح کی سنت و فرض کے درمیان سبق لیا کرتا تھا اور اس امتیاز پر نازاں رہتا تھا ۔ کیونکہ وہ چاہتے تھے ۔ مجھے خصوصیت کے ساتھ اوروں سے علیحدہ سبق دیں ۔ اور اس کے لیے صرف وہی وقت نکل سکتا تھا ۔ یہ بھی فرماتے کہ یہ فیض مجھے اپنے نانا رکن المدرسین (15) سے ملا ۔ وہ بھی شاہ عبدالعزیز (16) سے علی الصباح سبق لیا کرتے تھے اور پچھلی پہر (17) سے اٹھ کر اس کی تیاری میں لگ جاتے تھے ۔ پھر خواجہ شیراز کا یہ مقطع ذوق لے لے کر پڑھتے ۔
 

نایاب

لائبریرین
صفحہ 78
( 106) نر و بخواب کہ حافظ بہ بارگاہ قبول
ز ورد نیم شب و درس صبح گاہ رسید (18)
میری ابھی دس گیارہ برس کی عمر ہو گی کہ یہ باتیں کام کر گئی تھیں ۔ بچپنے کی نیند سر پر سوار رہتی تھی مگر میں اس سے لڑتا رہتا تھا ۔ صبح اندھیرے میں اٹھتا اور شمع دان روشن کر کے اپنا سبق یاد کرتا ۔ بہنوں سے منتیں کیا کرتا تھا کہ صبح آنکھ کھلے تو مجھے جگا دینا ۔ وہ کہتی تھیں یہ نئی شرارت کیا سوجھی ہے ۔ اس خیال سے کہ میری صحت کو نقصان نہ پہنچے ، والد مرحوم روکتے لیکن مجھے کچھ ایسا شوق پڑ گیا تھا کہ جس دن دیر سے آنکھ کھلتی دن بھر پشیمان سا رہتا ۔ آنے والی زندگی میں جو معاملات پیش آنے والے تھے ۔ یہ ان سے میرا پہلا سابقہ تھا ۔
(107)انا لی ہو ا ھا قبل ان اعرف الھوے
فصادف قلبا فارغا فتمکنا
دیکھیے ، یہاں " پہلا سابقہ " لکھتے ہوئے میں نے عربی کی ترکیب ' کان اول عھدی بھا " کا بلا قصد ترجمہ کر دیا کہ دماغ میں بسی ہوئی تھی ۔ یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور عالم تنہائی کی خلوت اندوزیوں کا پورا پورا لطف اٹھا رہا ہوں ۔ گویا ساری دنیا میں اس وقت میرے سوا کوئی نہیں بستا ۔ کہہ نہیں سکتا ، تنہائی کا یہ احساس میری طبع خلوت پرست کی جولانیوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا کرتا ہے ۔ بیدل کی خیال بندیوں کا غلو بے کیف ہو ۔ لیکن اس کی بحر طویل کی بعض غزلیں کیف سے خالی نہیں ہیں ۔
(108) ستم ست گر ہو ست کشید کہ بہ سیر سرد و سمن در آ
تو زغنچہ کم نہ دمیدہ ، در دل کشا ، بہ چمن در آ
پے نافہ ہائے خجستہ بو ، مپسند زحمت جستجو
بخیال حلقہ زلف او ، گر ہے خور د بہ ختن در آ (19)
پانچ بجے سے قلعہ میں ٹینکوں کے چلانے کی مشق شروع ہوتی ہے ۔ اور گھڑ گھڑ کی آواز آنے لگتی ہے ۔ مگر اس میں ابھی دیر ہے ۔ چار بجے دودھ کی لاری آتی ہے اور چند لمحوں کے لیے صبح کا سکون ہنگامہ سے بدل دیتی ہے ۔ وہ ابھی چند منٹ ہوئے اوئی تھی اور واپس گئی ہے ۔ اگر اس وقت کے سناٹے میں کوئی آواز مخل ہو رہی ہے تو وہ صرف جواہر لال کے ہلکے

صفحہ 79

خراٹوں کی آواز ہے ۔ وہ ہمسایہ میں سو رہے ہیں ۔ صرف لکڑی کا ایک پردہ حائل ہے ۔ خراٹے جب تھمتے ہیں تو حسب معمول نیند میں بڑبڑانے لگتے ہیں ۔ یہ بڑبڑانا ہمیشہ انگریزی میں ہوتا ہے ۔
(109) یار ما ایں دارد و آں نیز ھم (20)
موتمن الدولہ اسحاق خان شوستری محمد شاہی امراء میں سے تھا ۔ اس کا ایک مطلع آپ نے تذکروں (21) میں دیکھا ہو گا ۔ ضلع جگت کی صنعت گری کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ مگر جب کبھی جواہر لال کو انگریزی میں بڑبڑاتے سنتا ہوں تو بے اختیار یاد آ جاتا ہے ۔
(110) ز بسکہ در دل تنگم خیال آں گل بود
نفیر خواب من امشب صغیر بلبل بود
یہ نیند میں بڑبڑانے کی حالت بھی عجیب ہے ۔ یہ عموما انہی طبیعتوں پر طاری ہوتی ہے جن میں دماغ سے زیادہ جذبات کام کیا کرتے ہیں ۔ جواہر لال کی طبیعت بھی سر تا سر جذباتی واقع ہوئی ہے ۔ اس لیے خواب اور بیداری دونوں حالتوں میں جذبات کام کرتے رہتے ہیں ۔
یہاں آئے ہوئے ایک ہفتہ سے زیادہ ہو گیا ہے ۔ فوجی صیغہ نے ہمارا چارج لے لیا ، داخلہ کے وقت فہرست سے مقابلہ کر لیا ۔ ہماری حفاظت کا اور دنیا سے بے تعلقی کا جس قدر بندوبست کیا جا سکتا تھا وہ بھی کر لیا لیکن اس سے زیادہ انہیں ہمارے معاملات سے کوئی سروکار معلوم نہیں ہوتا ۔ اندر کا تمام انتظام گورنمنٹ بمبئی کے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے براہ راست اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور اصلی رشتہ کار مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے ۔
ہمیں یہاں رکھنے کے لیے جو ابتدائی انتظام کیا گیا تھا ۔ وہ یہ تھا کہ گرفتاری سے ایک دن پہلے یعنی 8 آگست کو یرودا سنٹرل جیل پونا سے ایک سینئر جیلر یہاں بھیج دیا گیا ۔ دس جیل کے وارڈرز اور پندرہ قیدی کام کاج کے لیے اس کے ساتھ آئے ۔ جیلر کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کیا صورت حال پیش آنے والی ہے ۔ صرف اتنی بات بتلائی گئی تھی کہ ایک ڈیٹنشن کیمپ (22) ( Detention Camp ) کھل رہا ہے ۔ چند دنوں کے لیے دیکھ بھال کرنی ہو گی ۔ ہم پہنچے تو معاملہ ایک دوسری ہی شکل میں نمایاں ہوا ۔اور بیچارہ سراسیمہ ہو کر رہ گیا ۔ چونکہ میں نے یہاں آتے ہی اپنا غصہ اس غریب پر نکالا تھا ، اس لیئے کئی دن تک منہ چھپائے پھرتا رہا ۔ جب اور
 

نایاب

لائبریرین
صفحہ 80

کچھ نہ بنتی تو ضلع کے کلکٹر کے پاس دوڑا ہوا جاتا ۔ وہ اس سے زیادہ بے خبر تھا ۔
(111) در ہر کس کہ زوم ، بے خبر و غافل بود (24)
دوسرے دن کلکٹر اور سول سرجن آئے اور معذرت کر کے چلے گئے ۔ سول سرجن ہر شخص کا سینہ ٹھوک بجا کے دیکھتا رہا کہ کیا آواز نکلتی ہے ؟ معلوم نہیں پھیپھڑوں کی حالت معلوم کرنی چاہتا تھا یا دلوں کی ۔ مجھ سے بھی معائنہ کی درخواست کی ۔ میں نے کہا میرا سینہ دیکھنا بے سود ہے ۔ اگر دماغ دیکھنے کا کوئی آلہ ساتھ ہے تو اسے کام میں لائیے ۔
(112) بگور مسیح ، از سرما کشتگان عشق
یہ زندہ کر دن توبہ صد خون برابر ست (24)
بہرحال چوتھے دن انسپکٹر جنرل آف (25) پریزن آیا ۔ اور گورنمنٹ کے احکام کا پرچہ حوالہ کیا ۔ کسی سے ملاقات نہیں کی جا سکتی ۔ کسی سے خط و کتابت نہیں کی جا سکتی ۔ کوئی اخبار نہیں آ سکتا ۔ ان باتوں کے علاوہ اگر کسی اور بات کی شکایت ہو تو حکومت اس پر غور کرنے کے لیے طیار (26) ہے ۔ اب ان باتوں کے بعد اور کونسی بات رہ گئی تھی جس کی شکایت کی جاتی اور حکومت ازراہ عنایت اسے دور کر دیتی ؟
زبان جلائی ، کیے قطع ہاتھ پہنچوں سے
یہ بندوبست ہوئے ہیں مری دعا کے لیے
انسپکٹر جنرل نے کہا اگر آپ کتابیں یا کوئی اور سامان گھر سے منگوانا چاہیں تو ان کی فہرست لکھ کر مجھے دے دیں ۔ گورنمنٹ اپنے طور پر منگوا کر آپ کو پہنچا دے گی ۔ چونکہ گرفتاری سفر کی حالت میں ہوئی تھی ۔ اس لیے میرے پاس دو کتابوں کے سوا جو راہ میں دیکھنے کے لیے ساتھ رکھ لی تھیں مطالعہ کا کوئی سامان نہ تھا ۔ خیال ہوا اگر مکان سے بعض مسودات اور کچھ کتابیں آ جائیں تو قید و بند کی یہ فرصت کام میں لائی جائے ۔ بظاہر اس خواہش میں کوئی برائی معلوم نہیں ہوئی ۔ دنیا را بہ امید خوردہ اند ۔ آرزو عیب ندارد ۔
( 113) نقاب چہرہ امید با شد گرد نو میدی
غبار دیدہ یعقوب آخر تو تیا گر دو (28)
میں نے مطلوبہ اشیاء کا ایک پرچہ لکھ کر اس کے حوالہ کیا اور وہ لے کر چلا گیا لیکن اس
 

ابوشامل

محفلین
صفحہ نمبر 81 سے

کے جانے کے بعد صورت حال پر زیادہ غور کرنے کا موقعہ ملا تو طبیعت میں ایک خلش سی محسوس ہونے لگی۔ معلوم ہوا کہ یہ بھی دراصل طبیعت کی ایک کمزوری تھی کہ حکومت کی اس رعایت سے فائدہ اٹھانے پر راضی ہو گئی۔ جب عزیز و اقرباء سے بھی ملنے اور خط و کتابت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کا حق مجرموں اور قاتلوں تک سے چھینا نہیں جاتا تو پھر یہ توقع کیوں رکھی جائے کہ وہی حکومت گھر سے سامان منگوا کر فراہم کر دے گی؟ ایسی حالت میں عزت نفس کا تقاضا صرف یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی آرزو کی جائے نہ کوئی توقع رکھی جائے۔
ز تیغِ بے نیازی تاتوانی قطعِ ہستی کن
فلک تا افگنداز پاترا، خود پیشی دستی کن​
میں نے دوسرے ہی دن انسپکٹر جنرل کو خط لکھ دیا کہ فہرست کا پرچہ واپس کر دیا جائے۔ جب تک گورنمنٹ کا موجودہ طرزِ عمل قائم رہتا ہے، میں کوئی چیز مکان سے منگوانی نہیں چاہتا۔ یہاں اور تمام ساتھیوں نے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا:
دامن اس کا تو بھلا دُور ہے اس دستِ جنوں
کیوں ہے بیکار؟ گریباں تو مرا دُور نہیں!​
اب چائے کے تیسرے فنجان کے لیے کہ ہمیشہ اس دورِ صبوحی کا آخری جام ہوتا ہے، ہاتھ بڑھاتا ہوں اور یہ افسانہ سرائی ختم کرتا ہوں۔ یادش بخیر، خواجہ شیراز کے پیر مے فروش کی موعظت بھی وقت پر کیا کام دے گئی ہے:
دی پیر مے فروش کہ ذکرش بخیر باد
گفتا "شراب نوش و غمِ دل ببر زیاد"
گفتم "بباد می دہدم بادہ نام و ننگ"
گفتا "قبول کن سخن و ہر چہ باد باد"
"بے خار گل نہ باشد و بے نیش نوش ہم
تدبیر چیست؟ وضع جہاں ایں چنیں فتاد"
"پرکن زبادہ جام و دما دم بگوشِ ہوش
بشنواز و حکایت جمشید و کیقباد"​
ابو الکلام آزاد​


8
قلعہ احمد نگر
19 اگست 1942ء
چو تخم اشک بہ کلفت سرشتہ اندمرا
بہ نا امیدئ جاود کشتہ اندمرا
ز آہِ بے اثرم داغِ خام کاریِ خویش
ز آتشتے کہ نہ دارم، برشتہ اندمرا​
صدیق مکرم
وہی صبح چار بجے کا وقت ہے۔ چائے سامنے دھری ہے۔ جی چاہتا ہے آپ کو مخاطب تصور کروں اور کچھ لکھوں۔ مگرلکھوں تو کیا لکھوں؟ مرزا غالب نے رنجِ گراں نشیں کی حکایتیں لکھی تھیں؛ صبر گریز پا کی شکایتیں کی تھیں:
کبھی حکایتِ رنجِ گراں نشین لکھیے
کبھی شکایتِ صبرِ گریز پا کہیے​
لیکن یہاں نہ رنج کی گراں نشینیاں ہیں کہ لکھوں، نہ صبر کی گریز پائیاں ہیں کہ سناؤں۔ رنج کی جگہ صبر کی گراں نشینیوں کا خوگر ہو چکا ہوں۔ صبر کی جگہ رنج کی گریز پائیوں کا تماشائی رہتا ہوں۔ عرفی کا وہ شعر کیا خوب ہے، جو ناصر علی نے اُس کے تمام کلام سے چنا تھا:
من ازیں رنجِ گر انبار چہ لذت یا بم
کہ بہ اندازۂ آن صبر و ثباتم دادند​
اگر اس شعر کو اپنی حالت پر ڈھالنے کی کوشش کروں تو یہ ایک طرح کی خود ستائی اور خویشتن بینی کی بے صرفگی سمجھی جائے گی۔ لیکن یہ کہنے میں کیا عیب ہے کہ اس مقام کی لذت شناسی سے بے بہرہ نہیں ہوں اور اس کا آرزو مند رہتا ہوں۔ اسی عرفی نے یہ بھی تو کہا ہے:
منکر نہ تواں گشت اگر دم زنم از عشق
ایں نشہ بہ من گر نہ بود، باد گرے ہست​
یہاں پہنچنے کے بعد چند دنوں تک تو صرف جیلر ہی سے سابقہ رہا۔ ایک دو مرتبہ کلکٹر اور سول سرجن بھی آئے۔ پھر جس دن انسپکٹر جنرل آیا، اُسی دن ایک اور شخص بھی اُس کے ہمراہ آیا۔ معلوم ہوا آئی ایم ایس سے تعلق رکھتا ہے۔ میجر ایم سینڈک (M. Sendak) نام ہے اور یہاں کے لیے سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوا ہے۔ میں نے جی میں کہا یہ سینڈک، مینڈک کون کہے؟ کوئی اور نام ہونا چاہیے جو ذرا مانوس اور رواں ہو۔ معاً حافظہ نے یاد دلایا کہیں نظر سے گزرا تھا کہ چاندبی بی کے زمانے میں اس قلعہ کا قلعہ دار چیتہ خان نامی ایک حبشی تھا۔ میں نے اِن حضرت کا نام چیتہ خان ہی رکھ دیا کہ اول بہ آخر نسبتے دارد:
نام اُس کا آسماں ٹھہرا لیا تحریر میں​
ابھی دو چار دن بھی نہیں گزرے تھے کہ یہاں ہر شخص کی زبان پر چیتہ خان تھا۔ قیدی اور وارڈرز بھی اسی نام سے پکارنے لگے۔ کل جیلر کہتا تھا کہ آج چیتہ خان وقت سے پہلے گھر چلا گیا۔ میں نے کہا چیتہ خان کون؟ کہنے لگا میجر اور کون؟
ما ہیچ نہ گفتیم و حکایت بدر افتاد​
بہرحال غریب جیلر کی جان چھٹی، اب سابقہ چیتہ خان سے رہتا ہے۔ جب جاپانیوں نے انڈیمین پر قبضہ کیا تھا تو یہ وہیں متعین تھا۔ اس کا تمام سامان غارت گیا۔ اپنی بربادیوں کی کہانیاں یہاں لوگوں کو سناتا رہتا ہے۔
اگر ما دردِ دل داریم، زاہد دردِ دیں دارد​
اِس مرتبہ سب سے زیادہ اہتمام اس بات کا کیا گیا ہے کہ زندانیوں کا کوئی تعلق باہر کی دُنیا سے نہ رہے، حتیٰ کہ باہر کی پرچھائیں بھی یہاں نہ پڑنے پائے۔ غالباً ہمارا محل قیام بھی پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ اب کویا احمد نگر بھی جنگ کے پر اسرار مقامات کی طرح "سم ویر ان انڈیا" (somewhere in India) کے حکم میں داخل ہو گیا، دیکھیے ناسخ کا ایک فرسودہ شعر یہاں کیا کام دے گیا ہے:
ہم سا کوئی گمنام زمانے میں نہ ہوگا
گم ہو وہ نگیں جس پہ کھدے نام ہمارا​
قلعہ کی جس عمارت میں ہم رکھے گئے ہیں، یہاں غالباً چھاؤنی کے افسر رہا کرتے تھے۔ گاہ گاہ جنگی قیدیوں کے لیے بھی اسے کام میں لایا گیا ہے۔ جنگ بوئر کے زمانے میں جو قیدی ہندوستان لائے گئے تھے اُن کے افسروں کا ایک گروہ یہیں رکھا گیا تھا۔ گزشتہ جنگ میں بھی ہندوستان کے جرمن یہیں نظر بند کیے گئے اور موجودہ جنگ میں بھی اطالوی افسروں کا ایک گروہ جو مصر سے لایا گیا تھا، یہیں نظر بند رہا۔
چیتہ خان کہتا ہے کہ ہمارے آنے سے پہلے یہاں فوجی افسروں کی ٹریننگ کے لیے ایک کلاس کھولی گئی تھی۔ کل میرے کمرے کی الماری ہٹا کر اس نے دکھایا کہ ایک بڑا سیاہ بورڈ دیوار پر بنا ہے۔ میں نے جی میں کہا، غالباً اسی لیے ہمیں یہاں لا کر رکھا گیا ہے کہ ابھی درس گاہِ جنون و وحشت کے کچھ سبق باقی رہ گغے تھے:
دریں تعلیم شد عمر و ہنوز ابجد ہمی خوانم
نہ دانم کے سبق آموز خواہم شد بہ دیوانش​
احاطہ کے مغربی رخ پر جم کمرے ہیں اور جو ہمیں رہنے کے لیے دیے گئے ہیں ان کی کھڑکیاں قلعہ کے احاطے میں کھلتی ہیں۔ کھڑکیوں کے اوپر روشندان بھی ہیں۔ اس خیال سے کہ ہماری طرح ہماری نگاہیں بھی باہر نہ جا سکیں، تمام کھڑکیاں دیواریں چن کر بند کر دی گئی ہیں۔ دیواریں ہمارے آنے سے ایک دن پہلے چنی گئی ہوں گی کیونکہ جب ہم آئے تھے تو سفیدی خشک ہوئی تھی۔ ہاتھ پڑ جاتا تو اپنا نقش بٹھا دیتا اور نقش اس طرح بیٹھتا کہ پھر اٹھتا نہیں:
ہر داغِ معاصی مرا اس دامنِ تر سے
جوں حرفِ سرِ کاغذِ نم اُٹھ نہیں سکتا​
دیواریں اس طرح چنی گئی ہیں کہ اوپر تلے، داہنے بائیں کوئی رخنہ باقی نہ چھوڑا۔ روشندان اس طرح چھپ گئے۔ یہ ظاہر ہے کہ اگر کھڑکیاں کھلی بھی ہوتیں تو کون سا بڑا میدان سامنے کھل جاتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ قلعہ کی سنگی دیواروں تک نگاہیں جاتیں اور ٹکرا کر واپس آ جاتیں۔ لیکن ہماری نگاہوں کی اتنی رسائی بھی خطرناک سمجھی گئی۔ روشندان کے آئینے تک بند کر دیے گئے:
ہوسِ گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے​
قلعہ کے دروازے کی شب و روز پاسبانی کی جاتی ہے اور قلعہ کے اندر بھی مسلح سنتری چاروں طرف پھرتے رہتے ہیں۔ پھر بھی ہماری حفاظت کے لیے مزید روک تھام ضروری سمجھی گئی۔ ہمارے احاطہ کا شمالی رخ پہلے کھلا تھا، اب دس دس فٹ اونچی دیواریں کھینچ دی گئی ہیں اور ان میں دروازہ بنایا گیا ہے، اور اس دروازے پر بھی رات دن مسلح فوجی پہرہ رہتا ہے۔ فوج یہاں تمام تر انگریز سپاہیوں کی ہے۔ وہی ڈیوٹی پر لگائے جاتے ہیں۔ جیلر اور ایک وارڈر کے سوا جسے بازار سے سودا سلف لانے کے لیے نکلنا پڑتا ہے اور کوئی شخص باہر نہیں جا سکتا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جو کوئی دروازے پر سے گزرے سنتری کو جامہ تلاشی دے۔ وارڈر کو ہر مرتبہ برہنہ ہو کر تلاشی دینی پڑتی ہے۔ وہ جیلر کے پاس جا جا کر روتا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ پہلے دن جیلر نکلا تھا تو اس سے بھی جامہ تلاشی کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ "ایں ہم بچۂ شتر ست"۔
بازار سے سودا سلف لانے کا انتظام یوں کیا گیا ہے کہ قلعہ کے دروازے کے پاس فوجی ادارہ کا ایک دفتر ہے۔ یہاں کے سپرنٹنڈنٹ کا آفس ٹیلی فون کے ذریعہ اس سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جب بازار سے کوئی چیز آتی ہے تو پہلے وہاں روکی جاتی ہے اور اس کی دیکھ بھال ہوتی ہے۔ پھر وہاں کا متعینہ افسر سپرنٹنڈنٹ کو فون کرتا ہے کہ فلاں چیز اس طرح کی اور اس شکل میں آئی ہے۔ مثلاً ٹوکری میں ہے، رومال میں بندھی ہے یا ٹین کا ڈبہ ہے۔ اس اطلاع کے ملنے پر یہاں سے جیلر احاطہ کے دروازے پر جاتا ہے اور نشان زدہ سامان سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں اٹھوا لے جاتا ہے۔ اب یہاں پھر دوبارہ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اگر ٹوکری ہے تو اسے خالی کر کے اُس کا ہر حصہ اچھی طرح دیکھ لیا جائے گا کہ اِدھر اُدھر کوئی پرچہ تو چھپا ہوا نہیں ہے۔ شکر اور آٹے کی خاص طور پر دیکھ بھال کی جاتی ہے کیونکہ ان کی تہ میں بہت کچھ چھپا کر رکھ دیا جا سکتا ہے۔
وارڈر جو پونا سے یہاں لائے گئے ہیں، وہ آئے تو تھے قیدیوں کی نگرانی کرنے مگر اب خود قیدی بن گئے ہیں۔ نہ تو احاطہ سے باہر قدم نکال سکتے ہیں نہ گھر سے خط و کتابت کر سکتے ہیں۔ جیلر کو بھی گھر خط لکھنے کی اجازت نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے انہی راہوں سے کوئی خبر باہر پہنچ جائے۔ وہ روتا رہتا ہے کہ مجھے صرف ایک دن کی چھٹی ہی مل جائے کہ پونا ہو آؤں، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ یہاں جسے دیکھو ہائے ہائے کر رہا ہے:
شبم خرابِ مہر، کتاں سینہ چاکِ ماہ
لو اور بھی ستم زدۂ روزگار ہیں!​
اس صورتِ حال نے یہاں کی ضروریات کی فراہمی میں عجیب عجیب الجھاؤ ڈال دیے ہیں۔ چیتہ خان جب دیکھو کسی نہ کسی گرہ کے کھولنے میں الجھا ہوا ہے مگر گرہیں ہیں کہ کھلنے کا نام نہیں لیتیں۔ سب سے پہلا مسئلہ باورچی کا پیش آنا تھا اور پیش آیا۔ باہر کا کوئی آدمی رکھا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ قیدی بن کر کیوں رہنے لگا؟ اور قیدیوں میں ضروری نہیں کہ باورچی نکل آئے۔ قیدی باورچی جبھی مل سکتا ہے کہ پہلے کوئی قرینہ کا باورچی ذوق جرائم پیشگی میں اتنی ترقی کرے کہ پکڑا جائے اور پکڑا بھی جائے کسی اچھے خاصے جرم میں کہ اچھی مدت کے لیے سزا دی جا سکے۔ لیکن ایسا حسن اتفاق گاہ گاہ ہی پیش آ سکتا ہے اور آج کل تو سوءِ اتفاق سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِس علاقہ کے باورچیوں میں کوئی مرد میدان رہا ہی نہیں۔ انسپکٹر جنرل جب آیا تھا تو کہتا تھا یرودا جیل میں ہر گروہ اور پیشے کے قیدی موجود ہیں مگر باورچیوں کا کال ہے۔ نہیں معلوم ان کم بختوں کو کیا ہو گیا ہے:
کس نہ دارد ذوقِ مستی، مے گساراں را چہ شد​
جو قیدی یہاں جن کر کام کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں، اِن میں سے دو قیدیوں پر باورچی ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے:
ستم رسیدہ یکے، نا امیدوار یکے​
حالانکہ دونوں اس الزام سے بالکل معصوم واقع ہوئے ہیں اور زبان حال سے نظیری کا یہ شعر دہرا رہے ہیں۔ داد دیجیے گا، کہاں کی بات کہاں لا کر ڈالی ہے، اور کیا بر محل بیٹھی ہے:
تا منفعل ز رنجشِ بے جا نہ بینمش
می آرم اعترافِ گناہ نہ بودہ را​
چیتہ خان یہاں آتے ہی اس عقدۂ لا ینحل کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ روز اپنی طلب و جستجو کی ناکامیوں کی کہانی سناتا:
اگر دستے کنم پیدا، نمی یا بم گریباں را​
ایک دن خوش خوش آیا اور یہ خبر سنائی کہ ایک بہت اچھے باورچی کا شہر میں انتظام ہو گیا ہے۔ کلکٹر نے ابھی فون کے ذریعہ خبر دی ہے کہ کل سے کام پر لگ جائے گا:
صبا بہ خوش خبری ہدہدِ سلیماں ست
کہ مژدۂ طرب از گلشنِ سبا آورد​
دوسرے دن کیا دیکھتا ہوں کہ واقعی ایک جیتا جاگتا آدمی اندر لایا گیا ہے۔ معلوم ہوا طباخِ موعود یہی ہے:
آخر آمد ز پسِ پردۂ تقدیر پدید​
مگر نہیں معلوم اس غریب پر کیا بیتی تھی کہ آنے کو تو آ گیا لیکن کچھ ایسا کھویا ہوا اور سراسیمہ حال تھا جیسے مصیبتوں کا پہاڑ سر پر ٹوٹ پڑا ہو۔ وہ کھانا کیا پکاتا اپنے ہوش و حواس کا مسالہ کوٹنے لگا:
اُڑنے سے پیشتر ہی مرا رنگ زرد تھا​
بعد کو اس معاملہ کی جو تفصیلات کھلیں، اُن سے معلوم ہوا کہ یہ شکار واقعی کلکٹر ہی کے جال میں پھنسا تھا۔ کچھ اس کے زورِ حکومت نے کام دیا، کچھ ساٹھ روپے ماہانہ کی تنخواہ کی ترغیب نے اور یہ اجل رسیدہ دام میں پھنس گیا۔ اگر اسے بعافیت قلعہ میں فوراً پہنچا دیا جاتا تو ممکن ہے کہ کچھ دنوں تک جال میں پھنسا رہتا لیکن اب ایک اور مشکل پیش آ گئی۔ یہاں کے کمانڈنگ آفیسر سے باورچی رکھنے کے بارے میں ابھی بات چیت ختم نہیں ہوئی تھی۔ وہ پونا کے صدر دفتر کی ہدایت کا انتظار کر رہا تھا اور اس لیے اس شکار کو فوراً قلعہ کے اندر لے نہیں جا سکتا تھا۔ اب اگر اسے اپنے گھر جانے کا موقع دیا جاتا ہے تو اندیشہ ہے کہ شہر میں چرچا پھیل جائے گا اور بہت ممکن ہے کہ کوئی موقع طلب اس معاملہ سے بر وقت فائدہ اٹھا کر باورچی کو نامہ و پیام کا ذریعہ بنا لے۔ اگر روک لیا جاتا ہے تو پھر رکھا کہاں جائے کہ زیادہ سے زیادہ محفوظ جگہ ہو اور باہر کا کوئی آدمی وہاں تک پہنچ نہ سکے۔
یہ بعد از انفضال اب اور ہی جھگڑا نکل آیا!​
اسے کلکٹر کے یارانِ طریقت کی عقل مندی سمجھیے یا بے وقوفی کہ اسے بہلا پھسلا کر یہاں مقامی قید خانہ میں بھیج دیا۔ کیونکہ اُن کے خیال میں قلعہ کے علاوہ اگر کوئی اور محفوظ جگہ یہاں ہو سکتی تھی تو وہ قید خانہ کی کوٹھڑی ہی تھی۔ قید خانہ میں جسے اسے ایک رات دن قید و بند کے توے پر سینکا گیا تو بھوننے تلنے کی ساری ترکیبیں بھول گیا۔ اِس احمق کو کیا معلوم تھا کہ ساٹھ روپے کےعشق میں یہ پاپڑ بیلنے پڑیں گے؟ اس ابتدائے عشق ہی نے کچومر نکال دیا تھا۔ قلہ تک پہنچتے پہنچتے قلیہ بھی طیار ہوگیا:
کہ عشق آساں نمود اول، ولے اُفتاد و مشکل ہا!​
بہرحال دو دن اس نے کسی نہ کسی طرح نکال دیےتیسرے دن ہوش و حواس کی طرح صبر و قرار نے بھی جواب دے دیا۔ میں صبح کے وقت کمرے کے اندر بیٹھا لکھ رہا تھا کہ اچانک کیا سنتا ہوں، جیسے باہرایک عجیب طرح کا مخلوط شور و غل ہو رہا ہو۔ "مخلوط" اس لیے کہنا پڑا کہ صرف آوازوں ہی کا غل نہیں تھا، رونے کی چیخیں بھی ملی ہوئی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے کوئی آدمی گھٹی ہوئی آواز میں کچھ کہتا جاتا ہے اور پھر بیچ بیچ میں روتا بھی جاتا ہے۔ گویا وہ صورت حال ہے جو خسرو نے سختی کشان عشق کی سنائی تھی کہ:
قدرے گرید، وہم بر سرِ افسانہ رود!​
باہر نکلا تو سامنے کے برآمدے میں ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ چیتہ خان دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا ہے، سامنے باورچی زمین پر لوٹ رہا ہے۔ تمام وارڈرز حلقہ باندھے کھڑےہیں، قیدیوں کی قطار صحن میں صف بستہ ہو رہی ہے اور ہمارے قافلہ کے تمام زندانی بھی ایک ایک کر کے کمروں سے نکل رہے ہیں۔ گویا اس خرابہ کی ساری آبادی وہیں سمٹ آئی ہے:
آباد ایک گھر ہے جہانِ خراب میں!​
چیتہ خان کہہ رہا ہے، تمہیں کوئی اختیار نہیں کہ یہاں سے نکلو۔ باورچی چیختا ہے کہ مجھے پورا اختیار ہے، تمہیں کوئی اختیار نہیں کہ مجھے روکو۔ جبر و اختیار (Determination and Freewill) کا یہ مناظرہ سن کر مجھے بے اختیار نعمت خاں عالی کا وہ قطعہ یاد آ گیا جو اس نے مختار خان کی ہجو میں کہا تھا اور جس کی شرح لکھنے میں خزانہ عامرہ نے بڑی مغز پاشی کی ہے:
ایں دلیل از جبری آورد او از اختیار
ایں سخن ہم درمیاں ماندہ ست امرِ بین بین
باورچی اُن لوگوں میں معلوم ہوتا تھا جن کی نسبت کہا گیا ہے کہ:
قومے بہ جدوجہد گرفتند وصلِ دوست​
مگر چیتہ خان اس پر زور دیتا تھا کہ:
قومے دگر حوالہ بہ تقدیر می کنند!​
جیلر نے خیال کیا کہ حقیقت حال کچھ بھی ہو، مگر "بین الجبر و الاختیار " کا مذہب اختیار کیے بغیر چارہ نہیں۔ اُس کی نظر اشاعرہ کے "کسب" اور شوپن ہار (Schopenhauer) کے "ارادہ" پر گئی:
گناہ اگرچہ نہ بود اختیار ما حافظ
تو در طریقِ ادب کوش و گو کناہِ من ست​
اس نے باورچی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح کی ہٹ ٹھیک نہیں۔ کسی نہ کسی طرح ایک مہینہ نکال دو پھر تمہیں گھر جانے کی اجازت مل جائے گی:
مرغِ زیرک چوں بہ دام افند تحمل بایدش​
لیکن اس کا معاملہ اب نصیحت پذیریوں کی حد سے گزر چکا تھا:
نکل چکا ہے وہ کوسوں دیارِ حرماں سے​
ایک مہینے کی بات جو اُس نے سنی تو اور کپڑے پھاڑنے لگا:
دِل سے دیوانے کو مت چھیڑ، یہ زنجیر نہ کھینچ!​
شام کو چیتہ خان اس طرح آیا تو میں نے اس سے کہا کہ اس طرح مجبور کر کے کسی آدمی کو رکھنا ٹھیک نہیں اسے فوراً رخصت کر دیا جائے۔ اگر اسے جبراً رکھا گیا تو ہم اس کا پکایا ہوا کھانا چھونے والے نہیں۔ چنانچہ دوسرے دن اسے رہائی مل گئی۔ اتوار کے دن حسب معمول کلکٹر آیا تو معلوم ہوا جس دن چھوٹا تھا ، اُسی دن ا ُس نے اپنا بوریا بستر سنبھالا اور سیدھا ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا۔ پیچھے مڑ کے دیکھا نہیں:
کردہ ام توبہ، داز توبہ پشیماں شدہ ام
کافرم، باز نہ گوئی کہ مسلماں شدہ ام​
یہ تو باورچی کی سرگزشت ہوئی، لیکن یہاں کوئی دن نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی نئی سرگزشت پیش نہ آتی ہو۔ باورچی کے بعد حجام کا مسئلہ پیش آیا۔ ابھی وہ حل نہیں ہوا تھا کہ دھوبی کے سوال سے سر اٹھایا۔ چیتہ خان کا سارا وقت ناخن تیز کرنے میں بسر ہوتا ہے۔ مگر رشتہ کار میں کچھ ایسی گانٹھیں پڑ گغی ہیں کہ کھلنے کا نام نہیں لیتیں۔ یہ وہی غالب والا حال ہوا کہ:
پہلے ڈالی ہے سرِ رشتۂ امید میں گانٹھ
پیچھے ٹھونکی ہے بُن ناخنِ تدبیر میں کیل​
ابو الکلام​
 

ابوشامل

محفلین
9
حکایت بادۂ و تریاک​
قلعہ احمد نگر
27 اگست 1942ء
صدیق مکرم
انسان اپنی ایک زندگی کے اندر کتنی ہی مختلف زندگیں بسر کرتا ہے مجھے بھی اپنی زندگی کی دو قسمیں کر دینی پڑیں۔ ایک قید خانے سے باہر کی، ایک اندر کی:
ہم سمندر باش وہم ماہی کہ در اقلیم عشق
روئے دریا سلسبیل و قعرِ دریا آتش ست​
دونوں زندگیوں کے مرقعوں کی الگ الگ رنگ و روغن سے نقش آرائی ہوئی ہے، آپ شاید ایک کو دیکھ کر دوسری کو پہچان نہ سکیں:
لباسِ صورت اگر واژگوں کنم بینند
کہ خرقۂ خشنم مایۂ طلا باف است​
قید سے باہر کی زندگی میں اپنی طبیعت کی فتاد بدل نہیں سکتا۔ خود رفتگی اور خود مشغولی مزاج پر چھائی رہتی ہے۔ دماغ اپنی فکروں سے باہر آنا نہیں چاہتا اور دل اپنی نقش آرائیوں کا گوشہ چھوڑنا نہیں چاہتا۔ بزم و انجمن کے لیے بار خاطر نہیں ہوتا لیکن یارِ شاطر بھی بہت کم بن سکتا ہوں:
تاکے چو موجِ بحر بہر سو شتافتن
در عینِ بحر پائے چو گرداب بند کن!​
لیکن جونہی حالات کی رفتار قید و بند کا پیام لاتی ہے، میں کوشش کرنے لگتا ہوں کہ اپنے آپ کو یک قلم بدل دوں۔ میں اپنا پچھلا دماغ سر سے نکال دیتا ہوں اور ایک نئے دماغ سے اس کی خالی جگہ بھرنی چاہتا ہوں۔ حریم دل کی طاقوں کو دیکھتا ہوں کہ خالی ہو گئے تو کوشش کرتا ہوں کہ نئے نئے نقش و نگار بناؤں اور انہیں پھر سے آراستہ کروں:
وقتست، دگر بت کدہ سازند حرم را​
اس تحولِ صورت(Metamorphism) کے عمل میں کہاں تک مجھے کامیابی ہوتی ہے، اس کا فیصلہ تو دوسروں ہی کی نگاہیں کر سکیں گی لیکن خود میرے فریب حال کے لیے اتنی کامیابی بس کرتی ہے کہ اکثر اوقات اپنی پچھلی زندگی کو بھولا رہتا ہوں اور جب تک اس کے سراغ میں نہ نکلوں، اُسے واپس نہیں لا سکتا:
دل کہ جمع ست، غم از بے سر و سامانی نیست
فکرِ جمعیت اگر نیست، پریشانی نیست!​
اگر آپ مجھے اس عالم میں دیکھیں تو خیال کریں، میری پچھلی زندگی مجھے قید خانے کے دروازے تک پہنچا کر واپس چلی گئی اور اب ایک دوسری ہی زندگی سے سابقہ پڑا ہے۔ جو زندگی کل تک اپنی حالتوں میں گم اور خوش کامیوں اور دل شگفتگیوں سے بہت کم آشنا تھی، آج اچانک ایک ایسی زندگی کے قالب میں ڈھل گئی جو شگفتہ مزاجیوں اور خندہ روئیوں کے سوا اور کسی بات سے آشنا ہی نہیں "ہر وقت خوش رہو اور ہر ناگوار حالت کو خوش گوار بناؤ" جس کا دستور العمل ہے:
حاصلِ کار گہِ کون و مکاں ایں ہمہ نیست
بادہ پیش آر کہ اسبابِ جہاں ایں ہمہ نیست
پنچ روزے کہ دریں مرحلہ مہلت داری
خوش بیاساے زمانے کہ زماںایں ہمہ نیست​
میں نے قید خانے کی زندگی کو دو متضاد فلسفوں سے ترکیب دی ہے۔ اس میں ایک جز "رواقیہ" (Stoics) کا ہے ایک لذتیہ (Epicureans) کا:
پنبہ را آشتی ایں جابہ شرار افتاد است​
جہاں تک حالات کی ناگواریوں کا تعلق ہے رواقیت سے اُن کے زخموں پر مرہم لگاتا ہوں اور ان کی چبھن بھول جانے کی کوشش کرتا ہوں:
ہر وقتِ بد کہ روئے دہد آبِ سیلِ رواں
ہر نقشِ خوش کہ جلوہ کند، موجِ آب گیر​
جہاں تک زندگی کی خوشگواریوں کا تعلق ہے لذتیہ کا زاویۂ نگاہ کام میں لاتا ہوں اور خوش رہتا ہوں:
ہر وقت خوش کہ دست دہد مغتنم شمار
کس را وقوف نیست کہ انجام کار چیست!​
میں نے اپنے کاک تیل (Cocktail) کے جام میں دو بوتلیں اونڈیل دیں۔ میرا ذوق بادہ آشامی بغیر اس جامِ مرکب کے تسکین نہیں پا سکتا تھا۔ اسے قدیم تعبیر میں یوں سمجھیے کہ گویا حکایتِ بادۂ و تریاک میں نے تازہ کر دی ہے:
چناں افیون ساقی درمے افگند
حریفاں رانہ سرماند ونہ دستار​
البتہ کاک تیل یہ نسخۂ خاص ہر خامکار کے بس کی چیز نہیں ہے۔ صرف بادہ گسارانِ کہن مشق ہی اسے کام میں لا سکتے ہیں۔ ورموتھ (Vermouth) اور جن (Gin) کا مرکب پینے والے اس رطلِ گراں کے متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ مولانائے رومؒ نے ایسے ہی معاملات کی طرف اشارہ کیا تھا:
بادۂ آں درخورِ ہرہوش نیست
حلقۂ آں سخرۂ ہرگوش نیست​
آپ کہیں گے، قید خانہ کی زندگی رواقیت کے لیے تو موزوں ہوئی کہ زندگی کے رنج و راحت سے بے پروا بنا دینا چاہتی ہے۔ لیکن لذتیہ کی عشرت اندوزیوں کا وہاں کیا موقع ہوا؟ جو نامراد قید خانے سے باہر کی آزادیوں میں بھی زندگی کی عیش کوشیوں سے تہی دست رہتے ہیں، اُنہیں قید و بند کی محروم زندگی میں اِس کا سر و ساماں کہاں میسر آ سکتا ہے؟ لیکن میں آپ کو یاد دلاؤں گا کہ انسان کا اصلی عیش دماغ کا عیش ہے جسم کا نہیں۔ میں لذتیہ سے ان کا دماغ لے لیتا ہوں جسم اُن کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔ داغؔ مرحوم نے ناصح سے صرف اُس کی زبان لینا چاہی تھی:
طے جو حشر میں، لے لوں زبان ناصحؔ کی
عجیب چیز ہے یہ طولِ مدعا کے لیے​
اور غور کیجیے تو یہ بھی ہمارے وہم و خیال کا ایک فریب ہی ہے کہ سر و سامان کار ہمیشہ اپنے سے باہر ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اگر یہ پردۂ فریب ہٹا کر دیکھیں تو صاف نظر آ جائے کہ وہ ہم سے باہر نہیں ہے خود ہمارے اندر ہی موجود ہے۔ عیش و مسرت کی جن گل شگفتگیوں کو ہم چاروں طرف ڈھونڈتے ہیں اور نہیں پاتے وہ ہمارے نہاں خانۂ دل کے چمن زاروں میں ہمیشہ کھلتے اور مرجھاتے رہتے ہیں لیکن محرومی ساری یہ ہوئی کہ ہمیں چاروں طرف کی خبر ہے مگر خود اپنی خبر نہیں۔ و فی انفسکم افلا تبصرون
کہیں تجھ کو نہ پایا گرچہ ہم نے اِک جہان ڈھونڈا
پھر آخر دل ہی میں پایا، بغیل ہی میں سے تو نکلا!​
جنگل کے مور کو کبھی باغ و چمن کی جستجو نہیں ہوئی، اس کا چمن خود اس کی بغل میں موجود رہتا ہے۔ جہاں کہیں اپنے پر کھول دے کا، ایک چمنستان بو قلموں کھل جائے گا:
نہ با صحرا سرے دارم، نہ با گلزار سودائے
بہ ہر جامی روم از خویش می جو شد تماشائے!​
قید خانے کی چار دیواری کے اندر بھی سورج ہر روز چمکتا ہے اور چاندنی راتوں نے کبھی قیدی اور غیر قیدی میں امتیاز نہیں کیا۔ اندھیری راتوں میں جب آسمان کی قندیلیں روشن ہو جاتی ہیں تو وہ صرف قید خانے کے باہر نہیں چمکتیں، اسیرانِ قید و محن کو بھی اپنی جلوہ فرشیوں کا پیام بھیجتی رہتی ہیں۔ صبح جب طباشیر بکھرتی ہوئی آئے گی اور شام بج شفق کی کلگوں چادریں پھیلانے لگے گی تو صرف عشرت سراؤں کے دریچوں ہی سے ان کا نظارہ نہیں کیا جائے گا، قید خانے کے روزنوں سے لگی ہوئی نگاہیں بھی انہیں دیکھ لیا کریں گی۔ فطرت نے انسان کی طرح کبھی یہ نہیں کیا کہ کسی کو شادکام رکھے کسی کو محروم کر دے۔ وہ جب کبھی اپنے چہرہ سے نقاب الٹتی ہے تو سب کو یکساں طور پر نظارۂ حسن کی دعوت دیتی ہے۔ یہ ہماری غفلت اندیشی ہے کہ نظر اٹھا کر دیکھتے نہیں اور صرف اپنے گرد و پیش ہی میں کھوئے رہتے ہیں:
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں، ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا​
جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہوں، جہاں دوپہر ہر روز چمکے، شفق ہر روز نکھرے، پرند ہر صبح و شام چہکیں، اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و مسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے؟ یہاں سر و سامان کار کی تو اتنی فراوانی ہوئی کہ کسی گوشہ میں بھی گم نہیں ہو سکتا۔ مصیبت ساری یہ ہے کہ خود ہمارا دل و دماغ ہی گم ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے سے باہر ساری چیزیں ڈھونڈتے رہیں گے مگر اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے۔ حالانکہ اگر اُسے ڈھونڈ نکالیں تو عیش و مسرت کا سارا سامان اسی کوٹھڑی کے اندر سمٹا ہوا مل جائے گا۔:
بغیر دل ہمہ نقش و نگار بے معنی ست
ہمیں ورق کہ سیہ گشت، مدعا ایں جا ست​
ایوان و محل نہ ہوں تو کسی درخت کے سائے سے کام لے لیں۔ دیبا و مخمل کا فرش نہ ملے تو سبزل خود رو کے فرش پر جا بیٹھیں۔ اگر برقی روشنی کے کنول میسر نہیں ہیں تو آسمان کی قندیلوں کو کون بجھا سکتا ہے؟ اگر دنیا کی ساری مصنوعی خوشنمائیاں اوجھل ہو گئی ہیں تو ہ جائیں صبح اب بھی ہر روز مسکرائے گی۔ چاندنی اب بھی ہمیشہ جلوہ فروشیاں کرے گی لیکن اگر دل زندہ پہلو میں نہ رہے تو خدارا بتلائیے اس کا بدل کہاں ڈھونڈیں؟ اس کی خالی جگہ بھرنے کے لیے کس چولہے کے انگارے کام دیں گے؟
مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ، تو نہ مر جائے
کہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے سے​
میں آپ کو بتلاؤں، اِس راہ میں میری کامرانیوں کا راز کیا ہے؟ میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا۔ کوئی حالت ہو، کوئی جگہ ہو، اس کی تڑپ دھیمی نہیں پڑے گی۔ میں جانتا ہوں کہ جہانِ زندگی کی ساری رونقیں اس میکدۂ حلوت کے دم سے ہیں۔ یہ اُجڑا، اور ساری دنیا اُجڑ گغی:
از صد سخنِ پیرم یک حرف مرا یاد ست
"عالم نہ شود ویراں تا میکدہ آباد ست"​
باہر کے سارے ساز و سامان عشرت مجھ سے چھن جائیں لیکن تک یہ نہیں چھنتا، میرے عیش و طرب کی سرمستیاں کون چھین سکتا ہے؟
دیدمش خرم و خنداں قدحِ بادہ بدست
واندراں آئینہ صد کونہ تماشا می کرد
گفتم "ایں جام جہاں بیں بتو کے داد حکیم؟
گفت "آں روز کہ ایں گنبد مینا می کرد"​
آپ کو معلوم ہے، میں ہمیشہ صبح تین سے چار بجے کے اندر اٹھتا ہوں اور چائے کے پیہم فنجانوں سے جامِ صبوحی کا کام لیا کرتا ہوں۔ خواجہ شیراز کی طرح میری صدائے حال بھی یہ ہوتی ہے کہ:
خورشیدِ مے ز مشرقِ ساغر طلوع کرد
گر برگِ عیش می طلبی، ترکِ خواب کن​
یہ وقت ہمیشہ میرے اوقاتِ زندگی کا سب سے زيادہ پر کیف وقت ہوتا ہے۔ لیکن قید خانے کی زندگی میں تو اس کی سرمستیاں اور خود فراموشیاں ایک دوسرا ہی عالم پیدا کر دیتی ہیں۔ یہاں کوئی آدمی ایسا نہیں ہوتا جو اس وقت خواب آلود آنکھیں لیے ہوئے اٹھے اور قرینہ سے چائے بنا کر میرے سامنے دھر دے۔ اس لیے خود اپنےہی دستِ شوق کی سرگرمیوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ میں اس وقت بادۂ کہن کے شیشہ کی جگہ چینی چائے کا تازہ ڈبا کھولتا ہوں اور ایک ماہر فن کی دقیقہ سنجیوں کے ساتھ چائے دم دیتا ہوں۔ پھر جام و صراحی کو میز پر دہنی طرف جگہ دوں گا کہ اس کی اولیت اسی کی مستحق ہوئی۔ قلم و کاغذ کو بائیں طرف رکھوں گاکہ سر و سامان کار میں ان کی جگہ دوسری ہوئی۔ پھر کرسی پر بیٹھ جاؤں گا اور پھر نہ پوچھیے کہ بیٹھتے ہی کس عالم میں پہنچ جاؤں گا؟ کسی بادہ گسار نے شامپین اور بورڈو کے صد سالہ تہ خانوں کے عرق کہن سال میں بھی وہ کیف و سرور کہاں پایا ہوگا جو چائے کے اس دورِ صبح گاہی کا ہر گھونٹ میرے لیے مہیا کرتا ہے۔
مادر پیالہ عکسِ رخِ یار دیدہ ایم
اے بے خبر ز لذتِ شرب مدام ما​
آپ کو معلوم ہے کہ میں چائے کے لیے روسی فنجان کام میں لاتا ہوں۔ یہ چائے کی معمولی پیالیوں سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ اگر بے ذوقی کے ساتھ پیجیے تو دو گھونٹ میں ختم ہو جائیں مگر خدانخواستہ میں ایسی بے ذوقی کا مرتکب کیوں ہونے لگا؟ میں جرعہ کشانِ کہن مشق کی طرح ٹھہر ٹھہر کر پیوں گا اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ لوں گا۔ پھر جب پہلا فنجان ختم ہو جائے گا تو کچھ دیر کے لیے رک جاؤں گا اور اس درمیانی وقفہ کو امتدادِ کیف کے لیے جتنا طول دے سکتا ہوں طول دوں گا۔ پھر دوسرے اور تیسرے کے لیے ہاتھ بڑھاؤں گا اور دنیا کو اور اُس کے سارے کارخانۂ سود و زیاں کو یک قلم فراموش کر دوں گا:
خوشتر از فکرِ مے و جام چہ خواہد بودن
تابہ بینیم، سر انجام چہ خواہد بودن!​
اِس وقت بھی یہ سطریں بے اختیار نوکِ قلم سے نکل رہی ہیں، اُسی عالم میں ہوں اور نہیں جانتا کہ 9 اگست کی صبح کے بعد دنیا کا کیا حال ہوا اور اب کیا ہو رہا ہے؟
شرابِ تلخ دہ ساقی کہ مرد افگن بوز ورش
کہ تا یک دم بیاسایم ز دنیا و شر و شورش
کمندِ صیدِ بہرامی بیفگن، جام مے بردار
کہ من پیمودم ایں صحرانہ بہرام ست نے گورش​
میرا دوسرا پر کیف وقت دوپہر کا ہوتا ہے یا زیادہ صحتِ تعین کے ساتھ کہوں کہ زوال کا ہوتا ہے۔ لکھتے لکھتے تھک جاتا ہوں تو تھوڑی دیر کے لیے لیٹ جاتا ہوں۔ پھر اٹھتا ہوں> غسل کرتا ہوں، چائے کا دور تازہ کرتا ہوں اور تازہ دم ہو کر پھر اپنی مشغولیتوں میں گم ہو جاتا ہوں۔ اس وقت آسمان کی بے داغ نیلگونی اور سورج کی بے نقاب درخشندگی کا جی بھر کے نظارہ کروں گا اور رواق دل کا ایک دریچہ کھول دوں گا۔ گوشہ ہائے خاطر افسردگیوں اور گرفتگیوں سے کتنے ہی غبار آلودہ ہوں لیکن آسمان کی کشادہ پیشانی اور سورج کی چمکتی ہوئی خندہ روئی دیکھ کر ممکن نہیں کہ اچانک روشن نہ ہو جائیں:
بازم بہ کلبہ کیست، نہ شمع و نہ آفتاب
بام و درم ز ذرہہ پروانہ پر شدہ ست​
لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں لیکن نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی، یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مر جائیے اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے یہ مشکل حل کرلی، اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا:
ناصحم گفت "کہ جز غم چہ ہنر دارد عشق؟"
گفتم "اے خواجۂ عاقل، ہنرے بہتر ازیں!"​
غالباً قدیم چینیوں نے زندگی کے مسئلہ کو دوسری قوموں سے بہتر سمجھا تھا۔ ایک پرانے چینی مقولہ میں سوال کیا گیا ہے "سب سے زیادہ دانش مند آدمی کون ہے؟" پھر جواب دیا ہے "جو سب سے زیادہ خوش رہتا ہے"۔ اس سے ہم چینی فلسفۂ زندگی کا زاویۂ نگاہ معلوم کر سکتے ہیں اور اور اس میں شک نہیں کہ یہ بالکل سچ ہے:
نہ ہر درخت تحمل کند جفائے خزاں
غلام ہمتِ سردم کہ ایں قدم دارد​
اگر آپ نے یہاں ہر حال میں خوش رہنے کا ہنر سیکھ لیا ہے تو یقین کیجیے کہ زندگی کا سب سے بڑا کام سیکھ لیا۔ اب اس کے بعد اس سوال کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ آپ نے اور کیا کیا سیکھا؟ خود بھی خوش رہیے اور دوسرے سے بھی کہتے رہیے کہ اپنے چہروں کو غمگین نہ بنائیں:
چو مہمان خراباتی بعشرت باش بارِنداں
کہ دردِ سرکشی جاناں، گر ایں مستی خمار آرد​
زمانۂ حال کے ایک فرانسیسی اہلِ قلم آندری ژید (Andre Gide) کی ایک بات مجھے بہت پسند آئی جو اُس نے اپنی خود نوشتہ سوانح میں لکھی ہے۔ خوش رہنا محض ایک طبعی احتیاج ہی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یعنی ہماری انفرادی زندگی کا نوعیت کا اثر صرف ہم ہی تک محدود نہیں رہتا، وہ دوسروں تک بھی متعدی ہوتا ہے، یا یوں کیے کہ ہماری ہر حالت کی چھوت دوسروں کو بھی لگتی ہے۔ اس لیے ہمارا اخلاقی فریضہ ہوا کہ خود افسردہ خاطر ہو کر دوسروں کو افسردہ خاطر نہ بنائیں:
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را​
ہماری زندگی ایک آئینہ خانہ ہے۔ یہاں ہر چہرے کا عکس بیک وقت سینکڑوں آئینوں پر پڑنے لگتا ہے۔ اگر ایک چہرے پر غبار آ جائے گا تو سینکڑوں چہرے غبار آلود ہو جائیں گے۔ ہم میں سے ہر فرد کی زندگی محض ایک انفرادی واقعہ نہیں ہے۔ وہ پورے مجموع کا حادثہ ہے۔ دریا کی سطح پر ایک لہر تنہا اٹھتی ہے لیکن اسی ایک لہر سے بے شمار لہریں بنتی چلی جاتی ہیں۔ یہاں ہماری کوئی بات بھی صرف ہماری نہیں ہوئی؛ ہم جو کچھ اپنے لیے کرتے ہیں اس میں بھی دوسروں کا حصہ ہوتا ہے۔ ہماری کوئی خوشی بھی ہمیں خوش نہیں کر سکے گی اگر ہمارے چاروں طرف غمناک چہرے اکٹھے ہو جائیں گے۔ ہم خود خوش رہ کر دوسروں کو خوش کرتے ہیں اور دوسروں کے خوش دیکھ کر خود خوش ہونے لگتے ہیں۔ یہی حقیقت ہے جسے عرفی نے اپنے شاعرانہ پیرایہ میں ادا کیا تھا:
بدیدارِ تو دل شادند باہم دوستانِ تو
تراہم شادماں خواہم چو رُوئے دوستاں بینی​
یہ عجیب بات ہے کہ مذہب، فلسفہ اور اخلاق، تینوں نے زندگی کا مسئلہ حل کرنا چاہا اور تینوں میں خود زندگی کے خلاف رحجان پیدا ہو گیا۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایک آدمی جتنا زیادہ بجھا دل اور سوکھا چہرہ لے کر پھرے گا، اتنا ہی زیادہ مذہبی، فلسفی اور اخلاقی قسم کا ہوگا۔ گویا علم اور تقدس دونوں کے لیے یہاں ماتمی زندگی ضروری ہوئی۔ زندگی کی تحقیر اور توہین صرف یونان کے کلبیہ (Cynics) ہی کا شعار نہ تھا بلکہ رواقی (Stoics) اور مشائی (Peripatetic) نقطۂ نگاہ میں بھی اس کے عناصر برابر کام کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ افسردہ دلی اور ترش روئی فلسفیانہ مزاج کا ایک نمایاں خط و خال بن گئی۔ اخلاقی سے اگر اس کے مذہب طمانیت و مسرت (Eudemonism) اور مادیاتی مذہب عشرت (Hedonism) کے تصورات مستثنیٰ کر دیجیے تو اس کا عام طبعی مزاج بھی فلسفیانہ سرکہ روئی سے خالی نہیں ملے گا۔ مذہب اور روحانیات کی دنیا میں تو زُہد خشک اور طبعِ خنک کی اتنی گرم بازاری ہوئی کہ اب زہد مزاجی اور حق آگاہی کے ساتھ کسی ہنستے ہوئے چہرے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ دینداری اور ثقالت طبع تقریباً مرادف لفظ بن گئے ہیں۔ یہاں تک کہ قا آنی کو کہنا پڑا تھا:
اسبابِ طرب را ببراز مجلس بیروں
زاں پیش کہ ناگاہ ثقیلے رسد ازور​
آپ جانتے ہیں کہ اہل ذوق کی مجلس طرب تنگ دلوں کے گوشہ خاطر کی طرح تنگ نہیں ہوتی، اُس کی وسعت میں بڑی سمائی ہے۔ نظامی گنجوی نے اس کی تصویر کھینچی تھی:
ہر چہ در جملہ بہ آفاق دریں جا حاضر
مومن و ارمنی و گبر و نصارا و یہود​
لیکن اتنی سمائی ہونے پر بھی اگر کسی چیز کی وہاں گنجائش نکل سکی تو وہ زاہد خشک کے ضخیم اور گنبد نما عمامے تھے۔ ایک عمامہ بھی پہنچ جاتا ہے تو پوری مجلس تنگ ہو جاتی ہے۔ اس لیے بعض یارانِ بے تکلف کو کہنا پڑا تھا:
در مجلس ما زاہد! ازنہار تکلف نیست
البتہ تومی گنجی، عمامہ نمی گنجد​
یہ سچ ہے کہ جن مسئلوں کو دنیا سینکڑوں برس کی کاوشوں سے بھی حل نہ کر سکی، آج ہم اپنی خوش طبعی کے چند لطیفوں سے انہیں حل نہیں کر دے سکتے۔ تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ یہاں ایک حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایک فلسفی، ایک زاہد، ایک سادھو کا خشک چہرہ بنا کر ہم اس مرقع میں کھپ نہیں سکتے جو نقاشِ فطرت کے مُو قلم نے یہاں کھینچ دیا ہے۔جس مرقع میں سورج کی پیشانی، چاند کا ہنسا ہوا چہرہ، ستاروں کی چشمک، درختوں کا رقص، پرندوں کا نغمہ، آبِ رواں کا ترنم اور پھولوں کی رنگین ادائیں اپنی اپنی جلوہ طرازیاں رکھتی ہوں۔اُس میں ہم ایک بجھے ہوئے دل اور سوکھے ہوئے چہرے کے ساتھ جگہ پانے کے یقیناً مستحق نہیں ہو سکتے۔ فطرت کی اِس بزم نشاط میں تو وہی زندگی سچ سکتی ہے جو ایک دہکتا ہوا دل پہلو میں اور چمکتی ہوئی پیشانی چہرے پر رکھتی ہو اور جو چاندنی میں چاند کی طرح نکھر کر، ستاروں کی چھاؤں میں ستاروں کی طرح چمک کر، پھولوں کی صف میں پھولوں کی طرح کھل کر اپنی جگہ نکال لے سکتی ہو۔ صائب کیا خوب کہہ گیا ہے:
دریں دو ہفتہ کہ چوں گل دریں گلستانی
کشادہ روئے تراز راز ہائے مستاں باش
تمیز نیک و بد روز گار کار تو نیست
چو چشم آئینہ، در خوب و زشت حیراں باش​
ابو الکلام​
 

موجو

لائبریرین
’’صفحہ نمبر 200‘‘
کے لیے دو باتوں‌کی درستگی ضروری ہوتی ہے۔ پہلی یہ کہ بیج درست ہو
329
گر جاں بد ہد سنگِ سیہ لعل نہ گردو
باطنیتِ اصلی چہ کند، بد گہر افتاد!(24)
دوسری یہ کہ زمین مستعد ہو۔
330
جوہر طنیتِ آدم زخمیر دگرست
تو توقع زگلَ گوزہ گراں‌می داری! (25)
چنانچہ یہاں‌بھی سب سے پہلے انہی دو باتوں کی فکر کی گئی ۔ بیج کےلیے چیتہ خاں کو کہہ کر پونا لکھوایا گیا کہ وہاں‌کے بعض باغوں کے ذخیرے بیجوں کی خوبی و صلاحیت کے لیے مشہور ہیں، لیکن زمین کی درستگی کا معاملہ اتنا آسان نہ تھا۔ احاطہ کی پوری زمین دراصل قلعہ کی پرانی عمارتوں کا ملبہ ہے۔ ذرا کھو دئیے اور پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑے اور چونے اور ریت کا بُرادہ ہر جگہ نکلنے لگتا ہے۔ درمیانی حصہ تو گویا گنبدوں اور مقبروں‌کا مدفن ہے۔ نہیں‌ معلوم کن کن فرمانرواؤں اور کیسے کیسے پری چہروں کی ہڈیوں‌سے اس خرابے کی مٹی گوندھی گئی ہے اور زبان حال سے کہہ رہی ہے۔
331
قدح بشرطَ ادب گیر، زاں‌کہ ترکپش
زکاسئہ سر جمشید و بہمن ست و قباد (26)
ناچار تختوں‌کی داغ بیل ڈال کر دو دو تین (27) فٹ زمین کھودی گئی اور باہر سے مٹی اور کھاد منگوا کر انہیں‌بھرا گیا۔ کئی ہفتے اس میں‌نکل گئے۔ جواہر لال صُبح و شام پھاوڑا اور کدال ہاتھ میں‌لیے کوہ کندن اور کاہ برآوردن میں‌لگے رہتے تھے:
332
آغشتہِ ایم ہر سرخارے بہ خونِ دل،
قانون باغبانی صحرا نوشتہ ایم! (28)
اس کے بعد آبپاشی کا مرحلہ پیش آیا اور اس پر غور کیا گیا کہ کیمسٹری کے حقائق سے فن زراعت کے اعمال میں کہاں‌تک مدد لی جاسکتی ہے۔ اس موضوع پر ارباب فن نے بڑی بڑی نکتہ آفرینیاں کیں، ہمارے قافلہ میں‌ایک صاحب بنگال کے ہیں۔ جن کی سائنٹفک معلومات پر موقعہ ہر ضرورت ہو یا نہ ہو اپنی جلوہ طرازیوں کا فیاضانہ اسراف کرتی
’’صفحہ 201‘‘
رہتی ہے۔ انہوں‌نے یہ دقیق نکتہ سنایا کہ اگر پھولوں کے پودوں‌کو حیوانی خون سے سینچا جائے، تو اُن میں‌نباتاتی درجہ سے بلند ہوکر حیوانی درجہ میں‌قدم رکھنے کا ولولہ پیدا ہوجائے گا اور ہفتوں کی راہ دنوں میں طے کرنے لگیں گے۔ لیکن آج کل جبکہ جنگ کی وجہ سے آدمیوں‌کو خون کی ضرورت پیش آگئی ہے؛ اس کے بینک کھل رہے ہیں، بھلا درختوں کے لیے کون اپنا خون دینے کے لیے تیار ہوگا۔ ایک دوسرے صاحب نے کہا، یہاں‌قلعہ کے فوجی میس (mess) (29) میں‌روز مرغیاں‌ذبح کی جاتی ہیں۔ ان کا خون جڑوں میں‌کیوں نہ ڈالا جائے؟ اس پر مجھے ارتجالآ ایک شعر سوجھ گیا۔ حالانکہ شعر کہنے کی عادت مدتیں ہوئیں بھلا چکا ہوں:
کلیوں میں‌اہتزاز ہے پروازَ‌حسن کی،
سینچا تھا کس نے باغ کو بلبل کے خون سے(30)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 50

کے ساتھ یہ پیش کش قبول بھی کر لی۔ نہ ترک میں دیر لگی تھی نہ اب اختیار میں جھجک ہوئی۔ نہ محرومی پر ماتم ہوا تھا، نہ حصول پر نشاط (26) ہوا۔ ترک کی تلخ کامی نے جو مزہ دیا تھا وہی اب اختیار کی حلاوت میں محسوس ہونے لگا تھا :

38- حریف صافی و دُوری نہ، خطا ایں جاست
تمیزِ ناخوش و خوش می کئی بلا ایں جاست (27)​

1921ء کے بعد پھر تین مرتبہ قید و بند کا مرحلہ پیش آیا لیکن ترک کی ضرورت پیش نہ آئی کیونکہ سگریٹ کے ڈبے میرے سامان میں ساتھ گئے۔ وہ دیکھے گئے، مگر روکے نہیں گئے۔ اگر روکے جاتے تو پھر ترک کر دیتا۔

اب قلم کی سیاہی جواب دینے لگی ہے اس لیے رُک جاتا ہوں :

39- قلم ایں جا رسید و سَر بشکست! (28)

ابو الکلام​
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اسلامی حکومتوں میں یہودی پوشیدہ شراب بناتے تھے اور بیچتے تھے، اس لیے پوشیدہ شراب پینے کے معنی میں "شرب الیہود" اک اصطلاح رائج ہو گئی۔

** پورا شعر یہ ہے :

الافاسفنی خمراً، و قل لی ھی الخمر
ولا لسفنی سراً فقداً مکن الجھر​

" مجھے شراب پلا اور یہ کہہ کر پلا کہ یہ شراب ہے۔ مجھے چھپا کر نہ پلا کیونکہ اب کھل کر پینا ممکن ہو گیا ہے۔ (23)
 
Top