صفحہ نمبر 81 سے
کے جانے کے بعد صورت حال پر زیادہ غور کرنے کا موقعہ ملا تو طبیعت میں ایک خلش سی محسوس ہونے لگی۔ معلوم ہوا کہ یہ بھی دراصل طبیعت کی ایک کمزوری تھی کہ حکومت کی اس رعایت سے فائدہ اٹھانے پر راضی ہو گئی۔ جب عزیز و اقرباء سے بھی ملنے اور خط و کتابت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کا حق مجرموں اور قاتلوں تک سے چھینا نہیں جاتا تو پھر یہ توقع کیوں رکھی جائے کہ وہی حکومت گھر سے سامان منگوا کر فراہم کر دے گی؟ ایسی حالت میں عزت نفس کا تقاضا صرف یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی آرزو کی جائے نہ کوئی توقع رکھی جائے۔
ز تیغِ بے نیازی تاتوانی قطعِ ہستی کن
فلک تا افگنداز پاترا، خود پیشی دستی کن
میں نے دوسرے ہی دن انسپکٹر جنرل کو خط لکھ دیا کہ فہرست کا پرچہ واپس کر دیا جائے۔ جب تک گورنمنٹ کا موجودہ طرزِ عمل قائم رہتا ہے، میں کوئی چیز مکان سے منگوانی نہیں چاہتا۔ یہاں اور تمام ساتھیوں نے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا:
دامن اس کا تو بھلا دُور ہے اس دستِ جنوں
کیوں ہے بیکار؟ گریباں تو مرا دُور نہیں!
اب چائے کے تیسرے فنجان کے لیے کہ ہمیشہ اس دورِ صبوحی کا آخری جام ہوتا ہے، ہاتھ بڑھاتا ہوں اور یہ افسانہ سرائی ختم کرتا ہوں۔ یادش بخیر، خواجہ شیراز کے پیر مے فروش کی موعظت بھی وقت پر کیا کام دے گئی ہے:
دی پیر مے فروش کہ ذکرش بخیر باد
گفتا "شراب نوش و غمِ دل ببر زیاد"
گفتم "بباد می دہدم بادہ نام و ننگ"
گفتا "قبول کن سخن و ہر چہ باد باد"
"بے خار گل نہ باشد و بے نیش نوش ہم
تدبیر چیست؟ وضع جہاں ایں چنیں فتاد"
"پرکن زبادہ جام و دما دم بگوشِ ہوش
بشنواز و حکایت جمشید و کیقباد"
ابو الکلام آزاد
8
قلعہ احمد نگر
19 اگست 1942ء
چو تخم اشک بہ کلفت سرشتہ اندمرا
بہ نا امیدئ جاود کشتہ اندمرا
ز آہِ بے اثرم داغِ خام کاریِ خویش
ز آتشتے کہ نہ دارم، برشتہ اندمرا
صدیق مکرم
وہی صبح چار بجے کا وقت ہے۔ چائے سامنے دھری ہے۔ جی چاہتا ہے آپ کو مخاطب تصور کروں اور کچھ لکھوں۔ مگرلکھوں تو کیا لکھوں؟ مرزا غالب نے رنجِ گراں نشیں کی حکایتیں لکھی تھیں؛ صبر گریز پا کی شکایتیں کی تھیں:
کبھی حکایتِ رنجِ گراں نشین لکھیے
کبھی شکایتِ صبرِ گریز پا کہیے
لیکن یہاں نہ رنج کی گراں نشینیاں ہیں کہ لکھوں، نہ صبر کی گریز پائیاں ہیں کہ سناؤں۔ رنج کی جگہ صبر کی گراں نشینیوں کا خوگر ہو چکا ہوں۔ صبر کی جگہ رنج کی گریز پائیوں کا تماشائی رہتا ہوں۔ عرفی کا وہ شعر کیا خوب ہے، جو ناصر علی نے اُس کے تمام کلام سے چنا تھا:
من ازیں رنجِ گر انبار چہ لذت یا بم
کہ بہ اندازۂ آن صبر و ثباتم دادند
اگر اس شعر کو اپنی حالت پر ڈھالنے کی کوشش کروں تو یہ ایک طرح کی خود ستائی اور خویشتن بینی کی بے صرفگی سمجھی جائے گی۔ لیکن یہ کہنے میں کیا عیب ہے کہ اس مقام کی لذت شناسی سے بے بہرہ نہیں ہوں اور اس کا آرزو مند رہتا ہوں۔ اسی عرفی نے یہ بھی تو کہا ہے:
منکر نہ تواں گشت اگر دم زنم از عشق
ایں نشہ بہ من گر نہ بود، باد گرے ہست
یہاں پہنچنے کے بعد چند دنوں تک تو صرف جیلر ہی سے سابقہ رہا۔ ایک دو مرتبہ کلکٹر اور سول سرجن بھی آئے۔ پھر جس دن انسپکٹر جنرل آیا، اُسی دن ایک اور شخص بھی اُس کے ہمراہ آیا۔ معلوم ہوا آئی ایم ایس سے تعلق رکھتا ہے۔ میجر ایم سینڈک (M. Sendak) نام ہے اور یہاں کے لیے سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوا ہے۔ میں نے جی میں کہا یہ سینڈک، مینڈک کون کہے؟ کوئی اور نام ہونا چاہیے جو ذرا مانوس اور رواں ہو۔ معاً حافظہ نے یاد دلایا کہیں نظر سے گزرا تھا کہ چاندبی بی کے زمانے میں اس قلعہ کا قلعہ دار چیتہ خان نامی ایک حبشی تھا۔ میں نے اِن حضرت کا نام چیتہ خان ہی رکھ دیا کہ اول بہ آخر نسبتے دارد:
نام اُس کا آسماں ٹھہرا لیا تحریر میں
ابھی دو چار دن بھی نہیں گزرے تھے کہ یہاں ہر شخص کی زبان پر چیتہ خان تھا۔ قیدی اور وارڈرز بھی اسی نام سے پکارنے لگے۔ کل جیلر کہتا تھا کہ آج چیتہ خان وقت سے پہلے گھر چلا گیا۔ میں نے کہا چیتہ خان کون؟ کہنے لگا میجر اور کون؟
ما ہیچ نہ گفتیم و حکایت بدر افتاد
بہرحال غریب جیلر کی جان چھٹی، اب سابقہ چیتہ خان سے رہتا ہے۔ جب جاپانیوں نے انڈیمین پر قبضہ کیا تھا تو یہ وہیں متعین تھا۔ اس کا تمام سامان غارت گیا۔ اپنی بربادیوں کی کہانیاں یہاں لوگوں کو سناتا رہتا ہے۔
اگر ما دردِ دل داریم، زاہد دردِ دیں دارد
اِس مرتبہ سب سے زیادہ اہتمام اس بات کا کیا گیا ہے کہ زندانیوں کا کوئی تعلق باہر کی دُنیا سے نہ رہے، حتیٰ کہ باہر کی پرچھائیں بھی یہاں نہ پڑنے پائے۔ غالباً ہمارا محل قیام بھی پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ اب کویا احمد نگر بھی جنگ کے پر اسرار مقامات کی طرح "سم ویر ان انڈیا" (somewhere in India) کے حکم میں داخل ہو گیا، دیکھیے ناسخ کا ایک فرسودہ شعر یہاں کیا کام دے گیا ہے:
ہم سا کوئی گمنام زمانے میں نہ ہوگا
گم ہو وہ نگیں جس پہ کھدے نام ہمارا
قلعہ کی جس عمارت میں ہم رکھے گئے ہیں، یہاں غالباً چھاؤنی کے افسر رہا کرتے تھے۔ گاہ گاہ جنگی قیدیوں کے لیے بھی اسے کام میں لایا گیا ہے۔ جنگ بوئر کے زمانے میں جو قیدی ہندوستان لائے گئے تھے اُن کے افسروں کا ایک گروہ یہیں رکھا گیا تھا۔ گزشتہ جنگ میں بھی ہندوستان کے جرمن یہیں نظر بند کیے گئے اور موجودہ جنگ میں بھی اطالوی افسروں کا ایک گروہ جو مصر سے لایا گیا تھا، یہیں نظر بند رہا۔
چیتہ خان کہتا ہے کہ ہمارے آنے سے پہلے یہاں فوجی افسروں کی ٹریننگ کے لیے ایک کلاس کھولی گئی تھی۔ کل میرے کمرے کی الماری ہٹا کر اس نے دکھایا کہ ایک بڑا سیاہ بورڈ دیوار پر بنا ہے۔ میں نے جی میں کہا، غالباً اسی لیے ہمیں یہاں لا کر رکھا گیا ہے کہ ابھی درس گاہِ جنون و وحشت کے کچھ سبق باقی رہ گغے تھے:
دریں تعلیم شد عمر و ہنوز ابجد ہمی خوانم
نہ دانم کے سبق آموز خواہم شد بہ دیوانش
احاطہ کے مغربی رخ پر جم کمرے ہیں اور جو ہمیں رہنے کے لیے دیے گئے ہیں ان کی کھڑکیاں قلعہ کے احاطے میں کھلتی ہیں۔ کھڑکیوں کے اوپر روشندان بھی ہیں۔ اس خیال سے کہ ہماری طرح ہماری نگاہیں بھی باہر نہ جا سکیں، تمام کھڑکیاں دیواریں چن کر بند کر دی گئی ہیں۔ دیواریں ہمارے آنے سے ایک دن پہلے چنی گئی ہوں گی کیونکہ جب ہم آئے تھے تو سفیدی خشک ہوئی تھی۔ ہاتھ پڑ جاتا تو اپنا نقش بٹھا دیتا اور نقش اس طرح بیٹھتا کہ پھر اٹھتا نہیں:
ہر داغِ معاصی مرا اس دامنِ تر سے
جوں حرفِ سرِ کاغذِ نم اُٹھ نہیں سکتا
دیواریں اس طرح چنی گئی ہیں کہ اوپر تلے، داہنے بائیں کوئی رخنہ باقی نہ چھوڑا۔ روشندان اس طرح چھپ گئے۔ یہ ظاہر ہے کہ اگر کھڑکیاں کھلی بھی ہوتیں تو کون سا بڑا میدان سامنے کھل جاتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ قلعہ کی سنگی دیواروں تک نگاہیں جاتیں اور ٹکرا کر واپس آ جاتیں۔ لیکن ہماری نگاہوں کی اتنی رسائی بھی خطرناک سمجھی گئی۔ روشندان کے آئینے تک بند کر دیے گئے:
ہوسِ گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے
قلعہ کے دروازے کی شب و روز پاسبانی کی جاتی ہے اور قلعہ کے اندر بھی مسلح سنتری چاروں طرف پھرتے رہتے ہیں۔ پھر بھی ہماری حفاظت کے لیے مزید روک تھام ضروری سمجھی گئی۔ ہمارے احاطہ کا شمالی رخ پہلے کھلا تھا، اب دس دس فٹ اونچی دیواریں کھینچ دی گئی ہیں اور ان میں دروازہ بنایا گیا ہے، اور اس دروازے پر بھی رات دن مسلح فوجی پہرہ رہتا ہے۔ فوج یہاں تمام تر انگریز سپاہیوں کی ہے۔ وہی ڈیوٹی پر لگائے جاتے ہیں۔ جیلر اور ایک وارڈر کے سوا جسے بازار سے سودا سلف لانے کے لیے نکلنا پڑتا ہے اور کوئی شخص باہر نہیں جا سکتا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جو کوئی دروازے پر سے گزرے سنتری کو جامہ تلاشی دے۔ وارڈر کو ہر مرتبہ برہنہ ہو کر تلاشی دینی پڑتی ہے۔ وہ جیلر کے پاس جا جا کر روتا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ پہلے دن جیلر نکلا تھا تو اس سے بھی جامہ تلاشی کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ "ایں ہم بچۂ شتر ست"۔
بازار سے سودا سلف لانے کا انتظام یوں کیا گیا ہے کہ قلعہ کے دروازے کے پاس فوجی ادارہ کا ایک دفتر ہے۔ یہاں کے سپرنٹنڈنٹ کا آفس ٹیلی فون کے ذریعہ اس سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جب بازار سے کوئی چیز آتی ہے تو پہلے وہاں روکی جاتی ہے اور اس کی دیکھ بھال ہوتی ہے۔ پھر وہاں کا متعینہ افسر سپرنٹنڈنٹ کو فون کرتا ہے کہ فلاں چیز اس طرح کی اور اس شکل میں آئی ہے۔ مثلاً ٹوکری میں ہے، رومال میں بندھی ہے یا ٹین کا ڈبہ ہے۔ اس اطلاع کے ملنے پر یہاں سے جیلر احاطہ کے دروازے پر جاتا ہے اور نشان زدہ سامان سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں اٹھوا لے جاتا ہے۔ اب یہاں پھر دوبارہ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اگر ٹوکری ہے تو اسے خالی کر کے اُس کا ہر حصہ اچھی طرح دیکھ لیا جائے گا کہ اِدھر اُدھر کوئی پرچہ تو چھپا ہوا نہیں ہے۔ شکر اور آٹے کی خاص طور پر دیکھ بھال کی جاتی ہے کیونکہ ان کی تہ میں بہت کچھ چھپا کر رکھ دیا جا سکتا ہے۔
وارڈر جو پونا سے یہاں لائے گئے ہیں، وہ آئے تو تھے قیدیوں کی نگرانی کرنے مگر اب خود قیدی بن گئے ہیں۔ نہ تو احاطہ سے باہر قدم نکال سکتے ہیں نہ گھر سے خط و کتابت کر سکتے ہیں۔ جیلر کو بھی گھر خط لکھنے کی اجازت نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے انہی راہوں سے کوئی خبر باہر پہنچ جائے۔ وہ روتا رہتا ہے کہ مجھے صرف ایک دن کی چھٹی ہی مل جائے کہ پونا ہو آؤں، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ یہاں جسے دیکھو ہائے ہائے کر رہا ہے:
شبم خرابِ مہر، کتاں سینہ چاکِ ماہ
لو اور بھی ستم زدۂ روزگار ہیں!
اس صورتِ حال نے یہاں کی ضروریات کی فراہمی میں عجیب عجیب الجھاؤ ڈال دیے ہیں۔ چیتہ خان جب دیکھو کسی نہ کسی گرہ کے کھولنے میں الجھا ہوا ہے مگر گرہیں ہیں کہ کھلنے کا نام نہیں لیتیں۔ سب سے پہلا مسئلہ باورچی کا پیش آنا تھا اور پیش آیا۔ باہر کا کوئی آدمی رکھا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ قیدی بن کر کیوں رہنے لگا؟ اور قیدیوں میں ضروری نہیں کہ باورچی نکل آئے۔ قیدی باورچی جبھی مل سکتا ہے کہ پہلے کوئی قرینہ کا باورچی ذوق جرائم پیشگی میں اتنی ترقی کرے کہ پکڑا جائے اور پکڑا بھی جائے کسی اچھے خاصے جرم میں کہ اچھی مدت کے لیے سزا دی جا سکے۔ لیکن ایسا حسن اتفاق گاہ گاہ ہی پیش آ سکتا ہے اور آج کل تو سوءِ اتفاق سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِس علاقہ کے باورچیوں میں کوئی مرد میدان رہا ہی نہیں۔ انسپکٹر جنرل جب آیا تھا تو کہتا تھا یرودا جیل میں ہر گروہ اور پیشے کے قیدی موجود ہیں مگر باورچیوں کا کال ہے۔ نہیں معلوم ان کم بختوں کو کیا ہو گیا ہے:
کس نہ دارد ذوقِ مستی، مے گساراں را چہ شد
جو قیدی یہاں جن کر کام کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں، اِن میں سے دو قیدیوں پر باورچی ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے:
ستم رسیدہ یکے، نا امیدوار یکے
حالانکہ دونوں اس الزام سے بالکل معصوم واقع ہوئے ہیں اور زبان حال سے نظیری کا یہ شعر دہرا رہے ہیں۔ داد دیجیے گا، کہاں کی بات کہاں لا کر ڈالی ہے، اور کیا بر محل بیٹھی ہے:
تا منفعل ز رنجشِ بے جا نہ بینمش
می آرم اعترافِ گناہ نہ بودہ را
چیتہ خان یہاں آتے ہی اس عقدۂ لا ینحل کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ روز اپنی طلب و جستجو کی ناکامیوں کی کہانی سناتا:
اگر دستے کنم پیدا، نمی یا بم گریباں را
ایک دن خوش خوش آیا اور یہ خبر سنائی کہ ایک بہت اچھے باورچی کا شہر میں انتظام ہو گیا ہے۔ کلکٹر نے ابھی فون کے ذریعہ خبر دی ہے کہ کل سے کام پر لگ جائے گا:
صبا بہ خوش خبری ہدہدِ سلیماں ست
کہ مژدۂ طرب از گلشنِ سبا آورد
دوسرے دن کیا دیکھتا ہوں کہ واقعی ایک جیتا جاگتا آدمی اندر لایا گیا ہے۔ معلوم ہوا طباخِ موعود یہی ہے:
آخر آمد ز پسِ پردۂ تقدیر پدید
مگر نہیں معلوم اس غریب پر کیا بیتی تھی کہ آنے کو تو آ گیا لیکن کچھ ایسا کھویا ہوا اور سراسیمہ حال تھا جیسے مصیبتوں کا پہاڑ سر پر ٹوٹ پڑا ہو۔ وہ کھانا کیا پکاتا اپنے ہوش و حواس کا مسالہ کوٹنے لگا:
اُڑنے سے پیشتر ہی مرا رنگ زرد تھا
بعد کو اس معاملہ کی جو تفصیلات کھلیں، اُن سے معلوم ہوا کہ یہ شکار واقعی کلکٹر ہی کے جال میں پھنسا تھا۔ کچھ اس کے زورِ حکومت نے کام دیا، کچھ ساٹھ روپے ماہانہ کی تنخواہ کی ترغیب نے اور یہ اجل رسیدہ دام میں پھنس گیا۔ اگر اسے بعافیت قلعہ میں فوراً پہنچا دیا جاتا تو ممکن ہے کہ کچھ دنوں تک جال میں پھنسا رہتا لیکن اب ایک اور مشکل پیش آ گئی۔ یہاں کے کمانڈنگ آفیسر سے باورچی رکھنے کے بارے میں ابھی بات چیت ختم نہیں ہوئی تھی۔ وہ پونا کے صدر دفتر کی ہدایت کا انتظار کر رہا تھا اور اس لیے اس شکار کو فوراً قلعہ کے اندر لے نہیں جا سکتا تھا۔ اب اگر اسے اپنے گھر جانے کا موقع دیا جاتا ہے تو اندیشہ ہے کہ شہر میں چرچا پھیل جائے گا اور بہت ممکن ہے کہ کوئی موقع طلب اس معاملہ سے بر وقت فائدہ اٹھا کر باورچی کو نامہ و پیام کا ذریعہ بنا لے۔ اگر روک لیا جاتا ہے تو پھر رکھا کہاں جائے کہ زیادہ سے زیادہ محفوظ جگہ ہو اور باہر کا کوئی آدمی وہاں تک پہنچ نہ سکے۔
یہ بعد از انفضال اب اور ہی جھگڑا نکل آیا!
اسے کلکٹر کے یارانِ طریقت کی عقل مندی سمجھیے یا بے وقوفی کہ اسے بہلا پھسلا کر یہاں مقامی قید خانہ میں بھیج دیا۔ کیونکہ اُن کے خیال میں قلعہ کے علاوہ اگر کوئی اور محفوظ جگہ یہاں ہو سکتی تھی تو وہ قید خانہ کی کوٹھڑی ہی تھی۔ قید خانہ میں جسے اسے ایک رات دن قید و بند کے توے پر سینکا گیا تو بھوننے تلنے کی ساری ترکیبیں بھول گیا۔ اِس احمق کو کیا معلوم تھا کہ ساٹھ روپے کےعشق میں یہ پاپڑ بیلنے پڑیں گے؟ اس ابتدائے عشق ہی نے کچومر نکال دیا تھا۔ قلہ تک پہنچتے پہنچتے قلیہ بھی طیار ہوگیا:
کہ عشق آساں نمود اول، ولے اُفتاد و مشکل ہا!
بہرحال دو دن اس نے کسی نہ کسی طرح نکال دیےتیسرے دن ہوش و حواس کی طرح صبر و قرار نے بھی جواب دے دیا۔ میں صبح کے وقت کمرے کے اندر بیٹھا لکھ رہا تھا کہ اچانک کیا سنتا ہوں، جیسے باہرایک عجیب طرح کا مخلوط شور و غل ہو رہا ہو۔ "مخلوط" اس لیے کہنا پڑا کہ صرف آوازوں ہی کا غل نہیں تھا، رونے کی چیخیں بھی ملی ہوئی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے کوئی آدمی گھٹی ہوئی آواز میں کچھ کہتا جاتا ہے اور پھر بیچ بیچ میں روتا بھی جاتا ہے۔ گویا وہ صورت حال ہے جو خسرو نے سختی کشان عشق کی سنائی تھی کہ:
قدرے گرید، وہم بر سرِ افسانہ رود!
باہر نکلا تو سامنے کے برآمدے میں ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ چیتہ خان دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا ہے، سامنے باورچی زمین پر لوٹ رہا ہے۔ تمام وارڈرز حلقہ باندھے کھڑےہیں، قیدیوں کی قطار صحن میں صف بستہ ہو رہی ہے اور ہمارے قافلہ کے تمام زندانی بھی ایک ایک کر کے کمروں سے نکل رہے ہیں۔ گویا اس خرابہ کی ساری آبادی وہیں سمٹ آئی ہے:
آباد ایک گھر ہے جہانِ خراب میں!
چیتہ خان کہہ رہا ہے، تمہیں کوئی اختیار نہیں کہ یہاں سے نکلو۔ باورچی چیختا ہے کہ مجھے پورا اختیار ہے، تمہیں کوئی اختیار نہیں کہ مجھے روکو۔ جبر و اختیار (Determination and Freewill) کا یہ مناظرہ سن کر مجھے بے اختیار نعمت خاں عالی کا وہ قطعہ یاد آ گیا جو اس نے مختار خان کی ہجو میں کہا تھا اور جس کی شرح لکھنے میں خزانہ عامرہ نے بڑی مغز پاشی کی ہے:
ایں دلیل از جبری آورد او از اختیار
ایں سخن ہم درمیاں ماندہ ست امرِ بین بین
باورچی اُن لوگوں میں معلوم ہوتا تھا جن کی نسبت کہا گیا ہے کہ:
قومے بہ جدوجہد گرفتند وصلِ دوست
مگر چیتہ خان اس پر زور دیتا تھا کہ:
قومے دگر حوالہ بہ تقدیر می کنند!
جیلر نے خیال کیا کہ حقیقت حال کچھ بھی ہو، مگر "بین الجبر و الاختیار " کا مذہب اختیار کیے بغیر چارہ نہیں۔ اُس کی نظر اشاعرہ کے "کسب" اور شوپن ہار (Schopenhauer) کے "ارادہ" پر گئی:
گناہ اگرچہ نہ بود اختیار ما حافظ
تو در طریقِ ادب کوش و گو کناہِ من ست
اس نے باورچی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح کی ہٹ ٹھیک نہیں۔ کسی نہ کسی طرح ایک مہینہ نکال دو پھر تمہیں گھر جانے کی اجازت مل جائے گی:
مرغِ زیرک چوں بہ دام افند تحمل بایدش
لیکن اس کا معاملہ اب نصیحت پذیریوں کی حد سے گزر چکا تھا:
نکل چکا ہے وہ کوسوں دیارِ حرماں سے
ایک مہینے کی بات جو اُس نے سنی تو اور کپڑے پھاڑنے لگا:
دِل سے دیوانے کو مت چھیڑ، یہ زنجیر نہ کھینچ!
شام کو چیتہ خان اس طرح آیا تو میں نے اس سے کہا کہ اس طرح مجبور کر کے کسی آدمی کو رکھنا ٹھیک نہیں اسے فوراً رخصت کر دیا جائے۔ اگر اسے جبراً رکھا گیا تو ہم اس کا پکایا ہوا کھانا چھونے والے نہیں۔ چنانچہ دوسرے دن اسے رہائی مل گئی۔ اتوار کے دن حسب معمول کلکٹر آیا تو معلوم ہوا جس دن چھوٹا تھا ، اُسی دن ا ُس نے اپنا بوریا بستر سنبھالا اور سیدھا ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا۔ پیچھے مڑ کے دیکھا نہیں:
کردہ ام توبہ، داز توبہ پشیماں شدہ ام
کافرم، باز نہ گوئی کہ مسلماں شدہ ام
یہ تو باورچی کی سرگزشت ہوئی، لیکن یہاں کوئی دن نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی نئی سرگزشت پیش نہ آتی ہو۔ باورچی کے بعد حجام کا مسئلہ پیش آیا۔ ابھی وہ حل نہیں ہوا تھا کہ دھوبی کے سوال سے سر اٹھایا۔ چیتہ خان کا سارا وقت ناخن تیز کرنے میں بسر ہوتا ہے۔ مگر رشتہ کار میں کچھ ایسی گانٹھیں پڑ گغی ہیں کہ کھلنے کا نام نہیں لیتیں۔ یہ وہی غالب والا حال ہوا کہ:
پہلے ڈالی ہے سرِ رشتۂ امید میں گانٹھ
پیچھے ٹھونکی ہے بُن ناخنِ تدبیر میں کیل
ابو الکلام