شمشاد
لائبریرین
صفحہ 51
قلعہ احمد نگر
10 اگست 1942ء
صدیق مکرم
کل صبح تک وسعت آباد بمبئے میں فرصتِ تنگ حوصلہ کی بے مایگی کا یہ حال تھا کہ 3 اگست کا لکھا ہوا مکتوبِ سفر بھی اجمل خاں صاحب کے حوالہ نہ کر سکا کہ آپ کو بھی بھیج دیں لیکن آج قلعہ احمد نگر کے حصارِ تنگ میں اس کے حوصلہ فراخ کی آسُودگیا دیکھیے کہ جی چاہتا ہے، دفتر کے دفتر سیاہ کر دوں :
نو مہینے ہوئے، 4 دسمبر 1941ء کو نینی کے مرکزی قید خانہ کا دروازہ میرے لیے کھولا گیا تھا۔ کل 9 اگست 1942ء کو سوا دو بچے قلعہ احمد نگر کے حصارِ کہنہ کا نیا پھاٹک میرے پیچھے بند کر دیا گیا۔ اس کارخانہ ہزار شیوہ ورنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تا کہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کیے جاتے ہیں تا کہ کھلیں، نو ماہ کی مدت بظاہر کوئی بڑی مدت نہین معلوم ہوتی :
(5)
داستان بے ستُون و کوہ کن
داستان بے ستُون و کوہ کن
قلعہ احمد نگر
10 اگست 1942ء
از ساز و برگِ قافلہ بے خوداں مبرس
بے نالہ ی رود جرسِ کاروانِ ما ! (1)
بے نالہ ی رود جرسِ کاروانِ ما ! (1)
صدیق مکرم
کل صبح تک وسعت آباد بمبئے میں فرصتِ تنگ حوصلہ کی بے مایگی کا یہ حال تھا کہ 3 اگست کا لکھا ہوا مکتوبِ سفر بھی اجمل خاں صاحب کے حوالہ نہ کر سکا کہ آپ کو بھی بھیج دیں لیکن آج قلعہ احمد نگر کے حصارِ تنگ میں اس کے حوصلہ فراخ کی آسُودگیا دیکھیے کہ جی چاہتا ہے، دفتر کے دفتر سیاہ کر دوں :
41- وسعتے پیدا کُن اے صحرا کہ امشب درغمش
لشکرِ آہِ من از دل کیمہ بیروں می زند (2)
لشکرِ آہِ من از دل کیمہ بیروں می زند (2)
نو مہینے ہوئے، 4 دسمبر 1941ء کو نینی کے مرکزی قید خانہ کا دروازہ میرے لیے کھولا گیا تھا۔ کل 9 اگست 1942ء کو سوا دو بچے قلعہ احمد نگر کے حصارِ کہنہ کا نیا پھاٹک میرے پیچھے بند کر دیا گیا۔ اس کارخانہ ہزار شیوہ ورنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تا کہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کیے جاتے ہیں تا کہ کھلیں، نو ماہ کی مدت بظاہر کوئی بڑی مدت نہین معلوم ہوتی :
دو کروٹیں ہیں عالم غفلت میں خواب کی! (3)