فانیش مسیح کی ہلاکت!

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

بلال

محفلین
دوستو! گستاخی کی معذرت چاہتا ہوں کیونکہ پاکستان کا سرمایہ تعمیری کام کی بجائے کافی اچھی بحث میں مصروف ہے۔۔۔ آج کل اردو محفل، محفل کی بجائے مجھے کسی پہلوان کا کھاڑا محسوس ہو رہی ہے۔ عام طور آج کل میں ایسے موضوعات کو پڑھنے تک ہی محدود رکھتا ہوں لیکن سوچا آج ہم تھوڑی بہت بات کر لیں۔
میرا ایک دوست جیل پولیس میں ہے اس سے جتنی معلومات ملتی ہے اس کے مطابق باقی کرپشن کو چھوڑ کر اگر قیدی کی خود کشی کو دیکھا جائے تو بغیر کسی ملی بھگت کے جیل میں خود کشی کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن کے قریب ہے اور اس کے علاوہ جیل سپریٹنڈنٹ کو اپنی نوکری بھی پیاری ہوتی ہے اس لئے خود کشی کی روک تھام کے لئے بہت سخت حفاظتی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ ان باتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے نہیں لگتا کہ فانیش مسیح نے خود کشی کی ہو۔۔۔
اگر پاکستان کی جیلوں میں خود کشی کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کئے جاتے ہیں تو کیا وہاں کی جیلیں پاکستان سے بھی گئی گزری ہیں جہاں بقول آپ لوگوں کے عامر چیمہ نے خود کشی کی تھی؟
باقی دوستو لگے رہو، خوب لاحاصل بحث کرو، میں‌آپ کو نہیں روکتا لیکن میرا ایک مشورہ ہے کہ کسی کے لیڈر، پیر و مرشد یا جس کو کچھ لوگ عظیم ہستی سمجھتے ہیں کی غلط سوچ اور اقدامات کی آپ نشان دہی کرو لیکن اسے گالی نہ دو۔ چاہے وہ لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح ہو، موہن داس کرم چند گاندھی ہو یا کوئی اور ہو۔ میری نظر میں اسلام اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔ باقی میری نظر میں کسی کو پاگل، احمق اور کمینہ وغیرہ کہنا بھی گالی کے ذمرہ میں آتا ہے۔
نوٹ:- یہ میری سوچ اور چند خیالات تھے۔ جن سے آپ کو اختلاف کا مکمل حق ہے۔ ذاتیات پر اترے بغیر میری سوچ اور خیالات کو جو چاہے کہو میں کسی پر اعتراض نہیں کروں گا اور نہ ہی اس موضوع پر مزید کچھ کہوں گا۔ جم کے کھیلو!۔۔۔ لگے رہو!۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھے رستے پر چلائے۔۔۔آمین
 

گرائیں

محفلین
اب تک کی اطلاعات جیل حکام نے فراہم کی ہیں یا لاش کا کوئی پوسٹ مارٹم بھی ہوا ہے؟ اور لکھ کر رکھو کہ یہ کبھی بھی نہیں ہوگا کہ کیونکہ یہ 'قومی مفاد' کے خلاف ہوگا۔ اور عامر چیمہ کو بزدل کس نے کہا ہے؟ اور جرمنی والوں کو پوسٹ‌ مارٹم میں رد و بدل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں کی جیلوں میں مسلمان دہشت مفت کی کھا کھا کر پل رہے ہیں اور انہیں ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے رہا بھی کیا جاتا رہا ہے۔ عامر چیمہ نے سبزی کاٹنے والی چھری سے کیا کارنامہ دکھانا تھا، یہ تو پاکستان کے نام نہاد صحافیوں نے اپنی زرد صحافت کی دکان چمکانے کی خاطر جھوٹی کہانیاں گھڑی ہوئی ہیں۔




درست فرمایا آپ نے۔ جرمنی میں پیش آنے والا واقعہ انتہا پسندی کا ثبوت تھا جبکہ پاکستان میں آئے دن توہین رسالت، توہین اسلام کے نام پر جو دشمنیاں چکائی جا رہی ہیں اور جو انسانوں کا قتل عام جاری ہے، اس کے لیے اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ سازش ہے۔
توہین رسالت کے نام نہاد قانون پر کسی اور تھریڈ‌ میں بات ہو رہی ہے۔ یہاں یہ موضوع نہیں ہے۔

میں شائد اس بحث میں نہ کودتا۔ میں ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ اس مسئلے میں نہ پڑوں، مگر نبیل، ساجد کی بات درست ہے، آپ غالبا اپنا مافی الضمیر بیان نہیں کر پا رہے ارر غلط الفاظ چنتے جا رہے ہیں۔ اور معاملہ بگڑتا جا رہا ہے۔

توہین رسالت کا قانون نام نہاد نہیں ہے۔ خدارا اپنے اختلاف کا زور قانون پر مت ڈالئے۔ توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی بات لیجئے، اس قانون کو نام نہاد مت کہئے۔
توہین رسالت کا قانون تو ہر جگہ ہے۔ کسی بھی مذہب کا ماننے والا کبھی بھی اپنے بڑوں کی توہین برداشت نہیں کرے گا۔ لوگوں کی عبادت گاہیں اور مذہبی علامات تشدد کا نشانہ کیوں بنتی ہیں، صرف اس لئے کہ حملہ آوروں کو علم ہوتا کہ ان چیزوں کے نقصان پہنچانے سے مخالف فریق کو زک پہنچائی جا سکتی ہے۔

آپ خا مخا گرمی کھا رہے ہیں۔ ٹھنڈے دل سے سوچئے، یہ قانون کا غلط استعمال ہے جس میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ اس لئے کہ کوئی بھی اس کے غلط استعمال کے بارے میں آواز نہیں اٹھاتا۔ جو بھی آواز اٹھا تا ہے، وہ اپنی روشن خیالی کا ثبوت دینے کے لئے اس قانون کو برا بھلا کہنے لگ جاتا ہے۔ مجھے علم ہے توہین رسالت پر بحث کسی اور دھاگے میں ہو رہی ہے، مگر آپ کےالفاظ جو مجھے برے لگے ، یہاں موجود ہیں۔
اُمید ہے آپ ٹھنڈے دل سے اپنے روئیے پر غور کریں گے۔
 

فخرنوید

محفلین
وہ ایسا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ شاتم رسول پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ اعدادوشمار بھی یہی ثابت کرتے ہیں۔ اسی لیے آئے روز کوئی نہ کوئی قتل توہین رسالت کے نام پر ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان میں عامر چیمہ اور علم الدین جیسے مجرموں اور قاتلوں کو ہیرو بنانا ہی اس مذہبی جنونیت کا باعث بنا ہے۔
جہاں تک اپنے گریبان میں جھانکنے کا تعلق ہے تو میں آپ کی بندر اور کتے والی ٹیبلائڈ صحافت کا آئینہ دکھا دوں تو شاید آپ بولنے کے لائق نہیں رہیں گے۔ آپ جیسے صحافی اشاعت بڑھانے کی خاطر ہر غلاظت شائع کرنے کو بے تاب ہوتے ہیں، اور ناٹک رچاتے ہیں ناموس رسالت کے تحفظ کا۔

یہ تو سرکار آپ نے غصہ نکالا ہے۔ موضوع کوئی چل رہا ہے۔ بات آپ کوئی کر رہے ہیں۔

ماروں گھٹنا پھوڑوں آنکھ
اگر بات کا جواب دینا نہیں آرہا تھا تو ویسے ہی چھوڑ دیتے بات کو۔
 

فخرنوید

محفلین
اس پر تو کوئی نہیں بولتا ہے۔

مسلمان کا خون بہے تو کسی کو رحم نہیں آتا کوئی ظلم خلاف آواز نہیں اٹھا تا۔

story5.gif
 

نبیل

تکنیکی معاون
فخر نوید، آپ نے پھر وہی اعلی حضرت نیٹورک کے ہتھکنڈنے اپنانے شروع کر دیے ہیں۔ موضوع بدلنے کے لیے ذاتیات پر اتر آئے ہیں اور غیر متعلقہ گرافک مواد کا ڈھیر لگانا شروع کر دیا ہے۔ جرمنی والے واقعے پر یہاں فورم میں کئی تھریڈ موجود ہیں۔ اور امت کی اس رپورٹ میں وہی بے سروپا اور زرد صحافت کا نمونہ دکھایا گیا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں شائد اس بحث میں نہ کودتا۔ میں ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ اس مسئلے میں نہ پڑوں، مگر نبیل، ساجد کی بات درست ہے، آپ غالبا اپنا مافی الضمیر بیان نہیں کر پا رہے ارر غلط الفاظ چنتے جا رہے ہیں۔ اور معاملہ بگڑتا جا رہا ہے۔

توہین رسالت کا قانون نام نہاد نہیں ہے۔ خدارا اپنے اختلاف کا زور قانون پر مت ڈالئے۔ توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی بات لیجئے، اس قانون کو نام نہاد مت کہئے۔
توہین رسالت کا قانون تو ہر جگہ ہے۔ کسی بھی مذہب کا ماننے والا کبھی بھی اپنے بڑوں کی توہین برداشت نہیں کرے گا۔ لوگوں کی عبادت گاہیں اور مذہبی علامات تشدد کا نشانہ کیوں بنتی ہیں، صرف اس لئے کہ حملہ آوروں کو علم ہوتا کہ ان چیزوں کے نقصان پہنچانے سے مخالف فریق کو زک پہنچائی جا سکتی ہے۔

آپ خا مخا گرمی کھا رہے ہیں۔ ٹھنڈے دل سے سوچئے، یہ قانون کا غلط استعمال ہے جس میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ اس لئے کہ کوئی بھی اس کے غلط استعمال کے بارے میں آواز نہیں اٹھاتا۔ جو بھی آواز اٹھا تا ہے، وہ اپنی روشن خیالی کا ثبوت دینے کے لئے اس قانون کو برا بھلا کہنے لگ جاتا ہے۔ مجھے علم ہے توہین رسالت پر بحث کسی اور دھاگے میں ہو رہی ہے، مگر آپ کےالفاظ جو مجھے برے لگے ، یہاں موجود ہیں۔
اُمید ہے آپ ٹھنڈے دل سے اپنے روئیے پر غور کریں گے۔

منیر، یہ روشن خیال لوگ کون ہوتے ہیں؟ اور کیا ناموس رسالت یا ناموس اسلام کے نام پر ناحق قتل کی مذمت کرنا روشن خیالی کے ضمن میں آتا ہے؟ جہاں تک اس قانون کا ذکر ہے تو اس طرح کے قانون محض وچ ہنٹنگ کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ اسی فورم پر کچھ دانشور حضرات ہجوم کے ہاتھوں قتل کی یہ توجیہ پیش کر چکے ہیں کہ چونکہ عدالتیں ایسے لوگوں کو چھوڑ دیتی ہیں، اس لیے مجبوراً لوگوں کو خود قانون کو ہاتھ میں لینا پڑتا ہے۔
اس تھریڈ کا جائزہ لیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ کس طرح ایک انسان کے قتل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی فورم پر توہین رسالت کے الزام پر لوگوں کے قتل اور ذبح کیے جانے کے بارے میں پوسٹ کیا گیا ہے، اور ہر مرتبہ یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ ناحق قتل کی مذمت کرنے کی بجائے اصل واقعے پر پردہ ڈالنے کی کوشش شروع کر دی جاتی ہے۔
 

فخرنوید

محفلین
سارے پاکستان کے صحافی زرد صحافت کے علمبردار ہیں۔

بس یہاں کے کچھ لوگوں کو صحافت کی اعلیٰ اقدار کا علمبردار قرار دیا جانا چاہیے۔

آپ کی تان صرف پاکستانیوں کی زرد صحافت پر ہی ٹوٹتی ہے۔

بات کا جواب دینا نہیں آتا ہے اور کہہ دیا ہے جی ذاتیات پر اتر آیا ہوں۔ میں نے کونسا کیچڑ آپ کی ذات پر اچھالا ہے حضور۔

گستاخی معاف : بڑا احمقانہ جواب دیا ہے آپ نے ویسے یہ
 

نبیل

تکنیکی معاون
دوستو! گستاخی کی معذرت چاہتا ہوں کیونکہ پاکستان کا سرمایہ تعمیری کام کی بجائے کافی اچھی بحث میں مصروف ہے۔۔۔ آج کل اردو محفل، محفل کی بجائے مجھے کسی پہلوان کا کھاڑا محسوس ہو رہی ہے۔ عام طور آج کل میں ایسے موضوعات کو پڑھنے تک ہی محدود رکھتا ہوں لیکن سوچا آج ہم تھوڑی بہت بات کر لیں۔
میرا ایک دوست جیل پولیس میں ہے اس سے جتنی معلومات ملتی ہے اس کے مطابق باقی کرپشن کو چھوڑ کر اگر قیدی کی خود کشی کو دیکھا جائے تو بغیر کسی ملی بھگت کے جیل میں خود کشی کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن کے قریب ہے اور اس کے علاوہ جیل سپریٹنڈنٹ کو اپنی نوکری بھی پیاری ہوتی ہے اس لئے خود کشی کی روک تھام کے لئے بہت سخت حفاظتی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ ان باتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے نہیں لگتا کہ فانیش مسیح نے خود کشی کی ہو۔۔۔
اگر پاکستان کی جیلوں میں خود کشی کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کئے جاتے ہیں تو کیا وہاں کی جیلیں پاکستان سے بھی گئی گزری ہیں جہاں بقول آپ لوگوں کے عامر چیمہ نے خود کشی کی تھی؟
باقی دوستو لگے رہو، خوب لاحاصل بحث کرو، میں‌آپ کو نہیں روکتا لیکن میرا ایک مشورہ ہے کہ کسی کے لیڈر، پیر و مرشد یا جس کو کچھ لوگ عظیم ہستی سمجھتے ہیں کی غلط سوچ اور اقدامات کی آپ نشان دہی کرو لیکن اسے گالی نہ دو۔ چاہے وہ لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح ہو، موہن داس کرم چند گاندھی ہو یا کوئی اور ہو۔ میری نظر میں اسلام اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔ باقی میری نظر میں کسی کو پاگل، احمق اور کمینہ وغیرہ کہنا بھی گالی کے ذمرہ میں آتا ہے۔
نوٹ:- یہ میری سوچ اور چند خیالات تھے۔ جن سے آپ کو اختلاف کا مکمل حق ہے۔ ذاتیات پر اترے بغیر میری سوچ اور خیالات کو جو چاہے کہو میں کسی پر اعتراض نہیں کروں گا اور نہ ہی اس موضوع پر مزید کچھ کہوں گا۔ جم کے کھیلو!۔۔۔ لگے رہو!۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھے رستے پر چلائے۔۔۔آمین

بلال، ایک احمق کی حماقت کو حماقت کہنا گالی نہیں ہے۔ اور کیا آپ کے خیال میں جرمنی کی جیلیں اتنی گئی گزری ہیں کہ وہاں صرف اخبار کے دفتر میں چھری لے جانے کے جرم میں پکڑے جانے والے کو جیل حکام تشدد کرکے مار ڈالیں گے؟ عامر چیمہ کا باقاعدہ پوسٹ مارٹم ہوا تھا اور اس وقت پاکستان کے سے بھیجے گئے دو افسران موقعے پر موجود تھے۔ اور پوسٹ مارٹم سے عامر چیمہ کی خودکشی ہی ثابت ہوئی ہے۔ جرمنی کی جیلوں میں 11 ستمبر 2001 کے واقعے کی پلاننگ میں شریک رہنے والے افراد بھی قید میں رہے ہیں اور انہیں اپنی صفائی کا مکمل موقعہ فراہم کیا گیا تھا۔ عامر چیمہ کو ہیرو بنا دینا محض پاکستان کے ان نام نہاد صحافیوں کا کام ہے جو صرف اپنی اشاعت کو فروغ دینے کے لیے اس طرح کی سنسنی خیزی پھیلاتے ہیں۔
 

کعنان

محفلین
فانیش مسیح کی خود کشی محض جیل حکام کی خانہ پری کی کاروائی ہے، اور باغیرت مسلمان یقیناً اس معاملے کی تحقیقات کبھی نہیں چاہیں گے، کیونکہ یہ 'قومی مفاد' کے خلاف ہے۔ لیکن جس احمق عامر چیمہ کی خود کشی اس کے پوسٹ مارٹم سے بھی ثابت ہو گئی تھی اس کو ضرور قومی ہیرو کا درجہ دینا ضروری ہے۔



السلام علیکم

جناب نبیل صاحب قطع کلامی کی معذرت چاہتا ہوں

ناچ نہ جانے آنگن لٹیرا
اگر آپ کو شہید کے نام سے الرجی ھے تو پھر اس پر میں کوئی تزکرہ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ سمجھانا بہت مشکل کام ھے کیونکہ اگر وہ شہید ھے یا نہیں ھے تو یہ فیصلہ اللہ سبحان تعالی نے کرنا ھے آپ اپنا بلڈ پریشر کیوں بڑھا رہے ہو۔

کم از کم جرمنی قوم کی ہسٹری تو پڑھ لیتے آپ تاکہ آپ کو حقیقت کا پتہ لگانے میں آسانی ہوتی۔ 25 ملک جو یورپین یونین میں شامل ہیں ان میں سے جو 24 ہیں وہ بھی جرمنیوں کو پسند نہیں کرتے اور نہ جرمنی میں وزٹ کرنا۔ مگر مجبوری ھے ان کی۔

پاکستان کی جیل میں بندہ قتل ہو جائے تو دنیا کا کوئی ملک ثابت نہیں کر سکتا کہ اس کی موت پولیس کے ہاتھوں ہوئی ھے یا خود کشی تھی۔
ابھی کچھ دن پہلے ایک مسلم خاتون کو جرمنی کورٹ میں ایک جرمنی نے عدالت میں چھڑیاں مار مار کے قتل کر دیا اور اس کا خاوند اس کو بچاتے بچاتے خود بھی زخمی ہو گیا تھا آپ نے شائد وہ خبر بھی نہیں پڑھی ہو گی۔ اس خبر پر ٹھیک آپکی طرح کسی بھائی نے لکھا ہوا تھا کہ یہ پاکستانی اخباروں کی خبر ھے کسی کو کیا پتہ کہ ایسا ہوا ھے تو میں نے اسے جرمنی کے 7 نیوز پیپر کے لنک دئے تھے جس میں وہ خبر تھی حالانکہ آپ کہو گے جرمنی تو آتی نہیں تو وہ خبر کیسے پڑھی ہو گی تو اس میں جرمنی عدالت سے لی گئی تصاویر بھی تھیں اور گوگل ٹرانسلیٹر میں وہ نیوز ڈالو تو زیادہ نہیں کچھ تو سمجھ لگ جاتی ھے معاملے کی۔ خیر آگے چلتے ہیں

چلو آپ کو ایک اور سٹوری بتاتا ہوں کہ یہ کیسے ثابت کرتے ہیں کہ پولیس والے جب کسی کو مارتے ہیں تو اسے رپورٹ میں کیا لکھتے ہیں۔


یہ سٹوری ان ریکارڈ ھے اور جس نے بھی لائف دیکھی ہوئی ھے اگر کوئی ممبر لندن سے ھے تو وہ بھی اس کی تصدیق کر دے گا اور میں اس پر کچھ لنک دے دوں گا آپ کو تاکہ آپ کا آسانی ہو جائے کہ چیمہ نے خود کشی کی تھی یا جیل پولیس نے اسے مارا تھا۔
7جولائی 2005 کو لندن میں 3 ٹرینیں اور ایک بس کو بمبوں سے اڑا دیا گیا تھا۔
پھر 21 جولائی 2005 کو ایک بس کو دوبارہ اڑانے کی کوشش کی گئی مگر اس لڑکے کا بم بلاسٹ نہیں ہوا
پھر اچانک ایک دن 22 جولائی کو صبح شور ڈلا کہ فلاں ٹرین سٹیشن میں گولیاں چل رہی ہیں اور تخریب کار جو بس میں بلاسٹ نہیں ہوا اس کے پیچھے پولیس پڑی ہوئی ھے وہ گرل پھلانگتا ہوا جا رہا ھے اور گولیاں چلا رہا ھے اسی طرح کمنٹری ہوئی اور پھر خبر آ گئی اس معاملے کا ماسٹر مائنڈ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
بس وہ مارا گیا اس کے بعد خبر ختم کیا ہوا کیسے ہوا وہ کون تھا کچھ نہیں معلوم یہ خبر دے دی کہ ہم نے پورے گینگ کو پکڑنا ھے اسی لئے کچھ نہیں بتا سکتے۔

کچھ دن بعد اچانک خبر نکل آئی اسی آپریشن کا ایک پولیس مین اس نے میڈیا کو راز فاش کر دیا کہ انہوں نے بے گناہ بندہ قتل کر دیا ھے وہ نارمل مسافر تھا اور جو اصلی مجرم ہیں وہ ان کو کچھ پتہ نہیں اور ہمارا ملک ابھی بھی خطرہ میں ھے۔

اس کے بعد ان کو پوری دنیا میں اتنی بدنامی دیکھنی پڑی کہ کیا بتائیں ۔ اس لڑکے کا نام jean charles de menezes تھا اور وہ برزیلین نیشنل تھا
اس کے بعد اس کی والدہ اور والد نے اپنی گورنمنٹ کے ذریعے یہاں آ کر ان کی یو۔ کے گورنمنٹ کی اینٹ سے اینٹ ہلا دی تھی۔
ان کی ایک ہی ڈیمانڈ تھی کہ سکاٹلینڈ یارد پولیس کا چیف مسٹر این بلئر کو کورٹ میں لانا ھے۔ یوکے گورنمنٹ نے ان سے ہر طرح کی مالی تعاون کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے پھر کافی مہینوں بعد معاملہ اندر ہی اندر تہہ ہو گیا شائد ہو سکتا ھے ان کے پیسے مل گئے ہوں اس معاملے میں پولیس چیف ہی اکیلا نہیں تھا پوری گورنمنٹ انوالو تھی کیونکہ اس وقت حالات ہی اس طرح کے بن گئے ہوئے تھے۔

تو نبیل بھائی کونسی پولیس اور کونسا پھندا

http://www.dailymail.co.uk/news/art...-final-journey-Stockwell-shooting-victim.html

http://www.telegraph.co.uk/news/319...ared-for-pursuing-failed-suicide-bombers.html

جناب یہ پوری رپورٹ آپ پڑھ سکتے ہیں آسانی سے

July 7 2005
Attack on London's transport system kills 52 people.

July 21 2005
Another coordinated attack fails when none of the bombs fully explode.

July 22 2005
10.06am: Jean Charles de Menezes, a 27-year-old electrician from Brazil, is killed by armed police at Stockwell tube station.

3.30pm: Sir Ian Blair, the head of the Metropolitan police, tells a press conference: "The information I have available is that this shooting is directly linked to the ongoing and expanding anti-terrorist operation."

July 23 2005
The Met tells the media that the man shot dead at Stockwell is not connected to the July 21 attacks.

July 25 2005
The inquest into the killing of De Menezes opens at Southwark coroners court.

July 29 2005
The funeral of De Menezes is held in his home town of Gonzaga, Brazil.

November 2005
An Independent Police Complaints Commission investigation called Stockwell Two is announced into the conduct of Blair following the killing of De Menezes.

January 2006
The first IPPC report, Stockwell One, into the killing is handed over to the Crown Prosecution Service (CPS). Its contents are withheld from the public.

July 2006
The CPS announces that there is insufficient evidence to prosecute any of the officers involved in the killing of De Menezes. But the CPS says it will prosecute the Metropolitan police under health and safety laws for breaching the duty of care it owed the dead man.

September 2006
The inquest into the death of De Menezes is adjourned until after the prosecution of the Metropolitan police under health and safety laws.

May 2007
The IPCC announces that none of the 11 frontline firearms and surveillance officers involved in the shooting will face a disciplinary tribunal.

August 2 2007
The Stockwell Two report finds that by 3pm on the day of the shooting - less than five hours after Jean Charles de Menezes was shot - senior Metropolitan police officers had "strong suspicions" that a Brazilian national had been mistakenly killed.

It says Blair was misled by Andy Hayman, Britain's most senior counterterrorism officer, in the aftermath of the shooting as to the identity of the man killed by police. It says Mr Hayman briefed reporters on the day of the shooting that the dead man was not one of the July 21 suspects but failed to tell Blair the same thing in a meeting 30 minutes later.

The report also questions why Blair was kept "almost totally uninformed" for at least 24 hours about fears that the police had got the wrong man.

September 6 2007
Members of the Metropolitan Police Authority criticise Blair for not knowing "where the truth lay" over the shooting dead of De Menezes. They say it was "incomprehensible" that he was not aware on the day of the shooting of serious fears among his own officers that an innocent man had been gunned down.

October 1 2007
At the opening of the case against the Met under health and safety laws, the prosecution alleges the police planned the operation that led to the shooting of De Menezes so poorly that it "invited disaster" and needlessly put the public at risk.

November 1 2007
An Old Bailey jury finds the Metropolitan police guilty of failing in its duty of care to De Menezes and is fined £175,000, with £385,000 costs. Blair insists he will not resign, despite calls from opposition parties, as there is "no evidence at all of a systematic failure" by the Metropolitan police.

November 7 2007
Blair tells members of the London assembly he has no intention of resigning while he continues to receive the support of the government and his senior officers. The assembly passes a motion of no confidence in him.

November 8 2007
Stockwell One, the first IPCC investigation into the shooting of De Menezes, which was kept from the public, is published. It identifies 16 recommendations for operational changes to improve public safety in future anti-terrorist operations, including the urgent introduction of police radios that work underground, and criticises flaws in the police command structure.

November 22 2007
The Met police authority rejects a vote of no confidence in Blair.

December 4 2007
Hayman resigns following allegations about his personal conduct.

December 12 2007
The IPCC says Hayman will be reprimanded for his role in the aftermath of the fatal shooting of De Menezes.

December 21 2007
The IPCC announces that no police officer will face disciplinary charges over the case.

July 18 2008
A Met police authority report says the Met has not learned from De Menezes's death, describing parts of the force's reaction to the disaster as "complacent".

September 22 2008
The inquest into the shooting of De Menezes begins at London's Oval cricket ground.

October 2 2008
Blair resigns as Metropolitan police commissioner.

October 13 2008
The IPCC launches an investigation after a Metropolitan police officer, known only as Owen, tells the inquest he deleted parts of a record he made about the decisions and options being considered by senior officers as De Menezes was being followed by police.

December 2 2008
The coroner conducting the inquest tells the jury they are not permitted to return a verdict of unlawful killing. He leaves two possible options on the table – lawful killing or an open verdict.



کوئی مرے یا شہید ہو مگر چیمہ کی میت پر غلباً ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شریک ہوئے تھے ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے پتہ نہیں کیا ہو گا ۔

والسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
کعنان، آپ اس سے پہلے بھی اس طرح کے تھریڈ کو غیر متعلقہ اور طویل پوسٹس کرکے ہائی جیک کر چکے ہیں۔ یہاں اگر آپ فانیشن مسیح کی ہلاکت پر معلومات شئیر کر سکتے ہیں تو ضرور کریں۔ مجھے آپ کی بے سروپا کہانیوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی مجھے اس بات سے غرض ہے کہ آپ کس کو شہید سمجھتے ہیں۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

نبیل بھائی صاحب میں اب کوشش کرتا ہوں کہ کمنٹس ایک ہی بار دوں اور اسی میں ساری تفصیل لکھ دوں ایک ہی پوسٹ میں بار بار کمنٹس دینا اچھا نہیں ہوتا
آپ کا شکریہ جو آپ نے دعوت دی میں اس دھاگہ میں ڈائریکٹ نہیں آیا کہیں کسی نے اپنی سائٹ میں یہ لنک دیا ہوا تھا اور ساتھ میں کچھ خاص اس بھائی نے کچھ لکھا ہوا تھا، تو اس لنک کو دبایا اور یہاں آ گیا۔ خیر میں نے جو پوسٹ میں لکھ دیا ھے وہ سمجھنے کے لئے کافی ھے اس سے زیادہ لکھوں گا تو بات میں وزن ختم ہو جائے گا۔

شکریہ۔

والسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
جی بہتر۔ میرا مقصد بھی صرف معاشرے کے ایک تاریک پہلو اور ایک ناحق قتل کی جانب توجہ دلانا تھا۔
 

گرائیں

محفلین
منیر، یہ روشن خیال لوگ کون ہوتے ہیں؟ اور کیا ناموس رسالت یا ناموس اسلام کے نام پر ناحق قتل کی مذمت کرنا روشن خیالی کے ضمن میں آتا ہے؟ جہاں تک اس قانون کا ذکر ہے تو اس طرح کے قانون محض وچ ہنٹنگ کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ اسی فورم پر کچھ دانشور حضرات ہجوم کے ہاتھوں قتل کی یہ توجیہ پیش کر چکے ہیں کہ چونکہ عدالتیں ایسے لوگوں کو چھوڑ دیتی ہیں، اس لیے مجبوراً لوگوں کو خود قانون کو ہاتھ میں لینا پڑتا ہے۔
اس تھریڈ کا جائزہ لیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ کس طرح ایک انسان کے قتل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی فورم پر توہین رسالت کے الزام پر لوگوں کے قتل اور ذبح کیے جانے کے بارے میں پوسٹ کیا گیا ہے، اور ہر مرتبہ یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ ناحق قتل کی مذمت کرنے کی بجائے اصل واقعے پر پردہ ڈالنے کی کوشش شروع کر دی جاتی ہے۔

میں آپ کی ہر بات سے متفق ہوں نبیل۔ میرا ذاتی نقطہ نظر بھی یہی ہے، مگر کیا صرف اس بنا پر کہ قانون کا استعمال غلط ہو رہا ہے، ہم کسی قانون کو ہٹا دیں؟
کیا صرف اس وجہ سے کہ چھری سے انسان کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے ، ہم چھری کا سبزی کاٹنے میں استعمال بھی بند کر دیں؟ نا بھائی نا۔

اگر اس قانون کا برا استعمال کرنے والے ایک انتہا پر موجود ہیں تو اس کی مخالفت کرنے والے بھی درسری انتہا پر۔

فانوش مسیح اور دوسرے مظلوم عیسائیوں کےساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مذمت ہی کی جاسکتی ہے ، اس کی حمایت ہر گز نہیں، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہر عیسائی شاتم رسول بے گناہ ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم یہسمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایسے معاملوں میں قانون ہاتھ میں لے کر اچھا نہیں کر رہے۔
جو لوگ یہ بودی دلیل دیتے ہیں کہ عدالتیں ایسے لوگوں کو چھوڑدیتی ہیں جس کی بنا پر عوام کو خود فیصلہ کرنا پڑت اہے، وہ شائد اس بات سے واقف نہیں کہ اگر عدالت ایک فیصلہ کر ہی رہی ہے تو وہ آخرت میں خود جوابدہ بھی ہو گی، ٹھیک فیصلہ ہو یا بے انصافی کی گئی ہو۔ ہمیں اس بات کا مکلف نہیں بنایا گیا کہ ایسے ایک شخص کو ہم ہر حالت میں سزا دے کر رہیں۔
جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ سب اندھے اعتقاد کا نتیجہ ہے، جس کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ خون بہانے میں اسلام ہے، حال آنکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقام سے زیادہ معاف بھی تو کیا تھا۔
 

گرائیں

محفلین
روشن خیال لوگوں کی مثال آپ کے سامنے سلمان تاثیر اورعاصمہ جہانگیر جیسے لوگوں کی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
منیر، اب توہین رسالت قانون ختم بھی کر دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اب کسی پر بھی قران کے صفحات کی بے حرمتی یا توہین رسالت کا الزام لگا کر اسے mob justice کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دینا قوم کا شعار بن چکا ہے۔ یہاں عام عوام اور طالبان میں کوئی فرق نہیں رہتا ہے۔ جہاں تک توہین رسالت قانون کی افادیت اور ضرورت کا تعلق ہے تو یہ محض ایک مخصوص سوچ رکھنے والے طبقے کی بالادستی کی خواہش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں اس موضوع پر کسی اور تھریڈ میں ضرور گفتگو کرتا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہاں اس پر تعمیری گفتگو ممکن ہے۔

سلمان تاثیر کے بارے میں میں کچھ کہنا پسند نہیں کرتا، البتہ میں بے بسوں اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے عاصمہ جہانگیر کی عزت کرتا ہوں۔
 

کعنان

محفلین
وہ سب اندھے اعتقاد کا نتیجہ ہے، جس کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ خون بہانے میں اسلام ہے، حالآنکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقام سے زیادہ معاف بھی تو کیا تھا۔

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

محترم گرائیں

اس دھاگہ میں بہت سے اشو کھل چکے ہوئے ہیں جن کو سمیٹنا خاصی مشکل ھے لیکن پھر بھی جو باتیں آپ کی لکھی ہوئی میں نے کوٹ کی ہیں ان پر اگر غور کیا جائے تو سب سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں میں ان پر متفق ہوں۔

والسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں ایک مرتبہ پہلے بھی درخواست کر چکا ہوں کہ اس تھریڈ پر صرف موضوع پر رہ کر گفتگو فرمائیں۔ مذکورہ قانون پر دوسرے کئی تھریڈز میں گفتگو ہو رہی ہے، وہاں یہ معلومات شئیر کی جا سکتی ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ساجد، اصل میں یہ موضوع پر واپس لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ غیر متعلقہ پیغامات کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔
 

ساجد

محفلین
جی نبیل ،بہت شکریہ ، رہنمائی کرنے کا۔ دراصل میں نے دوسرا دھاگہ دیکھا نہیں تھا جس کے پیغامات کو موضوعی اعتبار سے اس دھاگے میں ضم کیا گیا ہے۔
دوستوں سے اب بھی گزارش ہے کہ توہین رسالت کے قانون والی بحث یہاں نہ لائیں ، البتہ فانیش کی ہلاکت کے تعلق سے ضمنی طور پہ اس کا حوالہ (کسی بات کی وضاحت کے لئیے ضروری ہوتو) دیا جا سکتا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top