جاسم محمد
محفلین
پٹواریاں دے ٹویٹر اکاؤنٹس تے چیکاں ویکھ کے چُس بوتی آئی جے!
آخری تدوین:
پٹواریاں دے ٹویٹر اکاؤنٹس تے چیکاں ویکھ کے چُس بوتی آئی جے!
شکریہ۔ ویڈیو مل گئی ہے۔ اُس وقت بھی فردوس آپا نےانفارمیشن منسٹری سے ہی استعفیٰ دیا تھا۔وہ پی پی پی کے دور کی فوٹو ہے جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے اور فردوس عاشق اعوان نے رو رو کر استعفیٰ دیا تھا کہ لوگ انہیں کام نہیں کرنے دیتے۔
ماضی میں لگنے والے مارشل لاؤں کے بعد فوجی حکمران ان سیاست دانوں کی تلاش کرتے تھے جن کو آلہ کار بنا کر حکومت چلائی جا سکے۔ اس بار ی گیم الٹ گئی ہے۔ اب سلیکٹڈ سول حکومت کے ذریعہ جرنیل کابینہ اور دیگر اہم عہدوں پر فٹ کئے جارہے ہیں تاکہ حکومت کا پہیہ چل سکے۔جس ایک پیج پر سب ہوا کرتے تھے، اب اُس پر صرف اُن کا قبضہ ہوتا جارہا ہے مختاریا!!! حکومت دس دی نئیں پئی۔
اس باری ہی تو گیم، سیٹ اینڈ میچ درست انداز میں فکس ہوا ہے بادشاہو!!!ماضی میں لگنے والے مارشل لاؤں کے بعد فوجی حکمران ان سیاست دانوں کی تلاش کرتے تھے جن کو آلہ کار بنا کر حکومت چلائی جا سکے۔ اس بار ی گیم الٹ گئی ہے۔ اب سلیکٹڈ سول حکومت کے ذریعہ جرنیل کابینہ اور دیگر اہم عہدوں پر فٹ کئے جارہے ہیں تاکہ حکومت کا پہیہ چل سکے۔
اس باری ہی تو گیم، سیٹ اینڈ میچ درست انداز میں فکس ہوا ہے بادشاہو!!!
پیج اونر تو وہی ہے جو تھالیکن صد شکر کے سب ادارے ایک پیج پر تو ہیں ناں۔
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہےلیکن صد شکر کے سب ادارے ایک پیج پر تو ہیں ناں۔
پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھٹو کے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت تھی۔ فوج کا مورال ڈاؤن تھا۔ چاہتا تو فوج کا اثر رسوخ بالکل ختم کر سکتا تھا۔ لیکن نہیں۔ اپنے جیسے کسی چاپلوس ضیاء الحق کو نیچے سے اٹھا کر اوپر لایا اور پھر آرمی چیف لگا دیا۔ اگلے الیکشن میں جیت کے واضح امکانات کے باوجود 40 سیٹوں پر دھاندلی کروائی۔ اور جب اپوزیشن سڑکوں پر نکلی تو ا ن کے ساتھ مذاکرات کی بجائے بیرون ملک سیر کیلئے نکل گیا ۔ واپس آیا تو جنرل ضیا تختہ الٹنے کی پلاننگ مکمل کر چکا تھا۔ اس ساری ناقص حکمت عملی کا ذمہ دار بھٹو خود تھا۔اس باری ہی تو گیم، سیٹ اینڈ میچ درست انداز میں فکس ہوا ہے بادشاہو!!!
پیچ کیا پورا بُک اونر وہی ہے جو ہمیشہ سے تھاپیج اونر تو وہی ہے جو تھا
یہ وطن تمہارا ہے
کچھ شاید آپ بھول گئے۔ پچھلے بہتر برس کی غلطیوں کا ذمہ دار صرف بھٹو ہی تھا!!!پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھٹو کے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت تھی۔ فوج کا مورال ڈاؤن تھا۔ چاہتا تو فوج کا اثر رسوخ بالکل ختم کر سکتا تھا۔ لیکن نہیں۔ اپنے جیسے کسی چاپلوس ضیاء الحق کو نیچے سے اٹھا کر اوپر لایا اور پھر آرمی چیف لگا دیا۔ اگلے الیکشن میں جیت کے واضح امکانات کے باوجود 40 سیٹوں پر دھاندلی کروائی۔ اور جب اپوزیشن سڑکوں پر نکلی تو ا ن کے ساتھ مذاکرات کی بجائے بیرون ملک سیر کیلئے نکل گیا ۔ واپس آیا تو جنرل ضیا تختہ الٹنے کی پلاننگ مکمل کر چکا تھا۔ اس ساری ناقص حکمت عملی کا ذمہ دار بھٹو خود تھا۔
جرنل ضیا مارشل لگانے کے بعد 11 سال غیر آئینی و قانونی طور پر حکمران بنے رہے۔ یہاں تک کہ مخالف جرنیلوں کو آم کی پیٹیوں میں بم رکھ کر ضیا کو دنیا سے فارغ کرنا پڑا۔ کروڑ ہا نفوس پر مشتمل عوام ایک ذہنی بیمار اور مذہبی شدت پسند شخص کو 11 سال اپنا حکمران بنا دیکھتی رہی۔ اگر مخالف جرنیل ضیا کا جہاز نہ پھاڑتے تو معلوم نہیں کتنے سال وہ اقتدار پر براجمان رہتا۔
1988 میں جمہوریت واپس آئی تو بینظیر نے واضح اکثریت کے باوجود جرنیلوں سے معاہدہ کرکے اقتدار کی منتقلی پر دستخط کئے۔ جو جلد ہی ان کی لیڈرشپ سے نالاں ہو کر نواز شریف کو اقتدار میں لے آئے۔ نواز شریف چاہتے تو جرنیلوں سے بنا کر ان کو رام کر سکتے تھے لیکن وہ بھی اختیارات کے حصول کیلئے صدر مملکت سے الجھ پڑے۔ نتیجہ وہ اور صدر دونوں فوج کی مشاورت سے فارغ ہو گئے۔ اگلا الیکشن ہوا بینظیر دوبارہ اقتدار میں آئیں تو ملک سے انتقام لیتے ہوئے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیا۔ حالیہ بجلی سکینڈل میں ملوث کئی ہزار ارب روپے کھانے والی آئی پی پیز اسی دور کی پیداوار ہیں۔ کرپشن الزامات پر ان کی حکومت برطرف ہوئی تو نواز شریف کو دو تہائی اکثریت حکومت بنانے کا موقع ملا۔ وہ پھر ملک سدھارنے کی بجائے اپنی روایتی اختیارات کی جنگ کو لے کر بیٹھ۔ جو جرنیل پسند نہ آتا اسے موقع پر فارغ کر دیتے۔ آئینی ترامیم کے ذریعہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ کی عمارت پر اپنی پارٹی کے غنڈوں کے ذریعہ حملہ بھی کروایا۔ اور بعد میں کارگل تنازعہ پر مشرف نے ان کو گھر بھیج دیا۔
یقین کریں دو تہائی اکثریت سے قائم حکومت جب دو سال بعد فوج نے گھر بھیجی تو عوام نے مٹھائیاں بانٹی اور ملک میں کوئی گملا بھی نہیں ٹوٹا۔ مشرف بھی ضیا کے نقش قدم پر چل کے 8 سال بڑے سکون سے حکومت کرتے رہے۔ جبکہ ان کے آلہ کار سیاست دان ایک غیر آئینی اور قانونی فوجی حکمران کا دفاع اور تحفظ فراہم کرتے رہے۔
2006 میں ملک کی تمام بڑی جماعتوں کے مابین میثاق جمہوریت کے بعد 2008 میں جمہوریت واپس آئی۔ اب کی بار سب کو یقین تھا کہ ماضی کی تاریخ نہیں دہرائی جائی گی۔ لیکن ہوا پھر وہی جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ پی پی پی کے دور اقتدار میں نواز شریف فوج کے آلہ کار بنے رہے۔ اور پھر اگلے پانچ سال یعنی نواز شریف کے دور میں عمران خان نے یہ رول ادا کیا۔
اب 2018 الیکشن کے بعد مقتدر حلقوں نے ایسا پکا بندوبست کیا ہے کہ اپوزیشن، میڈیا، عوام سب کو نانی یاد آگئی ہے۔
اس ٹرول سے کیا بحث کرنی۔ اس نے تو 1971 کے بعد بھٹو کو دو تہائی اکثریت اور 1988 میں بےنظیر کو اکثریت دلا دی۔ معلوم نہیں کہاں سے یہ تاریخ کاپی پیسٹ کی ہےکچھ شاید آپ بھول گئے۔ پچھلے بہتر برس کی غلطیوں کا ذمہ دار صرف بھٹو ہی تھا!!!
کیا خاک کوشش کی ہے۔ 2006 میں میثاق جمہوریت کر کے 2012 میں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالت چلے گئے تھے۔انہوں نے فوج کا راستہ روکنے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے۔
جمہوری قوتوں نے فوج کا راستہ روکنے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے یا فوج کو اقتدار تک کا ہر دور میں ہر ممکن راستہ دکھایا ہے؟انہوں نے فوج کا راستہ روکنے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے۔
جہاں سے آپ نے یہ تاریخ کاپی پیسٹ کی ہے کہ ملک کی ہر خرابی کا ذمہ دار صرف فوج ہے۔معلوم نہیں کہاں سے یہ تاریخ کاپی پیسٹ کی ہے
جمہوری قوتوں نے فوج کا راستہ روکنے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے یا فوج کو کو اقتدار کا ہر دور میں ہر ممکن راستہ فراہم کیا ہے؟