چلئے بحث برائے بحث مان لیتے ہیں لیکن کیا انہوں نے فوج کا تختہ الٹ کر اقتدار حاصل کیا یا عوام کے ووٹ سے اقتدار حاصل کیا۔ جب پاکستان کے عوام نے اپنے ووٹوں سے انہیں منتخب کیا ( کسی نے سیلیکٹ کرکے وزیرِ اعظم نہیں بنایا) تب اس بات کا کیا جواز رہ جاتا ہے کہ انہوں نے فوجی حکومت کے کمزور ہونے کا انتظار کیا؟
ایوب کی کابینہ میں اینٹری سے قبل بھٹو کو کون جانتا تھا؟ ضیا کی کابینہ میں شمولیت سے قبل نواز شریف کوکون جانتا تھا؟ یہ کونسا جمہوری طریقہ ہے کہ جب فوج ناجائز طور پر اقتدار پہ قابض ہو تو اس کی کابینہ میں جا کر بیٹھ جاؤ۔ پبلک میں جا کر اس ناجائز حکومت کا ہر ممکن دفاع پیش کرو۔ اس ناجائز حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کرو۔ اور جب ایک دن وہ فوجی حکومت عوام میں غیرمقبول ہو جائے تو اسی کے خلاف الم بغاوت اُٹھا کر خود کو جمہوریت پسند کہلوانا شروع کر دو؟
یہ تو کھلا تضاد اور بدنیتی پر مبنی سیاسی کھیل ہے جو opportunist یا موقع پرست سیاستدان ہمیشہ سے کھیلتے چلے آئے ہیں۔
ہم انصافین جانتے ہیں کہ حالیہ وزیر اعظم عمران خان کے پاس بھی ماضی کے وزرا اعظم کی طرح وہ اختیارات نہیں جو آئین پاکستان نے ان کو دئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے منصب کو ان اختیارات کے حصول کا اکھاڑا نہیں بنا رہے۔ بلکہ جو محدود اختیارات ہیں ان ہی کا استعمال کرتے ہوئے ملک کو بہتری کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اس مقصد کیلئے تمام مقتدر قوتوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ ان کے ساتھ دشمنیاں پال کر نہیں۔
آپ کا کیا خیال ضیاءالحق نے 1987 میں عمران خان کو اپنی کابینہ میں وزیر بنانے کی پیشکش نہیں کی تھی؟ یا 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے کی تقریب میں سب کے سامنے نواز شریف نے عمران خان کو اپنی حکومت میں شمولیت کی دعوت نہیں دی تھی؟ یا 1997 الیکشن سے قبل ن لیگ نے اپنی 20 سے زائد سیٹیں تحریک انصاف کو دینے کی آفر نہیں کی تھی؟ یا 2002 میں مشرف نے عمران خان کو ق لیگ کی بہت ساری سیٹیں تحریک انصاف کے حق میں بٹھا دینے کا عندیہ نہیں دیا تھا؟ اگر عمران خان یہ تمام تاریخی مواقع رد کرکے 22 سال اپنی سلیکشن کا انتظار کر سکتا ہے تو یہی کام بھٹو اور نواز شریف بھی کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے موقع پرست سیاست دان ہونے کی وجہ سے شارٹ کٹ راستہ اپنایا۔ اور ابھی تک یہی کچھ ہی کر رہے ہیں۔