"فلرٹ" کا اردو متبادل کیا ہوگا؟

علی وقار

محفلین
فلرٹ یہ کیا ہوتا ہے؟ :shock:
قدیم اردو میں تو اسے شاید دلبری یا عشوہ گری ہی کہا جاتا تھا۔
وہ تری کج روشی، کج کلہی، کینہ وری، دلبری، عشوہ گری
کون غش کھا کے گرا، کون موا، پھر کے دیکھا نہ ذرا
(شاد عظیم آبادی)
اردو میں فلرٹ کا لفظ رواج پا چکا ہے سو یہی استعمال کیا جانا چاہیے۔ ویسے میرے خیال میں اسے عشق بازی، سوانگِ محبت بھی کہا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
حضرتِ میر فلرٹ بارے فرماتے ہیں۔
لاگ اگر دل کو نہیں، لطف نہیں جینے کا
الجھے، سلجھے، کسو کاکل کے گرفتار رہو
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
عشوہ بھی ہے شوخی بھی تبسم بھی حیا بھی
ظالم میں اور اک بات ہے اس سب کے سوا بھی
اکبر الٰہ آبادی
نظر بچا کے ترے عشوہ ہائے پنہاں نے
دلوں میں درد محبت اٹھائے ہیں کیا کیا

(فراقؔ گورکھپوری)
عشوہ کا مطلب انگریزی میں 3 الفاظ کی صورت میں نکلتا ہے، ہر لفظ کے الگ الگ معنی سمجھ لیجئے تو فلرٹ سے ہی ملتے جلتے ہیں:
  1. Coquetry: It refers to the act of flirtatious behavior or teasing to attract someone's attention or affection. It often involves playful and charming actions, such as making subtle advances or engaging in flirtatious banter.
  2. Blandishment: Blandishment refers to flattery or sweet talk used to persuade or manipulate someone. It can be seen as a form of flirtation that employs flattering words or actions to gain favor or win someone's affection.
  3. Ogling: Ogling involves staring at someone with obvious or intense desire or attraction. It typically denotes the act of eyeing someone up and down, often in a way that can be seen as overtly flirtatious or sexually suggestive.
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ارے یہ فلرٹی دھاگہ ابھی تک چل رہا ہے۔۔۔۔ واہ واہ۔۔۔ بڑے بڑے شعرا سے سندیں لائی جا رہی ہیں۔۔۔ کیا کہنے
 

ارشد رشید

محفلین
کسی زمانے میں اردو میں فارسی سے آئی ہوئ ایک اصطلاح استعمال ہوتی تھی - شاہد باز - یہ فلرٹ کرے والے ہی کے لیے استعال ہوتی تھئ-
یاد رہے عربی میں شاہد شہادت دینے والے کو کہتے ہیں مگر فارسی میں اس سے مراد حسین محبوب شخص ہوتا ہے -
 

محمد وارث

لائبریرین
کسی زمانے میں اردو میں فارسی سے آئی ہوئ ایک اصطلاح استعمال ہوتی تھی - شاہد باز - یہ فلرٹ کرے والے ہی کے لیے استعال ہوتی تھئ-
یاد رہے عربی میں شاہد شہادت دینے والے کو کہتے ہیں مگر فارسی میں اس سے مراد حسین محبوب شخص ہوتا ہے -
شاہد باز سے ایک قصہ یاد آ گیا۔ 1960ء کی دہائی کے شروع میں صہبا لکھنوی نے اپنے ماہنامہ ادبی رسالے "افکار" کا جوش نمبر نکالا تو اس میں شاہد احمد دہلوی کا ایک مضمون تھا "جوش، دیدہ و شنیدہ" اور اس میں کچھ ایسی باتیں تھیں جو جوش کو پسند نہیں آئیں سو جوش نے ایک جوابی اور سخت مضمون لکھا، " ضربِ شاہد بہ فرقِ شاہد باز" یعنی شاہد کی ضرب، شاہد باز کے سر پر۔ یہ مضمون شاہد احمد دہلوی کو پسند نہیں آیا کہ جوش نے ان کے علاوہ ان کے دادا ڈپٹی نذیر احمد کے زبان و بیان پر بھی گرفت کی تھی۔ جواب الجواب میں شاہد احمد دہلوی نے اپنے ادبی مجلے "ساقی" کا پورا جوش نمبر نکال دیا جو انتہائی ضخیم ہے اور جوش پر تنقید بلکہ جوش کی تنقیص سے بھرا ہوا ہے!
 
Top