فی البدیہہ شاعری (موضوعاتی / غیر موضوعاتی)

نئے سال کے پہلے دن
صبح سویرے جب تم جاگو
اٹھنا تیرا خوش خوش سا ہو
رنگ دھنک کا تم پر چھائے
گئے سال کی ہر ان چاہی
آنے والا سال بچائے
تیری سوچ میں جو خواہش ہے
اللہ اگلے سال ملائے
ان سے جن سے تیرا جھگڑا
اللہ ان سے صلح کرائے
یہ جان لینا تمہاری خاطر
کوئی ہے اپنے ہاتھ اٹھائے
خدائے سبحان تم کو اپنی امان دے دے
وہ ہر خوشی جو تمہارا حق ہے تمہیں ملائے
عمر کا جتنا سفر ہے باقی ترے سفر میں
ہرایک پل رب ہو تجھ سے راضی
ہر ایک پل تیری زندگی کا نجات پائے
سبھی دکھوں سے سبھی غمو ں سے
اندھیری راتوں کے رت جگوں سے
میرے یہ دو ہاتھ تیری خاطر اٹھے ہوئے ہیں
میرے خدا سے یہی ہے التجا خدایا
سبھی کو اپنی پناہ دینا سبھی دکھوں سے
سبھی اندھیروں سے ظلمتوں سے
میرے خدایا سبھی کو اپنی پناہ دینا
غرور و نفرت ،ضلالتوں سے
میرے خدایا سبھی کو دینا
تیرے ہدایا ہدایتوں کے
تمہیں بھی اتنا کہوں کہ جانو (جانُو نہیں ہے بلکہ جان لو کے ہم معنی ہے)
خدا سے مانگو اور اسکے درپر سوال کرنا
اسی کی خاطر کرو محبت اسی کی خاطر قتال کرنا
مگر کبھی بھی حدود رب کو نہ کم سمجھ کر پامال کرنا
خدا سے ڈرنا اسی سے اپنے سوال کرنا
حبیب رب سے کرو محبت سبھی سے بڑھ کے
مگر خدا سے بڑھے محبت کبھی نہ ایسی مجال کرنا
اسی طرح سے شروع اپنا یہ سال کرنا
یہ سال کرنا
 
بہت خوب فیصل بھائی۔

خیر ابھی کے لئے خود کو یہی کہوں گا کہ:

میں ہوں مصروف امتحانوں میں
ٹھونس لینے دو روئی کانوں میں

خیر آنکھیں تو پھر بھی پڑھتی رہیں گی۔ :grin:
 
خبر ہے ان کی دید کیا کہیئے
اور فخرے نوید کیا کہیے۔۔!
ہم صحافی نہیں ہیں اخباری
اب کہ فیصل مزید کیا کہیئے
بنٹے کھیلیں تو ہم سے آجائیے
کیوں میاں بن سعید کیا کہیے
گر کسی کا دکھائیں بات سے دل
ایسی گفت و شنید کیا کہیئے
 

الف عین

لائبریرین
تم نے ڈھونڈا نہیں یہیں شاید
یہ ہے فیصل کی سر زمیں شاید
تھی جو اک شخص کے ’تکلم‘ سے
اب وہ گرمی یہاں نہیں شاید
 
تم نے ڈھونڈا نہیں یہیں شاید
یہ ہے فیصل کی سر زمیں شاید
تھی جو اک شخص کے ’تکلم‘ سے
اب وہ گرمی یہاں نہیں شاید

سرد موسم میں کون سی گرمی
سخت جاں اور گفت گو نرمی
میں یہیں ہوں مگر کہوں کیسے
جھوٹ کہنا بھی ایک بے شرمی
دیس میں جس طرح کی حالت ہے
نرم و نازک کلام ہٹ دھرمی
 
Top