مندرجہ ذیل برادرم اجمل شوبی کے لیئے انکی فرمائش پر لکھی ہے
رات کے پہلے پہر
سردیوں کے کہرے میں
بے نور راہوں پر
اسے ہی ڈھونڈوں
یہ سوچ کر میں نکل پڑا تھا
مگر کہیں پر
مری جبیں پر
وہ خط نہیں تھا
کہ جس کی منزل
وہ ہمسفر تھا
میں رات بھر ہونہی چلتا رہا
اور جلتا رہا
اسی کو پاؤں یہ سوچ کر ہاتھ ملتا رہا
مجھے ملا وہ سحر سے پہلے
تو میں نے اس سے یہی تھا پوچھا
جناب حضرت جو ہمسفر ہوں
حیات من میں تو خوب ہوگا
وہ ہنس پڑا تھا
کہ میرا کہنا بہت بڑا تھا
اسی نے مجھ سے
یہ کہ دیا تھا
جو اگلی شب کو ملیں گے ہم تو
"جو آپ چاہو" وہی ملے گا
وہی ملے
پھر اسکے وعدے پہ کتنی شامیں
گزر گئی تھیں ۔ شبوں کو لیکر
مگر مجھے وہ نہیں ملا تھا
نہیں ملا تھا
کہیں بھی ہمدم نہیں ملا تھا
برادرم اجمل شوبی نے یہ عنوان دیا تھا مجھے کہ "جو آپ چاہو لکھ" ڈالو سو لکھ دیا انکے پروگرام کے لیئے میرا ایک ناچیز سا تحفہ