کتب روایات میں نماز پڑھنے کے طریقے میں یقیناّ اختلافات ملتے ہیں لیکن یہ اختلافات راویوں کی اپنی اختراع نہیں ہیں۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ نماز کی ایک ہئیتِ مجموعی ہے اور روایات پر غور کیا جائے تو نماز کے چند امور ایسے ہیں جن میں قطعاّ کوئی اختلاف نہیں ہے مثلاّ قبلہ رُو ہونا، ہر نماز کی مخصوص رکعات، سرّی یا جہری تلاوت، امام سے سبقت نہ کرنا، صفیں بنانا، ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنا، ہر رکعت میں دو سجدے کرنا، تکبیر پڑھنا، سلام پھیرنا،تشہد میں درود شریف پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔
بھائی محمود غزنوی، بہت دلی شکریہ اور بہت سارا سلام۔ آپ نے اپنا ہی نہیںسب کو جواب دے دیا ہے۔ میں نہ صرف آپ کے اس جواب سے متفق ہوں بلکہ آُکا شکر گزار بھی ہوں۔ ان احکامات کے بارے میں آیات میں یہاں شئیر کرچکا ہوں۔ ان احکامات کو دیکھئے۔
اس حکم کی آیت رہ گئی تھی وہ یہ ہے۔
[ayah]2:150[/ayah] [arabic]وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [/arabic]
اور تم جدھر سے بھی (سفر پر) نکلو اپنا چہرہ (نماز کے وقت) مسجدِ حرام کی طرف پھیر لو، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو سو اپنے چہرے اسی کی سمت پھیر لیا کرو تاکہ لوگوں کے پاس تم پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہ رہے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں حد سے بڑھنے والے ہیں، پس تم ان سے مت ڈرو مجھ سے ڈرا کرو، اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں اور تاکہ تم کامل ہدایت پا جاؤ
ہر نماز کی مخصوص رکعات، ---
نماز کی رکعات کی تعداد آپ کو سنت جاریہ سے مل جاتی ہیں۔
اس کے لئے حکم آپ کو سب سے پہلے مراسلہ میں ملے گا۔ جس میں آپ کو تکبیر اور سار رکعتوں والی سورۃ کی تلاوت کا حکم ملتا ہے ، جو سنت جاریہ سے ثابت ہے۔ واضح یا خفیہ تلاوت کے لئے اللہ تعالی کا حکم موجود ہے۔ اگر نہیں لکھا تو دوبارہ حاضر ۔ نماز تلاوت نہ بلند اور نہ خفیہ
[ayah]17:110 [/ayah][arabic]قُلِ ادْعُواْ اللّهَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَ۔نَ أَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً [/arabic]
فرما دیجئے کہ اﷲ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام اسی کے ہیں،
اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں
یہ بھی آپ مسجد الحرام یا مسجد نبوی میں سنت جاریہ سے سیکھ سکتے ہیں۔
سنت جاریہ سے ثابت ہے۔
اللہ تعالی کا یہ حکم سب سے پہلے مراسلہ میں موجود ہے اور سنت جاریہ سے ثابت ہے۔
ہر رکعت میں دو سجدے کرنا،
سجدہ کرنے کا حکم رسول اکرم کو دیا گیا،اللہ تعالی کا یہ سجدہ کا حکم مراسلہ نمبر ایک میںموجود ہے۔ یہ سنت جاریہ سے ثابت ہے۔
تکبیر پڑھنے کے حکم کی آیت مراسلہ نمبر ایک میںموجود ہے۔، سنت جاریہ سے ثابت ہے۔
سنت جاریہ سے ثابت ہے۔ سلام کرنے کا حکم ربانی موجود ہے۔ نماز میں اس حکم کو بطور عبادت دہرایا جاتا ہے۔
تشہد میں درود شریف پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔
شہادت دینے کاحکم قرآن حکیم سے، رسول اللہ پر صلواۃ بھیجنے کا حکم قرآن حکیم سے اور سنت جاریہ سے ثابت ہے۔ ان احکام کی آیات سب سے پہلے مراسلے موجود ہے۔ اس کے علاوہ ، سبحان رب العظیم ، سبحان رب الاعلی کا حکم مراسلہ نمبر ایک میں موجود ہے۔ اس کی توثیق سنت جاریہ ہسے ہوتی ہے۔
یہی نہیں اللہ تعالی کا احکامات جو قیام، رکوع اور سجدہ کے بارے میں قرآن حکیم میں موجود ہیں ان کی آیات موجود ہیں۔
اور کچھ امور ایسے ہیں جن کی کیفیت میں اختلاف ہے مثلاّ قیام میں ہاتھ کہاں باندھنے ہیں سینے پر، یا ناف سے اوپر، ناف کے اوپر یا ناف سے نیچے، رفع یدین، آمین بالجہر یا خفی، اور اسطرح کے دیگر امور۔ لیکن انصاف کے ساتھ غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ سب طریقے اور کیفیات کے اختلافات رسولِ کریم کی سنت ہی ہیں۔ آپ نے ان سب کیفیات کے ساتھ نماز پڑھی ہے مختلف ادوار میں۔ جس جس صحابی نے آپ کو جیسے کرتے ہوئے دیکھا انہوں نے اسی بات کی روایت کردی۔ اختلاف صرف تقدیم و تاخیر کا ہے۔ ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ رسولِ پاک اللہ کے حبیب ہیں۔ اور حبیب کی ہر ادا پیاری ہوتی ہے۔اللہ نے اپنے حبیب کی ہر ادا کو اس امت میں باقی رکھا اور جاری رکھا ہے۔ کوئی گروہ اگر ایک ادا کو ادا کر رہا ہے تو دوسرا گروہ حبیب کی اس حوالے سے کسی دوسری ادا کو ادا کر رہا ہے۔ جب اللہ تعالٰی بی بی حاجرہ اور حضرت ابراہیم کی اداؤں کو مناسکٰ حج میں جاری کر دیتے ہیں تو حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تو ہر ادا بدرجہءِ اولٰی جاری و ساری رہے گی۔
ہم کو متفقہ بہ احکامات کی تفصیل قرآن حکیم سے مل گئی کہ یہ اللہ تعالی کے احکامات ہیں جن کا اعادہ ہم روزانہ نماز میں کرتے ہیں۔ رکعتوں کی تعداد اور ادائیگی کا طریقہ سنت جاریہ سے مل گیا۔ مزید تفصیل اور توثیق ان احکام کی لکھی ہوئی روایتوں سے ہوگئی کہ سنت رسول کیا ہے۔ باہمی اختلاف کو ایک طرف رکھئے کہ اس کی اہمیت ہی نہیں۔
بنیادی طور پر آپ نے قرآن سے احکاماتکی توثیق کی اور سنت سے بقایا معلومات فراہم کیں۔ تو بھائی اب جھگڑا کا بات کا ہے؟ کیا یہ موافق و مطابق القرآن سنت یا احدیث نبوی کی ایک مثال نہیں؟؟؟ مجھے تو آپ کے نکات سے کوئی اختلاف نہیں۔
کچھ لوگوں کا یہاں کہنا ہے کہ فاروق صاحب نے یہ آیات ایسے ہی جمع کرلی ہیں ان کا نماز سے کوئی تعلق نہیں۔ تو بھائی یہ موقعہ ہوتا ہے ایمان کا کہ کس کا ایمان کیا ہے؟ میرا ایمان ہے کہ جن احکامات کاتذکرہ قرآن حکیم میں کیا گیا ہے ، اور جن آیات میں یہ احکام نظر آتے ہیں ، میں اپنے رسول صلعم کی سنت کی پیروی میں اور اپنے اللہ تعالی کے احکام کو ہر نماز میںبجا لاتا ہوں۔ اگر کوئی صاحب ، یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے احکامات نہیں بجالاتے ہیں تو بھائی پھر وہ عبادت بھی کسی اور کی ہی کرتے ہیں ۔۔
اللہ تعالی کے احکامات بجالانا ہی عین عبادت ہے۔ چاہے وہ نماز ہو۔ عدل و انصاف کا نفاذ ہو، مساوات کا پیغام ہو یا زمین پر امن وآشتی کا قیام ۔ یہ سب عبادات ہیں کہ یہ اللہ کے احکامات ہیں۔
مجھے تو محمود صاحب آپ کے نکات میں اور اپنے نکات میں مزید بحث کے قابل کوئی بات نظر نہیں آتی۔ نماز ایک ایس عبادت ہے جس کے اللہ تعالی کی طرف سے بنیادی احکامات ایک بڑی تفصیل سے ساتھ قرآن حکیم میں ملتے ہیں ۔ انہی احکامات کے عین مطابق سنت رسول ، سنت جاریہ بھی ہے اور جناب کتب روایات میں بھی یہی سنت رسول پائی جاتی ہے۔ یہ ثبوت ہے اس امر کا سنت رسول عین مطابق و موافق قرآن ہوتی ہے۔
جن صاحب نے سبحانک اللھم اور تبارک اسمک پر اعتراض کیا ہے۔ ان کا اعتراض ان کو مبارک ، کاش کہ وہ مکمل آیات بھی پڑھ لیتے ۔ ایک بار پھر آپ کی طرف سے کی گئی وضاحت اور سمجھ کا شکریہ۔
والسلام