قران کریم طریقہء نماز کیسے تعلیم فرماتا ہے

طالوت

محفلین
اختلاف امتی رحمتی کی روایت کا جو پوسٹ مارٹم خوب ہو چکا ہے ۔ ایک من گھڑت روایت ہے ۔ جہاں اور جگہوں پر عقل کے حوالے دئیے جاتے ہیں وہاں یہاں بھی سوچنے کا مقام ہے کہ کبھی اختلاف بھی رحمت ہوا کرتا ہے ۔ اور اتفاق سے نماز میں بھی یہی رحمت زحمت دکھائی دیتی ہے ۔ مجھے نماز پرھنے کے لئے کبھی مسجد کے مرکزی دروازے پر لگی اختلافی تختی کا اتفاق نہیں ہوا تاہم نماز کے دوران ارو اختتام پر احساس ضرور ہوتا ان نگاہوں سے جو نہایت بے رحمی یا حقارت سے میری جانب اٹھتی ہیں ۔
اور محمود برادر یہ چار مصلے سعودی حکومت سے پہلے تھے ضرور بلکہ یاد پڑتا ہے کہ بنو عباس کے دور میں جب غالبا قرامطہ زور آور تھے ان کی تعداد شاید سات تک پہنچ چکی تھی ۔ مگر کوئی تصویر ایسی نہ ملے گی کہ جس سے ثابت ہو سکے کہ رسول اللہ اور اصحاب رسول کے ادوار میں بھی ایک سے زائد مصلہ ہوا کرتا تھا ۔ بہرحال اس موضوع پر تو سینکڑوں صفحے سیاہ کئے جا چکے اور کئے جا سکتے ہیں مگر حقیقت صرف اس قدر ہے کہ باوجود اس کے ماننے نماز کے مروجہ تمام طریقے رسول اکرم کی سنت سے ثابت ہیں ایک دوسرے کے پیچھے نماز جائز نہیں سمجھی جاتی ارو یہ کوئی جذباتی بیان نہیں حقیقت ہے ۔
وسلام
 

سویدا

محفلین
یہ بحث اسی وقت ختم ہوگی جب کہ یہ مان لیا جائے کہ اصول شریعت چار ہیں‌
کتاب اللہ
سنت رسول اللہ
اجماع امت اور تواتر امت
قیاس
اگر ان کو نہیں‌مانا جائے گا تو ہمیشہ شبہات اور اعتراضات باقی رہیں‌گے جن کا جواب کسی کے پاس نہیں‌ہوگا
اور اگر جواب ہوگا بھی تو ترا عقلی اور منطقی
اور عقل اور منطق وحی کے نور کے بغیر نری گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں‌ہے ۔
 

dxbgraphics

محفلین
سلام علیکم،
میرا خیال ہے کہ آپ سب کو نہ صرف نماز پڑھنی آتی ہے بلکہ اب آپ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے نماز کس طرح تعلیم کی۔ قرآن حکیم احکام اور اصولوں کی کتاب ہے۔ ان احکام اور اصولوں کی تفصیل ہم کو سنت رسول میں‌ملتی ہے۔

سنت رسول میرے جیسا ان پڑھ کہاں سے جان سکے گا۔ ذریعہ کیا ہوگا
 

ظفری

لائبریرین
السلام علیکم ظفری بھائی ! مجھے بھی لگتا ہے کہ آپ بھی ایک سلجھے ہوئے اور سمجھدار آدمی مگر یہ کیا کہ آپ ایک ایسے شخص کی بے جا حمایت کررہے ہیں کہ جو قرآں و سنت پر من مانی تاویلات فاسدہ کرتا ہے اور امت مسلمہ کی ننانوے اعشاریہ نو فی صدی کو بیک جنبش قلم فاسق و فاجر اور پتا نہیں کیا کیا قرار دے ڈالتا ہے اور آپ ہیں کہ ایسے شخص کے اجھتادات فاسدہ کو علمیت کا درجہ دے رہے ہیں ۔ ایک ایسا شخص جو فقط اپنی ذاتی رائے کو اور ذاتی فہم کو سب سے بڑھ کر جانے وہ بھی بلا دلیل اور اسکے نتیجے میں امت 99۔9 فی صدی کو گمراہ جانے تو آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں کیا اس کی عقل سلامت ہے ؟؟؟؟؟؟؟ اور رہ گئ عادل بھائی کے اٹھائے گئے سوال کی بات تو ان کا سوال بالکل موضوع کی مناسبت سے ہے اور خاص طور پر اس وقت تو اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ جب کوئی قرِآن کو سنت کی بجائے اپنی عقل سے سمجھنے کا دعوٰی بھی کرئے اور اپنے اجتھادات کو حق بھی جانکر انکی زور و شور سے تبلیغ بھی کرے ۔ ۔

وعلیکم السلام عابد بھائی !
آپ محفل پر میری پسندیدہ علمی شخصیتوں میں سے ایک ہیں ۔ آپ جو بات کہتے ہیں وہ دلائل واستدلال کیساتھ ثبوت کیساتھ بھی مہیا ہوتے ہیں ۔ مگر مجھے ایسا لگا کہ آپ نے میرا مراسلہ غور سے نہیں پڑھا ۔ آپ کا شکوہ پڑھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ مجھ سے کہیں کوتاہی ہوئی ہے کہ میں اپنی بات آپ جیسے قابل شخص پر واضع نہیں کرسکا ۔ لہذا اب دوباری جسارت کی ہے کہ میں اپنا مدعا آپ سمیت دوسروں دوستوں پر بھی صحیح طور پر واضع کرسکوں ۔

آپ نے میرے مراسلے کو کسی کی " بے جا حمایت " سمجھا ۔ میں نہیں سمجھتا کہ میں نے ایسا کوئی کام کیا ہے ۔ پورے مراسلے میں جو بنیادی مقدمہ میں نے قائم کیا وہ یہ تھا کہ کسی کو کسی بھی فرد کی تکفیر کا حق حاصل نہیں ہے ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ دین کے معاملات میں کوئی بے پرواہی کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ انتہا یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں‌میں سے کوئی شخص شرک و کفر کا مرتکب ہوجائے ۔ لیکن ۔۔۔۔ اگر وہ اس کو کفر و شرک سمجھ کر اقرار نہیں کرتا تو اس پر اس کے عمل و قول کی حقیقت واضع کی جائے گی ۔ اسے قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ ثابت بھی کیا جائے گا ۔ اہلِ حق اس کی شناعت سے اُسے آگاہ کریں گے ۔ اور پھر آخر میں اس کے دینوی اور اخروی نتائج سے بھی خبردار کیا جائیگا ۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تکفیر کے لیئے اتمامِ حجت ضروری ہے ۔ لہذا اس وجہ سے رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ حق کسی کو حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے یا امت میں سے خارج کردے ۔

عموماً ہماری ابحاث ایسی ہی ہٹ دھرمی اور ضد کا شکار ہوجاتیں ہیں ۔ جہاں دلیل ، استدلال اور ثبوت منقود ہوجاتا ہے ۔ حتی کہ اندازِ تخاطب تک بدل جاتا ہے ۔ اور ہم جس نیک نیتی سے اپنی بحث یا دعوت کو لیکر چلے ہوتے ہیں ۔ وہ خود ہمارے اس بیمانہ رویئے کا شکار ہوکر نفرت ، تعصب ، دشمنی اور طعنہ زنی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔ اور ہم بھی اسی مقام پر آکر کھڑے ہوتے ہیں ۔ جہاں‌ہم خود اپنے فریق کو کھڑا پاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں اختلافِ رائے کا فرق ختم ہوجاتا ہے ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے تو اسے صبر و تحمل کیساتھ اپنے دلائل ، استدلال اور ثبوت مہیا کرنے چاہئیں ۔ اگر ایسی صورت حال نہ پیدا ہو رہی ہو کہ آپ کا فریق آپ سے کسی بھی بات پر اتفاق نہ کر رہا ہو‌ تو اس وقت اسوہِ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کے علاوہ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیئے ۔ ؟

میں سمجھتا ہوں کہ دین کی جو بات بھی لوگوں کے سامنے پیش کی جائے، اُس کو ہمیشہ اُس پہلو سے پیش کرنا چاہیے جس سے مخاطب نفرت اور اجنبیت کے بجائے انس اور سہولت محسوس کرے۔ ایک ہی چیز بعض اعتبار سے سہل اور بعض اعتبار سے مشکل ہوتی ہے۔ ایسی ابحاث کی ابتدا میں اگر اُس کے وہی پہلو نمایاں کیے جائیں جو بے گانہ سے بے گانہ لوگوں کے لیے بھی اپنے اندر دلآویزی کا بہت کچھ سامان رکھتے ہیں تو بعد میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے طبائع سے بظاہر ناموافق چیزوں کو بھی بتدریج قبول کر لیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
'بشروا ولا تنفروا' ( لوگوں کو خوش خبری دو، اُن میں نفرت نہ پھیلاؤ)۔ ( بخاری، رقم ٦٩) چنانچہ بطور اصول فرمایا ہے:

فانما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین. (بخاری، رقم ٢٢٠)
''تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، دشواری پیدا کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔''

ہمیں یہ بھی کوشش کرنی چاہیئے کہ اپنے مخاطب کے معتقدات کی تردید اور اُس کی محبوب شخصیتوں پر تنقید میں بھی ایسا اسلوب اختیار نہیں کرنا چاہیے جو اُس کے اندر حمیت جاہلی کے بھڑکنے کا باعث بن جائے۔ اپنی گفتگو میں یہ بات خاص طور پر ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اپنے اور مخاطبین کے اکابر میں ترجیح و تفضیل کی بحثوں سے جہاں تک ہو سکے گریز کیا جائے اور سارا زور اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت اور اپنے مقصد کو پانے ہی پر صرف کیا جائے۔ حق پرستی کے جوش اور باطل کی تردید کے جذبے سے مغلوب ہو کر کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جو مخاطب کو اندھا بہرا کر دے اور جو اینٹ پتھر بھی اُس کے ہاتھ میں آ جائے، وہ اُسے اٹھا کر پھینک مارے ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے دو جلیل القدر پیغمبروں ۔۔۔۔۔۔۔ موسیٰ و ہارون ۔۔۔۔۔۔۔ کو اِسی پہلو سے ہدایت فرمائی:
اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہ، طَغٰی فَقُوْلاَ لَہ، قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہ، یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی.(طٰہٰ ٢٠ :٤٣-٤٤)
''تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، بے شک، وہ بہت سرکش ہو گیا ہے، اور اُسے نرمی کے ساتھ دعوت دو، شاید وہ نصیحت حاصل کر لے یا (اپنے رب سے) ڈرے۔''

میں نے انہی بنیادوں پر وہ مراسلہ تحریر کیا تھا کہ کسی سے اختلافِ رائے رکھتے ہوئے اس کی شخصی حیثیت کو نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے ۔ بلکہ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے استدلال کے لیے بالکل سادہ، فطری ، بے آمیز اور خالص مواد کا انتخاب کریں اور اُسے عقل عام کی مسلم حقیقتوں کے حوالے سے اِس قدر زندہ اور متحرک فکر کی حیثیت سے پیش کریں کہ عقل جاگ ، ذہن بیدار ہو جائے اور مردہ دلوں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ چنانچہ پغمبروں کے استدلال کا بھی یہی فطری اسلوب تھا جس کی بنا پر ہر وہ شخص جس کے دل و دماغ پر زنگ ہی نہ لگ گیا ہو، بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ:

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ۔
والسلام
 
اگر اس طریقے سے آپ نماز کے احکامات ثابت کریں‌گے تو اس طرح‌تو رجم کا لفظ قرآن میں‌کئی جگہ استعمال ہوا ہے
اگر قرآن سے اس طرح‌احکام ثابت کرنے ہیں‌تو پھر تو رجم بھی ثابت ہےمثال کے طور پر دیکھیے
سورہ کہف میں‌رجم کا لفظ آیا ہے
اسی طرح‌سورہ کہف میں‌یرجموکم کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے
سورہ دخان آیت نمبر 20 میں‌ترجمون کا لفظ آیا ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
سویدا بھائی ،
فاروق سرور صاحب نے قران پاک کی کچھ آیات کو یہاں جمع کر کے انہیں نماز سے متعلق کرنے کی کوشش کی ہے اس سے نماز کا طریقہ تو کیا نماز کے احکامات بھی ثابت نہیں ہوتے ، یہ تو ان کی """ قران فہمی """ کا شاخسانہ ہے کہ ان آیات کو نماز کا طریقہ بنا رہے ہیں ،
اللہ ہر کلمہ گو ایسی قران فہمی سے محفوظ رکھے ،
اسی لیے جناب خان صاحب میرے ایک سوال کا جواب نہیں دے رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کس قدر غلط بیانی سے کام لے کے اللہ کے کلام پاک کو آڑ بنا کر ہے سنت مبارکہ کے بارے میں شکوک پھیلا رہے ہیں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ میرے سوال کا جواب دیتے ،
اللہ نے چاہا تو اگلی فرصت میں میں اپنے اپنے سوال کا جواب اور اس سوال کا سبب اور اس جواب کی روشنی میں خان صاحب کی """ خلاف قران """ قران فہمی کا کچھ جائزہ پیش کروں گا ، باذن اللہ ،
و السلام علیکم۔
 
عادل،
آپ کو اگنور لسٹ‌میں شامل کیا ہوا ہے، آپ کی بے وجہ ، بے معانی اور بے دلیل جملے بازی اور ذاتی عناد کی وجہ سے۔ آپ کو پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ ایک بار پھر عرض ہے۔

اگر آپ کوئی با معنی اور بادلیل بات کرتے ہیں جس سے سب کا فائیدہ ہو تو ضرور جواب دوں گا، میرا مقصد کسی بھی فورم کو ذاتی دنگل بنانے کا نہیں ہے بلکہ قرآن حکیم سے معلومات فراہم کرنا ہے۔ اس کے لئے میں دوسرے مترجمین کے قابل قبول تراجم استعمال کرتا ہوں ، میرا طریقہ کار ہے ایک چھوٹا سا سوال اور پھر اس کا قرآن حکیم کی آیت سے جواب۔

آپ اس میں اپنا حصہ ڈالئے ، اگر کوئی آیت سوال کا درست جواب نہیں یا اس میں کچھ ابہام ہے تو مزید وضاحت شامل کیجئے۔ کوئی سنت رسول قرآن حکیم کے فراہم کردہ عقیدہ کو مظبوط کرتی ہے تو فراہم کیجئے۔

اور اگر آپ کے پاس اس سلسلے میں‌معلومات نہیں ہے تو قرآن حکیم کے احکامات کو دھندلانے کے مقصد سے غیر ضروری سوالات کرنے اور ذاتی و فرقہ واری عناد کو فروغ دینے کے بجائے ان آیات پر غور فرمائیے۔

اگر آپ کی معلومات ، دیگر دوستوں کے کام نہیں آسکتی ہیں تو بھائی پھر یہ معلومات کس کام کی۔


والسلام
السلام علی من یتبع الھدیٰ ،
فاروق سرور صاحب ،
اللہ پاک کا شکر ہے کہ میں ہی نہیں اور بھی بہت سے لوگ آپ کے اسالیب کو پہچانتے ہیں ،
جناب اتنی ساری باتیں لکھنے کی بجائے چند الفاظ میں میرے سوال کا جواب
ہی لکھ دیجیے ،
سوال دہرا رہا ہوں تا کہ ڈھونڈنے میں دشورای نہ ہو :::
"""'"" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کب نماز پڑھنا شروع کی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ """""""
فاروق سرور صاحب ، یہ سوال کتنا با معنی اور کتنا بادلیل ہے اس کا اظہار ان شاء اللہ آپ کے جواب دینے سے ہو جائے گا ،
اور جواب نہ دینے سے مزید وضاحت سے ہو رہا ہے ،
میں نے جناب سے ایک چھوٹا سا سوال ہی کیا ہے ، ایک چھوٹا سا جواب عنایت فرما دیجیے ،
قران پاک کی آیات کے مفاہیم کو دھندلانے کی کوشش کون کر رہا ہے اس کی وضاحت بھی میرے اس سوال سے ہو رہی ہے ، جواب دیا جائے یا نہ دیا جائے ،
فرقہ واریت کا الزام لگا کر میری آخرت میں اپنی کچھ نیکیاں دینے پر شکریہ ،
رہا معاملہ ذاتی عناد کا تو جناب سے بار ہا عرض کر چکا ہوں کہ مجھے آپ کی شخصیت سے کبھی کہیں ایسی لگن نہیں رہی جو کسی طور """ ذاتی """ کے زُمرے میں آتی ہو ،
شاید آپ نے میری بات مان کر اس دفعہ آئینے کا رخ اپنی طرف کر ہی لیا ہے ،
فاروق صاحب ، ایک دفعہ پھر سوال دہراتا چلوں :::
"""'"" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کب نماز پڑھنا شروع کی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ """""""
اللہ تعالیٰ نے مجھے جو علم عطاء فرمایا ہے جسے چاہے گا اس سے فائدہ مند ہونے کا موقع عطاء فرما دے گا ، میں نے اس کے اظہار میں کبھی بخل نہیں کیا ،
جی آپ جیسی قران فہم ہستیوں سے بات کرتے ہوئے پہلے ان کی معلومات جاننے کی کوشش کرتا ہوں ، پس آپ اپنی معلومات کا مزید اظہار فرما کر میرے سوال کا جواب عنایت فرما دیجیے ،

و السلام علی من یتبع الھُدیٰ ۔

 

نبیل

تکنیکی معاون
میری تمام معزز ممبران سے گزارش ہے کہ ہر تھریڈ میں ایک ہی لڑائی دہرانے سے گریز کریں۔ بصورت دیگر مجھے کسی انتہائی اقدام پر مجبور ہونا پڑے گا۔
 
کتب روایات میں نماز پڑھنے کے طریقے میں یقیناّ اختلافات ملتے ہیں لیکن یہ اختلافات راویوں کی اپنی اختراع نہیں ہیں۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ نماز کی ایک ہئیتِ مجموعی ہے اور روایات پر غور کیا جائے تو نماز کے چند امور ایسے ہیں جن میں قطعاّ کوئی اختلاف نہیں ہے مثلاّ قبلہ رُو ہونا، ہر نماز کی مخصوص رکعات، سرّی یا جہری تلاوت، امام سے سبقت نہ کرنا، صفیں بنانا، ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنا، ہر رکعت میں دو سجدے کرنا، تکبیر پڑھنا، سلام پھیرنا،تشہد میں درود شریف پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔
بھائی محمود غزنوی، بہت دلی شکریہ اور بہت سارا سلام۔ آپ نے اپنا ہی نہیں‌سب کو جواب دے دیا ہے۔ میں نہ صرف آپ کے اس جواب سے متفق ہوں بلکہ آُ‌کا شکر گزار بھی ہوں۔ ان احکامات کے بارے میں آیات میں یہاں شئیر کرچکا ہوں۔ ان احکامات کو دیکھئے۔
مثلاّ قبلہ رُو ہونا،
اس حکم کی آیت رہ گئی تھی وہ یہ ہے۔
[ayah]2:150[/ayah] [arabic]وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [/arabic]
اور تم جدھر سے بھی (سفر پر) نکلو اپنا چہرہ (نماز کے وقت) مسجدِ حرام کی طرف پھیر لو، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو سو اپنے چہرے اسی کی سمت پھیر لیا کرو تاکہ لوگوں کے پاس تم پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہ رہے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں حد سے بڑھنے والے ہیں، پس تم ان سے مت ڈرو مجھ سے ڈرا کرو، اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں اور تاکہ تم کامل ہدایت پا جاؤ

ہر نماز کی مخصوص رکعات، ---
نماز کی رکعات کی تعداد آپ کو سنت جاریہ سے مل جاتی ہیں۔
سرّی یا جہری تلاوت،
اس کے لئے حکم آپ کو سب سے پہلے مراسلہ میں ملے گا۔ جس میں آپ کو تکبیر اور سار رکعتوں والی سورۃ کی تلاوت کا حکم ملتا ہے ، جو سنت جاریہ سے ثابت ہے۔ واضح یا خفیہ تلاوت کے لئے اللہ تعالی کا حکم موجود ہے۔ اگر نہیں لکھا تو دوبارہ حاضر ۔ نماز تلاوت نہ بلند اور نہ خفیہ
[ayah]17:110 [/ayah][arabic]قُلِ ادْعُواْ اللّهَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَ۔نَ أَيًّا مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً [/arabic]
فرما دیجئے کہ اﷲ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام اسی کے ہیں، اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں

امام سے سبقت نہ کرنا،
یہ بھی آپ مسجد الحرام یا مسجد نبوی میں سنت جاریہ سے سیکھ سکتے ہیں۔
سنت جاریہ سے ثابت ہے۔
ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنا،
اللہ تعالی کا یہ حکم سب سے پہلے مراسلہ میں موجود ہے اور سنت جاریہ سے ثابت ہے۔
ہر رکعت میں دو سجدے کرنا،
سجدہ کرنے کا حکم رسول اکرم کو دیا گیا،اللہ تعالی کا یہ سجدہ کا حکم مراسلہ نمبر ایک میں‌موجود ہے۔ یہ سنت جاریہ سے ثابت ہے۔
تکبیر پڑھنے کے حکم کی آیت مراسلہ نمبر ایک میں‌موجود ہے۔، سنت جاریہ سے ثابت ہے۔
سنت جاریہ سے ثابت ہے۔ سلام کرنے کا حکم ربانی موجود ہے۔ نماز میں اس حکم کو بطور عبادت دہرایا جاتا ہے۔
تشہد میں درود شریف پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔
شہادت دینے کا‌حکم قرآن حکیم سے، رسول اللہ پر صلواۃ بھیجنے کا حکم قرآن حکیم سے اور سنت جاریہ سے ثابت ہے۔ ان احکام کی آیات سب سے پہلے مراسلے موجود ہے۔ اس کے علاوہ ، سبحان رب العظیم ، سبحان رب الاعلی کا حکم مراسلہ نمبر ایک میں موجود ہے۔ اس کی توثیق سنت جاریہ ہسے ہوتی ہے۔

یہی نہیں اللہ تعالی کا احکامات جو قیام، رکوع اور سجدہ کے بارے میں قرآن حکیم میں موجود ہیں ان کی آیات موجود ہیں۔
اور کچھ امور ایسے ہیں جن کی کیفیت میں اختلاف ہے مثلاّ قیام میں ہاتھ کہاں باندھنے ہیں سینے پر، یا ناف سے اوپر، ناف کے اوپر یا ناف سے نیچے، رفع یدین، آمین بالجہر یا خفی، اور اسطرح کے دیگر امور۔ لیکن انصاف کے ساتھ غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ سب طریقے اور کیفیات کے اختلافات رسولِ کریم کی سنت ہی ہیں۔ آپ نے ان سب کیفیات کے ساتھ نماز پڑھی ہے مختلف ادوار میں۔ جس جس صحابی نے آپ کو جیسے کرتے ہوئے دیکھا انہوں نے اسی بات کی روایت کردی۔ اختلاف صرف تقدیم و تاخیر کا ہے۔ ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ رسولِ پاک اللہ کے حبیب ہیں۔ اور حبیب کی ہر ادا پیاری ہوتی ہے۔اللہ نے اپنے حبیب کی ہر ادا کو اس امت میں باقی رکھا اور جاری رکھا ہے۔ کوئی گروہ اگر ایک ادا کو ادا کر رہا ہے تو دوسرا گروہ حبیب کی اس حوالے سے کسی دوسری ادا کو ادا کر رہا ہے۔ جب اللہ تعالٰی بی بی حاجرہ اور حضرت ابراہیم کی اداؤں کو مناسکٰ حج میں جاری کر دیتے ہیں تو حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تو ہر ادا بدرجہءِ اولٰی جاری و ساری رہے گی۔

ہم کو متفقہ بہ احکامات کی تفصیل قرآن حکیم سے مل گئی کہ یہ اللہ تعالی کے احکامات ہیں جن کا اعادہ ہم روزانہ نماز میں کرتے ہیں۔ رکعتوں کی تعداد اور ادائیگی کا طریقہ سنت جاریہ سے مل گیا۔ مزید تفصیل اور توثیق ان احکام کی لکھی ہوئی روایتوں سے ہوگئی کہ سنت رسول کیا ہے۔ باہمی اختلاف کو ایک طرف رکھئے کہ اس کی اہمیت ہی نہیں۔

بنیادی طور پر آپ نے قرآن سے احکاماتکی توثیق کی اور سنت سے بقایا معلومات فراہم کیں۔ تو بھائی اب جھگڑا کا بات کا ہے؟ کیا یہ موافق و مطابق القرآن سنت یا احدیث نبوی کی ایک مثال نہیں؟؟؟ مجھے تو آپ کے نکات سے کوئی اختلاف نہیں۔


کچھ لوگوں کا یہاں کہنا ہے کہ فاروق صاحب نے یہ آیات ایسے ہی جمع کرلی ہیں ان کا نماز سے کوئی تعلق نہیں۔ تو بھائی یہ موقعہ ہوتا ہے ایمان کا کہ کس کا ایمان کیا ہے؟ میرا ایمان ہے کہ جن احکامات کاتذکرہ قرآن حکیم میں کیا گیا ہے ، اور جن آیات میں یہ احکام نظر آتے ہیں ، میں‌ اپنے رسول صلعم کی سنت کی پیروی میں اور اپنے اللہ تعالی کے احکام کو ہر نماز میں‌بجا لاتا ہوں۔ اگر کوئی صاحب ، یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے احکامات نہیں بجالاتے ہیں تو بھائی پھر وہ عبادت بھی کسی اور کی ہی کرتے ہیں ۔۔

اللہ تعالی کے احکامات بجالانا ہی عین عبادت ہے۔ چاہے وہ نماز ہو۔ عدل و انصاف کا نفاذ ہو، مساوات کا پیغام ہو یا زمین پر امن وآشتی کا قیام ۔ یہ سب عبادات ہیں کہ یہ اللہ کے احکامات ہیں۔

مجھے تو محمود صاحب آپ کے نکات میں اور اپنے نکات میں مزید بحث کے قابل کوئی بات نظر نہیں آتی۔ نماز ایک ایس عبادت ہے جس کے اللہ تعالی کی طرف سے بنیادی احکامات ایک بڑی تفصیل سے ساتھ قرآن حکیم میں‌ ملتے ہیں ۔ انہی احکامات کے عین مطابق سنت رسول ، سنت جاریہ بھی ہے اور جناب کتب روایات میں بھی یہی سنت رسول پائی جاتی ہے۔ یہ ثبوت ہے اس امر کا سنت رسول عین مطابق و موافق قرآن ہوتی ہے۔

جن صاحب نے سبحانک اللھم اور تبارک اسمک پر اعتراض کیا ہے۔ ان کا اعتراض ان کو مبارک ، کاش کہ وہ مکمل آیات بھی پڑھ لیتے ۔ ایک بار پھر آپ کی طرف سے کی گئی وضاحت اور سمجھ کا شکریہ۔

والسلام
 
بہت سے ماہرین کرام یہ دعوی کرتے آئے ہیں کہ نماز کا طریقہ قران میں نہیں ہے بلکہ کتب روایات میں ہے۔

اب ماہرین کرام سے استدعا ہے کہ وہ صرف اور صرف کتب روایات سے مکمل نماز کا طریقہ فراہم کریں۔ تاکہ اس کی توثیق ہوسکے۔
اس بارے میں مزید لکھنے سے پہلے میں 2 دن انتظار کروں گا کہ کوئی صاحب نماز کا مکمل طریقہ کتب روایات سے فراہم کردیں۔ انشاء اللہ تعالی 2 دن کے بعد کتب روایات کے طریقہ نماز پر کچھ روشنی ڈالوں گا۔

بہت ہی شکریہ۔

والسلام
 
السلام علیکم ظفری بھائی ! مجھے بھی لگتا ہے کہ آپ بھی ایک سلجھے ہوئے اور سمجھدار آدمی مگر یہ کیا کہ آپ ایک ایسے شخص کی بے جا حمایت کررہے ہیں کہ جو قرآں و سنت پر من مانی تاویلات فاسدہ کرتا ہے اور امت مسلمہ کی ننانوے اعشاریہ نو فی صدی کو بیک جنبش قلم فاسق و فاجر اور پتا نہیں کیا کیا قرار دے ڈالتا ہے اور آپ ہیں کہ ایسے شخص کے اجھتادات فاسدہ کو علمیت کا درجہ دے رہے ہیں ۔ ایک ایسا شخص جو فقط اپنی ذاتی رائے کو اور ذاتی فہم کو سب سے بڑھ کر جانے وہ بھی بلا دلیل اور اسکے نتیجے میں امت 99۔9 فی صدی کو گمراہ جانے تو آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں کیا اس کی عقل سلامت ہے ؟؟؟؟؟؟؟ ۔ ۔

عابد آپ کی ناراضی سر آنکھوں پر۔

قرآن حکیم کی آیات بلا تبصرہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اگر ان آیات کے معانوں میں کوئی فرق ہے وضاحت فرمائیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے آج تک کسی نے بھی قرآن حکیم کے کسی ترجمہ پر اعتراض نہیں‌کیا ہے لیکن ان آیات سے ناراض بہت ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ قرآن حکیم کی آیات سامنے آتی ہیں تو باطل نظریات چکنا چور ہوجاتے ہیں۔

کوئی کہتا ہے 14 لاکھ روایات ہیں کوئی کہتا ہے 30 لاکھ روایات۔ پھر کہتے ہیں کہ قرآن میں نماز کا طریقہ نہیں حدیث میں ہے۔ آپ آج یہ جان لیجئے کہ ان تمام روایات میں بھی نماز کا طریقہ نہیں‌ہے۔ اگر ہے تو سامنے لے ہی آئیے ۔ جس کا شور 200 برس سے مچا رہے ہیں اس کو سامنے لانے میں کیا مسئلہ؟؟؟؟

کوشش کیجئے کہ ذاتیات سے بلند ہوکر با دلیل بات کہیئے تاکہ پڑھنے والوں کو کچھ فائیدہ ہو۔ یقین کیجئے میرے بارے میں کسی رائے زنی سے کسی کو بھی کوئی فائیدہ نہیں ہوتا۔ کچھ سب کے فائیدے کی معلومات فراہم کیجئے۔


والسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
عابد آپ کی ناراضی سر آنکھوں پر۔

قرآن حکیم کی آیات بلا تبصرہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اگر ان آیات کے معانوں میں کوئی فرق ہے وضاحت فرمائیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے آج تک کسی نے بھی قرآن حکیم کے کسی ترجمہ پر اعتراض نہیں‌کیا ہے لیکن ان آیات سے ناراض بہت ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ قرآن حکیم کی آیات سامنے آتی ہیں تو باطل نظریات چکنا چور ہوجاتے ہیں۔

کوئی کہتا ہے 14 لاکھ روایات ہیں کوئی کہتا ہے 30 لاکھ روایات۔ پھر کہتے ہیں کہ قرآن میں نماز کا طریقہ نہیں حدیث میں ہے۔ آپ آج یہ جان لیجئے کہ ان تمام روایات میں بھی نماز کا طریقہ نہیں‌ہے۔ اگر ہے تو سامنے لے ہی آئیے ۔ جس کا شور 200 برس سے مچا رہے ہیں اس کو سامنے لانے میں کیا مسئلہ؟؟؟؟


والسلام
خاں صاحب مجھے آپ سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں اور نہ ہی آپ کوئی پہلے شخص ہیں کہ جنھوں نے احادیث کا انکار کیا ہے یا حجیت حدیث کا مسئلہ میں ابہام پیدا کیا ہے ؟ مجھے آپ کے ساتھ اس مسئلہ پر اختلاف نہیں کہ آپ حجیت حدیث پر شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں آزادی کا دور ہے ہر کسی کو اپنی آزادانہ حق رائے دہی کا حق حاصل ہے میں بھلا کون ہوتا ہوں آپکو اس حق سے روکنے والا ؟ میرا اختلاف آپکے ساتھ فقط یہ ہے کہ جس بات کو آپ جس طریقے سے سمجھتے ہیں بس اسی کو حق سمجھتے ہوئے پوری امت مسلمہ کے اکابرین کو بمہ امت آپ فاسق و فاجر و سازشی اور پتا نہیں کیا کیا قرار دے جاتے ہیں ۔ ۔
آپکے مراسلے پڑھ کر ایک عامی بھی یہی مفھوم لیتا ہے کہ 1400 سال سے اگر کسی کو قرآن کا درد ہے تو فقط آپکی زات ہے اور باقی ساری امت کے بارے میں یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ امت 1400 سو سال بجائے قرآن پاک کی تعلیمات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کہ الٹا فقط قرآن کے خلاف سازشیں کرنے میں ہی مصروف رہی اور اتنے بڑے بڑے لوگ گزر گئے ان میں سے کوئی بھی اسلام ، قرآن اور تعلیمات قرآن کا حقیقی وارث پیدا نہ ہوا بلکہ سب دشمنی ہی کرتے رہے پتا نہیں ان سب کو کیا خار تھی قرآن سے کہ قرآن کو دلائل اربعہ میں اولٰی جانتے ہوئے بھی قرآن کا درجہ ثانویہ سے بھی بدتر رکھتے رہے معاذاللہ ۔ ۔ ۔
باقی یہ آپکو شدید غلط فہمی ہے کہ قرآں کو لغات کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے اگر قرآن کو لغت ہی کی مدد سے سمجھنا تھا تو پھر صاحب قرآن کا کوئی مصرف باقی نہیں بچتا (معاذاللہ ) اللہ پاک نے عربوں میں عربی زبان میں قرآن اتارا وہ اہل زبان تھے چاہیے تھا کہ قرآن کی ہر آیت کا مطب بخوبی سمجھ جاتے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اہیل زبان ہونے کہ وہ ایک ایک آیت کی تفہیم کے لیے زبان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر آپکے بعد جید صحابہ کرام سے رجوع کیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔
باقی جس قسم کے اعتراضات آپ حدیث پر کرتے ہیں وہ کوئی نئے نہیں ان کے ہزاروں جوابات علمائے محدثین دے چکے ہیں بالکل بعینہ وہی تمام کے تمام اعتراضات خود قرآن پر بھی لوٹتے ہیں کہ جنکا جواب آپ بھی آج تک ہمیں نہیں دے سکے ۔ ۔ ۔ ۔
 
عابد صاحب۔ سب سے پہلی بات کہ یہ دھاگہ میرے بارے میں نہیں۔ نماز کے احکام کے بارے میں ہے ۔ اس کے باوجود آپ کا "زور" مجھ پر ہے۔

میں نے کبھی کسی روایت کی مخالفت اس وقت تک نہیں کی، جب تک کہ قرآن حکیم کی ایک عدد آیت اس روایت کے خلاف نہ شئیر کی ہو۔ اگر اس کے برخلاف ہوا ہے تو آپ لے لائیے ایک عدد ثبوت۔ نہ میں کسی کو فاسق قرار دیتا ہوں اور نہ ہی فاجر۔ اگر میری شئیر کی ہوئی آیات نامناسب ہیں تو آپ اس کا دلیل سے جواب دیجئے۔ کیا وجہ ہے کہ آپ کا یقین ہے کہ میں غلط ہوں لیکن اسی سارے دھاگہ میں ایک بھی دلیل آپ نے نہیں دی کہ ساتھیو، فاروق صاحب نے یہ حوالہ غلط فراہم کیا ہے اور اس کی یہ وجہ ہے۔

جو کچھ آپ نے میرے بارے میں لکھا ہے وہ آپ کا اپنا گمان ہے۔ ان ہوائی اعتراجات کو آپ دلیل کہتے ہیں؟۔ آپ میری ذاتی تحاریر میں سے تین ریفرنس دے کر اپنے پہلے تین نکات ثابت کیجئے۔

میرا ہر مراسلہ قرآن کی آیات سے شروع ہوتا ہے۔ جس کے جواب میں آپ روایات کی کتاب کا صرف تذکرہ کرتے ہیں، علماء کا حوالہ دیتے ہیں لیکن کبھی کوئی آیت ربانی یا مستند موافق القرآن حدیث نبوی پیش نہیں کرتے۔

نماز کے احکام کی آیات شئیر کرنے ک وجہ بھی اسی فورم پر موجود ہے کہ یہاں اسی فورم پر لوگوں نے یہ دعوی کیا کہ اگر نماز کا طریقہ کار ہے تو وہ کتب روایات میں ہے۔ قرآن میں نماز کا طریقہ ہی نہیں ہے۔ میں نے وہ تمام احکام جو نماز میں امت مسلمہ ادا کرتی ہے ، قرآن حکیم کے حوالوں کے ساتھ سب کو پیش کئے کہ مسلمان اپنی نماز میں بنیادی طور پر ان احکام کو پورا کرتا ہے۔ یہی اللہ تعالی کی تعلیم ہے، جو رسول صلعم سے ہم کو ملی۔ اگر ان احکامات سے آپ کو انکار ہے تو اس کی وجہ لکھئے۔

کتب روایات میں نماز کا متفقہ طریقہ کا دعوی آُ کو 150 سالہ پرانی کتب میں بھی مل جائے گا۔ آپ کو تو بالکل کوئی دیر ہی نہیں‌لگنی چاہئیے ، آپ نیت کرنے سے سلام پھرنے تک کا طریقہ کتب روایات سے پیش کردیجئے تاکہ سب کا بھلا ہو۔

چلئیے شروع کرنے میں آپ کی مدد کرتا ہوں، آپ مکمل کردیجئے۔

کتب روایات سے نماز کا طریقہ:


وضو:
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول صلعم ہر نماز کے لئے نیا وضو کیا کرتے تھے (بخاری ج/1 ص/ 35)

اس کی تردید:حضرت عباس سے روایت ہے کہ رسول صلعم کچھ دیر کے لئے سوئے اور پھر مسجد میں جاکر بناء وضو نماز ادا کی ( بخاری، کتاب الوضو)

مزید تردید:
رسول اللہ صلعم کے صحابہ، سو کر اٹھنے کے بعد بغیر وضو نماز ادا کیا کرتے تھے (‌مسلم ص/ 500)

نماز سے پہلے کیا غسل فرض ہے؟
--- حضرت عثمان(ر) نے فرمایا، اگر ایک شخص مادہ ء منویہ کے اخراج سے پہلے عضو باہر نکال لے تو اس کو چاہئی کہ وہ عضو کی جگہ کو دھو لے اور وضو کرلے (بخاری ج/1 کتاب الوضو ص/164 روایت 176)
[arabic]أبي بن كعب [/arabic] نے رسول اللہ صلعم سے دریافت کیا کہ اگر ایک شخص ہمبستری کرتا ہے اور اخراج سے پہلے باہر نکال لیتا ہے تو کیا اس کو غسل کرنا چاہئیے؟ انہوں ( ص)‌ نے کہا کہ اس کو چاہئیے کہ وضو کرکے نماز پڑھے۔۔۔

اوپر کی روایات کی تردید:
--- دخول کے بعد غسل فرض ہوجاتا ہے (‌موطا صفحہ 22)
--- رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ جب ایک مرد عورت کی رانوں کے درمیان بیٹھتا ہے اوراندر دھکیلتا ہے تو اخراج ہو یا نہ ہو غسل فرض‌ ہوجاتا ہے (‌مسلم ج/1 باب الوضو ص/485)


تو پھر وضو اور غسل کا بیان کا کیا تصفیہ ہو؟
یہ روایت اور پھر تردیدی روایت ، اس بزرگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا جارہا ہے جنہوں نے صرف 23 سال میں سب کے دل جیت لئے، 1/3 دنیا فتح کرلی، اور دنیا بھر کے لئے انسانیت کا پیغام لائے۔ ان سے اس طرح کے تردیدی بیانات کی کسوٹی کیا ہے صاحب؟؟؟؟؟


اب آپ ان روایات کا مقابلہ درج ذیل آیت سے کیجئے:
[ayah]5:6 [/ayah] [arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ وَإِن كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَ۔كِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [/arabic]
مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تم منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو۔ اللہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو


آپ سے استدعا ہے کہ تفصیلات کے ساتھ طریقہ نماز، روایات کی روشنی میں مکمل کردیجئے اور ہاں ، عرض یہ ہے کہ، اپنی معلومات سے ہم سب کو فائیدہ پہنچائیے کہ ان روایات کے حوالہ اپنی والی کتب سے لگا دیجئے۔ کہ مجھے یقین ہے کہ نہ ان روایات کی نہ تو ترقیم ، نہ ہی متن اور نہ ہی ترتیب آپ کی کتاب سے ملتی جلتی ہوگی۔ ایک بات کا اور خیال رکھئے گا کہ کسی بھی روایت کی حجت سے انکار نہ کیجئے گا۔


والسلام
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اس محفل میں بقول بھائی عابد عنایت کے بے جا حمایت ہوتی ہے اور بغیر کسی مناسب سبب کے پیغامات حذف کر دیے جاتے ہیں،
اس لیے بہت ڈرتے ڈرتے پروٹوکولز کا خیال رکھتے ہوئے عرض ہے :::
جناب فاروق سرور صاحب ،
دو دن میں کتب احادیث میں صحیح احادیث کے مطابق نماز کا طریقہ یہاں لکھنا تقریباً نا مکمن ہے ،
آپ کتب احادیث میں سے """ کتاب الصلاۃ """ اور اس سے متلعقہ دیگر کتب اور ابواب کا مطالعہ فرما لیجیے ، اور جو کچھ آپ کو """ خلاف قران """ لگے اس کا اظہار فرما دیجیے ،
اور میرے سوال کا جواب تو عنایت فرما دیجیے ، جناب ، بندہ مشکور ہو گا ۔
 

سویدا

محفلین
فاروق صاحب آپ نے اس دھاگے کا عنوان از خود مقرر کیا کہ
قرآن کریم طریقہ نماز کیسے تعلیم فرماتا ہے
لیکن جو آیات یا تراجم آپ نے کوڈ کیے اس میں‌صرف الفاظ ہیں‌طریقہ نماز تو اب بھی نہیں‌!
اور جو احادیث میں‌آپ نے تعارض بیان فرمائیں‌ہیں‌اس سے کیا مقصد ہے آپ کا
جب نماز کا مکمل طریقہ قرآن میں‌نہیں‌ہے احادیث میں‌تعارض‌ہے تو پھر
اب کہاں‌رجوع کیا جائے گا
 
سویدا، سلام

سب سے پہلے آپ کے ایک اچھے سوال کا نرم انداز سے پوچھنے کا شکریہ۔
آپ کے سوال کا سیدھا جواب کہ نماز کے احکامات اللہ تعالی نے صادر کئے، اس کی ادائیگی کا طریقہ رسول اکرم کو سکھایا، رسول اکرم نے دیگر مسلمان اصحابہ کو اور ان اصحابہ کرام (ر) نے اس تعلیم کی تفصیلات کو کتب روایات میں قلمبند کرکے ہم تک پہنچایا، اس کے لئے ہم اپنے علماء کرام اور بزرگوں کے شکر گزار ہیں۔

تقریباً‌ ہر دھاگہ میں یہ چیلنج کیا جاتا ہے کہُ قرآن سے نماز کا طریقہ نکال کر دکھائیے۔
اس مراسلہ میں میں‌نے ایک بھائی کے اس اعتراض‌کا جواب دیا کہ ---- نماز کا طریقہ قرآن میں‌نہیں ہے۔
اس کے جواب میں جو احکامات یہاں برادران و خواہران کے لئے پیش کئے وہ شائد میری کم علمی کی وجہ سے اب بھی نامکمل ہیں۔ لیکن غلط نہیں ۔۔

مقصد نہ ان احکام کا یہ بتانا ہے کہ سنت رسول عین مطابق و موافق القرآن ہے۔ اگر ایسا نہیں تو بھائی آپ میں سے جو بہتر نظر اور بہتر معلومات رکھتے ہیں وہ مہربانی کرکے رہنمائی فرمائیں ۔

جب بھی کسی موضوع پر بات چلتی ہے اور وہاں قرآن حکیم سے حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں‌ تو فوری جواب یہ آتا ہے کہ آپ حدیث کی حجت کو نہیں‌مانتے۔ فوراً‌ ان تمام کتب پر مکمل ایمان لائیے ، ان میں ایک لفظ بھی غلط نہیں۔ اگر آپ ان کتب کونہیں مانتے تو آپ منکر الحدیث ہیں۔ حدیث کی حجت سے انکار کرتے ہیں۔


بھائی یہ بھی تو ممکن ہے کہ میں بھی ان تعارضات پر غور کرتا ہوں جن کا علم آپ کوبھی ہے۔ نماز، روزہ اور دیگر ذاتی عبادات ایسے امور ہیں کہ 1400 سال سے یہ امور امت مسلمہ میں مظبوط ہیں۔ ان پر کسی اعتراض کی ضرورت نہیں۔

میرا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ جن تعارضات کو ہم یہاں دیکھ رہے ہیں وہ صرف اس لئے ان کتب میں پلانٹ‌ کئے گئے ہیں‌ کہ میں اور آُپ لڑتے رہیں اور تفرقہ جاری رہے۔

جبکہ اصل مسئلہ کہیں اور ہے۔ وہ مسئلے جس پر میں لکھتا ہوں ۔۔۔ ان کا تعلق ذاتی نوعیت کی عبادات سے نہیں‌۔

ان کتب روایات میں تین موضوع ایسے ہیں جہاں خلاف قرآن روایات کی بھرمار ہے۔ وہ تین موضوعات ہیں ۔ خواتین کے حقوق۔۔۔۔ عوام کی دولت ۔۔۔۔۔ اور اقتدار پر قبضہ۔

جہاں‌ ان موضوعات سے تعلق رکھنے والے مسائیل پر تبصر ہوتا ہے وہاں میری کوشش ہوتی ہے کہ قرآن سے حوالے پیش کروں ۔۔ اور پوری کوشش ہوتی ہے کہ روایات سے حوالے نہ پیش کروں۔ آپ متعہ سے متعلق موضوع کو دیکھ لیجئے ، وہاں‌بھی روایات میں تعارض‌موجود ہے۔ لیکن میرا پیش کیا ہوا نہیں۔ اس تعارض سے آپ درست روایت کی نشاندہی کس طور کیجئے گا؟ اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے وہ ہے کہ اس کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔

والسلام
 

فرخ

محفلین
فاروق صاحب
او بھائی میرے، اپنے اس درج ذیل مراسلے میں آپ تو کہہ رہے ہیں "کتب روایات سے نماز کا طریقہ" اور بات شروع کردی وضو و غسل پر :frustrated: اس میں‌نماز کا طریقہ کدھر ہے ؟ کم از کم اس طرح تو آپ بات کو گھُما پھرا نہیں سکتے ؟

چلئیے شروع کرنے میں آپ کی مدد کرتا ہوں، آپ مکمل کردیجئے۔

کتب روایات سے نماز کا طریقہ:

وضو:
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول صلعم ہر نماز کے لئے نیا وضو کیا کرتے تھے (بخاری ج/1 ص/ 35)

اس کی تردید:حضرت عباس سے روایت ہے کہ رسول صلعم کچھ دیر کے لئے سوئے اور پھر مسجد میں جاکر بناء وضو نماز ادا کی ( بخاری، کتاب الوضو)

مزید تردید:
رسول اللہ صلعم کے صحابہ، سو کر اٹھنے کے بعد بغیر وضو نماز ادا کیا کرتے تھے (‌مسلم ص/ 500)

نماز سے پہلے کیا غسل فرض ہے؟
--- حضرت عثمان(ر) نے فرمایا، اگر ایک شخص مادہ ء منویہ کے اخراج سے پہلے عضو باہر نکال لے تو اس کو چاہئی کہ وہ عضو کی جگہ کو دھو لے اور وضو کرلے (بخاری ج/1 کتاب الوضو ص/164 روایت 176)
[arabic]أبي بن كعب [/arabic] نے رسول اللہ صلعم سے دریافت کیا کہ اگر ایک شخص ہمبستری کرتا ہے اور اخراج سے پہلے باہر نکال لیتا ہے تو کیا اس کو غسل کرنا چاہئیے؟ انہوں ( ص)‌ نے کہا کہ اس کو چاہئیے کہ وضو کرکے نماز پڑھے۔۔۔

اوپر کی روایات کی تردید:
--- دخول کے بعد غسل فرض ہوجاتا ہے (‌موطا صفحہ 22)
--- رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ جب ایک مرد عورت کی رانوں کے درمیان بیٹھتا ہے اوراندر دھکیلتا ہے تو اخراج ہو یا نہ ہو غسل فرض‌ ہوجاتا ہے (‌مسلم ج/1 باب الوضو ص/485)


تو پھر وضو اور غسل کا بیان کا کیا تصفیہ ہو؟
یہ روایت اور پھر تردیدی روایت ، اس بزرگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا جارہا ہے جنہوں نے صرف 23 سال میں سب کے دل جیت لئے، 1/3 دنیا فتح کرلی، اور دنیا بھر کے لئے انسانیت کا پیغام لائے۔ ان سے اس طرح کے تردیدی بیانات کی کسوٹی کیا ہے صاحب؟؟؟؟؟


اب آپ ان روایات کا مقابلہ درج ذیل آیت سے کیجئے:
سورۃ المآئدۃ:5 , آیت:6 [arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ وَإِن كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَ۔كِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [/arabic]
مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تم منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو۔ اللہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو


آپ سے استدعا ہے کہ تفصیلات کے ساتھ طریقہ نماز، روایات کی روشنی میں مکمل کردیجئے اور ہاں ، عرض یہ ہے کہ، اپنی معلومات سے ہم سب کو فائیدہ پہنچائیے کہ ان روایات کے حوالہ اپنی والی کتب سے لگا دیجئے۔ کہ مجھے یقین ہے کہ نہ ان روایات کی نہ تو ترقیم ، نہ ہی متن اور نہ ہی ترتیب آپ کی کتاب سے ملتی جلتی ہوگی۔ ایک بات کا اور خیال رکھئے گا کہ کسی بھی روایت کی حجت سے انکار نہ کیجئے گا۔
والسلام

رہ گئی بات کتب روایات سے نماز کا طریقہ دکھانے کی، تو کوئی مُشکل بات نہیں ہے۔ القلم پر ہونے والی اسی موضوع کی بحث میں ، میں آپ کے سامنے پہلے بھی صحیح بخاری و مسلم سے وہ احادیث پیش کر چُکا ہوں جن میں نماز پڑھنے کا طریقہ موجود ہے، مگر وہاں‌بھی آپ نے اعتراضات شروع کر دیئے تھے۔ بلکہ آپ نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ "کسی حدیث میں طریقہ نماز تعلیم نہیں کیا گیا ہے۔ "

(اس دوران القلم اپنے موجودہ سرور اور سافٹ وئیر پر منتقل ہوا اور اب یہ بحث کاپی کر کے یہاں رکھی گئی ہے
http://www.alqlm.org/forum/showthread.php?t=3950&highlight=نماز+طریقہ
)

ہم میں‌سے کوئی بھی آپ کے سامنے کتب حدیث سے طریقۂ نماز پیش کر سکتا ہے۔ مگر آپ جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ قرآن میں طریقہ ٔ نماز ہے، تو اس سےمتعلق سوالات کے یا تو جوابات دیں، یا پر واضح کریں اور تسلیم کریں کہ قرآن میں طریقہ نہیں احکام ہیں۔

آپ قرآن میں سے طریقۂ نماز کبھی ثابت نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ قرآن میں احکاماتِ نماز ہیں، طریقہ صرف اور صرف سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں‌ ہی ہے۔

رہ گئی بات روایات میں اختلاف کی، تو یہ ایک بالکل الگ مسٔلہ ہے اور آپ اپنی پرانے طریقے یعنی دیگر معاملات میں الجھانے کی بجائے، بہتر یہ ہوگا کہ To the point بات کریں اور آپ سے کئے گئے سوالات کے جوابات فراہم کریں۔ اور جواب نہیں آتا تو کم از کم بحث کا رُخ موڑنے کی کوشش مت کریں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
عابد صاحب۔ سب سے پہلی بات کہ یہ دھاگہ میرے بارے میں نہیں۔ نماز کے احکام کے بارے میں ہے ۔ اس کے باوجود آپ کا "زور" مجھ پر ہے۔

میں نے کبھی کسی روایت کی مخالفت اس وقت تک نہیں کی، جب تک کہ قرآن حکیم کی ایک عدد آیت اس روایت کے خلاف نہ شئیر کی ہو۔ اگر اس کے برخلاف ہوا ہے تو آپ لے لائیے ایک عدد ثبوت۔ نہ میں کسی کو فاسق قرار دیتا ہوں اور نہ ہی فاجر۔ اگر میری شئیر کی ہوئی آیات نامناسب ہیں تو آپ اس کا دلیل سے جواب دیجئے۔ کیا وجہ ہے کہ آپ کا یقین ہے کہ میں غلط ہوں لیکن اسی سارے دھاگہ میں ایک بھی دلیل آپ نے نہیں دی کہ ساتھیو، فاروق صاحب نے یہ حوالہ غلط فراہم کیا ہے اور اس کی یہ وجہ ہے۔
خان صاحب ہمارا آپ پر " زور " ہونے کی وجہ آپ کا پوری امت مسلمہ کے مقابلے میں " منہ زور " ہونا ہے ۔
باقی رہ گیا آپکا یہ کہنا کہ آپ نے کبھی روایات کی مخالفت نہیں کی سوائے ان روایات کہ جو کہ مخالف قرآن ہوں
تو بھائی جی عرض یہ ہے کہ ایک تو آپ ابھی تک اپنے " مخالف قرآن " والے مفروضے کا کوئی ایک بھی سٹینڈرڈ مقرر نہیں کرسکے جب کہ یہ مطالبہ آپ سے مجھ عامی سمیت کئی اہل علم کا ہے ۔ باقی یہ فورم گواہ ہے کہ میں آپکے ساتھ حجیت حدیث پر گفتگو کرنے کا ہی مخالف ہوں میں تو کہتا ہوں کہ آپکے ساتھ بات ہی براہ راست قرآن پر کی جائے اور اس ضمن میں ہم نے آپ سے جتنے بھی سوالات کیئے وہ آج تک لاجواب ہیں سارا فورم گواہ ہے ۔ ۔
اور رہ گیا آپکا یہ کہنا کہ آپ اپنی حمایت میں قرآن کی آیات بطور دلیل پیش فرماتے ہیں تو حجور گذارش یہ ہے کہ اگر فقط آیات کا نقل کردینا ہی علمی دنیا میں دلیل کہلاتا ہے تو ہم سارے کا سارا قرآن ہی یہاں پر کاپی پیسٹ کردیتے ہیں اور بڑی آسانی سے آپکو یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہیں ہمارے دلائل آپ لاؤ ان کا جواب ۔ ۔
باقی رہ گیا آپ کا جگہ جگہ نت نئے عنوانات قائم فرما کر بے موقع اور بے محل آیات قرآنی کو اپنے مذموم مؤقف کی دلیل کے بطور نقل کرنا تو خدا گواہ ہے کہ اس پر آپکو منہ کی کھانی پڑی ہے اور تمام قارئین پر خود ہی آپکی قرآن دانی اور قرآن فہمی روز روشن کی طرح عیاں ہوتی چلی جارہی ہے اور شکر ہے خدا کا ہمیں آپکی قرآن فہمی کی مضحکہ خیزی واضح کرنے کا جوکھم نہیں اٹھانا پڑا مگر پھر بھی دھیرج رکھیئے ان شاء اللہ واضح ضرور کریں گے مگر وقت آنے پر پہلے تو آپ سے بات ہی ثبوت قرآن پر ہوگی ۔ ۔ ۔
ہم نے جو سب سے پہلا سوال آپ سے کیا تھا وہ درج زیل تھا
۔ ۔ ۔آخر خلاف قرآن سے انکی مراد کیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا عدم ذکر یا پھر آیا انکا (خان صاحب کا ) ذاتی فہم مراد ہے کہ جسے وہ خلاف قرآں سمجھیں

پھر ہمارے سوالات بطور ثبوت قرآن آج تک لاجواب ہیں جو کہ درج زیل ہیں .

سب سے پہلے تو حجور آپ خود قرآن کی تعریف خود قرآن ہی سے فرمائیں اور پھر خود قرآن ہی سے موجودہ دور کہ اس مصحف کا قرآن ہونا بھی ثابت فرمائیں یاد رہے کہ اس قرآن کو قرآں ثابت کرنے کے لیے غیر قرآن یا کوئی بھی بیرونی گواہی قابل قبول نہ ہوگی اگرچہ وہ عقل کے کتنے ہی معیارات پر پورا کیوں نہ اترتی ہو
مزید درج زیل ۔ ۔

موجودہ قرآن کے قرآن ہونے پر خود قرآن سے دلیل اور وہ دلیل آپ تک کن زرائع سے پہنچی آیا وہ زرائع قرآنی ہیں یا غیر قرآنی اگر قرآنی ہیں تو انکی دلیل اور اگر غیر قرآنی ہیں تو ان پر آپ کے اعتماد کی وجہ اور اسکی دلیل ؟؟؟؟؟

کیا موجود مصحف وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا اس پر قرآن سے ہی دلیل ؟؟؟؟

موجودہ مصحف کا وہ اصل نسخہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا اسی کے قرآں ہونے پر خود قرآن سے دلیل اور اگر اس کے ثبوت کا زریعہ غیر قرآن ہے تو اس پر آپکے اعتماد کی وجہ اور اسکی دلیل ؟؟

جن دو گواہوں کا آپ نے شور مچا رکھا ہے ان دونوں کی گواہی آپ تک کس زریعے سے پہنچی آیا قرآنی یا پھر غیر قرآنی ؟ اگر قرآنی ہے تو اسکی دلیل اور اگر غیر قرآنی ہے تو اس زریعے پر آپکے اعتماد کی وجہ اور اسکی دلیل ؟؟؟؟؟

پھر اسکے علاوہ اور مزید سوالات جن سب کا جواب یا تو آپ گول کرگئے یا جو ٹوٹا پھوٹا دیا بھی تو اس پر ہمارے مزید سوالات جو کہ سب کے سب لاجواب اور اس بات کا گواہ سارا فورم ہے ۔۔
آخر میں کچھ باتیں قارئین کرام سے ۔ ۔
قارئین کرام قرآن ہو یا سنت یہ دونوں ہمارے لیے یعنی تمام مومنوں کے لیے اپنے ثبوت کے اعتبار سے زبان مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی حدیث یا روایت ) کے ہی رہین ہیں اور اسی زریعہ (یعنی زبان نبوت ) سے ثابت ہیں ۔
قرآن و سنت میں اپنے ثبوت کے اولین ماخذ (یعنی زبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے ادا ہونے کے ) اعتبار سے کوئی فرق نہیں بجز اس کہ کے قرآن قرآت متواترہ سے ثابت ہے جبکہ سنت امت کے تواتر عملی سے ثابت ہے ۔
رہ گئی روایات یعنی احادیث کی بات تو بنیادی طور پر احادیث نام ہی تاریخ سنت کا ہے بالکل ویسے ہی کہ جس طرح سے قرآن کی قرات سبعہ قرآن کی تاریخ کا نام ہیں اور یہ بھی کہ احادیث سب کی سب متواترہ نہیں ہیں بلکہ ان کی اکثریت احاد کی ہے ۔
ہمارے نزدیک قرآن اور سنت دونوں کے ثبوت کا سب سے اولین ذریعہ یعنی اولین ماخذ احادیث بمعنی زبان مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جسکو ہماری بات سے اختلاف ہو اُسے ہمارا چیلنج ہے کہ قرآن کا قرآن ہونا بغیر زبان مصطفٰی سے ثابت کرکے دکھائے ۔ ۔ ۔ ۔
 
دین کی ساری عمارت ہی بھروسے اور اعتبار پر قائم ہے۔ بلکہ دین ہی کیا، دنیا کے کاروبار بھی بھروسے اور اعتبار کے بغیر نہیں چل سکتے۔ جب آپ کی اٹھان ہی منفی خیالات پر ہو، اور آپ جگہ جگہ سلف صالحین اور علماء و محققین سے سوءالظن رکھین، جن کتب روایات سے دین اخذکریں انہی کے مولفین کو وقت آنے پر بے دھڑک قرآن و سنت سے جاہل و بیخبر بلکہ دشمنِ دین ٹھرائیں تو آپ کو کیا خیر نصیب ہوگی؟۔ ۔ بے ادب بے مراد، با ادب با مراد۔ جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ ربّ کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔ ۔ ۔
علم حاصل کرنے کیلئے محض کتابیں نہیں بلکہ ایک اٹیچیوڈ درکار ہے۔ کتابوں سے انفارمیشن یا معلومات مل سکتی ہیں لیکن علم (جسے نور کہا گیا ہے)کیلئے بے جان کتابیں نہیں بلکہ صاحبِ علم کے ساتھ نسبت درکار ہے۔ ویسی نسبت اور ویسا ایٹیچیوڈ جو شاگرد کو استاد سے، مرید کو پیر سے، امتی کو رسول سے، زمین کو آسمان سے، پیاس کو پانی سے، محبّ کو محبوب سے اور غلام کو آقا سے ہوتی ہے۔ بات پھر وہی کہ حسنِ ظنّ، بھروسہ، اعتبار، ادب۔ ۔ ان سب کے بغیر علمِ دین حاصل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ کوئی بھی علم۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھائی عابد عنایت ، بھائی سویدا ، بھائی محمود احمد غزنوی ، جزاکم اللہ خیراً کثیراً ، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ سب کی محنتیں قبول فرمائے اور ہم سب کو اس کے دِین جس کی دو بنیادیں ہیں ، اس کا کلام پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت مبارکہ ، کی حفاظت اور خدمت کرنے والوں میں قبول فرمائے ،
بھائیو ، فاروق صاحب میرے صرف ایک سوال کا جواب نہیں دے رہے ، کبھی کچھ کہہ کر کنی کترا رہے ہیں اور کبھی کچھ ، لیکن مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ آپ سب میرے سوال کا مقصد سمجھ گئے ہوں گے کہ فاروق سرور صاحب نے مکی اور مدنی سورتوں کا لحاظ کیے بغیر کچھ آیات نقل کر دی ہیں جن میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جو نماز میں بھی کیے جاتے ہیں ، جبکہ نماز تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر مکہ المکرمہ میں نبوت کے آغاز میں ہی فرض کر دی گئی تھی ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور ایمان لانے والے صحابہ رضی اللہ عنہم مکہ میں نماز ادا کرتے تھے ، تفصیلات ان شاء اللہ آپ سب کے علم میں ہوں گی ،
میں نے اسی ایک غلطی کی نشاندہی کے لیے وہ سوال کیا تھا ، لیکن فاروق صاحب کو شاید اندازہ ہو گیا تھا میرے سوال میں ان کی اس حرکت کا پول کھل رہا ہے کہ جس طرح انہوں نے اللہ کے کلام پاک کو اپنے فلسفے کی دلیل بنانے کے لیے استعمال کیا ہے ، شاید اسی لیے انہوں نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا ،
یا دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ کب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نماز فرض ہوئی تھی ، اور کب انہوں نے نماز پڑھنا شروع فرمائی تھی ، بہر حال چونکہ گفتگو دھاگے کے عنوان اور اصل موضوع سے دور ہوتی جا رہی ہے اس لیے میں نے معلومات مہیا کی ہیں کہ اگر ہم لوگ صرف اور صرف ان آیات کے بارے میں ہی بات کریں جن کو فاروق سرور صاحب کی """ خلاف قران """ قران فہمی نے نماز کا طریقہ قرار دے لیا ہے ، تو بھی جناب کا بالکل غلط ہے ، اور اگر وہ اپنے دعوے کو درست قرار دینے پر مصر رہیں تو پھر بہت سے ناقابل تردید حقائق کے منکر ہو جائیں گے ،
اب میں فاروق صاحب سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ جناب جب تک یہ مدنی سورتیں اور مکی سورتوں میں مدنی آیات نازل نہ ہوئی تھیں تو کیا معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے طور پر کسی اور طرح نماز پڑھتے تھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
مجھے اندیشہ ہے کہ اب فاروق سرور صاحب پھر کچھ الزامات لگا کر جواب سے کنی کترائیں گے یا نزول قران کے بارے میں ایک اور فلسفہ بیان کریں گے ، و اللہ أعلم ،
فأعتبروا یا اولیٰ الابصار ،

و السلام علیکم۔​
 
Top