قران کریم طریقہء نماز کیسے تعلیم فرماتا ہے

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
سورت الاِسراء ( سورت بنی اِسرائیل ) کی آیت رقم 111 کے بعد صاحبء مراسلہ نے نماز میں تکبیر کہنے کو قران پاک میں سے ثابت کرنے کے لیے اگلی آیت سورت بقرۃ کی آیت رقم 185پیش کی ، اس کے بارے میں صرف اتنا کہنا ہی صاحبء مراسلہ کی """ خلاف قران """ قران فہمی کو واضح کرے گا ان شا ء اللہ ، کہ سورت البقرہ کا نزول مدینہ المنورہ میں ہوا ، اور یہ آیت رمضان کے روزوں کے متعلق ہے اور اس میں جو تکبیر بلند کرنے کا ذکر ہوا ہے وہ اللہ کی رحمت کے شکرانے کے طور پر بلند کرنے کا ہے نہ کہ نماز کا طریقہ ہے ، دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان میں مریض اور مسافر کو رمضان کے دِنوں کے بدلے میں کسی اور دن روزہ رکھنے کی اجازت دینے کے بعد اور یہ فرمانے کے بعد کہ ((((([font=&quot]يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ[/font][font=&quot]بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ[/font][font=&quot]وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ[/font][font=&quot]عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ[/font]::: اللہ تُم لوگوں کے آسانی چاہتا ہے اور اللہ تُم لوگوں کے لیے سختی نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تُم لوگوں (روزوں کی ) گنتی پوری کرو ))))) یہ فرمایا کہ ((((([font=&quot]وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ[/font][font=&quot]عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ[/font]::: اور تا کہ تُم لوگ اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو کچھ اللہ نے تُم لوگوں کو ہدایت دی ہے اور اس لیے کہ تُم لوگ اللہ کا شکر ادا کرو )))))
اب اس """ خلاف قران """ قران فہمی کا کیا کیجیے جو اس آیت میں صرف """ تکبیر """ کا ذکر ہونے کہ بنا پر اسے نماز میں تکبیر کہنے کا طریقہ سمجھ کر اللہ کے کلام کو کہیں سے کہیں بتا تی ہے ،
یہ بعینہ یہودیوں والا وہ کام ہے جس کی مذمت اللہ تعالیٰ نے سورت المائدہ کی آیت رقم 13 میں کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (((((يُحَرِّفُونَ ٱلْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَنَسُواْ حَظَّا مِّمَّا ذُكِرُواْ بِهِ ::: وہ بات کو اس کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور جو نصیحت انہیں کی گئی اسے بھلا بیھٹے )))))
صاحبء مراسلہ اس تحریف کو جاری رکھتے ہوئے اپنی """ خلاف قران """ قران فہمی کے مزید گُل کِھلاتے ہوئے نماز میں تکبیر کہنے کا طریقہ قران میں سے دکھانے کی کوشش میں اپنے مراسلے میں اگلی آیت مبارکہ یہ پیش کرتے ہیں ((((( [font=&quot]لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ[/font][font=&quot]لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ[/font][font=&quot]عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ[/font][font=&quot]:::[/font]ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کاخون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے، اس طرح (اﷲ نے) انہیں تمہارےتابع کر دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح)اﷲ کی تکبیرکہوجیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں ))))) سورت الحج / آیت 37
صاحبء مراسلہ نے اس آیت کو بھی محض لفظ """ تکبیر """ کے ذکر کی بنا پر سوچے سمجھے بنا """ کاپی پیسٹ """ کر دیا ، نہ ہی اس کا سیاق و سباق جانا اور نہ ہی اس کا موضوع سمجھا ، یا جان بوجھ کر معنوی تحریف کی ہے ،
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا صاحبء مراسلہ کو یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ سورت بھی مدینہ میں نازل ہوئی تھی ؟؟؟ یا انہیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ آیت مبارکہ صرف حج میں قربانی کے احکام سے متعلق ہے نماز کے احکام یا طریقہ سے اس کوئی ربط اور واسطہ نہیں ؟؟؟
یا جان بوجھ اپنے """ خلاف قران """ فلسفوں کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں اللہ کے کلام کی تحریف کی ہے؟؟؟ اور جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ :::
""""" سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ جسے صاحبء مراسلہ نے ""' خلاف قران """ فہم کے مطابق نماز میں تکبیر کہنے کی دلیل بتایا ہے اگر اسے صاحبء مراسلہ کے فلسفے کے مطابق ہی سمجھا جائے تو پھر میرا سوال کچھ کھل کر دہرانا پڑتا ہے کہ """ معاذ اللہ کیا اس حکم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تکبیر کے بغیر نماز پڑھا کرتے تھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ """
صاحبء مراسلہ کی """ خلاف قران """ قران فہمی تو یہی ثابت کرنا چاہتی ہے ، ولا حول و لا قوۃ الا باللہ ،"""""
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ صاحبء مراسلہ کو اپنی """ خلاف قران """ قران فہمی میں اپنا ہی پیش کیا ہوا ترجمہ بھی سمجھ نہیں آیا جو انہوں نے خود """ کاپی پیسٹ """ کیا کہ (((((تاکہ تم (وقتِ ذبح)اﷲ کی تکبیرکہو )))))گو کہ یہ ترجمہ درست نہیں لیکن اس کے مطابق خود صاحبء مراسلہ کا فلسفہ غلط ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیت نماز میں تکبیر کا طریقہ سِکھاتی ہے یا نماز میں تکبیر کہنے کے بارے میں ہے ، اس ترجمے کے مطابق ہر صاحب بصیرت کو پتہ چل رہا ہو گا کہ ییاں صرف جانور ذبح کرتےہوئے تکبیر بلند کرنے کی بات ہے نماز کی تکبیر کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ،
میں نے ابھی کہا کہ """ گو کہ یہ ترجمہ درست نہیں """ اور ان شاء اللہ مناسب ہو گا کہ میں اپنی بات کی کچھ وضاحت کر دوں ،
سورت الحج کی اس آیت مبارکہ میں تکبیر کا حُکم ذبح کے وقت کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی عطاء کردہ ہدایت کے شکر کے طور پر ہے جیسا کہ سورت البقرہ کی آیت رقم 185 میں ہے جس کی بات میں پہلے کر چکا ہوں ، و للہ الحمد و المنۃ ،
جی تو سورت الحج کی اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالی نے قربانی اور قربانی کے جانوروں کا ذکر فرمانے کے بعد اِرشاد فرمایا ((((( [font=&quot]لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ[/font][font=&quot]عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ [/font] ))))) جس کا ترجمہ فاروق صاحب نے کہیں سے یہ """ کاپی پیسٹ """ کیا کہ ((((( تاکہ تم ( وقتِ ذبح ) اﷲ کی تکبیرکہوجیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں ))))) اس ترجمے میں تکبیر کووقتءِ ذبح سے جوڑا گیا ہے جس کی کوئی صورت نہیں ، اگر یہاں مذکور تکبیر کا ذکر وقتءِ ذبح کے لیے ہوتا تو ((((( لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلِیھَا ::: تا کہ تُم لوگ اللہ کی تکبیر کہو ))))) کہا جاتا ، جیسا کہ اسی سورت الحج میں اس آیت رقم 37 سے پہلے والی آیت مبارکہ میں اِرشاد فرمایا (((((فَٱذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهَا ::: لہذا تُم لوگ قربانی کے جانور پر اللہ کا نام لو ( یعنی ذبح کرتے وقت اللہ اکبر کہا کرو) )))))
لہذا اس کا درست ترجمہ یہ ہے کہ ((((( تا کہ تُم لوگ اللہ کی تکبیر کہو اُس پر جو کچھ اللہ نے تُم لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائی اور ( اے محمد ) آپ احسان کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے )))))صاحبء مراسلہ نے صرف اپنے فلسفے کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں یہ بھی نہیں سمجھا کہ یہ آیت صرف اور صرف حج کے احکام میں سے قربانی کے احکام کے بارے میں ہے نماز سے اس کوئی تعلق نہیں ،
صاحبء مراسلہ کی پیش کردہ اگلی آیت کے بارے میں بات ان شاء اللہ اگلے مراسلے میں ، و السلام علیکم
 
نماز آج دیڑھ بلین لوگ پڑھتے ہیں اور 1400 سال سے پڑھتے ہیں۔ اس دھاگہ کی غرض و غایت صرف اور صرف یہ تھی کہ لوگوں‌کو بتایا جائے کہ نماز میں جن احکام الہی کی تعمیل کی جاتی ہے وہ کیا ہیں۔ اور اس سے بھی بڑا مقصد اس سوال کا جواب دینا تھا کہ کتب روایات میں نماز کا طریقہ پایا جاتا ہے یا نہیں‌،

اس دھاگہ کے پہلے مراسلے کی تاریخ دیکھئے۔ 13 اگست 2007۔ یہ کہنا کہ میرے خیرخواہوں نے یہ مضمون کل پرسوں پڑھا ہے ، ایک ظلم ہوگا۔ آج تقریباً ڈھائی سال ہونے کے بعد بھی کوئی روایت پرست آج تک نماز کا بنیادی ڈھانچہ تک کتب روایات سے پیش نہیں کر پایا جو کہ سب کو قابل قبول ہو۔

کبھی قرآن کے احکامات کا انکار ہے تو کبھی تکبیر پر اعتراض ہے کہ یہ تو ادھر ادھر سے حوالہ دیا گیا ہے۔ احکامات پر اعتراض ہے کہ نماز میں یہ احکامات نہیں پائے جاتے۔ لیکن یہ جواب کہیں‌نہیں کہ ان لوگوں کا طریقہ نماز کیا ہے اور یہ طریقہ کس طرح اس نماز سے مختلف ہے جو اوپر فراہم کی گئی ہے۔

یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول اکرم ایک حکم سے پہلے نماز ادا کرتے تھے لہذا یہ حکم قرآن میں‌ نہیں‌پایا جاسکتا؟؟؟؟ کیا منطق ہے ؟؟؟؟ صاحب کیا باقی انبیاء نماز پڑھا کرتے تھے؟ اگر کسی بھی قسم کی نماز ان لوگوں نے ادا کی تو کیا اللہ تعالی پر بندش ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے حکم کو قرآن حکیم میں نہ نازل فرمائیں؟

بارہا میں‌نے دیکھا ہے کہ جب یہ بتایا جاتا ہے کہ --- یہ اللہ تعالی کا فرمان ہے --- تو اس کو ماننے کے بجائے ، طرح طرح کی تاویلات سے اس کو ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تکبیر کی مثال دیکھ لیجئے۔ ایک سے زائید آیات سے یہ بتایا گیا کہ اللہ کی تکبیر کہو، ہر ہر حرکت پر ، اس کا اطلاق نماز پر بھی یکساں ہوتا ہے۔ کوئی ہم کو یہ کہے کہ تکبیر کا حکم اللہ تعالی نے نہیں دیا تو یہ مذاق ہوگا ؛) مسلمان نماز پڑھتے ہوئے کیا نیت رکھے؟؟؟؟‌کہ تکبیر اللہ تعالی کے حکم سے ادا کررہا ہے تو یہ عین ایمان ہوگا، رسول اللہ صلعم کی تعلیم ہوگی۔ نماز کی ادائیگی ہوگی۔ تکبیر کے احکامات کی آیات کی نشاندہی کی گئی، اس میں میں میخ‌ نکالنا اور ان آیات کے حکم کو تاویلات سے ٹالنے کی کوشش کرنا؟ کس قسم کی قرآن فہمی ہے یہ جناب میں‌سمجھنے سے قاصر ہوں۔


مزید عرض یہ ہے خدا کے لئے ۔ مجھے تارک و منکر الحدیث نہ کہئیے۔ نمام موافق القرآن روایات پر میرا ایمان ہے۔

والسلام
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،

ہر کوئی اپنے اپنے ایمان کو خود جواب دہ ہے ، جسے جو بات کرنا ہے ، قران پاک اور صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ کے دلائل کے ساتھ کر دے ،
۔۔۔۔۔
ان شاء اللہ ، و السلام علیکم۔



وعلیکم السلام، اور شکریہ۔۔۔۔۔
قرآن پاک اور صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ کے دلائل کے ساتھ ۔۔۔۔۔ نماز کا طریقہ فراہم کردیجئے :)

والسلام
 
نماز سے باہر آنے کا یعنی سلام پھیرنے کا حکم اور اور اسکی کیا کیفیت یا طریقہ ہو۔ ۔ کچھ اس بارے میں بھی قرآن کی روشنی میں اور روایات سے قطع نظر کرتے ہوئے ارشاد ہونا چاہئے:)
 

شاکر

محفلین
نماز آج دیڑھ بلین لوگ پڑھتے ہیں اور 1400 سال سے پڑھتے ہیں۔

مزید عرض یہ ہے خدا کے لئے ۔ مجھے تارک و منکر الحدیث نہ کہئیے۔ نمام موافق القرآن روایات پر میرا ایمان ہے۔

والسلام


محترم، حجیت احادیث کو بھی تو ڈیڑھ بلین لوگ مانتے ہیں‌اور چودہ سو سال سے مانتے چلے آ رہے ہیں۔ اور ایسے نہیں‌مانتے کہ جیسے آپ مانتے ہیں۔ دونوں مقدس مسجدوں میں جہاں کی روز و شب کی نماز کا آپ بارہا حوالہ دے چکے، وہاں کے مقتدی اور ائمہ، کیا عالم کیا جاہل، آج کے بھی اور چودہ سو سال پہلے کے بھی لوگ مسلسل احادیث‌کو اسی طرز پر مانتے چلے آ رہے ہیں، جس کی آپ آج مخالفت کرنے نکلے ہیں! پھر کمال ہے کہ آپ طریقہ نماز کے ثبوت کیلئے تو ان کے عمل کو دلیل یا دلیل کی موافقت میں‌پیش فرمائیں۔ اور اس سے کہیں‌زیادہ اہم اصولی بحث کیلئے ان پر پُرکھوں کی پھبتی کستے ہوئے رد فرما دیں؟؟

سوال یہ ہے کہ کیا آج اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوتے اور ہمیں کو کوئی بھی حکم ارشاد فرماتے جو کہ ہماری مزعومہ قرآن فہمی کے خلاف ہوتا تو ہم اسے اسی طرح سے رد کر دیتے یا آمنّا و صدّقنا کہتے ہوئے دل و جان نچھاور کرنے کو تیار ہوتے؟ ؟؟

موافق القرآن روایات کو ماننا ہو تو پھر روایات ہی کی کیا قید؟ موافق القرآن تو چاہے تورات و زبور ہوں، یا ، گیتا رامائن سب کو آپ سمیت سارے پچھلے و موجودہ مسلمان مانتے ہی ہیں! اصل اختلاف تو وہاں ہے جہاں‌ ہم اپنی عقل کو معیار بنا کر قرآن کا خود ساختہ مفہوم متعین کریں اور پھر اس خود ساختہ مفہوم کے خلاف آنے والی ساری احادیث‌کو "روایات" سے موسوم کرتے ہوئے (شاید اس لئے بھی کہ حدیث‌کا لفظ ذرا مقدس ہے اور روایت کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ارشادات و ان کے فعل کا تصور ذہن میں‌قائم نہیں ہوتا( خلاف قرآن قرار دے کر قلم زد کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں‌آپ کو ہر طرح کی گمراہی سے بچائے اور ضال و مضل بننے سے بچائے۔ آمین یا رب العالمین
 
محترم، حجیت احادیث کو بھی تو ڈیڑھ بلین لوگ مانتے ہیں‌اور چودہ سو سال سے مانتے چلے آ رہے ہیں۔ اور ایسے نہیں‌مانتے کہ جیسے آپ مانتے ہیں۔ دونوں مقدس مسجدوں میں جہاں کی روز و شب کی نماز کا آپ بارہا حوالہ دے چکے، وہاں کے مقتدی اور ائمہ، کیا عالم کیا جاہل، آج کے بھی اور چودہ سو سال پہلے کے بھی لوگ مسلسل احادیث‌کو اسی طرز پر مانتے چلے آ رہے ہیں، جس کی آپ آج مخالفت کرنے نکلے ہیں! پھر کمال ہے کہ آپ طریقہ نماز کے ثبوت کیلئے تو ان کے عمل کو دلیل یا دلیل کی موافقت میں‌پیش فرمائیں۔ اور اس سے کہیں‌زیادہ اہم اصولی بحث کیلئے ان پر پُرکھوں کی پھبتی کستے ہوئے رد فرما دیں؟؟

سوال یہ ہے کہ کیا آج اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوتے اور ہمیں کو کوئی بھی حکم ارشاد فرماتے جو کہ ہماری مزعومہ قرآن فہمی کے خلاف ہوتا تو ہم اسے اسی طرح سے رد کر دیتے یا آمنّا و صدّقنا کہتے ہوئے دل و جان نچھاور کرنے کو تیار ہوتے؟ ؟؟

موافق القرآن روایات کو ماننا ہو تو پھر روایات ہی کی کیا قید؟ موافق القرآن تو چاہے تورات و زبور ہوں، یا ، گیتا رامائن سب کو آپ سمیت سارے پچھلے و موجودہ مسلمان مانتے ہی ہیں! اصل اختلاف تو وہاں ہے جہاں‌ ہم اپنی عقل کو معیار بنا کر قرآن کا خود ساختہ مفہوم متعین کریں اور پھر اس خود ساختہ مفہوم کے خلاف آنے والی ساری احادیث‌کو "روایات" سے موسوم کرتے ہوئے (شاید اس لئے بھی کہ حدیث‌کا لفظ ذرا مقدس ہے اور روایت کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ارشادات و ان کے فعل کا تصور ذہن میں‌قائم نہیں ہوتا( خلاف قرآن قرار دے کر قلم زد کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں‌آپ کو ہر طرح کی گمراہی سے بچائے اور ضال و مضل بننے سے بچائے۔ آمین یا رب العالمین
بہت اچھی اور مفید پوسٹ ہے یہ۔ ۔ ۔سمندر ہے ایک بوند پانی میں بند
 
ماہرین کرام۔ سے استدعا۔۔۔۔
سر جی، ذاتی تجزیاتی ماہرین کی ضرورت نہیں‌اس دھاگہ میں۔ یہاں ماہرینِ روایات کے اس دعوے کی تصدیق مطلوب ہے کہ نماز کا طریقہ صرف کتب روایات میں‌ ہے۔

یہ دھاگہ تجزیاتی ماہرین کی تفریح طبع کے لئے نہیں بنایا گیا تھا کہ اس میں اپنے اپنے فلسفہ بیان کرکے ادھر ادھر ٹہل لیں۔ مانا کہ ایک اسے ایک بڑا فلسفہ کا تجزیہ نگار پڑا ہے اس دیش میں۔ کچھ اصل موضوع پر بھی معلومات نشر کیجئے۔۔۔

اتنے بڑے بڑے دعوے کہ نماز ہے تو کتب روایات میں ‌:) :) قرآن میں کیا ہے۔ :) کچھ نہیں :)

اب کچھ ہماری استدعا بھی سن لیجئے :)

کہ لکھ ہی دیجئے وہ مشہور نماز کا متفقہ طریقہ کتب روایات سے ۔۔۔ ساتھ میں یہ بھی بتادیجئے کہ اوپر دیا گیا وہ کون کون سا قرآن کا حکم ہے جس پر آپ عمل نہیں‌کرتے ۔۔۔۔

اگر کوئی ماہر روایات ، روایت اور حدیث کا فرق بتا دیں تو کچھ دوستوں‌ کو سوچنے میں شاید آسانی ہوجائے۔
 

فرخ

محفلین
نماز سے باہر آنے کا یعنی سلام پھیرنے کا حکم اور اور اسکی کیا کیفیت یا طریقہ ہو۔ ۔ کچھ اس بارے میں بھی قرآن کی روشنی میں اور روایات سے قطع نظر کرتے ہوئے ارشاد ہونا چاہئے:)

جی ہاں، جیسے پہلے ہمیں دیگر سوالات کے جوابات ملے ہیں، ویسے ہی شائید اس پر ارشاد ہو گا۔:laughing::yawn:
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بیان رقم (1) :::
عموماَ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ قرآن میں نماز پڑھنے کا طریقہ کہاں ہے۔

گو کہ تمام قران ہی رسو
ل پرنور کی زبان سے ادا ہوا۔ اور ان کی نماز پڑھنے کی یہ سنت جاریہ تمام مساجد میں عموماَ اور حرم شریف میں ہر روز پانچ بار دیکھی جاسکتی ہے
آئیے دیکھتے ہیں کہ نمازیں کتنی ہیں اور پڑھی کیسے جاتی ہے اور نماز میں کیا پڑھا جاتا ہے اور اس " تعدادَ نماز "، " کس طرح " اور " کیا پڑھا جائے " ان تین باتوں ‌کی تعلیم رسول پاک (ص) اور آپ (ص) سے پہلے نبیوں کو اللہ تعالی کی طرف سے کن آیات سے تعلیم ہوئی۔ پھر دیکھتے ہیں کہ نماز کے مزید احکامات کس طرح تعلیم ہوئے۔ جن کی تعلیم رسولِ کریم نے خود اپنی سنت سے عملی طور پر کی اور اس کو سنت جاریہ بنا دیا۔
بیان رقم (2 ):::
نماز آج دیڑھ بلین لوگ پڑھتے ہیں اور 1400 سال سے پڑھتے ہیں۔ اس دھاگہ کی غرض و غایت صرف اور صرف یہ تھی کہ لوگوں‌کو بتایا جائے کہ نماز میں جن احکام الہی کی تعمیل کی جاتی ہے وہ کیا ہیں۔ اور اس سے بھی بڑا مقصد اس سوال کا جواب دینا تھا کہ کتب روایات میں نماز کا طریقہ پایا جاتا ہے یا نہیں‌،
کسی تبصرہ کے بغیر صرف قارئین کرام کی رائے جاننا چاہوں گا کہ ، صاحبء مضمون نے اپنے مضمون کے عنوان کے مطابق اپنے مضمون میں اور اس کے بعد جس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی کوشش کی ہے ، اس کے مطابق ان منقولہ بالا اِک دُوجے کی نکیر کرنے والے دو بیانات میں سے کسے صاحبء مضمون کی مراد جانا جائے ؟؟؟ !!! ،
میں یہ نہیں پوچھوں گا کہ یہ """ سنتء جاریہ """ کیا چیز ہوتی ہے کیونکہ مجھ سے پہلے ہی صاحبء مقال سے یہ سوال پوچھا جا چکا ہے جس کا انہوں حسب """ دستور """ کوئی جواب نہیں دِیا ، شاید یہ ان کی طرف سے """ مصطلح الحدیث """ میں کوئی نئی اصطلاح ہو گی .
 
اس دھاگہ کے پہلے مراسلے کی تاریخ دیکھئے۔ 13 اگست 2007۔ یہ کہنا کہ میرے خیرخواہوں نے یہ مضمون کل پرسوں پڑھا ہے ، ایک ظلم ہوگا۔ آج تقریباً ڈھائی سال ہونے کے بعد بھی کوئی روایت پرست آج تک نماز کا بنیادی ڈھانچہ تک کتب روایات سے پیش نہیں کر پایا جو کہ سب کو قابل قبول ہو۔
منقولہ بالا الفاظ لکھنے والے صاحب کو اللہ جانے کس نے کہا ہے کہ ان کے متاثرین نے ان کا یہ مضمون کل پرسوں پڑھا ہے ، جسے صاحبء مقال """ ظلم """ کہہ رہے ہیں ،
لیکن انہیں اپنی ہی جان پر ظلم کرنا شاید محسوس نہیں ہوا ، اور پتہ نہیں کتنے """ اللہ پرست """ مسلمانوں کے ایمان پر فتویٰ صادر کرتے ہوئے انہیں اللہ کی بجائے """ روایت پرست """ قرار دے دیا ، جبکہ وہ سب اللہ کی پرستش کرنے والے ہیں نہ کہ روایات کی ،
امید ہے کسی کے ایمان پر یہ فتویٰ انتطامیہ کو یقیناً نظر آیا ہو گا ،
 
آج تقریباً ڈھائی سال ہونے کے بعد بھی کوئی روایت پرست آج تک نماز کا بنیادی ڈھانچہ تک کتب روایات سے پیش نہیں کر پایا جو کہ سب کو قابل قبول ہو۔
غالباً اپنی روایات کے مطابق صاحبء مقال اپنی """ خلافء قران """ قران فہمی کی بنا پر بتائے ہوئے قرانی طریقہ نماز کی حقیقت کی طرف سے قارئین کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش میں نماز کا طریقہ احادیث میں سے لکھنے کا سوال اٹھا رہے ہیں ،
صاحبء مقال سے پہلے بھی گذارش کی جا چکی ہے کہ کتب احادیث میں سے ( کتب روایات میں سے نہیں ) نماز سے متعلقہ کُتب اور ابواب کا مطالعہ فرما لیں ان کو نماز کے طریقہ کا بنیادی ڈھانچہ تو کیا بہت سی ایسی جُزیات بھی مل جائیں گی جن پر اہل سنت والجماعت کے چاروں بڑے مذاھب کا اتفاق ہے ، ہم میں سے کسی کو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں کہ معاذ اللہ ہم قران کو سمجھنے کے سلسلے میں سنت مبارکہ سے کلی یا جزوی پہلو تہی کرتے ہوں ، لہذا ہمیں کبھی ایسی باتیں سوچنے کی تک کی بھی ضرورت پیش نہیں آئی کہ ہم قران اور صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کا موزانہ اور تقابل کرتے رہیں ،
یوں بھی اگر صاحبء مقال و سوال نے جتنا وقت اس اتنی لمبی چوڑی بحث میں لگایا اگر اس کا آدھا ہی """ کتب احادیث """ کا مطالعہ کرنے لگا لیتے تو ایسا سوال کرنے کی ضرورت نہ رہتی ، اور یہ سب بحث نہ ہوتی ،
پہلے بھی ان صاحبء مقالہ کو کئی دفعہ مشورہ دے چکا ہوں ، بلکہ گذارشاً دے چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ وہ ایسے بحث مباحثوں میں داخل ہونے سے پہلے کچھ وقت اُن کتب کا مطالعہ فرما لیا کریں جنہیں وہ نشانہ ء ستم بناتے ہیں ، تو وہ اپنے باقی وقت کو ایسی بحثوں کے بجائے اپنے لیے کسی مثبت کام میں لگا سکتے ہیں اِن شاء اللہ تعالیٰ ۔
 
کبھی قرآن کے احکامات کا انکار ہے تو کبھی تکبیر پر اعتراض ہے کہ یہ تو ادھر ادھر سے حوالہ دیا گیا ہے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،

صاحبء مقال کی طرف سے ہمارے ، یا بالخصوص میرے ایمان پر ایک اور فتویٰ ، اور معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جھوٹ پر مبنی فتویٰ ،
قران کے احکام کا انکار تو اس کے ذمے لگتا ہے جس نے کہیں کے حکم کہیں جا لگائے ، اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے ہوئے تکبیر بلند کرنے کا حکم نماز سے لا جوڑا ، حج اور قربانی سے متعلقہ آیات میں سے اسی طرح شکر ادا کرنے کے لیے تکبیر بلند کرنے کا حکم نماز سے لا جوڑا ،
نماز کے آغاز سے کئی سال بعد نازل ہونے والی آیات کو نماز سے لا جوڑا ، اور اپنی اس """ خلاف قران """ قران فہمی کو درست دکھانے کے لیے سابقہ انبیاء کی نمازوں سے بھی جوڑنے لگے ، و لا حول ولا قوۃ اِلا باللہ ،
ایک فعہ پھر اُمید کرتا ہوں کہ کسی کے ایمان پر یہ فتویٰ بھی انتطامیہ کو یقیناً نظر آیا ہو گا ،
 
احکامات پر اعتراض ہے کہ نماز میں یہ احکامات نہیں پائے جاتے۔ لیکن یہ جواب کہیں‌نہیں کہ ان لوگوں کا طریقہ نماز کیا ہے اور یہ طریقہ کس طرح اس نماز سے مختلف ہے جو اوپر فراہم کی گئی ہے۔
جناب صاحبء مقال بات کو بڑی بُری طرح بدلنے کی کوشش کررہے ہیں ، بلکہ اگر واضح الفاظ میں کہا جائے تو یہ کہا جانا چاہیے کہ الزام تراشی سے کام لے کر اُن کے """ دستور """ کے مطابق بات کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں ،
صاحبء مقال کے بنیادی مراسلے یا مضمون میں موجود نماز کے بارے میں ان کی طرف سے بیان کردہ احکامات کے متعلق میں نے ، اور اس گفتگو میں شامل بھائیو میں سے کسی نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی جو """ نماز کے احکام پر اعتراض """ ہو ، پھر اس الزام تراشی کا مقصد اپنی غلط بیانی کی طرف سے قارئین کو توجہ پٹانے کے علاوہ اور کیا ہے ؟؟؟
جناب صاحبء مقال کو اچھی طرح علم ہے کہ ہم سب مسلمانوں کا طریقہ نماز کیا ہے ، اورجن آیات کو صاحبء مقال نے طریقہ نماز کے طور پر ذکر کیا ہے ان کا نماز سے کوئی تعلق نہیں ، تین آیات کے بارے میں تفصیل تو میں لکھ چکا ہوں اور ان شاء اللہ باقی کے بارے میں بھی ارسال کروں گا تا کہ مزید واضح ہو جائے کہ بقول صاحبء مقال """ قران کے احکامات """ کا انکار کون کر رہا ہے ؟؟؟؟
اللہ کے کلام کو کہیں سے کہیں جا ملانے ، اور کسی کام کے حکم کو کسی اور کام سے جوڑ کر اللہ کے کلام پاک کی معنوی تحریف کون کر رہا ہے ،
صاحبء مقال کو کچھ تو خیال کرنا چاہیے کہ وہ قسم کی باتیں کر دیتے ہیں ، اُن کا بیان کردہ بقول ان کے """ نماز کا طریقہ """ نماز کا طریقہ ہے ہی نہیں تو پھر کسی اور طریقے سے اس کا موازنہ کیسا !!!
ہم سب تو شروع سے ہی یہاں یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ اُن کی بیان کردہ آیات نماز کا طریقہ نہیں ہیں ، جی اِن آیات میں سے کچھ میں نماز سے متعلق کچھ احکام ہیں اور اُن آیات مبارکہ اور اُن میں بیان کردہ احکام کے بارے میں اِس گفتگو میں کسی نے کہیں کوئی اعتراض نہیں کیا ، پھر ایسے جھوٹے الزامات کیوں ؟؟؟
 
یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول اکرم ایک حکم سے پہلے نماز ادا کرتے تھے لہذا یہ حکم قرآن میں‌ نہیں‌پایا جاسکتا؟؟؟؟ کیا منطق ہے ؟؟؟؟
لا حول ولا قوۃ اِلا باللہ ، نعوذ باللہ مِن أن نَکُونَِ مِن الجَاھلین ، و نعوذ باللہ مِن کل ذَلَۃُ ،
صاحبء مقال نے ایک دفعہ پھر پہلے ہی کی طرح الزام تراشی کی آڑ میں اپنی غلط بیانیوں کو چُھپانے کی کوشش کی ہے ،
جس طرح صاحبء مقال صحیح ثابت شدہ احادیث کے بارے میں اپنی من مانی """ خلاف قران """ قران فہمی کی بنا پر کہتے ہیں کہ حدیث نہیں ہو سکتی اپنی اسی عادت کو وہ دوسروں میں بھی محسوس کرنے لگے ہیں لہذا یہ الزام صادر فرمایا ، کہ :::
یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول اکرم ایک حکم سے پہلے نماز ادا کرتے تھے لہذا یہ حکم قرآن میں‌ نہیں‌پایا جاسکتا؟؟؟؟ کیا منطق ہے ؟؟؟؟
کس نے کہاں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم چونکہ ایک حکم سے پہلے نماز ادا کیا کرتے تھے اس لیے وہ حکم قران میں نہیں پایا جا سکتا ((((( وَالَّذِينَ يُؤذُونَ المُؤمِنِينَ وَالمُؤمِنَاتِ بِغَيرِ مَا اكتَسَبُوا فَقَدِ احتَمَلُوا بُهتَاناً وَإِثماً مُّبِيناً ::: اور جو لوگ اِیمان والے مَردوں اور اِیمان والی عورتوں کو ایسے کاموں کے بارے میں تکلیف دیتے ہیں جو اُن ایمان والوں نے نہیں کیے ہوتے ہیں تو بے شک ان تکلیف دینے والوں نے کُھلا بہتان اٹھایا اور کُھلا گُناہ کمایا ))))) سورت الأحزاب/ آیت 58 ،
صاحبء مقال نے یقینا بہت بڑا بہتان لگایا ہے ، جی ، الحمد للہ میں نے یہ ثابت کیا ہے کہ صاحبء مقال نے جو آیات اپنی """ خلاف قران """ قران فہمی کے مطابق """ نماز کے طریقے """ کے زعم میں ذکر کی ہیں نماز تو ان سے پہلے ہی پڑھی جانی شروع ہو چکی تھی ، تو کیا وہ نماز صاحبء مقال کے بتائے ہوئے طریقے سے مختلف تھی ،
صاحبء مقال خود سے پوچھیں کہ وہ کیا منطق ہے جس کی بنا پر وہ اللہ کے کلام پاک میں ، اللہ کے مبارک احکامات میں معنوی تحریف کا کرتے ہیں ، اور دوسروں پر الزام تراشی کرتے ہیں ۔
 
صاحب کیا باقی انبیاء نماز پڑھا کرتے تھے؟ اگر کسی بھی قسم کی نماز ان لوگوں نے ادا کی تو کیا اللہ تعالی پر بندش ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے حکم کو قرآن حکیم میں نہ نازل فرمائیں؟
والسلام
اس منقولہ بالا اقتباس میں صاحبء مقال نے اپنے فلسفے کے """ خلاف قران """ ثابت ہونے کو بچانے کے لیے ایک اور جذباتی حربہ استعمال کرتے ہوئے سابقہ انبیاء علیہم السلام اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک کے اعمال کا ذکر کیا ،
سب سے پہلے بات تو ایک طے شدہ قانون ہے کہ سابقہ انبیاء علیھم السلام اور سابقہ امتوں کے اعمال میں سے ہمارے لیے دلیل اور حجت وہی اعمال ہیں جنہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ہمارے لیے منظور کیا گیا ہو ، محض کسی عمل کے ذکر اس عمل کے ہماری شریعت میں روا ہونے کی دلیل نہیں ، اس موضوع پر """ ::: سابقہ نازل شدہ کتابوں ، اور سابقہ امتوں میں کیے جانے والوں کاموں کی شرعی حیثیت ::: """" ملاحظہ فرمایے ،
جی ، سابقہ انبیاء علیھم السلام کی نماز کے اعمال میں سے اللہ تعالیٰ نے قیام ، رکوع اور سجود کا ذکر فرمایا ہے ، ان کی کیفیت اور صفت کا کوئی ذکر نہیں ، صرف ان اعمال کا ذکر """ نماز کا طریقہ """ تو نہیں ،
پس صاحبء مقال کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سابقہ انبیاء علیھم السلام کی نماز کے اعمال میں سے جن کا ذکر ہوا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ، اور ان کے ذریعے ان کی امت کو """ نماز کا طریقہ """ بتانے کے لیے نہیں ہوا ،
اگر ایسا نہیں تو صاحبء مقال کہیں قران میں یہ دکھائیں کہ سابقہ انبیاء علیھم السلام کی نماز میں قبلہ رخ ہونے ، تکبیر کہنے ، قرأت کرنے وغیرہ کا کوئی ذکر ہو ؟؟؟ کوئی طریقہ ہو ؟؟؟
 
بارہا میں‌نے دیکھا ہے کہ جب یہ بتایا جاتا ہے کہ --- یہ اللہ تعالی کا فرمان ہے --- تو اس کو ماننے کے بجائے ، طرح طرح کی تاویلات سے اس کو ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تکبیر کی مثال دیکھ لیجئے۔ ایک سے زائید آیات سے یہ بتایا گیا کہ اللہ کی تکبیر کہو، ہر ہر حرکت پر ، اس کا اطلاق نماز پر بھی یکساں ہوتا ہے۔ کوئی ہم کو یہ کہے کہ تکبیر کا حکم اللہ تعالی نے نہیں دیا تو یہ مذاق ہوگا ؛) مسلمان نماز پڑھتے ہوئے کیا نیت رکھے؟؟؟؟‌کہ تکبیر اللہ تعالی کے حکم سے ادا کررہا ہے تو یہ عین ایمان ہوگا، رسول اللہ صلعم کی تعلیم ہوگی۔ نماز کی ادائیگی ہوگی۔ تکبیر کے احکامات کی آیات کی نشاندہی کی گئی، اس میں میں میخ‌ نکالنا اور ان آیات کے حکم کو تاویلات سے ٹالنے کی کوشش کرنا؟ کس قسم کی قرآن فہمی ہے یہ جناب میں‌سمجھنے سے قاصر ہوں۔
صاحب ء مقال کو یہ اضافہ کرنا بعد میں یاد آیا ہے !!!
بہر حال یہ بھی محض الزام تراشی ہے اور اپنی """ خلاف قران """ قران فہمی کی بنا ہر کی گئی معنوی تحریف سے صرف نظر کروانے کی کوشش ہے ،
قارئین کرام ، ایک سے زائد آیات سے صاحبء مقال نے جو تکبیر کہنے کے دلائل پیش کیے ہیں ان کا ذکر ہو چکا کہ وہاں تکبیر کہنے کا حکم کس کس کام سے متعلق ہے ،
دیکھیے پہلے تو صاحبء مقال اپنی طرف سے پیش کردہ تکبیر سے متعلقہ آیات کو نماز کے طریقہ کی دلیل بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے اور اب ان آیات کو ہر ہر حرکت پر تکبیر کہو ، کی دلیل بنا رہے ہیں ،
کیا خوب نکیر ہے اپنے ہی اقوال کی ، و للہ الحمد المنۃ ،
اور پھر یوں گھما پھرا کر اس کا اطلاق نماز پر بھی کر رہے ہیں ،

ظاہر ہے صاحب ء مقال کی """ خلاف قران """ قران فہمی کو یہ سمجھ نہیں آیا اور نہ ہی آسکتا تھا کہ کون سا حکم کس کام سے متعلق ہے کیونکہ انہوں نے ایک خاص مقصد سے اپنے ایک فلسفے کو درست ثابت کرنےکے لیے اللہ کے کلام کو استعمال کرنے کے لیے """ تکبیر """ سے متعلقہ آیات """ کاپی پیسٹ """ کیں ، اور جب ان کی حقیقت آشکار ہوئی تو الزام تراشی اور اپنی سابقہ معنوی تحریف کی مزید تاویلات کرنے لگے ، و لا حول و لا قوۃ الا باللہ ،
یقیناً صاحب مقال کو وہ قران فہمی سمجھ میں نہیں آتی جو ان کہ """ خلاف قران """ قران فہمی کے مطابق نہ ہو ،
میرا مشورہ ہے کہ اپنی قران فہمی کو درست کرنے کے لیے وہ صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ ، صحابہ رضوان اللہ علہھم اجمعین ، تابعین تبع تابعین اور أئمہ اُمت رحمہم اللہ جمعیاً کے نشر کردہ علوم کا مطالعہ کریں اگر میرے رب نے چاہا تو ہدایت دے دے گا ۔
 
مزید عرض یہ ہے خدا کے لئے ۔ مجھے تارک و منکر الحدیث نہ کہئیے۔ نمام موافق القرآن روایات پر میرا ایمان ہے۔

والسلام
خدا نام کی کسی چیز کا کوئی حقیقی وجود نہ تھا نہ ہے ، کسی کو ضرورت نہیں کہ وہ کسی کو تارک الحدیث یا منکر الحدیث کہے ، ہر عقل سلیم والے کو سمجھ آتا ہے کہ کون کیا ہے ، وللہ الحمد ،
کئی کئی دفعہ پوچھ چکا ہوں لیکن صاحبء مقال آج تک اپنے فلسفے """ خلاف قران روایات """ اور """ موافق القران روایات """ کی کوئی ایسی تعریف نہیں بتا سکے جس کی انہوں نے خود کبھی کوئی مخلافت نہ کی اور نہ کریں ، اور نہ ہی آج تک قران پاک میں سے ایمان کی کوئی تعریف بتا سکے ،
((((( بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهوَاءهُم بِغَيرِ عِلمٍ فَمَن يَهدِي مَن أَضَلَّ اللَّهُ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ ::: بلکہ ( خُود پر ) ظُلم کرنے والے تو بغیر عِلم اپنی خواھشات کی پیروی کر رہے ہیں، تو اُسے کون ہدایت دے سکتا ہے جسے اللہ گمراہ کر دے اور ایسوں کے لیے ( اللہ کے سامنے ) کوئی مددگار نہیں ہوتا ))))) سورت الروم / آیت29 ۔
و ما علینا الا البلاغ و اللہ یھدی من یشاء ،
صاحبء مقال کی ان منقولہ بالا باتوں اور ان کو جوابات دینے کی وجہ سے اُن کے بنیادی مراسلے یا مضمون میں مذکور آیات کے بارے میں میری بات کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا ، ان شاء اللہ اگلے مراسلے میں اس سلسلے کی طرف واپس جاؤں گا اور ان شاء اللہ اس سلسلے کو مکمل کروں گا ۔ و السلام علیکم۔
 
وعلیکم السلام، اور شکریہ۔۔۔۔۔
قرآن پاک اور صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ کے دلائل کے ساتھ ۔۔۔۔۔ نماز کا طریقہ فراہم کردیجئے :)

والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
فاروق سرور صاحب ، شکریہ ادا کرنے پر شکریہ قبول فرمایے ،
آپ کی مطلوبہ معلومات کے سلسلے میں بھتیجے عبداللہ حیدر نے کافی کام کیا ہے ، کبھی کبھی اُن کی موجودگی یہاں ظاہر ہوتی ہے پس میں ان سے گذارش کروں گا کہ انہوں نے نماز نبوی علی صاحبھا الصلوۃ و السلام کے طریقہ کے بارے میں جو کچھ تیار کیا ہے اسے یہاں محفل میں ایک الگ دھاگے کی صورت میں نشر کریں ، اللہ ان کو جزائے خیر سے مالا مال فرمائے ،
 
تبصراتی تجزیہ نگاری کا شکریہ۔

کتب روایات سے متفقہ طریقہ ء نماز کا اب بھی انتظار ہے۔
مزید یہ انتظار ہے کہ سابقہ مراسلہ میں جو احکامات فراہم کئے ہیں ان میں‌ سے کونسے احکامات ہیں جن کی تکمیل مسلمان نہیں‌کرتے :)

جوں جوں وقت گذرتا جارہا ہے یہ یقین بڑھتا جارہا ہے کہ کتب روایات میں طریقہ نماز نہیں پایا جاتا ۔۔۔

یہ سوال تو ہر فورم ، ہر چوراہے پر پایا جاتا ہے ۔ ہر ریڈیو اسٹیشن سے یہی سوال دہرایا جاتا رہا ہے کہ --- نماز کا طریقہ کتب روایات میں ہے۔ اگر ایسا ہے تو دیر کس بات کی؟؟؟

کیا ایسے بڑے بڑے دعوے کرنے والے بڑے عرصے سے کسی جھوٹ کا سہارا لے رہے تھے ؟؟؟

والسلام
 
صاحبو اور احبابو۔

سب سے پہلے یہ واضح کردوں کہ اس مراسلہ میں خاص‌طور ان لوگوں سے مخاطب نہیں ہوں ۔۔۔ جی ان لوگوں سے مخاطب نہیں ہوں۔۔۔

غزنوی، عادل، عبداللہ حیدر، فرخ، سویدا، دبئی کا مصور، شاکر۔
اس لئے کہ یہ میرے پڑھے لکھے بھائی ہیں (مخلصانہ کہہ رہا ہوں طنزاً نہیں )

بلکہ اس مراسلہ میں ، میں کسی سے بھی خاص‌طور پر مخاطب نہیں۔ یہ آپ کی سوچوں کو جلاء دینے کے لئے ان کتب روایات سے اقتباسات ہیں جو یقیناً آپ نے نہیں لکھی ہیں۔ بلکہ شاید آپ نے ان نکات پر اب تک غور بھی نہیں کیا ہو۔

آپ سوچئیے کہ ایک بزرگ رسول جنہوں نے ساری دنیا میں ایک مذہب نافذ کردیا، ڈیڑھ بلین لوگوں کو مسلمان کردیا، ان کی سنت ---- نماز ---- آج دنیا بھر میں جاری و ساری ہے ۔۔۔۔ کیا اس عمل میں کوئی کنفیوژن ہوسکتا ہے ؟؟/

یہ سب پر عیاں ہے کہ "موافق قرآن" اور "خلاف قرآن " روایات کیا ہیں۔ جب ایک آدمی ( میں بھی شامل ہوں) کسی روایت کو نقل کرتا ہے یا ترجمہ کرتا ہے تو وہ نہ بخاری کی روایت رہتی ہے اور نہ ہی مسلم کی روایت۔ اس کا روای بس صرف یہ بندہ ہوتا ہے ۔ یہ اس بندے کی اپنی روایت ہوتی ہے۔ یہی حال کتب روایات کا ہوا، ان پر کسی کی کوئی گرفت نہیں‌تھی لہذا لوگ باگ مزے سے خود اپنی آسانی کے لئے اور کچھ اسلام دشمنی میں --- اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی کرنے کے لئے ---- طرح طرح کی روایات گھڑنے لگے۔۔۔۔ نماز کے ساتھ بھی یہی ہوا۔۔ ذرا دو رنگی دیکھئے :) "خلاف قرآن ‌" اور "موافق القران " ---- وضو اور غسل کی روایات تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔ ذرا دیکھئے جن لوگوں نے مسلم و بخاری کی کتب میں‌ملاوٹ‌کی ہے اور رسول اکرم سے منسوب کرکے روایت بیچ میں‌ڈالی ہیں ۔۔۔۔ وہ آپ کو بھی صاف صاف نظر آجائیں گے :) کیا ہمارے بزرگان دین رسول اکرم سے ایسی متضاد روایات منسوب کرسکتے تھے؟ کیا یہ اصحابہ کا کام ہے جن سے اللہ تعالی راضی ہوا؟؟؟؟ اگر نہیں تو پھر ان متضاد روایات کا مآخذ کیا ہے؟

متضاد یعنی ایک دوسرے کی ضد قسم کی روایات کو ایک سے زائید رنگوں سے دکھایا ہے۔ اس میں ، میری کوئی رائے نہیں۔ فیصلہ آپ کیجئے :) میں‌کچھ نہیں کہتا، صرف حوالہ آپ کی نذر ہیں :)

ایسے جھوٹ بڑے چوراہوں پر ہی پھوٹتے ہیں :)

رسول اللہ صلعم نے فرمایا : آگ پر پکی ہوئی ہر چیز کھانے کے بعد وضو کی تجدید کرو ۔ (مسلم ج/1، ص/486)

ابن عباس سے مروی ہے کہ ، رسول اللہ صلعم نے بھنی ہوئی بکری کا دست کھایا اور پھر بناء وضو نماز ادا کی ( مسلم ج/1 ، ص/ 488)

حضرت بلال کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ دو تکبیریں اذان میں اور ایک تکبیر اقامت میں ادا کریں ( مسلم ج/2 ص 2)

تو پھر مسلمین اقامت میں دو تکبیریں کیوں‌کہتے ہیں، اس کی روایت کہاں ہے؟

سورۃ فاتحہ کے بعد نماز میں کیا پڑھا جائے؟؟؟؟
ابو ھریرہ سے مروی ہے کہ کوئی بھی سورہ پڑھی جاسکتی ہے لیکن سورۃ فاتحہ کافی ہے (‌مسلم ج/2 ص/ ص 31 )

جبکہ فقہا اور امام فرماتے ہیں کہ صرف سورۃ‌ فاتحہ کافی نہیں ، کچھ کے نزدیک اس طرح نماز ہی نہیں ہوتی۔

حضرت عمر، بآواز بلند --- سبحانک الھم --- ادا کرتے تھے (‌مسلم ج/2 ص 38)

تبع تائبین پر زور دینے والے امام و فقہا کا حکم کیا ہے؟// دل میں دہراؤ۔۔۔۔؟؟؟؟‌

حضرت انس سے مروی ہے کہ ، میں نے رسول اللہ صلعم۔ ابو بکر ، عمر اور عثمان کے پیچھے نماز پڑھی، یہ سورۃ فاتحہ سے نماز شروع کرتے تھے، (سبحانک الھم کا کوئی ذکر نہیں) ۔۔۔ (‌مسلم ج/2، ص 38)

جب مسجد نبوی میں منبر تعمیر ہوا ، تو رسول صلعم اس پر چڑھے ۔۔۔۔قبلہ کی طرف رخ کیا، تکبیر کہی، اور لوگ صفوں‌میں جمع ہونے لگے، قرآءت کے بعد، وہ (صلعم)‌اپنے گھٹنوں پر جھکے، پھر نیچے اتر آئے، زمین پر سجدہ کیا، پھر منبر پر چڑھ گئے، پھر دوبارہ رکوع کیا اور پھر زمین پر اتر کر سجدہ کیا ( بخاری ج/ 1 ، ص/ 53)

منبر پر چڑھ کر رکوع اور زمین پر سجدہ ؟؟؟؟/

رسول صلعم نے اپنی بیٹی زینب (ر) کی صاحبزادی کو گود میں اٹھایا اور نماز پڑھنے لگے، جب وہ سجدہ میں‌گئے تو انہوں(ص) نے بچی کو زمین پر رکھ دیا اور جب اتھے تو اس کو دوبارہ اٹھا لیا۔ (‌بخاری ج/1، ص/ 69)

ارے ۔۔۔ یہ سنت تو رہ ہی گئی ۔۔۔ کیا مسلمانوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئیے۔۔۔؟؟؟؟


اگر کوئی شخص کسی نماز پڑھنے والے کی سامنے سے گذرے تو اس کو روکو، اگر وہ نہ رکے تو اس کو قتل کردو کیونکہ وہ شیاطین میں سے ہے۔ (بخاری ج/1، ص/68)

مسجدوں میں ایک بندوقچی یا تلوار بردار چوکیدار کی ضرورت ہے ، جو سامنے سے گذرنے والوں کو قتل کردیا کرے ۔۔۔ ؟؟؟؟


لیکن ۔۔۔۔

عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ ، میں ایک گدھی پر سوار منٰی پہنچا، جہاں رسول اللہ صلعم نماز کی امامت کررہے تھے ، میں ان کے اور کچھ نمازیوں کے سامنے سے گذرا، اور گدھی سے اتر کر نمازیوں مین شامل ہوگیا۔ کسی نے کوئی اعتراض نہیں‌کیا (بخاری ج/1، ص 107)

حضرت سعد ابن ابی وقاص نمازیوں کے سامنے سے گذرتے تھے جب نماز جاری ہوتی تھی (‌موطا ص/55)

اگر کوئی سامنے سے گذرے تو نماز پر کوئی برا اثر نہیں‌پڑتا ( موطا 55)

رسول اللہ سلعم نے فرمایا کہ اگر کوئی عورت، کتا یا گدھا سامنے سے گذرے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ( مسلم ج/2، ص 111)


سوال یہ ہے کہ کیا 14 لاکھ حدیثوں میں بھی کہیں نماز پڑھنے کا طریقہ ہے؟؟؟؟

حضرت عائشہ (ر) نے فرمایا کہ تم ( راویوں نے)‌ نے ہم کو کتوں اور گدھوں سے ملا دیا؟ اللہ کی قسم کہ میں جاء نماز کے سامنے لیٹی ہوتی تھی جب رسول اللہ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ( مسلم ج/2 ص 111)

بچو بھائی۔۔۔۔۔۔

بخاری کتاب الصلوۃ ج/1 ص 93) چار عدد روایات ہیں کہ رسول اللہ صلعم رکوع سے پہلے اور التحیات کے سے اٹھتے وقت، اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے۔ سارے کے سارے مسلمانوں میں ایسا کتنے کرتے ہیں اور کتنے نہیں؟؟؟؟؟؟ یہ تضاد کیوں جب کہ کتب روایات میں نماز کا مستند طریقہ موجود ہونے کا اتنا دعوی ہے ؟؟؟؟


رسول اللہ صلعم ، سفر یا کسی وجہ کے بغیر ظہر، مغرب کی نماز ایک ساتھ ادا کرتے تھے، (موطا ص/51، مسلم ج/2 ، ص 265)

باقی مسلمین کئی متضاد روایات کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے؟؟؟؟ ۔۔۔۔ یا ایسا عام طور پر ہوتا ہے ؟؟؟؟


معاویہ ابن حکم رسول اللہ صلعم کے ساتھ نماز پڑھے رہے تھے۔ ایک نمازی نے چھینک ماری تومیں نے "یرحکم اللہ" کہا۔۔۔ نماز کے بعد رسول اللہ صلعم نے ان کو بتایا کہ انسانی الفاظ کی نماز کے دوران اجاز نہیں ہے۔۔ ۔۔ ( مسلم ج/2، ص 126)

کیا پھر اللہ تعالی کے حکم اور الفاظ کی اجازت ہے؟؟؟؟ کیا قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالی الفاظ ہمارے پاس محفوظ ہیں ؟؟؟؟


لیکن۔۔۔۔۔

ایک دفعہ شیطان رسول اللہ کے سامنے نماز کے دوران آیا تو رسول اللہ صلعم نے تین دفعہ کہا ۔۔۔۔ تجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔۔۔۔ (‌مسلم ج/2، ص 131) --- انسانی الفاظ یا نماز کے الفاظ ؟؟؟

رسول اللہ صلعم نماز عشاء پڑھ رہے تھے ، رکوع کے بعد اٹھتے ہوئے جناب (ص)‌نے کہا ۔۔۔۔۔ اے اللہ ابن ربیعہ اور دوسرے غریب مسلموں پر رحم فرمائیے ۔۔۔۔ قبیلہ ء ۔۔۔۔ کو گرفت میں لے لیں اور ان پر قحط نازل فرما (مسلم ج/2، ص 236) انسانی الفاظ یا نماز کے الفاظ؟؟؟؟ رحمت للعالمین کیا لوگوں کے لئے قحط کی بد دعائیں کرتے تھے؟ رسول اکرم تو سب کے لئے دعا کرتے تھے اور ان کی ہدایت کے لئے مشعل راہ تھے ۔۔

رسول اللہ نے کبھی بھی دعا کے دوران ہاتھ نہیں اٹھائے ماسوائے بارش کی نماز کے (بخاری ج/1، ص/125)

رسول اللہ ہمیشہ ہاتھ اٹھا کر دعا فرماتے تھے ( بہت سے ریفرینس)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتے پہن کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری ج/1 ص 55)

پھر مسجدوں میں جوتے اتارنے پر زور کیوں؟؟؟؟؟


صحابہ کرم اگر تیر سے لگا خون بہہ رہا ہوتوبھی نماز پڑھتے تھے (بخاری ج/1 ص/32 ، ابن ماجہ، نسائی ، اور بہت سے دوسرے)

جسم میں کہیں بھی زخم سے بہتے ہوئے خون سے وضو اور نماز دونوں نہیں ہوتی ہیں (‌انہی کتب کے بہت سے ریفرنس)‌

حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے چھوٹی نماز پڑھتے تھے (‌مسلم ج/2 ص/86)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں‌کو برا کہتے تھے جو لمبی لمبی نمازیں پڑھتے تھے (‌دو روایات، مسلم ج/2،۔ ص 84، 85)


لیکن

حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے بعد اتنے دیر کھڑے رہے کہ دیکھنے والوں نے سمجھا کہ وہ آگے بڑھنا بھول گئے ۔۔۔ ایسا ہی سجدہ کے بعد ہوتا تھا (مسلم ج/2، ص/87)

ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اتنی لمبی ہوتی تھی کہ نماز ظہر شروع ہوتی تھی تو اتنی دیر کہ ایک آدمی جنت البقیع سے ہو کر گھر آجائے ، وضو کرے، اور مسجد جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی پہلی رکعت ہی پڑھ رہے ہوتے تھے (‌مسلم ج/2، ص/48)


اتنا تضاد، کس نے منسوب کیا؟؟؟‌ ہمارے بزرگوں نے؟ یا اصحابہ نے جن سے اللہ تعالی راضی ہوا ۔۔۔

ان روایات میں بہت بڑا تضاد ہے ----- کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نماز پڑھاتے تھے، کس طرح دعا فرماتے تھے، کس طرح قرآت کرتے تھے اور کس طرح نماز کی تعلیم دی۔۔۔۔ یہ سب آپ کو بخاری ج1 ص99 تا 104 اور مسلم ج/2 ص 43، 48، 90 میں ملیں گے۔

تو کتب روایات سے ہم کو نماز کی تعلیم کس طرح ملتی ہے ؟


1۔ اگر آپ کو نماز میں خراٹے آجائیں تو آپ کو وضو کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔ ارے نہیں‌صاحب غلطی ہوگئی ۔۔۔۔ وضو کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔

2۔ پکے ہوئے کھانے سے آپ کا وضو ٹوٹ جائے گا لیکن بھنی ہوئی ران سے نہیں
3۔ بہتے ہوئے خون سے وضو ٹوٹ جاتا اور نماز جاتی رہتی ہے ۔۔۔ ارے نہیں غلطی ہوگئی ۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔

4۔ اگر مادہ تولید کا اخراج نہیں ہوا تو غسل ضروری نہیں۔۔۔۔ ۔ارے نہیں غلطی ہوگئی۔۔۔۔ ضروری ہے ۔۔۔

5۔ آپ ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز ملا کر پڑھ سکتے ہیں ۔۔۔۔ سوری ۔۔ غلطی ہوئی گئی ۔ آپ نہیں پڑھ سکتے ۔۔۔۔

6۔ نماز میں دعا کے لئے ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئیے ۔۔۔ ۔نماز میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا چاہئے ۔۔۔

7۔ رکوع سے پہلے اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھانے چاہیئے ۔۔۔۔ نہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ سوری۔۔۔

8۔ عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنی چاہیئے ۔۔۔ نہیں نہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔۔

9۔ آپ اپنے بچے کو اٹھا کر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔۔۔۔ نہیں آپ ایسا نہیں کرسکتے ۔۔۔
10۔ نماز پڑھتے وقت آپ منبر کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے رہیں ۔۔۔ نا نا نا نا۔۔۔۔
11۔ نماز میں صرف سورۃ الفاتحہ کافی ہے ۔۔ سوری،،،، قرآن کی آیات کی تلاوت بھی فرمائیے۔
12۔ سبحانک الھم ، بآواز بلند پڑھئے۔۔۔ نہیں دل ہی دل میں پڑھئے
13۔ نماز میں شیطان پر اور دوسروں پر لعنت بھیجنا جائز ہے ۔۔۔۔۔ نہیں ایسا کرنا ناجائز ہے ۔۔
14۔ التحیہ کے بعد آپ جو چاہے کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔ نہیں غلطی ہوگئی ۔ ایسا نہیں کرسکتے ۔۔
15۔ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ ابن عباس کے علاوہ کوئی بھی نمازی کے سامنے سے گذرے اسے قتل کردو۔۔۔۔۔ جیع؟؟؟
16۔ عورت، گدھا یا ،کتا نماز میں سامنے سے گذرے تو نماز گئی لیکن اگر آپ کی زوجہ محترمہ سامنے لیٹی ہیں تو کوئی بات نہیں ۔۔۔ :)

تو یہ ہے صلوٰۃ یا نماز کتب روایات سے ؟ کیاسب مسلمان انہی کتب روایات کے طریقہ سے نماز پڑھتے ہیں؟

اگر آپ کا یہ اب بھی دعوی ہے کہ نماز کا طریقہ صرف اور صرف کتب روایات ہی میں ہے تو مجھے یہ بتائیے کہ کونسا گورکھ دھندا بڑا ہے ؟؟ کتب روایات یا جناب کی سوچ؟؟؟؟

سوال یہ ہے کہ کیا 14 لاکھ حدیثوں میں بھی کہیں نماز پڑھنے کا طریقہ ہے؟؟؟؟

سوال یہ ہے کہ کیا 14 لاکھ حدیثوں میں بھی کہیں نماز پڑھنے کا طریقہ ہے؟؟؟؟

سوال یہ ہے کہ کیا 14 لاکھ حدیثوں میں بھی کہیں نماز پڑھنے کا طریقہ ہے؟؟؟؟
 
Top