عادل ـ سہیل
محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
سورت الاِسراء ( سورت بنی اِسرائیل ) کی آیت رقم 111 کے بعد صاحبء مراسلہ نے نماز میں تکبیر کہنے کو قران پاک میں سے ثابت کرنے کے لیے اگلی آیت سورت بقرۃ کی آیت رقم 185پیش کی ، اس کے بارے میں صرف اتنا کہنا ہی صاحبء مراسلہ کی """ خلاف قران """ قران فہمی کو واضح کرے گا ان شا ء اللہ ، کہ سورت البقرہ کا نزول مدینہ المنورہ میں ہوا ، اور یہ آیت رمضان کے روزوں کے متعلق ہے اور اس میں جو تکبیر بلند کرنے کا ذکر ہوا ہے وہ اللہ کی رحمت کے شکرانے کے طور پر بلند کرنے کا ہے نہ کہ نماز کا طریقہ ہے ، دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان میں مریض اور مسافر کو رمضان کے دِنوں کے بدلے میں کسی اور دن روزہ رکھنے کی اجازت دینے کے بعد اور یہ فرمانے کے بعد کہ ((((([font="]يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ[/font][font="]بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ[/font][font="]وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ[/font][font="]عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ[/font]::: اللہ تُم لوگوں کے آسانی چاہتا ہے اور اللہ تُم لوگوں کے لیے سختی نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تُم لوگوں (روزوں کی ) گنتی پوری کرو ))))) یہ فرمایا کہ ((((([font="]وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ[/font][font="]عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ[/font]::: اور تا کہ تُم لوگ اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو کچھ اللہ نے تُم لوگوں کو ہدایت دی ہے اور اس لیے کہ تُم لوگ اللہ کا شکر ادا کرو )))))
اب اس """ خلاف قران """ قران فہمی کا کیا کیجیے جو اس آیت میں صرف """ تکبیر """ کا ذکر ہونے کہ بنا پر اسے نماز میں تکبیر کہنے کا طریقہ سمجھ کر اللہ کے کلام کو کہیں سے کہیں بتا تی ہے ،
یہ بعینہ یہودیوں والا وہ کام ہے جس کی مذمت اللہ تعالیٰ نے سورت المائدہ کی آیت رقم 13 میں کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (((((يُحَرِّفُونَ ٱلْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَنَسُواْ حَظَّا مِّمَّا ذُكِرُواْ بِهِ ::: وہ بات کو اس کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور جو نصیحت انہیں کی گئی اسے بھلا بیھٹے )))))
صاحبء مراسلہ اس تحریف کو جاری رکھتے ہوئے اپنی """ خلاف قران """ قران فہمی کے مزید گُل کِھلاتے ہوئے نماز میں تکبیر کہنے کا طریقہ قران میں سے دکھانے کی کوشش میں اپنے مراسلے میں اگلی آیت مبارکہ یہ پیش کرتے ہیں ((((( [font="]لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ[/font][font="]لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ[/font][font="]عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ[/font][font="]:::[/font]ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کاخون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے، اس طرح (اﷲ نے) انہیں تمہارےتابع کر دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح)اﷲ کی تکبیرکہوجیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں ))))) سورت الحج / آیت 37
صاحبء مراسلہ نے اس آیت کو بھی محض لفظ """ تکبیر """ کے ذکر کی بنا پر سوچے سمجھے بنا """ کاپی پیسٹ """ کر دیا ، نہ ہی اس کا سیاق و سباق جانا اور نہ ہی اس کا موضوع سمجھا ، یا جان بوجھ کر معنوی تحریف کی ہے ،
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا صاحبء مراسلہ کو یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ سورت بھی مدینہ میں نازل ہوئی تھی ؟؟؟ یا انہیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ آیت مبارکہ صرف حج میں قربانی کے احکام سے متعلق ہے نماز کے احکام یا طریقہ سے اس کوئی ربط اور واسطہ نہیں ؟؟؟
یا جان بوجھ اپنے """ خلاف قران """ فلسفوں کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں اللہ کے کلام کی تحریف کی ہے؟؟؟ اور جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ :::
""""" سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ جسے صاحبء مراسلہ نے ""' خلاف قران """ فہم کے مطابق نماز میں تکبیر کہنے کی دلیل بتایا ہے اگر اسے صاحبء مراسلہ کے فلسفے کے مطابق ہی سمجھا جائے تو پھر میرا سوال کچھ کھل کر دہرانا پڑتا ہے کہ """ معاذ اللہ کیا اس حکم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تکبیر کے بغیر نماز پڑھا کرتے تھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ """
صاحبء مراسلہ کی """ خلاف قران """ قران فہمی تو یہی ثابت کرنا چاہتی ہے ، ولا حول و لا قوۃ الا باللہ ،"""""
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ صاحبء مراسلہ کو اپنی """ خلاف قران """ قران فہمی میں اپنا ہی پیش کیا ہوا ترجمہ بھی سمجھ نہیں آیا جو انہوں نے خود """ کاپی پیسٹ """ کیا کہ (((((تاکہ تم (وقتِ ذبح)اﷲ کی تکبیرکہو )))))گو کہ یہ ترجمہ درست نہیں لیکن اس کے مطابق خود صاحبء مراسلہ کا فلسفہ غلط ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیت نماز میں تکبیر کا طریقہ سِکھاتی ہے یا نماز میں تکبیر کہنے کے بارے میں ہے ، اس ترجمے کے مطابق ہر صاحب بصیرت کو پتہ چل رہا ہو گا کہ ییاں صرف جانور ذبح کرتےہوئے تکبیر بلند کرنے کی بات ہے نماز کی تکبیر کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ،
میں نے ابھی کہا کہ """ گو کہ یہ ترجمہ درست نہیں """ اور ان شاء اللہ مناسب ہو گا کہ میں اپنی بات کی کچھ وضاحت کر دوں ،
سورت الحج کی اس آیت مبارکہ میں تکبیر کا حُکم ذبح کے وقت کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی عطاء کردہ ہدایت کے شکر کے طور پر ہے جیسا کہ سورت البقرہ کی آیت رقم 185 میں ہے جس کی بات میں پہلے کر چکا ہوں ، و للہ الحمد و المنۃ ،
جی تو سورت الحج کی اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالی نے قربانی اور قربانی کے جانوروں کا ذکر فرمانے کے بعد اِرشاد فرمایا ((((( [font="]لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ[/font][font="]عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ [/font] ))))) جس کا ترجمہ فاروق صاحب نے کہیں سے یہ """ کاپی پیسٹ """ کیا کہ ((((( تاکہ تم ( وقتِ ذبح ) اﷲ کی تکبیرکہوجیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں ))))) اس ترجمے میں تکبیر کووقتءِ ذبح سے جوڑا گیا ہے جس کی کوئی صورت نہیں ، اگر یہاں مذکور تکبیر کا ذکر وقتءِ ذبح کے لیے ہوتا تو ((((( لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلِیھَا ::: تا کہ تُم لوگ اللہ کی تکبیر کہو ))))) کہا جاتا ، جیسا کہ اسی سورت الحج میں اس آیت رقم 37 سے پہلے والی آیت مبارکہ میں اِرشاد فرمایا (((((فَٱذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهَا ::: لہذا تُم لوگ قربانی کے جانور پر اللہ کا نام لو ( یعنی ذبح کرتے وقت اللہ اکبر کہا کرو) )))))
لہذا اس کا درست ترجمہ یہ ہے کہ ((((( تا کہ تُم لوگ اللہ کی تکبیر کہو اُس پر جو کچھ اللہ نے تُم لوگوں کو ہدایت عطاء فرمائی اور ( اے محمد ) آپ احسان کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے )))))صاحبء مراسلہ نے صرف اپنے فلسفے کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں یہ بھی نہیں سمجھا کہ یہ آیت صرف اور صرف حج کے احکام میں سے قربانی کے احکام کے بارے میں ہے نماز سے اس کوئی تعلق نہیں ،
صاحبء مراسلہ کی پیش کردہ اگلی آیت کے بارے میں بات ان شاء اللہ اگلے مراسلے میں ، و السلام علیکم