قران کریم طریقہء نماز کیسے تعلیم فرماتا ہے

عادل صاحب سے سینکڑوں سوالات ہیں جو یہ اپنے دستور کے مطابق گول کرتے جاتے ہیں۔ اب تک انہوں نے یہ ہی نہیں‌بتایا کہ

1۔ عادل سہیل اس دھاگہ میں فراہم کردہ احکامات کو خلاف قرآن سمجھتے ہیں ، تو پھر ان احکامات کے بغیر نماز کیسے ادا کرتے ہیں؟
2۔ ان کو نماز کی سنت جاریہ میں موجود احکامات قرآن سے کیوں نظر نہیں‌آتے۔ قرآن حکیم سے ان کو کیا دشمنی ہے؟


اور اب نئے سوالات:

السلام علی من یتبع الھدیٰ ،
لگتا ہے صاحبء مراسلہ کے آئینے کا رخ ان کی طرف ہو گیا ہے ،
ان صاحب کو گفتگو کے ادب کا کچھ اندازہ ہونا چاہیے ، پہلے میرے سوالات کے جواب دیں اور پھر ان جو جو دو تین سوال ہوں جن کا جواب ان کو نہ ملا ہوا اس کی بات کریں ،
صاحبء مراسلہ کو اس تدبر کی ضرورت ہے جس کا وہ دوسروں میں فقدان سمجھتے ہیں ،
بے چارے یہ بھی سمجھ پائے کہ عادل سہیل نے قران میں نماز کے احکامات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ، بلکہ ان کے """ خلاف قران """ فلسفے کے مطابق ان کے بیان کردہ قرانی طریقہء نماز کے بارے میں بات ہو رہی ہے ،
ان اسیے لوگوں سے کیا بات کی جائے جنہیں یہ بھی سجھائی نہ دیتا ہو کہ کس موضوع پر بات کی جارہی ،
بس بات کرت ہیں اور الزامات لگاتے ہیں ، و السلام علی من یتبع الھُدیٰ ۔
 
2۔ ان کو نماز کی سنت جاریہ میں موجود احکامات قرآن سے کیوں نظر نہیں‌آتے۔ قرآن حکیم سے ان کو کیا دشمنی ہے؟


اور اب نئے سوالات:
3
5۔ ثابت کیجئے کہ لیلۃ‌القدر میں رسول اکرم پر سارا قرآن نازل نہیں ہوا؟

سارا مسئلہ یہ ہے کہ عادل سہیل قرآن حکیم کو سرسری انداز میں‌پڑھتے رہے ہیں۔ جو ان کو کتابوں‌میں‌ مل گیا اس کو رٹ لیا یا مارک کرلیا۔ اپنے طور پر کبھی تدبر نہیں کیا۔ عادل سہیل کی تحریر سے ظاہر ہے کہ انہوں نے نے آیات کو صرف دیکھا ہے کبھی ان آیات پر غور نہیں‌کیا۔ یہ ایک قابل افسوس امر ہے، پھر اپنی سمجھ کی کمی سے قرآن حکیم کی ان آیات کو ہی خلاف قرآن قرار دیے کر عادل سہیل صاحب ایک نئے دین کی بنیاد رکھ رہے ہیں کہ قرآن کی آیات قرآن کے خلاف ہیں ۔

اللہ تعالی ہم سب کو بہترین ہدایت دے اور دل کے اندھے ہونے سے بچائے۔

والسلام
السلام علی من یتبع الھدیٰ ،
صاحبء مراسلہ سے گذارش ہےکہ وہ کسی کے ایمان پر حکم صادر نہ فرمائیں اور کسی کے دل کے حال سے آگاہی کا دعویٰ کر کے اللہ کی ہمسری کی کوشش نہ کریں ، امید ہے ان کی یہ حرکتیں انتظامیہ کی نظر میں ہوں گی ،
صاحب ء مراسلہ کا تدبر قران سب کو سمجھائی دے رہا ہے ، جس کے بارے میں بہت سی جگہوں پر بہت سے بھائی اور بہنیں ان کے سامنے لکھ چکے ہیں ،
ان کے تدبر قران کا حال ان کی اپنی ہی باتوں کی تردید ، دوسروں کے ایامن پر حملے ، غیب کا علم جاننے کے دعوے ، اللہ کے کلام کو کچھ کا کچھ معنی اور مفہوم دینا ، کہیں کی بات کہیں لگانا ، اور اس قسم کے دوسرے کاموں میں خوب ظاہر ہے ،
جناب سے گذارش ہے کہ دوسروں کی ذات کے بارے میں فتوے صادر مت فرمایا کیجیے ، فلسفے اور منطق سے اللہ کے کلام اور اللہ کے احکام کو نہیں سمجھاجاتا ، ن
نئے دین کی بنیاد وہ رکھ رہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور چودہ سو سال سے امت کے اماموں کی مانی ہوئی تفسیر اور شرح کا انکار کرتے ہوئے """ ترجموں کے چکر """ میں گھومتے ہوئے اللہ کے کلام کی معنوی تحریف میں مشغول ہیں ،
کہیں کوئی ایک بات بھی کسی علمی دلیل سے نہیں کرتے ، صرف اپنے خود ساختہ فلسفوں اور جو سبق انہیں رٹائے گئے ہیں ان کے مطابق چند گنی چنی باتوں کو ورد کیے جاتے ہیں ،
صاحبء مراسلہ کو ایک مشورہہ یہ بھی دیتا ہوں کہ قران پاک کے نزول کے بارے میں بات کرنے کے لیے ایک الگ دھاگہ کھول لیں ،
اور ایک مشورہ یہ بھی پیس کرتا ہوں اگر صاحبء مراسلہ جواب نہیں جانتے تو اعترافء حقیقت کر لیا کریں ، اللہ کا کوئی نہ کوئی بندہ اُن کے سامنے درست جواب لے آئے گا ، ان شاء اللہ ،
اور اب چلتا ہوں اس دھاگے کے بنیادی مراسلے کے تجزیہ کی طرف ، و السلام علی من یتبع الھُدایٰ ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
بہت معذرت کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ یہ مراسلہ عادل سہیل صاحب کی بددیانتی کی اور کم سمجھی کی اعلی ترین مثال ہے۔ نماز میں‌ تکبیر یعنی--- اللہ اکبر -- کہنے کے حکم کے لئے میں‌نے درج ذیل آیات پیش کیں ۔ جس میں سلسلہ وار بتایا گیا کہ اللہ تعالی نے حکم دیا کہ تکبیر کہا کرو اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح‌کہا کرو۔
خاں صاحب ذرا دھیرج رکھیئے ابھی تو عادل سہیل بھائی نے آپکی قرآن فہمی کا پول کھولنا شروع ہی کیا ہے اور آپ ابھی سے اس قدر سیخ پا ہورہے ہیں ابھی تو حجور ہم نے بھی الگ سے ایک تھریڈ لگانا ہے " قرآن علوم قرآن اور آپکی قرآن فہمی " پر مگر مشکل یہ ہے کہ میں آجکل بُرا پھنسا ہوا ہوں وقت کی شدید قلت ہے ۔ ۔ ۔ ۔
چلیے جو آیات آپ نے پیش کی ہیں انھے آپ ہی کے دعوٰی کے دلیل کے بطور دیکھ لیتے ہیں ۔ ۔

ایک بار پھر دیکھئے:

تکبیر کی تعلیم: اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا حکم
[ayah]17:111[/ayah] وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّہ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَم يَكُن لَّہُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّہُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلَّ وَكَبِّرْۃُ تَكْبِيرًا

اور فرمائیے کہ سب تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے نہ تو (اپنے لئے) کوئی بیٹا بنایا اور نہ ہی (اس کی) سلطنت و فرمانروائی میں کوئی شریک ہے اور نہ کمزوری کے باعث اس کا کوئی مددگار ہے (اے حبیب!) آپ اسی کو بزرگ تر جان کر اس کی خوب بڑائی (بیان) کرتے رہئے ( كَبِّرْۃُ تَكْبِيرًا)

اللہ تعالی کی بزرگی اور کبریائی بیان کرنے کا ایک اور حکم ۔
[ayah]2:185[/ayah] [arabic]شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ[/arabic]
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو( [arabic]وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ [/arabic] ) اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ


اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا ایک اور حکم
[ayah]22:37[/ayah] [arabic]لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ [/arabic]

ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے، اس طرح (اﷲ نے) انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح) اﷲ کی تکبیر[arabic] لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ[/arabic] کہو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں

نماز کے دوران اللہ اکبر کہنے یعنی نماز میں اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا صریح حکم۔
[ayah]29:45[/ayah][arabic] اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ [/arabic]
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجئے، بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو



عادل سہیل سے سوال:
1۔ کیا آپ کو ان آیات میں اللہ کی کبریائی کہنے کا صاف صاف حکم نظر نہیں آتا۔ پھر آخری آیت میں نماز قائم کرنے اور اس میں‌تکبیر ادا کرنے کا حکم نظر نہیں‌آتا؟؟؟؟
اگر نہیں تو آپ کو کیا حکم نظر آتا ہے اور آپ آپ اللہ اکبر کی جگہ کیا تکبیر ادا کرتے ہیں؟
لیجیئے جناب عادل بھائی کی جگہ ہم آپ کو آپ کے تازہ سوال کا جواب دیے دیتے ہیں۔
جی تو جناب بالکل ان آیات میں اللہ پاک کی کبریائی بیان کرنے کا حکم موجود ہے مگر نمازکا طریقہ موجود نہیں اور حجور آپ ذرا اپنے دعوٰی پر غور فرمائیں دعوٰی آپکا خاص ہے یعنی " قرآن پاک نماز کا طریقہ کیسے تعلیم فرماتا ہے " اور دلیل آپ عام دیتے ہیں یعنی مطلقا اللہ کی بڑائی بیان کرنے والی آیات نقل فرماتے ہیں ۔ ۔ یعنی دعوٰی خاص اور دلیل عام آپ کوچاہیے تھا آپ اپنے دعویٰ کے ثبوت کے بطور قرآن پاک سے کوئی ایسی آیت نقل کرتے کہ جس میں صریحا آپکے دعوٰی کے مطابق طریقہ نماز سکھایا گیا ہوتا مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہنوز دلی دور است ۔ خیر ۔ ۔ حجور گذارش یہ ہے کہ اول تو ان آیات میں اللہ کی بڑائی یعنی کبریائی بیان کرنے کا فقط حکم آیا ہے اور اسے بھی اللہ نے مطلق رکھا ہے اور دوم آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ اللہ کی کبریائی فقط نماز میں تکبیر تحریمہ (یا دیگر تکبیرات ) کے بلند کرنے سے ہی بیان ہوتی ہے ؟ کیا اسکے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں اللہ کی کبریائی بیان کرنے کا
چلیں ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ ان آیات سے نماز کے طریقہ یعنی تکبیر تحریمہ سے آغاز کرنے کا حکم مل رہا ہے تو حجور باقی جو تکبیرات انتقالات ہیں وہ کن کن مقامات پر ہیں اورکس کس طرح سے ادا ہونگی ان کا حکم کدھر ہے ؟
حجور بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ آپ خود اپنے ہی دعوٰی پر دلیل نہیں قائم فرماسکے یعنی دعوٰی تو آپ کا یہ ہے قرآن طریقہ نماز کیسے تعلیم فرماتا ہے اور دلیل آپ یہ دیتے ہیں کہ چونکہ قرآن پاک میں اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا حکم آیا ہے سو اس سے طریقہ نماز کا ثبوت ہورہا ہے لا حول ولا قوۃ
حجور ہم پھر عرض کیئے دیتے ہیں کہ "قرآن نماز کا طریقہ کیسے تعلیم فرماتا ہے " آپکا یہ دعوٰی ایک خاص باب میں ہے یعنی طریقہ نماز کی تعلیم کو بیان کرتے ہوئے اس خاص ترکیب کو بیان کرنے کے باب میں جو کہ مروجہ طور پر بطور طریقہ نماز رائج ہے مگر آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر بھی ابھی تک سارے قرآن سے فقط وہی آیات نقل فرماسکے ہیں کہ جن میں مطلقا اللہ پاک کی بڑائی یعنی کبریائی بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی مطلقا بغیر کسی بھی طریقہ کی قید سے ۔ ۔ ۔ افسوس ہوا آپکی اس کسمپرسی پر مگر خیر ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے جب قرآن کو سنت سے جدا کرکے سمجھیں اور جمہور امت کے 99۔9 فی صد فہم کو یکلخت بیک جنبش قلم سے مسترد کردیں تو پھر انسان ایسی ہی مشکلات سے دو چار ہوتا ہے لہزا دھیرج رکھیئے ۔ ۔ ۔اور آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا ؟

ان آیات کا مطلب کیا ہے ؟ ان سے کیا تکبیر کا حکم ثابت ہوتا ہے ؟‌ اگر نہیں تو کونسا حکم ثابت ہوتا ہے اور نماز میں اللہ اکبر کی جگہ کیا کہنا چاہئیے ، آپ یہ بتانے میں بالکل فیل ہوگئے ہیں۔
جی حجور ان آیات سے فقط اللہ پاک کی کبریائی بیان کرنے کا حکم ثابت ہوتا ہے وہ بھی بغیر کسی مخصوص طریقہ کی قید سے نہ کہ ان آیات سے نماز میں تکبیر بلند کرنے کا کوئی بر اہ راست حکم یا پھر طریقہ بیان ہورہا ہے ۔ ان آیات پر غور کرنے کے بعد ان آیات سے اخذ کردہ اللہ کی کبریائی بیان کرنے کے مطلق حکم کو ہم اگر سنت طریقہ نماز پر منطبق بھی کریں تو فقط اتنا کہہ سکتے ہیں چونکہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں اپنی بڑائی بیان کرنے کا حکم بارہا صادر فرمایا ہے اور اسے مطلق رکھا ہے لہزا نماز میں جو تکبیرات کا طریقہ جو کہ سنت سے اخذ کردہ ہے نہ کے قرآن سے وہ ان آیات کے مطلق حکم کے عین مطابق ہے نہ کے خلاف قرآن ۔ ۔

جی آپ کی کتب روایات میں نماز کا متفقہ طریقہ موجود ہی نہیں ۔ اگر ہوتا تو آج لوگ طرح طرح سے نماز ادا نہیں کررہے ہوتے ۔
اچھا جی تو مان لیتے ہیں کہ جناب کے نماز کی ظاہری ہیئت میں جو اختلاف واقع ہوا (حالانکہ وہ اختلاف فقط صوری ہے حقیقی نہیں) ہے آپ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کے تمام کی تمام روایات نماز ہی جھوٹی ہیں اور سرے سے کسی روایت میں نماز کا کوئی بھی طریقہ بیان نہیں ہوا نیز آپکا یہ دعوٰی بھی ہے کہ طریقہ نماز میں پائے جانے والے اس اختلاف کا فقط حل یہ ہے کہ امت قرآن کی طرف رجوع کرے تو میرے حجور پھر آپ ہی قرآن کی رو سے کوئی متفقہ طریقہ نماز بیان فرمادیں جو کہ 14 سو سال سے آج تک امت کی سمجھ میں نہ آسکا مگر یا درہے حجور کے وہ طریقہ نماز متفقہ ہونا چاہیے مگر کیا کیا جائے حجور آپ تو ابھی تک فقط "طریقہ نماز "ہی قرآن سے ثابت نہیں کرپائے تو "متفقہ طریقہ " تو بہت دور کی کوڑی ہے حجوررررر ۔ ۔ ۔
 
میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں‌کہ اللہ تعالی عادل سہیل کو ہدایت دیں۔

والسلام
السلام علیکم ،
بہت شکریہ جناب ، یہ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ عادل سہیل کو ہدایت پر ہی قائم رکھے ، اگر آپ ہدایت اسے سجھتے ہیں جس کا پرچار آپ کر رہے ہیں تو میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عادل سہیل کو بھی اور ہر ایک انسان کو اس ہدایت سے گمراہ ہی رکھے ، و السلام علیکم۔
 
خاں صاحب ذرا دھیرج رکھیئے ابھی تو عادل سہیل بھائی نے آپکی قرآن فہمی کا پول کھولنا شروع ہی کیا ہے اور آپ ابھی سے اس قدر سیخ پا ہورہے ہیں ابھی تو حجور ہم نے بھی الگ سے ایک تھریڈ لگانا ہے " قرآن علوم قرآن اور آپکی قرآن فہمی " پر مگر مشکل یہ ہے کہ میں آجکل بُرا پھنسا ہوا ہوں وقت کی شدید قلت ہے ۔ ۔ ۔ ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، عابد بھائی ،
((((( و ما توفیقی اِلا باللہ )))))
آپ جیسے بھائیو کی دعاوں کی ضرورت ہے ،
اللہ تعالیٰ آپ کا ارادہ مکمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ، اور آپ جہاں پھنسے ہوئے ہیں اسے بھی دین دنیا اور آخرت کی خیر والا بنائے اور اسی خیر کے ساتھ وہاں سے نکال بھی لے ، وقت کی قلت کا تو میں بھی شکار ہوں خاص طور پر ہر ہجری مہینے کے پہلے پندہ بیس دنوں میں تو پڑھائی لکھائی کے لیے جو وقت میسر ہوتا ہے وہ ایک ہی کام میں لگتا ہے ، اور اب اس مہینے کا وہ وقت آنے والا ہے ، ان شاء اللہ ابھی گذشتہ سے پیوستہ کرتے ہوئے مذعوم قرانی طریقہء نماز کے تجزیے کا کچھ اگلا مواد پیش کرتا ہوں ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطاء فرمائے کہ ہم اس کے دین کے دونوں مصادر کی خدمت کر سکیں ، و السلام علیکم۔
 
گذشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترم فارئین ، میں نے سابقہ مراسلہ رقم 115میں صاحبء مضمون کے مضمون میں ایک ذیلی عنوان """"""سورۃ فاتحہ کو دہرانے کی تعلیم: """"""" میں مذکور دو آیات میں سے ایک کے بارے میں کچھ معلومات مہیا کی تھیں اور اُن معلومات کی روشنی میں کچھ """ بیانیہ """ سوالات کیے تھے ، ان شاء اللہ اب اس مراسلے میں صاحبء مضمون کے اُسی ذیلی عنوان کے بارے میں میں مذکور دوسری اور آخری آیت اور اس کے حوالے کے بارے میں کچھ معلومات پیش کرتا ہوں ،
صاحبء مضمون اپنے فلسفے کو قران کے ثبوت مہیا کرنے کی کوشش میں ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام کی معنوی تحریف کرتے ہوئے اللہ کے کلام کو اُس کی جگہ سے کہیں اور پہنچاتے ہوئے اپنے مضمون کے اس ذیلی عنوان میں یوں لکھا :::
سورۃ فاتحہ کو دہرانے کی تعلیم:
سورۃ الحجر:15 , آیت:87
اور بیشک ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں (یعنی سورۃ فاتحہ) اور بڑی عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے
سورۃ الحجر:15 , آیت:88
ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سارے موجودات جو ان میں ہیں اﷲ کی تسبیح کرتےرہتے ہیں، اور (جملہ کائنات میں) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کےساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے،بیشک وہ بڑا بُردبار بڑا بخشنے والا ہے
جیسا کہ میں نے ابھی ابھی عرض کیا کہ اس منقولہ بالا مراسلہ میں مذکور پہلے آیت کے بارے میں بات ہو چکی اب دوسری آیت اور اس کے حوالے کے بارے میں بات کرتے ہیں ،
میں نے اس تجزیے کے سلسلے میں سابقہ مراسلے کے آخر میں لکھا تھا کہ :::
"""""""فی الحال یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دوسری آیت کے حوالے کو یا ترجمے کو """ کاپی پیسٹ """ کرنے میں ان سے فاش غلطی ہوئی ہے ، شاید """ ترجموں کے چکر """ میں چکر آ گیا ہو """""""
جی ، گنجائش تو نہیں ہے لیکن پھر بھی مسلمان سے حسن ء ظن رکھنے کے ضمن میں یہ نہیں کہتا کہ صاحبء مضمون نے غلطی کی ہے جی یہ یقیناً ہے کہ انہوں نے غلطی کی ہے اور بڑی فاش غلطی کی ہے جب بغیر سوچے سمجھے یا اپنی خاص سوچ کے مطابق سمجھ کر """ کاپی پیسٹ """ کیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے ، اور الزام دوسروں پر لگایا جاتا ہے ، الحمد للہ جو صاحبء مراسلہ کی علمیت اور ان کے اضطراب کو ان ہی کے ہاتھوں آشکار کرواتا ہے ،
صاحبء مضمون نے اس منقولا بالہ مراسلہ میں ایک آیت مبارکہ کا ترجمہ """ کاپی پیسٹ """ کیا ، شاید """ ترجموں کے چکر """ میں گھوم گئے کہ ترجمہ کسی آیت کا لکھا اور حوالہ کسی آیت کا دے دیا ،
محترم قارئین ، مُلاحظہ کیجیے صاحبء مراسلہ کی بے چینی اور اضطراب ( کنفیوژن) کا حال ، اور اپنے فلسفوں کو قران پاک کی آیات مبارکہ میں معنوی تحریف کر کے کسی بھی طور درست بنانے کی کوشش ،
اور ملاحظہ فرمایے کہ اس کوشش میں اتنے بوکھلائے کہ سورت الحجر کی آیت رقم ۸۸ کا حوالہ دیا اور وہ آیت مبارکہ مندرجہ ذیل ہے :::
(((((لاَ تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجاً مِّنْهُمْ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ ::: ( اے محمد ) آپ اپنی آنکھیں اس کی طرف مت کیجیے جو ہم نے کچھ لوگوں کو (وقتی) فائدہ اٹھانے کی مہلت ( کے ساتھ)دی ہے اور انہ ہی ان کے لیے غم زدہ ہوں اور اِیمان والوں کے لیے اپنے (رحمت اور شفقت کے ) پر نیچے کیے رکھیے )))))
اور پھر صاحبء مراسلہ نے سورت الحجر / آیت ۸۸ کے حوالہ کے آگے جس آیت مبارکہ کا ترجمہ """ کاپی پیسٹ """ کیا وہ آیت مبارکہ سورت الاِسراء (بنی اِسرائیل ) کی آیت رقم 44 ہے ، ملاحظہ کیجیے :::
(((((تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدَهِ وَلَ۔كِن لاَّ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيماً غَفُوراً )))))
اور صاحبء مراسلہ نے اس آیت مبارکہ کا یہ درج ذیل ترجمہ """ کاپی پیسٹ """ کیا :::
(((((ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سارے موجودات جو ان میں ہیں اﷲ کی تسبیح کرتےرہتے ہیں، اور (جملہ کائنات میں) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کےساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے،بیشک وہ بڑا بُردبار بڑا بخشنے والا ہے )))))
کوئی صاحب بصیرت یہ نہیں کہے گا کہ اس آیت میں کسی طور تسبیح کرنے کا حکم ہے ، چہ جائیکہ اس کو نماز میں تسبیح کا طریقہ قرار دیا جائے ، یہ صاحبء مراسلہ کا ہی خاصہ ہے کہ اپنے """ خلاف قران """ فلسفوں کو کلام اللہ میں تحریف کر کر کے درست دِکھانے کی کوشش کرتے ہیں ،
یہ مذکورہ بالا آیت پاک بھی ایک مکی سورت کی ہے جو ترتیبء نزول میں پچاسویں سورت ہے ، اس تجزیے کے پچھلے مراسلہ میں بتایا چکا کہ """"""" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو نماز پڑھنے کا حکم سورت المزمل میں دیا گیا تھا جو کہ ترتیب التنزیل میں تیسری سورت ہے """"""" ،
اب یہ صاحبء مضمون ہی بتا سکتے ہیں کہ ایک عمل شروع ہو چکنے کے بعد اس کا طریقہ بتایا جانا کس منطق سے درست ثابت ہوتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟
اگر وہ کہیں کہ قران ایک ہی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل ہو گیا تھا ، تو یہ ایک ایسا جھوٹ ہے جس کی کوئی علمی دلیل ہے نہ کوئی منطقی دلیل ، بلکہ بے شمار واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قران پاک لگ بھگ تیئس سال کے عرصے میں وقتاٍ فوقتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل ہوتا رہا ،
اگر صاحبء مراسلہ و مضمون اس موضوع پر بات کرنا چاہیں تو میں اپنی پہلے والی پیشکش دہراتا ہوں کہ اس موضوع پر ایک الگ دھاگی کھول لیں ، ان شاء اللہ پھر ایک اور چوراہے میں ان کے """ خلاف قران """ فلسفوں کا ایک اور بھانڈا پھوٹے گا ، باذن اللہ ،
الحمد للہ ، یہاں اس منقولہ بالا اقتباس کے تجزیے سے ایک دفعہ پھر واضح ہوا کہ صاحبء مراسلہ کے """ خلاف قران """ فلسفوں نے قرانی طریقہء نماز ثابت کرنے کی کوشش میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ کی کس طرح معنوی تحریف کی ہے ،
ان شاء اللہ اگلی فرصت میں صاحبء مضمون کے مذعومہ قرانی طریقہء نماز کے باقی حصوں کا تجزیہ پیش کروں گا ،
و السلام علیکم۔
 

انتہا

محفلین
ارے بھائی کوئی مجھے موافق قرآن روایات کے ذریعے ہی نماز کا صحیح طریقہ بتا دے۔ میری تو ساری عمر کی نماز ہی ضائع چلی گئی۔
کیا کوئی "موافق قرآن" روایات کی "مسند" تیار ہو چکی ہے؟ اگر ہو چکی ہے تو منظر عام پر لائی جائے تا کہ لوگ "صحیح اسلام" کو سمجھ سکیں۔
 
اس دھاگہ کا مقصد تھا کہ وہ فرائض جو ہم نماز میں ادا کرتے ہیں وہ اللہ تعالی کے تعلیم کئے ہوئے ہیں، نماز میں ہم ان احکامات کی بجا آوری کرتے ہیں ۔

پہلے ایک مثال لیتے ہیں‌، تکبیر کی:
ہم سب یہ جانتے ہیں‌کہ ہم نماز میں‌تکبیر یعنی --- اللہ اکبر -- کہتے ہیں۔ کیوں‌ کہتے ہیں؟

سب سے پہلے کہ ہم یہی ان تمام لوگوں کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جو حرمین‌الشریفین میں نماز پڑھتے ہیں۔

ان سب لوگوں‌نے کس سے سیکھا؟

اس سوال کا جواب دیجئے تو سلسلہ رسول اکرم کی سنت سے جا ملتا ہے۔ جو کہ آج بھی سنت جاریہ ہے۔ کہ رسول اکرم نماز میں‌تکبیر ادا کرتے تھے۔

رسول اکرم کو تکبیر کہنے کا حکم کس نے دیا؟

رسول اکرم کو تکبیر کہنے کا حکم اللہ تعالی نے دیا، یہ حکم ان آیات میں موجود ہے جو اس مراسلہ میں‌فراہم کی گئی ہیں۔

اب یہاں‌کچھ لوگوں کے کہنے کے مطابق ہم قرآن حکم میں‌ دئے گئے کبریائی بیان کرنے کے حکم کو الگ کردیتے ہیں۔ آپ چونکہ کبریائی بیان کرنے کے حکم کو نہیں‌مانتے اب بتائیے کہ آپ تکبیر کیوں دیتے ہیں ، یعنی اللہ اکبر کیوں‌کہتے ہیں ، اللہ تعالی کی کبریائی کیوں‌ بیان کرتے ہیں۔

اگر اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا طریقہ اللہ تعالی کا سکھایا ہوا نہیں تو کس کا سکھایا ہوا ہے؟ آپ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل نہیں‌ کرتے تو پھر کسے کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں؟

والسلام
 
جی تو جناب بالکل ان آیات میں اللہ پاک کی کبریائی بیان کرنے کا حکم موجود ہے مگر نمازکا طریقہ موجود نہیں


اس خاص ترکیب کو بیان کرنے کے باب میں جو کہ مروجہ طور پر بطور طریقہ نماز رائج ہے مگر آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر بھی ابھی تک سارے قرآن سے فقط وہی آیات نقل فرماسکے ہیں کہ جن میں مطلقا اللہ پاک کی بڑائی یعنی کبریائی بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی مطلقا بغیر کسی بھی طریقہ کی قید سے ۔



پہلے آپ نے مانا کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا حکم موجود ہے۔ پھر آپ کی پھرکی گھوم گئی میری طرف، کہ نہیں‌ تم نے کہا تو غلط کہا۔

صاحب آپ نماز میں جتنی بار بھی تکبیر یعنی اللہ اکبر کہتے ہیں تو اللہ تعالی کی کبریائی ہی بیان کررہے ہوتے ہیں۔ کیا یہ کبیریائی بیان کرنا اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل نہیں؟ اگر کبریائی بیان نہیں‌کررہے ہوتے ‌تو پھر آپ کیا کررہے ہوتے ہیں؟

میں نے اس مراسلہ کے شروع میں واضح‌کردیا تھا کہ نماز کا مکمل طریقہ رسول اکرم کی سنت جاریہ سے ثابت ہے۔ اس کے بعد اسی سنت جاریہ کے قیام ، رکوع اور سجدہ کے احکامات کے بارے میں بتایا۔ یہ احکامات رسول اکرم کو اللہ تعالی کے فرمان سے ہی ملے۔ نماز کن احکامات کی مجموعہ ہے وہ ان احکامات کن آیات میں پائے جاتے ہیں۔ آپ چاہیں‌بھی تو نہیں‌جھٹلا سکتے۔

آپ نماز ادا کرتے ہیں تو یقینی طور پر ان احکامات کی تعمیل کرتے ہیں‌ جو ان آیات سے واضح ہیں، انہی احکامات کو رسول اکرم نے نماز ادا کرکے اور اس کی تعلیم دے کر ہمیں‌سکھایا۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ نماز ادا کرنے کی مکمل تعلیم ، کتب روایات میں‌کہیں‌ بھی ریکارڈ‌ نہیں ہوئی۔ کیوں؟

آج تک بھی آپ حضرات نماز کی پوری ترکیب ، کتب روایات سے نہیں لکھ پائے ہیں ۔

رہ گئی بات آپ کے الفاظ‌کے طنز کی اور آپ کے لب و لہجے کی تو بھائی میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں :)

کیوں‌؟؟‌ کہ میں‌ آپ کے درجہ پر نہیں گر سکتا :) لہذا آپ کے تمام ذاتی حملہ ردی کی ٹوکری کی نظر کررہا ہوں۔
 

انتہا

محفلین
اس دھاگہ کا مقصد تھا کہ وہ فرائض جو ہم نماز میں ادا کرتے ہیں وہ اللہ تعالی کے تعلیم کئے ہوئے ہیں، نماز میں ہم ان احکامات کی بجا آوری کرتے ہیں ۔
تو جناب پھر اس دھاگے کا نام ہی تبدیل کر دیجیے تا کہ لوگوں کو اشتباہ نہ رہے کہ آپ قرآن کریم سے صرف نماز ثابت کرنا چاہ رہے ہیں اس کا طریقہ نہیں۔
 
قرآن نماز طریقہ
ہمیں نماز کا کوئی طریقہ قرآن کریم میں نہیں ملا۔کوئی ریفرنس فراہم کیجئے مہربانی فرما کر۔

آپ کے سوال کا بہت شکریہ، ہم کو ایک بہترین ریفرنس (ماخذ) قرآن حکیم سے ملتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے

اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہدایت کی کہ کعبہ کو نماز پڑھنے والوں کے لئے صاف رکھئے
22:26 وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور جب ہم نے ابراھیم کے لیے کعبہ کی جگہ معین کر دی کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کراور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھ

2:125 - وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
مودودی صاحب: اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیمؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو اور ابراہیمؑ اور ا سماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو

مقام ابراہیم پر کس طرح نماز پڑھی جاتی ہے، یہ رسول اکرم سے پہلے سے چلا آرہا ہے، تمام نبیوں نے اسی مقام سے نماز کا طریقہ لیا۔ رسول اکرم نے بھی اس مقام سے نماز کا طریقہ لیا اور ساری امت بھی نماز کے طریقے کے لئے اسی مقام سے بالآخر رجوع کرتی ہے۔ اللہ تعالی نے نمازکے طریقے، اوقات کی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت جو آج تک جاری و ساری رکھا ہے۔ یہ سنت ہر روز لاکھوں روز اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرماتے ہیں۔ اس کے بعد اس سوال کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے کہ "نماز کا طریقہ قرآن حکیم میں کہاں ہے" ،

جوابی سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ "نماز کا طریقہ ، کس کتاب میں ایک ہی جگہ مکمل ہے؟"
 

بافقیہ

محفلین
یہ سنت ہر روز لاکھوں روز اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرماتے ہیں۔ اس کے بعد اس سوال کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے کہ "نماز کا طریقہ قرآن حکیم میں کہاں ہے" ،
اچھا! آپ حدیث کو نہیں مانتے لیکن چلی آنے والی روایات کو مانتے ہیں! واہ :ROFLMAO::LOL:
آپ جس پروپیگنڈے کو لیکر امت میں تفرقہ پیدا کررہے ہیں وہ کئی صدیوں سے جاری ہے ۔ جس طرح ان کی تمام جھود مبارکہ :p رائیگاں چلی گئیں، اسی طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی! ان سب میں کیا رکھا ہے؟ تبلیغ کا حکم ہے مگر یوں نہیں کہ آپ اسلام کا صحیح اور ہمیشہ قائم رہنے والا تصور چھوڑ کر اپنے فہم صحیح پر بھروسہ کئے بغیر دوسروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر ان کے آلہ کار بن جائیں۔
 
آخری تدوین:
اچھا! آپ حدیث کو نہیں مانتے لیکن چلی آنے والی روایات کو مانتے ہیں! واہ :ROFLMAO::LOL:
آپ جس پروپیگنڈے کو لیکر امت میں تفرقہ پیدا کررہے ہیں وہ کئی صدیوں سے جاری ہے ۔ جس طرح ان کی تمام جھود مبارکہ :p رائیگاں چلی گئیں، اسی طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی! ان سب میں کیا رکھا ہے؟ تبلیغ کا حکم ہے مگر یوں نہیں کہ آپ اسلام کا صحیح اور ہمیشہ قائم رہنے والا تصور چھوڑ کر اپنے فہم صحیح پر بھروسہ کئے بغیر دوسروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر ان کے آلہ کار بن جائیں۔

آپ کا سوال ، اس کا جواب آپ مل گیا۔ اب آپ کا کیا سوال ہے؟
۔


اللہ تعالی نے ایک آیت میں " وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى " مقام ابرہیم علیہ السلام سے نماز اخذ کرنے کا حکم دیا۔ آپ مقام ابراہیم سے ، نماز کا طریقہ کار، تعداد، اوقات یعنی نماز کے بارے میں سب کچھ معلوم کرسکتے ہیں۔ امام کعبہ کے فرض نمازکے ختم ہونے کے ساتھ ہی طواف شروع ہو جاتا ہے۔ نماز قرآن کے مطابق سنت ابراہیمی ہی ہے۔ حتی کہ امام کعبہ ، بالسلام سے داخل ہوتا ہے، صافا اور مروہ کے درمیان سے سنت ابراہیمی کے مطابق اسی طرح گذرتا ہے ، جیسا کہ سنت ابراہیمی ہے اور جیسا کہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ آپ کو اس طریقہ کار کے بعد، کس معلومات کے لئے کسی بھی کتاب کی ضرورت رہ جاتی ہے؟

اللہ تعالی نے حکم دیا کہ آپ نماز مقام ابراہیم سے اخذ کیجئے۔ سبحان اللہ ، ایک آیت میں نماز کے بارے میں تعداد، اوقات، طریقہ نماز مکمل معلومات مل گئیں۔ اب آپ سے سوال ہے کہ کتب روایات سے ایک ہی جگہ ، وہ ریفرنس فراہم کردیجئے، جس میں مکمل طریقہ نماز، اوقات، تعداد وغیرہ موجود ہوں۔ اگرآپ یہ معلومات نہیں فراہم کرسکتی ہیں تو وعدہ فرمائیے کہ قرآن حکیم کے بارے میں اس طرح کے بیانات جاری کرنے سے پہلے خوب ریسرچ کرلیں گی۔

ذاتی نوٹ:
مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نا ماننے کا الزام نا دیجئے،۔ جہاں ضرورت ہوتی ہے، وہاں ضرور احادیث سے معلومات فراہم کرتا ہوں۔ عموماً اس کی ضرورت اس لئے نہیں رہتی ہے کہ قرآن حکیم مفصل ہے۔

وَلَقَدْ جِئْنَاهُم بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور بیشک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل (یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے

مجھے سنت نبوی اکرم نا ماننے کا الزام دینے سے پہلے یہ جان لیجئے کہ فیصلہ کس کتاب سے ہوگا، یوم الحساب، ایسے الزامات دینے والوں کا گریبان پکڑوں گا۔ خود فیصلہ کرلیجئے کہ کس کتاب پر ایمان رکھنا ہے؟

39:69 وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور کتاب رکھ دی جاوے گی اور نبی اور گواہ لائے جاویں گے اور ان میں انصاف سے فیصلہ کیا جاوے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا
 

بافقیہ

محفلین
جہاں ضرورت ہوتی ہے، وہاں ضرور احادیث سے معلومات فراہم کرتا ہوں۔
آپ معلومات فراہم کرتے ہیں، جیسے عام کتابوں سے معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ بہت بڑھیاں۔۔۔۔۔

اللہ تعالی نے حکم دیا کہ آپ نماز مقام ابراہیم سے اخذ کیجئے۔ سبحان اللہ ، ایک آیت میں نماز کے بارے میں تعداد، اوقات، طریقہ نماز مکمل معلومات مل گئیں۔
اچھا!!!!!! ظہر ، عصر اور عشاء کی چار رکعتوں اور مغرب کی تین رکعتوں کا تذکرہ حدیث کے علاوہ، کسی تاریخی کتاب سے مہیا کیجیئے۔ کہ اسلام سے پہلے عرب میں یا کہیں پر بھی تین یا چار رکعتیں کسی وقت پڑھی جاتی تھیں۔ تو ہم کسی گوشے میں تو مان لیں گے کہ آپ کی باتوں میں تھوڑی سی دُم ہے!:p

چلئے ! اس کے جوابات تو آنے سے رہے۔ صرف یہ بتادیں کہ حدیث شریف کی حیثیت کیا ہے آپ منکرین حدیث ! معاف کیجئے حدیث کے منکرین کے پاس! یا آپ جو اپنے لئے عزت کانام مناسب سمجھیں!

میں سنجیدگی کو کچھ دیر کیلئے آپ کی خاطر فریج میں رکھ آیا ہوں۔ تاکہ ضرورت کے وقت استعمال کرسکوں۔ :)
 
آپ معلومات فراہم کرتے ہیں، جیسے عام کتابوں سے معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ بہت بڑھیاں۔۔۔۔۔


اچھا!!!!!! ظہر ، عصر اور عشاء کی چار رکعتوں اور مغرب کی تین رکعتوں کا تذکرہ حدیث کے علاوہ، کسی تاریخی کتاب سے مہیا کیجیئے۔ کہ اسلام سے پہلے عرب میں یا کہیں پر بھی تین یا چار رکعتیں کسی وقت پڑھی جاتی تھیں۔ تو ہم کسی گوشے میں تو مان لیں گے کہ آپ کی باتوں میں تھوڑی سی دُم ہے!:p

چلئے ! اس کے جوابات تو آنے سے رہے۔ صرف یہ بتادیں کہ حدیث شریف کی حیثیت کیا ہے آپ منکرین حدیث ! معاف کیجئے حدیث کے منکرین کے پاس! یا آپ جو اپنے لئے عزت کانام مناسب سمجھیں!

میں سنجیدگی کو کچھ دیر کیلئے آپ کی خاطر فریج میں رکھ آیا ہوں۔ تاکہ ضرورت کے وقت استعمال کرسکوں۔ :)
پیاری بہن،
آپ سے ایک اچھا سوال کیا کہ وہ ایک مکمل روایت نقل فرما دیجئے یا نمبر فراہم کردیجئے جس میں نماز کا مکمل طریقہ ہے۔ آپ صاف صاف ناکام رہیں۔ جی؟ کیا آپ کو میرے مراسلات میں قرآن حکیم کی آیات کے ریفرنس نظر آتے ہیں؟ جی بالکل ، تو آپ کو اپنے خیالات کا حق ہے۔

اب آپ کے سوالات کے معقول جوابات۔
سوال 1۔ ظہر ، عصر اور عشاء کی چار رکعتوں اور مغرب کی تین رکعتوں کا تذکرہ حدیث کے علاوہ، کسی تاریخی کتاب سے مہیا کیجیئے۔ کہ اسلام سے پہلے عرب میں یا کہیں پر بھی تین یا چار رکعتیں کسی وقت پڑھی جاتی تھیں۔

میں مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر ہوا ہوں۔ اللہ تعالی کا فرمان کے نماز مقام ابراہیم سے لو، اس حکم سے قبل کیا ہوتا تھا ، مجھے جاننے کا کوئی فائیدہ نہیں اور نا ہی مجھے اس کی ضرورت ہے۔ آپ یہ فرمائیے کہ مقام ابراہیم سے نماز اخذ کرنے کے بعد آپ کا کونسا سوال ، آپ کی اناء کے علاوہ رہ جاتا ہے؟

سوال نمبر 2: صرف یہ بتادیں کہ حدیث شریف کی حیثیت کیا ہے آپ منکرین حدیث ! معاف کیجئے حدیث کے منکرین کے پاس!
میں روایات کا اتنا ہی منکر ہوں، جتنی آپ۔ جی ۔۔۔ نماز میں آپ قرآن حکیم کی آیات کے علاوہ کون کون سی حدیث پڑھ سکتی ہیں اور کون سی نہیں ۔ آپ کا جواب اور میرا جواب مختلف نہیں ہوگا۔ اب آپ ہمیں بتائیے کہ آپ کون کون سی روایات، نماز میں پڑھتی ہیں ،

اب آپ سے سوال، کیا آپ کے پاس قرآن حکیم سے مفصل جواب مل جانے کے بعد بھی آپ کو کسی اور کتاب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟، کیوں ؟ اس مزید کتاب پر ایمان رکھنے کا حکم کس نے اور کہاں دیا؟

بہت ہی شکریہ ،
والسلام
 

بافقیہ

محفلین
اب آپ ہمیں بتائیے کہ آپ کون کون سی روایات، نماز میں پڑھتی ہیں
ناچ نہ آئے آنگن ٹیڑھا۔
جبکہ مولویت احادیث سے پھیلائی جاتی ہے۔
کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔
اللہ تعالی کا فرمان کے نماز مقام ابراہیم سے لو
واہ کمال کی ترجمانی بلکہ نکتہ آپھرینی کہئے! :LOL:
مفسرین وقت طبری رازی زمخشری اور ہزاروں مفسرین کی سمجھ میں تو قرآن آیا ہی نہیں، ان کو شاید عربی زبان سے بھی اس قدر تعلق نہ رہا ہو کہ وہ اس کے معنی اب تک نہ سمجھ سکیں۔
ذرا آپ اس آیت کا ترجمہ فرمائیں گے؟ تاکہ فورم پر پڑھنے والے اس حسن ظن میں نہ رہیں کہ آپ علم تفسیر تو کجا ! عربی زبان سے بھی واقف ہیں!!!
میں ایسے عالم میں ہوں کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہنسوں یا روؤں؟ اس لئے میری ہنسی سے گھگھی بندھ گئی ہے۔:D
 
آخری تدوین:
ناچ نہ آئے آنگن ٹیڑھا۔
کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔
واہ کمال کی ترجمانی بلکہ نکتہ آپھرینی کہئے! :LOL:
مفسرین وقت طبری رازی زمخشری اور ہزاروں مفسرین کی سمجھ میں تو قرآن آیا ہی نہیں، ان کو شاید عربی زبان سے بھی اس قدر تعلق نہ رہا ہو کہ وہ اس کے معنی اب تک نہ سمجھ سکیں۔
ذرا آپ اس آیت کا ترجمہ فرمائیں گے؟ تاکہ فورم پر پڑھنے والے اس حسن ظن میں نہ رہیں کہ آپ علم تفسیر تو کجا ! عربی زبان سے بھی واقف ہیں!!!
میں ایسے عالم میں ہوں کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہنسوں یا روؤں؟ اس لئے میری ہنسی سے گھگھی بندھ گئی ہے۔:D

محترم، ہافقیہ
آپ کے بلند بانگ دعوے سچ ہیں یا کھوکھلے؟ دلیل لائیے اگر آپ سچے ہیں ،

21:24 أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ هَذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ
کیا انہوں نے اس کے سوا اور بھی معبود بنا رکھے ہیں کہہ دو اپنی دلیل لاؤ یہ میرے ساتھ والو ں کی کتاب اور مجھ سے پہلے لوگوں کی کتابیں موجود ہیں بلکہ اکثران میں سے حق جانتے ہی نہیں اس لیے منہ پھیرے ہوئے ہیں
 

بافقیہ

محفلین
محترم، ہافقیہ
آپ کے بلند بانگ دعوے سچ ہیں یا کھوکھلے؟ دلیل لائیے اگر آپ سچے ہیں ،

21:24 أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ هَذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ
کیا انہوں نے اس کے سوا اور بھی معبود بنا رکھے ہیں کہہ دو اپنی دلیل لاؤ یہ میرے ساتھ والو ں کی کتاب اور مجھ سے پہلے لوگوں کی کتابیں موجود ہیں بلکہ اکثران میں سے حق جانتے ہی نہیں اس لیے منہ پھیرے ہوئے ہیں
اچھا جی! کیا آپ کو اس بات کی دلیل چاہئے کہ امت مسلمہ میں آج تک غلام احمد پرویز کے مثل نہیں گزرا! یا آپ یہ منوانا چاہتے ہیں کہ قرآن کو سمجھنے میں آج تک تمام علمائے مفسرین و محدثین نے غلطی کی ہے؟
آپ سے دلائل کی زبان میں کس طرح بات کریں؟! آپ نے تو کہہ دیا کہ ہمیں قرآن کے بجائے احادیث مبارکہ کی نماز میں تلاوت کرنی چاہئے!:LOL:
اگر آپ کو دلائل چاہئے تو عربی زبان میں پختگی پیدا کریں، پھر پرویزی یا دوسری جتنی عینک ہیں اتار پھینکیں ، پھر استحضار کے ساتھ ، بیم و رجا کے عالم میں، جویائے حق بن کر تلاوت کریں۔ قرآن خود بہ خود آپ پر واضح ہوتا چلا جائے گا، اور اپنی ماضی کی فروگذاشتوں پر آپ حد درجہ پشیمان ہوں گے۔
 
آخری تدوین:
Top