بہت معذرت کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ یہ مراسلہ عادل سہیل صاحب کی بددیانتی کی اور کم سمجھی کی اعلی ترین مثال ہے۔ نماز میں تکبیر یعنی--- اللہ اکبر -- کہنے کے حکم کے لئے میںنے درج ذیل آیات پیش کیں ۔ جس میں سلسلہ وار بتایا گیا کہ اللہ تعالی نے حکم دیا کہ تکبیر کہا کرو اور یہ بھی بتایا کہ کس طرحکہا کرو۔
خاں صاحب ذرا دھیرج رکھیئے ابھی تو عادل سہیل بھائی نے آپکی قرآن فہمی کا پول کھولنا شروع ہی کیا ہے اور آپ ابھی سے اس قدر سیخ پا ہورہے ہیں ابھی تو حجور ہم نے بھی الگ سے ایک تھریڈ لگانا ہے
" قرآن علوم قرآن اور آپکی قرآن فہمی " پر مگر مشکل یہ ہے کہ میں آجکل بُرا پھنسا ہوا ہوں وقت کی شدید قلت ہے ۔ ۔ ۔ ۔
چلیے جو آیات آپ نے پیش کی ہیں انھے آپ ہی کے دعوٰی کے دلیل کے بطور دیکھ لیتے ہیں ۔ ۔
ایک بار پھر دیکھئے:
تکبیر کی تعلیم: اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا حکم
[ayah]17:111[/ayah] وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّہ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَم يَكُن لَّہُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّہُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلَّ وَكَبِّرْۃُ تَكْبِيرًا
اور فرمائیے کہ سب تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے نہ تو (اپنے لئے) کوئی بیٹا بنایا اور نہ ہی (اس کی) سلطنت و فرمانروائی میں کوئی شریک ہے اور نہ کمزوری کے باعث اس کا کوئی مددگار ہے (اے حبیب!) آپ اسی کو بزرگ تر جان کر اس کی خوب بڑائی (بیان) کرتے رہئے ( كَبِّرْۃُ تَكْبِيرًا)
اللہ تعالی کی بزرگی اور کبریائی بیان کرنے کا ایک اور حکم ۔
[ayah]2:185[/ayah] [arabic]شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ[/arabic]
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو( [arabic]وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ [/arabic] ) اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ
اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا ایک اور حکم
[ayah]22:37[/ayah] [arabic]لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ [/arabic]
ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے، اس طرح (اﷲ نے) انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح) اﷲ کی تکبیر[arabic] لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ[/arabic] کہو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں
نماز کے دوران اللہ اکبر کہنے یعنی نماز میں اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا صریح حکم۔
[ayah]29:45[/ayah][arabic] اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ [/arabic]
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجئے، بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو
عادل سہیل سے سوال:
1۔ کیا آپ کو ان آیات میں اللہ کی کبریائی کہنے کا صاف صاف حکم نظر نہیں آتا۔ پھر آخری آیت میں نماز قائم کرنے اور اس میںتکبیر ادا کرنے کا حکم نظر نہیںآتا؟؟؟؟
اگر نہیں تو آپ کو کیا حکم نظر آتا ہے اور آپ آپ اللہ اکبر کی جگہ کیا تکبیر ادا کرتے ہیں؟
لیجیئے جناب عادل بھائی کی جگہ ہم آپ کو آپ کے تازہ سوال کا جواب دیے دیتے ہیں۔
جی تو جناب بالکل ان آیات میں
اللہ پاک کی کبریائی بیان کرنے کا حکم موجود ہے مگر
نمازکا طریقہ موجود نہیں اور حجور آپ ذرا اپنے دعوٰی پر غور فرمائیں
دعوٰی آپکا خاص ہے یعنی
" قرآن پاک نماز کا طریقہ کیسے تعلیم فرماتا ہے " اور
دلیل آپ عام دیتے ہیں یعنی مطلقا اللہ کی بڑائی بیان کرنے والی آیات نقل فرماتے ہیں ۔ ۔ یعنی دعوٰی خاص اور دلیل عام آپ کوچاہیے تھا آپ اپنے دعویٰ کے ثبوت کے بطور قرآن پاک سے کوئی ایسی آیت نقل کرتے کہ جس میں صریحا آپکے دعوٰی کے مطابق طریقہ نماز سکھایا گیا ہوتا مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہنوز دلی دور است ۔ خیر ۔ ۔ حجور گذارش یہ ہے کہ اول تو ان آیات میں اللہ کی بڑائی یعنی کبریائی بیان کرنے کا فقط حکم آیا ہے اور اسے بھی اللہ نے مطلق رکھا ہے اور دوم آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ اللہ کی کبریائی فقط نماز میں تکبیر تحریمہ (یا دیگر تکبیرات ) کے بلند کرنے سے ہی بیان ہوتی ہے ؟ کیا اسکے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں اللہ کی کبریائی بیان کرنے کا
چلیں ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ ان آیات سے نماز کے طریقہ یعنی تکبیر تحریمہ سے آغاز کرنے کا حکم مل رہا ہے تو حجور باقی جو تکبیرات انتقالات ہیں وہ کن کن مقامات پر ہیں اورکس کس طرح سے ادا ہونگی ان کا حکم کدھر ہے ؟
حجور بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ آپ خود اپنے ہی دعوٰی پر دلیل نہیں قائم فرماسکے
یعنی دعوٰی تو آپ کا یہ ہے قرآن طریقہ نماز کیسے تعلیم فرماتا ہے اور دلیل آپ یہ دیتے ہیں کہ چونکہ قرآن پاک میں اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا حکم آیا ہے سو اس سے طریقہ نماز کا ثبوت ہورہا ہے
لا حول ولا قوۃ
حجور ہم پھر عرض کیئے دیتے ہیں کہ
"قرآن نماز کا طریقہ کیسے تعلیم فرماتا ہے " آپکا یہ دعوٰی ایک
خاص باب میں ہے یعنی
طریقہ نماز کی تعلیم کو بیان کرتے ہوئے اس خاص ترکیب کو بیان کرنے کے باب میں جو کہ مروجہ طور پر بطور طریقہ نماز رائج ہے مگر آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر بھی ابھی تک سارے قرآن سے فقط وہی آیات نقل فرماسکے ہیں کہ جن میں مطلقا اللہ پاک کی بڑائی یعنی کبریائی بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی مطلقا بغیر کسی بھی طریقہ کی قید سے ۔ ۔ ۔ افسوس ہوا آپکی اس کسمپرسی پر مگر خیر ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے جب قرآن کو سنت سے جدا کرکے سمجھیں اور جمہور امت کے 99۔9 فی صد فہم کو یکلخت بیک جنبش قلم سے مسترد کردیں تو پھر انسان ایسی ہی مشکلات سے دو چار ہوتا ہے لہزا دھیرج رکھیئے ۔ ۔ ۔اور آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا ؟
ان آیات کا مطلب کیا ہے ؟ ان سے کیا تکبیر کا حکم ثابت ہوتا ہے ؟ اگر نہیں تو کونسا حکم ثابت ہوتا ہے اور نماز میں اللہ اکبر کی جگہ کیا کہنا چاہئیے ، آپ یہ بتانے میں بالکل فیل ہوگئے ہیں۔
جی حجور ان آیات سے فقط اللہ پاک کی کبریائی بیان کرنے کا حکم ثابت ہوتا ہے وہ بھی بغیر کسی مخصوص طریقہ کی قید سے نہ کہ ان آیات سے نماز میں تکبیر بلند کرنے کا کوئی بر اہ راست حکم یا پھر طریقہ بیان ہورہا ہے ۔ ان آیات پر غور کرنے کے بعد ان آیات سے اخذ کردہ اللہ کی کبریائی بیان کرنے کے مطلق حکم کو ہم اگر سنت طریقہ نماز پر منطبق بھی کریں تو فقط اتنا کہہ سکتے ہیں چونکہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں اپنی بڑائی بیان کرنے کا حکم بارہا صادر فرمایا ہے اور اسے مطلق رکھا ہے لہزا نماز میں جو تکبیرات کا طریقہ جو کہ سنت سے اخذ کردہ ہے نہ کے قرآن سے وہ ان آیات کے مطلق حکم کے عین مطابق ہے نہ کے خلاف قرآن ۔ ۔
جی آپ کی کتب روایات میں نماز کا متفقہ طریقہ موجود ہی نہیں ۔ اگر ہوتا تو آج لوگ طرح طرح سے نماز ادا نہیں کررہے ہوتے ۔
اچھا جی تو مان لیتے ہیں کہ جناب کے نماز کی ظاہری ہیئت میں جو اختلاف واقع ہوا (حالانکہ وہ اختلاف فقط صوری ہے حقیقی نہیں) ہے آپ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کے تمام کی تمام روایات نماز ہی جھوٹی ہیں اور سرے سے کسی روایت میں نماز کا کوئی بھی طریقہ بیان نہیں ہوا
نیز آپکا یہ دعوٰی بھی ہے کہ طریقہ نماز میں پائے جانے والے اس اختلاف کا فقط حل یہ ہے کہ امت قرآن کی طرف رجوع کرے تو میرے حجور پھر آپ ہی قرآن کی رو سے کوئی متفقہ طریقہ نماز بیان فرمادیں جو کہ 14 سو سال سے آج تک امت کی سمجھ میں نہ آسکا مگر یا درہے حجور کے وہ طریقہ نماز متفقہ ہونا چاہیے مگر کیا کیا جائے حجور آپ تو ابھی تک فقط "طریقہ نماز "ہی قرآن سے ثابت نہیں کرپائے تو "متفقہ طریقہ " تو بہت دور کی کوڑی ہے حجوررررر ۔ ۔ ۔