قضا نمازیں کیسے ادا کی جائیں۔۔؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
روزے فرض ہوئے تو ساتھ ہی یہ حکم بھی آیا کہ اگر کوئی بالامر مجبوری روزہ نہیں رکھ سکتا تو وہ بعد میں قضا کیئے ہوئے روزوں کی روزے رکھ کر گنتی پوری کر لے، اسی طرح نماز کا حکم بھی آ سکتا تھا لیکن نہیں آیا۔ تو مطلب تو بالکل صاف ہے۔

ویسے یہ قضا عمری ہے کیا؟ کیا یہ ایک نماز ادا کر کے تمام عمر کی قضا نمازوں کی ادائیگی ہے؟
 

سارا

محفلین
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابہ کرام نے جب سے نماز فرض ہوئ جان بوجھ کر نہیں چھوڑی پھر بھلا اس وقت قضا عمری کا کیا سوال؟ اس وقت تو منافق بھی نماز نہیں چھوڑتے تھے ۔

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابہ کرام کے بعد ہمیں یہ چھوٹ مل گئی ہے کہ جس کا جب جی چاہے نماز چھوڑ دے اور بعد میں خود سے طریقے بنا کر پچھلی زندگی کی نمازوں کی کمی کو پورا کرتا رہے ؟؟
 

عادل

معطل
تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابہ کرام کے بعد ہمیں یہ چھوٹ مل گئی ہے کہ جس کا جب جی چاہے نماز چھوڑ دے اور بعد میں خود سے طریقے بنا کر پچھلی زندگی کی نمازوں کی کمی کو پورا کرتا رہے ؟؟

میں نے کب کہا کہ نماز چھوڑ دیں۔ البتہ قضا نہ پڑھنے کے بہانے نہ ڈھونڈیں۔ اگر قضا عمری فرض نہیں بھی ہے تو پڑھنے والے کو نفل کا ثواب تو مل ہی جائے گا۔
 
کتاب " نماز نبوی " صفحہ 186

فجر کی سنتیں فرضوں کے بعد پڑھ سکتے ہیں۔

اگر آپ ایسے وقت مسجد میں پہنچے کہ جماعت کھڑی ہو گئی ہو اور آپ نے سنتیں نہ پڑھی ہوں تو اس وقت سنتیں مت پڑھیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "جب نماز کی اقامت (تکبیر) ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی۔" (مسلم، صلاۃ المسافرین، باب کراھیۃ الشروع فی نافلۃ بعد شروع الموذن فی اقامۃ الصلاۃ۔ حدیث 710)۔

ایس صورت میں آپ جماعت میں شامل ہو جائیں اور فرض پڑھ کر سنتیں پڑھ لیں۔
اک اضافہ کرتا چلوں کہ فجر و عصر کے فرضوں کے بعد ان کا وقت ختم ہونے تک سجدہ جائز نہیں ہے تو ایسی صورت میں اگر فجر کی سنتیں رہ جائیں اور جماعت کھڑی ہو تو جماعت کے ساتھ نماز پڑھ کے سورج کے طلوع ہونے کے بعد سنتیں ادا کریں کیونکہ فجر کے فرضوں کے بعد طلوع آفتاب تک نماز نہیں ہوتی اس وجہ سے طلوع آفتاب کے بعد سنتیں ادا کی جائیں


جو بات میرے علم میں تھی اور عالم دین سے یہ مسئلہ بار بار پوچھا و سنا تھا اس لئے پیش دیا
 

شمشاد

لائبریرین
نفلی سجدہ کہہ سکتے ہیں کہ فجر اور عصر کے فرض ادا کرنے کے بعد جائز نہیں۔ اگر کسی کی فرض نماز قضا ہو چکی ہے تو وہ ادا کر سکتا ہے۔ مثلاً کسی کی ظہر کی نماز قضا ہو گئی اور اس کو عصر کی نماز جماعت سے مل گئی تو وہ پہلے جماعت کے ساتھ عصر ادا کر لے اور اس کے بعد ظہر کی قضا نماز ادا کر سکتا ہے۔

میں اسی اقتباس کو جو اوپر صفحہ 186 کا لکھا ہے اسی کو آگے بڑھاتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی صورت میں آپ جماعت میں شامل ہو جائیں اور فرض پڑھ کر سنتیں پڑھ لیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک شخص کو صبح کی فرض نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھ کر فرمایا : " صبح کی (فرض) نماز دو رکعتیں ہیں تم نے مزید دو رکعتیں کیسی پڑھی ہیں؟" اس شخص نے جواب دیا۔ میں نے دو رکعتیں سنت (جو فرضوں سے پہلے ہیں) نہیں پڑھی تھیں۔ ان کو اب پڑھا ہے۔ (یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاموش ہو گئے۔ (دار قطنی 1/383، 384، بیھقی 2/283، ابن خزیمۃ 116، اسے ابن حبان (624) حاکم (1/274، 275) اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔)

اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاموشی اس کام پر رضامندی کی دلیل ہے۔ (محدثین کی اصطلاح میں یہ تقریری حدیث کہلاتی ہے۔)

ایک شخص مسجد میں آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صبح کے فرض پڑھ رہے تھے۔ اس نے مسجد کے ایک کونے میں دو رکعتیں سنت پڑھی۔ پھر جماعت میں شامل ہو گیا۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا : " تو نے فرض نماز کس کو شمار کیا جو اکیلے پڑھی تھی اس کو یا جو ہمارے ساتھ جماعت سے پڑھی ہے؟" (مسلم، صلاۃ المسافرین، باب کراھیۃ الشروع فی نافلۃ ۔۔۔۔۔، حدیث 712)۔

معلوم ہوا کہ فرض ہوتے وقت سنتوں کا پڑھنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم ورحمتہ اللہ ۔
بھائی صاحب۔نماز کے فوت ہونے کی تین عذر ہوسکتے ہیں۔
1۔بھول 2۔سونے کی وجہ سے۔ 3۔ بے ہوشی کی وجہ سے۔
اس کے علاوہ کوئی اور وجہ تو ہو ہی نہیں سکتی۔ مندرجہ بالا عذریں جس وقت بھی ختم ہوجائے(بشرطیکہ اوقات ممنوعہ میں سے نہ ہو) نماز قضاء پڑھی جائے گی۔ اس کے علاوہ وہ نمازیں جس کا بہت عرصہ ہوچکا ہو۔ قضاء پڑھنا ۔ناقابل فہم ہیں۔ کیونکہ کوئی صحیح ثبوت نہیں ہے اس کے متعلق۔ اس کی بجائے نوافل پڑھی جائے تو بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ حدیث کے مطابق جس کے فرائض نماز میں کمی ہو ، نوافل سے پوری کی جائے گی۔
مندرجہ بالا عذروں کے علاوہ نماز نہ پڑھنے کا کیا حکم ہے۔ خود ہی سوچ لو۔ حدیث ہے ۔ من ترک الصلوۃ متعمدا ً فقد کفرا۔ جس نے قصداً نماز ترک کی یقیناً اس نے کفر کیا۔
تو کفر کی ہر قسم کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے اس دنیا میں توبہ اور استغفار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میری تحقیق میں غلطی ہو تو برائے کرم واضح کیجے گا۔ انشاء اللہ ازالہ کیا جائے گا۔
 
جو لوگ نماز کی ادائیگی کے لئے نہیں آتے انکے صدقات کے قبول ہونے کے بارے میں ذیل میں دیکھئے۔ اور شیطان کیا چاہتا ہے، نماز سے دور رہنے والا کس کی خواہش پوری کرتا ہے، گویا کس کی بات مانتا ہے یا کس کی عبادت کرتا ہے؟

[ayah]5:58[/ayah] اور جب تم نماز کے لئے (لوگوں کو بصورتِ اذان) پکارتے ہو تو یہ (لوگ) اسے ہنسی اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو (بالکل) عقل ہی نہیں رکھتے
[ayah]5:91[/ayah] شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آؤ گے
[ayah]9:54[/ayah] اور ان سے ان کے نفقات (یعنی صدقات) کے قبول کئے جانے میں کوئی (اور) چیز انہیں مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منکر ہیں اور وہ نماز کی ادائیگی کے لئے نہیں آتے مگر کاہلی و بے رغبتی کے ساتھ اور وہ (اللہ کی راہ میں) خرچ (بھی) نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ وہ ناخوش ہوتے ہیں

والسلام
 

سارا

محفلین
میں نے کب کہا کہ نماز چھوڑ دیں۔ البتہ قضا نہ پڑھنے کے بہانے نہ ڈھونڈیں۔ اگر قضا عمری فرض نہیں بھی ہے تو پڑھنے والے کو نفل کا ثواب تو مل ہی جائے گا۔


خطبہ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔
''حمد و صلٰوتہ کے بعد یقیناَ تمام باتوں سے بہتر بات اللہ تعالٰی کی کتاب ہے اور تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور تمام کاموں سے بد ترین کام وہ ہیں جو (اللہ کے دین میں ) اپنی طرف سے نکالے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔۔
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ایسی بات کہو جو محکم (سیدھی اور سچی ) ہو اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔۔''
 

شاکرالقادری

لائبریرین
السلام علیکم ورحمتہ اللہ ۔
بھائی صاحب۔نماز کے فوت ہونے کی تین عذر ہوسکتے ہیں۔
1۔بھول 2۔سونے کی وجہ سے۔ 3۔ بے ہوشی کی وجہ سے۔
اس کے علاوہ کوئی اور وجہ تو ہو ہی نہیں سکتی۔ مندرجہ بالا عذریں جس وقت بھی ختم ہوجائے(بشرطیکہ اوقات ممنوعہ میں سے نہ ہو) نماز قضاء پڑھی جائے گی۔

اس کے علاوہ وہ نمازیں جس کا بہت عرصہ ہوچکا ہو۔ قضاء پڑھنا ۔ناقابل فہم ہیں۔ کیونکہ کوئی صحیح ثبوت نہیں ہے اس کے متعلق۔


بنيادي اصول ہے قضا شدہ نمازوں کا ادا کرنا
وہ موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئي شک؟؟؟

عذر کون کون سے ہوں اور ثابت شدہ عذروں کي فہرست ميں اضافہ ہو سکتا ہے يا نہيں ۔۔۔۔۔ يہ بات فروعي ہے

اگر کوئي ايسي حديث پيش کي جائے جس کا نفس مضمون يہ ہو کہ ان تين عذروں کے علاوہ کسي طور رہ جانے والي نمازيں ادا کرنا منع ہے تو پھر کوئي بات بنے گي ۔
اور اگر ايسي کوئي حديث/ حکم موجود نہيں تو پھر يہ اصول ہوگا کہ اگر کسي کام کي ممانعت نہيں ہے تو اس کي اباحت پر دليل ہے جبکہ بنيادي اصول بھي موجود ہو

اس کی بجائے نوافل پڑھی جائے تو بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ حدیث کے مطابق جس کے فرائض نماز میں کمی ہو ، نوافل سے پوری کی جائے گی۔



اس کا مفہوم يہ نہيں ہے کہ قضا شدہ نمازوں کے بدلے ميں نوافل پڑھ ليے جائيں بلکہ اس حديث کا مفہوم يہ ہے کہ نوافل نمازوں کي اصلاح کا ذريعہ ہيں نمازوں ميں فرائض اور سنن کے علاوہ نوافل اس ليے پڑھے جاتے ہيں کہ اس پڑھي گئي نماز کے فرائض ميں اگر کوئي کمي بيشي ہو گئي ہے تو نوافل اس کا ازالہ کر ديں گے
اس حديث سے يہ دليل لانا کہ قضا شدہ نمازوں کے فرض کے ازالہ کے طور پر نوافل پڑھنا مناسب ہے بالکل غلط ہے
مندرجہ بالا عذروں کے علاوہ نماز نہ پڑھنے کا کیا حکم ہے۔ خود ہی سوچ لو۔ حدیث ہے ۔ من ترک الصلوۃ متعمدا ً فقد کفرا۔ جس نے قصداً نماز ترک کی یقیناً اس نے کفر کیا۔
تو کفر کی ہر قسم کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے اس دنیا میں توبہ اور استغفار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کفر کا علاج از سر نو ايمان لانا اور توبہ و استغفار ہے اس ميں کوئي شک نہيں
اور اگر کوئي ان نمازوں کو ادا کرنا چاہے تو اس کي ممانعت ميں مجھے اب تک کوئي حديث نہيں ملي اور اصول يہ ہے

امر بالمعروف اور نہي عن المنکر

حکم امتناع صرف منکرات کے ليے ہے اور قضا نمازوں کي ادائيگي منکرات ميں سے نہيں آسان الفاظ ميں يہ کوئي بري بات نہيں کہ اس سے روکا جائے

امن ايمان! چونکہ سوال آپ نے کيا تھا لہذا ميرا مشورہ ہے کہ آپ اخلاص نيت کے ساتھ يہ عمل کريں ہر نماز کے ساتھ ايک نماز کي قضا کو ادا کرنے کي تجويز بہترين ہے
الاعمال بالنيات
اور پھر نمازوں کو اللہ نے قبول کرنا ہے ميں اور يہاں پر شريک گفتگو احباب کو اس بات کا قطعا کوئي اختيار نہيں اگر ايسا ہوتا تو يقين جانئے ہم آپ کي قضا شدہ نمازيں تو ايک طرف ادا شدہ نمازوں ميں بھي نقائص تلاش کرتے اور کسي نہ کسي بہانے انہيں رد کر ديتے
کيونکہ يہي ہماري فطرت ہے

والسلام
 

امن ایمان

محفلین
امن ايمان! چونکہ سوال آپ نے کيا تھا لہذا ميرا مشورہ ہے کہ آپ اخلاص نيت کے ساتھ يہ عمل کريں ہر نماز کے ساتھ ايک نماز کي قضا کو ادا کرنے کي تجويز بہترين ہے
الاعمال بالنيات
اور پھر نمازوں کو اللہ نے قبول کرنا ہے ميں اور يہاں پر شريک گفتگو احباب کو اس بات کا قطعا کوئي اختيار نہيں اگر ايسا ہوتا تو يقين جانئے ہم آپ کي قضا شدہ نمازيں تو ايک طرف ادا شدہ نمازوں ميں بھي نقائص تلاش کرتے اور کسي نہ کسي بہانے انہيں رد کر ديتے
کيونکہ يہي ہماري فطرت ہے


السلام علیکم!

میں نے یہاں اپنی پچھلی پوسٹ میں لکھا تھا کہ بجائے اس کے مجھے کوئی حل نظر آتا۔۔الٹا میں الجھن میں مبتلا ہوگئی ہوں۔۔مجھے کچھ پرخلوص لوگوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنے عیب سر عام نہیں بتاتے۔۔لیکن میرے اس سوال کے پیچھے میرا مقصد نیک اور جاننے کی طلب تھی۔
جو نمازیں میں نے ادا نہیں کیں۔۔ان کی وجہ بھی سچائی سے بتا دی۔ لیکن یہاں ایک بارپھر میں الجھ کر رہ گئی کہ ایک طرف یہ کہا گیا ہے کہ نماز چھوڑنے کی معافی کسی صورت نہیں ہوگی۔۔جب تک وہ ادا نہ کی جائے۔۔اور ادائیگی کا پوچھا گیا تو پتہ چلا ایسا نہیں ہوسکتا۔

انسان ہوں اس لیے گناہ نہ کروں یہ ممکن نہیں۔۔۔لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ بے حد و حساب ہے۔۔جب تک شعور نہیں تھا۔۔نمازوں کی پرواہ نہیں کی تھی۔۔لیکن مجھے خوشی اس بات کی بھی ہے کہ ابھی بھی توبہ کے دروازے میرے لیے کھلے ہیں۔
شاکر صاحب آپ کا جواب پڑھ کر میرے دل میں سکون اتر گیا ہے۔۔۔دعا کجیئے گا اللہ تعالیٰ میری خطائیں معاف فرمائے۔۔۔میں انشاءاللہ اسی طرح نمازیں مکمل کرتی ہوں۔ جزاک اللہ۔

آپ سب اراکین کا میں الگ الگ شکریہ تو ادا نہیں کرسکتی۔۔اس لیے یہاں میں سب کے لیے شکریہ لکھ رہی ہوں۔۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔۔۔خاص طور پر شمشاد چاء اور سارا کا۔
عبادت خلوص اور نیت کا معاملہ ہے۔۔۔ بہت سارے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جسمانی بیماری میں دوا ہم ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق لیتے ہیں تو روحانی بیماری میں کیوں لاپروائی برتتے ہیں۔۔اس میں کیوں دوا کا پورا خیال نہیں رکھتے۔ یہ بات ٹھیک ہے لیکن ڈاکٹر کا علم محدود ہے۔۔وہ اپنی بساط کے مطابق نسخہ تجویز کرے گا لیکن میرے اللہ تعالیٰ کا علم لا محدود ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ خلوص دیکھتے ہیں۔۔۔وہ مانگنے والے کی طلب دیکھتے ہیں۔۔۔سو اللہ تعالیٰ میری طلب سچی اور میری نیت نیک ہے۔ اگر میں راہ سے بھٹکوں تو آپ میرے لیے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے میں ایسا وسیلہ بنا دیں۔۔۔جو مجھے منزل تک لے جائے آمین ثم آمین۔


جزاک اللہ خیر!!!
 

دوست

محفلین
اچھا ہن ایکوں چھڈو اک ہور مسئلہ ہے
نماز ظہر کا وقت کب تک ہوتا ہے۔ اور عشاء رات کب تک پڑھی جاسکتی ہے۔ ہاں عصر کب تک پڑھی جاسکتی ہے۔
 

خرم

محفلین
اصول تو یہ ہے کہ ایک نماز کا وقت دوسری نماز کا وقت شروع ہونے تک رہتا ہے۔ اسی کلیہ پر عصر کا وقت غروبِ آفتاب تک اور عشاء کا وقت فجر تک رہتا ہے۔ البتہ سونے سے پہلے پڑھ لی جانی چاہئے (یہ علم نہیں کہ یہ لازم ہے یا بہتر)۔ اسی طرح ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب چیزوں کا سایہ اپنے اصل سے دوگنا ہو جائے۔ سایہ ناپا کس طرح جائے اس پر ائمہ کا اختلاف ہے مگر یہ اختلاف بھی امت کے لئیے باعث رحمت ہے۔
 

دوست

محفلین
جب تک ظہر کی اذان سنائی نہ دے جائے۔ اہل تشیع اور اہلحدیث کی اذانیں اہلسنت کی اذانوں سے پہلے ہوجاتی ہیں۔ میں تو ظہر کا وقت تب سے شمار کرتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک اور سوال کا جواب دے دیں پلیزز

زوال ( مکروہ اوقات) کا وقت کتنی دیر تک رہتا ہے۔۔؟؟؟؟

زوال کے اوقات تین ہیں، ایک سورج کے طلوع ہوتے وقت، دوسرا عین اس وقت جب سورج بالکل سر پر ہو، سایہ نہ آگے ہو نہ پیچھے اور ایک سورج کے غروب ہوتے وقت۔ طلوع کے وقت سورج کی سرخی اور غروب کے وقت سورج کی زردی کے اوقات مکروہ ہیں۔ اس میں کتنی دیر لگتی ہے، تقریباً دس سے پندرہ منٹ۔

واللہ علم بالصواب۔
 

سارا

محفلین
گرم اور سرد موسم میں نماز ظہر کے اوقات۔۔
ایک مرتبہ گرمی میں حضرت بلال رضہ نے ظہر کی اذان دینی چاہی تو آپ نے فرمایا 'ٹھنڈ ہو جانے دو ٹھہر جاؤ۔۔گرمی کی شدت جہنم نے جوش سے ہے' گرمی کی شدت میں اس وقت تک ٹھہرو کہ ٹیلوں کے سائے نظر آنے لگیں۔۔''
(بخاری مواقیت الصلاتہ ،باب الابراد بالظھر فی السفر 539،629)

حضرت ابو ہریرہ رضہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 'جب گرمی سخت ہو تو نماز ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو۔۔
(بخاری مواقیت الصلاتہ ،باب الابراد بالظھر فی شدتہ الحر حدیث 533 )

ٹھنڈے وقت کا یہ مطلب نہیں کہ عصر کی نماز کے وقت پڑھو بلکہ مراد یہ ہے کہ شدت کی گرمی میں سورج ڈھلتے ہی فوراَ نہ پڑھو تھوڑی دیر کر لو۔۔
حضرت انس رضہ سے روایت ہے کہ جب سردی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر پڑھنے میں جلدی کرتے (سورج ڈھلتے ہی پڑھ لیتے)۔۔
بخاری ۔الجمعتہ' باب اذااشتدالحر یوم الجمعتہ ۔حدیث 906)
 

سارا

محفلین
نماز عصر کا وقت۔۔
حضرت بریدہ رضہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر قائم کی حالانکہ آفتاب بلند' سفید اور صاف تھا۔۔
(مسلم' المساجد 'باب اوقات الصلوات الخمس ' حدیث 613)

حضرت انس بن مالک کہتے ہیں '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر پڑھتے تھے اور آفتاب بلند (زردی کے بغیر روشن) ہوتا تھا اگر کوئی شخص نماز عصر کے بعد مدینہ شعر سے ''عوالی''(مدینہ کی نواحی بستیاں) جاتا تو جب ان کے پاس پہنچتا تو سورج ابھی بلند ہوتا۔۔(بعض عوالی مدینہ سے چار کوس کے فاصلے پر ہیں۔۔''

(بخاری مواقیت الصلاتہ ،باب وقت العصر ،حدیث 550)
۔۔۔۔۔۔۔

حضرت انس رضہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔'' منافق کی نماز عصر یہ کہ وہ بیٹھا آفتاب (کے زرد ہونے) کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ زرد ہو جاتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہو جاتا ہے۔۔تو وہ نماز کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے اور چار ٹھونگیں مارتا ہے اور اس میں اللہ کو نہیں یاد کرتا مگر تھوڑا۔۔''
صحیح مسلم'المساجد' باب استحباب التبکیر بالعصر 'حدیث 622)
 

سارا

محفلین
نماز عشاء کا وقت:
حضرت عبداللہ بن عمر رضہ سے روایت ہے کہ ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز عشاء کے لیے انتظار کرتے رہے۔۔جب تہائی رات گزر گئی تو آپ تشریف لائے اور فرمایا۔۔'' اگر میری امت پر گراں نہ ہوتا تو میں اس وقت عشاء کی نماز پڑھاتا۔۔'' پھر موذن نے تکبیر کہی اور آپ نےنماز۔۔پڑھائی۔۔''
(مسلم، المساجد ،باب وقت العشاء و تاخیرھا' حدیث 639)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے پہلے سونا اور نماز عشاء کے بعد گفتگو کرنا ناپسند کرتے تھے۔۔

(بخاری المساجد 'باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء حدیث 5 6 8 )

نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں کھبی تاخیر فرماتے اور کبھی اول وقت پڑھتے جب لوگ اول وقت جمع ہوتے تو جلد پڑھتے اور اگر لوگ دیر سے آتے تو آپ دیر کرتے۔۔

(مسلم' المساجد 'باب استحباب التبکیر بالصبح۔۔۔حدیث 646)
 

سارا

محفلین
ائمہ مساجد کو نماز اول وقت پڑھانی چاہیے:
حضرت ابو ذر رضہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔''تیرا کیا حال ہو گا جس وقت تجھ پر ایسے امام (حاکم) ہوں گے جو نماز میں دیر کریں گے یا اس کے وقت سے قضا کریں گے ؟ ، میں نے کہا کہ آپ مجھے اس وقت میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ۔ '' نمار کو اس کے وقت پڑھ پھر اگر تو اس نماز (کی جماعت) کو ان کے ساتھ پا لے تو (ان کے ساتھ ) دوبارہ نماز پڑھ لے تحقیق یہ نماز تیرے لیے نفل ہو گی۔۔''
(مسلم، المساجد ،باب کراھیتہ تاخیر الصلوتہ عن وقتھا المختار 'حدیث 648 ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top