52
اگلے تاریخ کی کتابوں میں اس بازار کو لاہوری کرکر لکھا ہے اس بازار کو 1060 ہجری مطابق 1659 عیسوی کے جہاں آرا بیگم منبت شاہجہاں بادشاہ نے بنایا ہے۔ قلعہ لاہوری دروازے سے چار سو اسی گز پر ایک چوک ہے اسی گز کا مربع اس چوک میں کوتوالی چبوترہ ہے۔ اس چوک سے چار سو گز آگے ایک اور چوک ہے ہشت پہل سو گز سے سو گز اس چوک کو چاندنی چوک کہتے ہیں اس کے گرد بہت خوبصورت دوکانیں بنی ہوئی ہیں اور شمال کی طرف باغ ہے جس کو صاحب آباد یا بیگم کا باغ کہتے ہیں اس کے آگے چار سو ساٹھ گز لمبا اور بازار ہے اور سراسراسین نہر بہتی ہے اسی بازار کے سرے پر فتحپوری مسجد ہے۔
فیض بازاار
قلعہ کے دلی دوازے کے سامنے ایک بازار ہے اس ایک ہزار پچاس گز کا لمبا اور تیس گز کا چوڑا اور اس کے دونوں طرف پختہ دوکانیں بنی ہوئی تھیں اور بیچ میں بہت خوبصورتی سے نہر بہتی تھی اس بازار کو اکبر آبادی محل شاہجہاں کی بیوی نے 1060 ہجری مطابق 1650 عیسوی میں بنایا تھا اور اکبر آبادی مسجد بھی اسی بازار میں ہے اس بازار کا نام تاریخ کی کتابوں میں اکبر آبادی بازار ہے یہ دونوں بازار شاہجہانی شہر کے ساتھ کے بنے ہوئے ہیں اور باقی اور بازار رفتہ رفتہ بنتے گئے ہیں۔
آراستگی بازار اور شہر
53
شاہجہاں کے وقت میں ان سب بازاروں میں بڑی بڑی بدر روئیں بنی ہوئی تھیں جن کے سبب بازار صاف رہتے تھے اور کیچڑ نہ ہونے پاتی تھی اب کے عمارت کا بالکل انقلاب ہوگیا وہ بدر روئیں کچھ تو بند ہوگئیں اور کچھ ٹل گئیں۔ اس سبب سے بازار خراب رہتے تھے۔ 1852 عیسوی مطابق 1269 ہجری مسترار تہراستن رابرٹس صاحب کلکٹر صاحب مجسٹریٹ شاہجہان آباد نے بازاروں کی صفائی اور شہر کی آراستگی پر ہمت صرف کی اکثر جگہ نئی بدر روئیں بنوائیں اور بعضی جگہ پرانے بدر روون کو صاف کیا اور بڑے بازاروں میں دونوں طرف دوکانوں کے نیچے پختہ بدر روئیں بنا کر شہر کے باہر پانی نکلوا دیا۔ دوکانوں کے آگے سنگ سرخ کے خوبصورت چبوترے بن گئے اور بڑے بازاروں میں رات کو دو طرفہ لعلٹینوں کی روشنی ہونے لگی اس سبب سے اس شہر کو اور ہی زیب اور زینت اور رونق ہوگئی۔
فیض نہر
اول بانی کا سلطان جلال الدین فیروز شاہ خلجی ہے۔ اس نے 691 ہجری مطابق 1291 عیسوی کے اس نہر کو سو اوپر گنہ خضر آباد میں دریا سے کاٹا اور تیس کوس تک پرگنہ سفیدون میں جہاں اس کی شکار گاہ تھی لاکر چھوڑ دیا۔ پھر کسی بادشاہ کو اس کا خیال نہ رہا کہ وہ نہر بند ہوگئی تھی۔ 969 ہجری مطابق 1561 عیسوی کے جلال الدین اکبر بادشاہ کے عہد میں شہاب الدین احمد خان صوبہ دار دہلی نے اس نہر کو پھر صاف کرایا اور اپنی جاگیر میں لایا اور نہر شہاب اس کا نام رکھا۔ ایک مدت بعد
54
نہر پھر بند ہوگئی تھی۔ 1048 ہجری مطابق 1638 عیسوی کے شہاب الدین محمد شاہجہاں نے اس نہر کو سفیدون تک صاف ہونے کا اور سفیدون سے قلعہ شاہجہاں تک نئی نہر کھدنے کا حکم دیا۔ چنانچہ یہ نہر تیار ہوئی اور جب قلعہ بن چکا اور شہر میں جاری ہوئی ایک مدت بعد اس نہر کا پھر وہی حال ہوگیا تھا۔ تخمیناََ 1830 عیسوی مطابق 1236 ہجری کے سرکار انگریزی نے پھر نہر کو جاری کیا اور اب تک بدستور جاری ہے اور مرمت و شکست و ریخت سے تیار اور مصفا رہتی ہے فقط۔
بادشاہوں اور امیروں کی متفرق بنائی ہوئی عمارتوں کے بیان میں لوہے لاٹھ
یہ لاٹھ راجہ دھاوا یا میدھاوی کی قطب صاحب کے مینار کے پاس ہے اور سر سے پاؤں تک لوہے کی ڈھلی ہوئی ہے۔ اس کے سرے پر لوہے کے ٹکڑوں میں ڈھالتے وقت منبت کاری اور مرغولین بہت خوبصورت بنائی ہیں بلندی اس کی زمین پر سے بائیس فٹ چھ انچ اور محیط موٹائی جڑ کا پانچ فٹ تین انچ ہے۔ ایک کہانی مشہور ہے کہ رائے پتھورا کے وقت مین پنڈتوں نے اس لاٹھ کو راجہ باسک کے سر پر گاڑا تھا۔ اس غرض سے کہ رائے پتھورا کے خاندان کی عملداری کبھی نہ ٹلے مگر یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس لاٹھ پر سنسکرت زبان اور ناگری حرفوں میں تین اشلوک کندہ ہیں جن کا
خلاصہ مضمون یہ ہے کہ والی سندھ نے فوج جمع کی تھی راجہ دھاوا سے لڑنے کو بعد لڑائی کے راجہ دھاوا نے فتح پائی اور یہ لاٹھ بطور یاداشت اپنی فتح کی بنائی مگر قبل از بننے لاٹھ کے مرگیا۔ جمس پرنسب صاحب لکھتے ہیں کہ اس راجہ کا اور کچھ حال نہیں معلوم ہوا بجز اس کے کہ ہستناپور کے راجاؤں میں کا راجہ ہے اور اس قسم کے ناگری حرف تیسری یا چوتھی صدی بعد حصرف عیسیٰ میں جاری تھے اس سبب سے خیال کیا ہے کہ یہ لاٹھ پانچویں صدی سے بہت ورے بلکہ آٹھویں صدی میں بعد حضرت عیسیٰ کے بنی۔ ہم اس بات کے ماننے سے انکار کرتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ راجاؤں کی تاریخ 676 عیسوی سے مسلمانوں کی عملداری ہونے تک بصحت تمام ملتی ہے جس میں کچھ شک نہیں ان تاریخوں میں اس راجہ کا ذکر نہیں علاوہ اس کے اس لاٹھ پر سمت کندہ ہونے سے یقین پڑتا ہے کہ بکرماجیت سے پہلے کی ہی کیونکہ بکرماجیت کے پیچھے سمت لکھنے کا اور کوئی نہ کوئی سنہ مقرر کرنے کا بالکل رواج ہوگیا تھا۔ اس کے سوا اس زمانے میں ہستناپور کے راجاؤں کا راج بالکل جاتا رہا تھا۔ ان دلیلوں سے ہمارے نزدیک یہ لاٹھ راجہ میدھاوی عرف راجا دھاوا کی بنائی ہوئی ہے جو جد ہشٹرکی اولاد میں سے انیسواں راجہ ہے۔ اگرچہ یہ راجہ اندرپت میں آبسے تھے الاقدیم تختگاہ ان کا ہستناپور تھا اسی سبب سے ہستناپور کے راجہ کہلاتے تھے۔ مذہب اس راجہ کا بیشنوی تھا لاٹھ کے کتبے سے بھی یہ ہی مذہب معلوم ہوتا ہے۔ مروج تاریخ کی کتابوں سے ظاہر ہے کہ
راجہ میدھاوی ایک ہزار نو سو پانچ برس قبل حضرت مسیح مسند نشین ہوا الاانگریزی سورخوں نے جو صحیح حساب راجہ جدہشتر کی مسند نشینی کا نکالا ہے اس کے حساب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راجہ آٹھ سو پچانوے سال قبل حضرت مسیح مسند نشین ہوا تھا اور اسی سبب سے ہماری رائے میں یہ لاٹھ نویں صدی میں قبل حضرت مسیح بنی الا ناتمام پڑی رہی ایک مدت بعد کسی نے راجہ دھاوا کا فتح نامہ جس مقصد سے اس راجہ نے اس کو بنایا تھا کھودوا کر لاٹھ کو نصب کردیا کچھ عجب نہیں کہ یہ بات تیسری یا چوتھی صدی بعد حضرت عیسیٰ کے ہوئی ہو جبکہ رائے پتھورا نے اس لاٹھ کے قریب قلعہ اور بت خانہ بنایا تب یہ لاٹھ بت خانے کے صحن میں آگئی اور جب وہ بت خانہ توڑ کر قطب الدین ایبک نے مسجد بنائی تب یہ لاٹھ مسجد کے صحن میں آگئی چنانچہ اب تک مسجد کے صحن میں موجود ہے۔ بہرحال یہ لاٹھ ایک عجب چیز ہے اب تک اس میں کچھ نقص نہیں آیا شاید گولے کے صدمے سے ایک مقام پر تھوڑا سا بال آگیا ہے۔ نوجوان آدمی اس لاٹھ کولی میں پکڑتے ہیں اور یہ کھیل کھیلتے ہیں کہ جس کولی میں یہ لاٹھ آجائے وہ حلال کا اور جس کولی میں نہ آئے وہ حرام کا ہے۔
لاٹھ اشوکا یا منارہ زرین یا لاٹھ فیروز شاہ
یہ لاٹھ پتھر کی ہے اور لوگ کورنڈ کا پتھر بتاتے ہیں اور بہت صاف بنائی ہے اس کے ساتھ کی پانچ لاٹھیں تھیں ایک رادھیا میں دوسری ماہتا میں تیسری آلہ آباد میں