ٹائپنگ مکمل لائبریری ٹیگ سلسلہ : آثار الصنادید

عائشہ عزیز

لائبریرین
ذوالقرنین بھیا
Aasar1_page_0127.jpg
 

فہیم

لائبریرین
بسان بیت العتیق بطوافش آیندرو است واگر نظار گیان الفس و آفاق مثل حجر اسود بہ تقبیل آستان رفیع الشانش شتا بند سزا آغاز قلعہ والا کہ ازکاخ گرد ون برترست و رشک سدا سکندا و این عمارت دلکشا و باغ حیات بخش کہ در منازل چون روح در بدن ست و شمع در انجمن و نہرا اظہر کہ آب صافیشن بہ نیاز آئینہ جہان نما است و دانا راز عالم غیب پردہ کشا و آبشار رہا کہ ہر یک کوی سپیدہ صبحدم ست بالوحہ اسرار از لوح و قلم و فوار رہا کہ ہر کداش پنچہ نورست۔

کتبہ محراب شمالی

بمصافحہ آسمانیان مائل بالآ لی متلالی ست بانعام زمینیان نازل و حوض کہ ہمہ از آب زندگانی پر بصفارشک نور و چشمہ خور دواز دہم ذی لحجہ سال جلوس دوا دہم اقدس مطابق ہزار و چہل دہشت ہجری بعالمیان نوید کامرانی داد و انجامش کہ بصرف پنجاہ لک روپیہ صورت پذیر فت بست و چہارم ربیع الاول سال بس و یکم جلوس ہمایوں موافق سنہ ہزارو پنجاہ و ہشت بفر قدوم میمنت لزوم گیتی خد یو گہیان خداوند بانی این مبانی آسمانی شہاب الدین محمد صاحبقران ثانی شاہجہاں بادشاہ غازی درِ فیض براوے جہانیان بکشاد۔

ابیات جو دیوار پر سونے کے پانی سے لکھے ہوئے ہیں

شہنشاہ آفاق شاہ جہاں
باقبال ثانی صاحبقراں

درایوان شاہی بصد احتشام
چو خورشید بر چرخ بادا مدام
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اساس ست تانا گریزاین بنا۔​
۔۔۔۔۔۔​
بودقصر اقبال اور عرش سا​
رہی دلنشین قصر پیرا ستہ ۔۔۔۔۔۔ بہشتے بصد خوبی آراستہ​
شرافت یکی آیہ درشان او ۔۔۔۔۔۔ سعاوت در آغوش ایوان او​
چو + + دریں سرای سرور ۔۔۔۔۔۔ کند + + ازجہبہ دور​
بپایش سر صدق ہر کس کہ سود ۔۔۔۔۔۔ چودریای چون آبرویش فزود​
زمانہ چودیوارا و بر فراشت ۔۔۔۔۔۔ بہ پیش رخ مہر آئینہ داشت​
زبس روی دیوارش آرزست ست۔۔۔۔۔۔ زنقاش چین رونماخواست ست​
چنان برسرش دست ایام کرد ۔۔۔۔۔۔ کہ گرد دن بلندی ازووام کرد​
ز فوارہ و حوض دریانشان ۔۔۔۔۔۔ بآب زمین شتہ روآسمان​
چوجائے شہنشا و عادل بود ۔۔۔۔۔۔ ازان بادشاہ منازل بود​
اس شہ نشین کے آگے ایک پچدرہ دالان ہی نراسنگ مر مر کا پرچین کار نہایت نفیس و لطیف بیس گز کا لمبا اور چھ گز کا چوڑا اور ادھر اور اودھر اوس دالان کے بھی محرابین ہیں اور حجرے ہیں کہ غربی حجرے میں سے دیوان خاص کو راستہ جاتا ہے اور اوسکو خاصی ڈیوڑھی کہتے ہیں اس دالان کے بیچ میں ایک حوص ہے مستطیل بہت تحفہ سنگ مرمر بغیر فوارے کے یعنی اوسمین فوار نہیں ہے مگر اوسکی تہ پر طرح طرح کے رنگین اور بیش قیمت پتھروں سے ہزاروں طرح کے گل بوٹے اور بیل پتہ بنائے ہیں اور ہر ہر پھول کی پنکھڑی میں ایک ایک چید رکھا ہے کہ اونمین سے​
 

الف نظامی

لائبریرین
چبوترہ ہے۔ اوس چبوترے پر تخت طاوس رکھا جاتا ہے جس پر بادشاہ اجلاس فرماتے ہیں اور اس مکان کے گرد پایہ نما ستون لگا کر مکان بنایا ہے ۔ در و دیوار و ستون و مرغول اور محراب اور فرش اس عمارت کا سنگ مرمر کا ہے اور اوسمیں اجارہ تک عقیق و مرجان اور احجار بیش قیمت سے پچی کاری کی ہے اور بیل بوٹے پھول پتے بنائے ہیں اور اجارہ سے اوپر چھت تک سونے کا کام کیا ہوا ہے اور سونے کے پانی سے گویا لیپ دیا ہے۔ اندر کے رخ محرابوں کے اوپر یہ شعر لکھا ہے
اگر فردوس بر روے زمیں است
ہمیں ست و ہمیں ست و ہمیں ست
یہ عمارت جانب شرق سے مشرف بدریا ہے اور اوس طرف کے درون میں جالیاں لگا کر آئینہ بندی کی ہے اور جانب غرب اسکا صحن ہے ستر گز سے ساٹھ گز کا اور اوس صحن کے گرد مکانات اور ابوابہا سنگ سرخ سے بنے ہوئے ہیں۔ جانب غرب اس صحن کے دروازہ ہے کہ دیوان عام سے اوسمیں رستہ آتا ہے اور اس دروازے کے آگے لال پردہ تنا رہتا ہے اور سب امرا بروقت دربار کے اس لال پردے کے پاس آداب تسلیمات بجا لاتے ہیں اور جانب شمال رستہ ہے حیات بخش کا اور جانب جنوب ڈیوڑھی محلات شاہی کی اور اس عمارت کے بیچ کے در کے سامنے صحن کی طرف ایک کٹہرا ہے سنگ مرمر کا اوسکو چوکھنڈی دیوان خاص کہا کرتے ہیں اسکی چھت بھی نری چاندی کی تھی مریٹھہ اور جاٹ گردی میں اوکھڑ گئی۔
 

نایاب

لائبریرین
33
بغل میں دروازہ ہے ۔ اور اندر سے بھی آنے کا رستہ ہے ۔ بادشاہ اس تخت پر دربار عام کے دن اجلاس کرتے تھے ۔ اس تخت کے آگے ایک تخت سنگ مرمر کا بچھا ہوا ہے ۔ امرا میں سے جس کسی کو عرض کرنا ہوتا تھا اس تخت پر چڑھ کر بادشاہ سے عرض کرتا تھا ۔ یہ تخت اتنا اونچا ہے کہ اس تخت کے چڑھنے پر بھی آدمی کا گلا تخت تک پہنچتا ہے ۔
دالان دربار
اس تخت کے آگے تہ گھا دالان در دالان ہے ۔ سرسٹھ (67) گز کا لمبا اور چوبیس (24) گز کا چوڑا ہر ایک دالان کے نو نو در ہیں ۔ ہر ہر دالان میں سنگ سرخ کے ستون لگائے ہیں اور ان پر بہت خوبصورت محرابیں بنائی ہیں ۔ اور اس پر سفیدی گھوٹ کر سنہری نقاشی کی ہے ۔ باہر کے دالان میں بیچ کے در چھوڑ کر سنگ مرمر کا کٹہرا لگایا ہے اور اس پر سنہری کلسیاں بہت خوشنما لگائی تھیں ۔ کہ اب ان کلسیوں میں سے ایک بھی باقی نہیں ۔ یہ دالان امرا اور وزرا اور وکلا کے حسب مرتبہ کھڑے رہنے کا تھا ۔
گلال باڑی
یہ دربان کا دالان درحقیقت ایک چبوترے پر بنا ہوا ہے جس کا ایک سو چار (104) گز کا طول اور ساٹھ (60) گز کا عرض ہے ۔ اس چبوترے کے بیچ میں یہ دالان ہے اور باقی چبوترہ اس کے تین طرف باقی ہے اس چبوترے کے گرد قد آدم سنگ سرخ کا

34
کٹہرا لگا ہوا ہے اور اس پر سنہری کلسیاں بہت خوشنمائی سے لگی ہوئی تھیں ۔ مگر اب ان کلسیوں کا نام نشان نہیں رہا ۔ یہ جگہ چوبدار اور نقیب اور احدی وغیرہ لوگوں کے کھڑے رہنے کی تھی ۔ یہ سب مکان بہت خراب ہو گئے تھے اور گلال باڑی اکثر جگہ سے اکھڑ گئی تھی ۔ ابو الظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ بادشاہ حال نے سن 1 حد جلوسی مطابق سن 1253 ہجری موافق سن 1837 عیسوی کے اس دیوان عام کی مرمت کی اور گلال باڑی کو درست کیا ۔ برس روز کی بات ہے کہ تین بادشاہت کا دیکھنے والا تو ایک شخص موجود تھا اور وہ بیان کرتا تھا کہ عالمگیر ثانی کے وقت سے تو کسی بادشاہ نے اس دیوان عام میں جلوس نہیں کیا اور غالب ہے کہ محمد شاہ کے بعد کسی نے نہ کیا ہو ۔ بلکہ محمد شاہ کے جلوس کرنے میں بھی شک ہے اس کے آگے دوسو چار (204) گز لمبا اور ایک سو ساٹھ (160) گز چوڑا صحن ہے اور اس کے چاروں طرف قرینے اور موقع سے مکانات بنے ہوئے ہیں اور شمال کی طرف دیوان خاص میں جانے کا دروازہ ہے ۔
خاص محل یا چھوٹا رنگ محل
یہ محل بیگمات خاص کے رہنے کا پچدرہ تہ گھا دالان ہے تینتیس (33) گز کا لمبا اور اس کے پیچھے ایک اور درجہ ہے سولہ (16) گز کا لمبا اور آٹھ (8) گز کا چوڑا ۔ یہ عمارت اجارہ تک بالکل سنگ مرمر کی ہے اور اس سے اوپر بہت پختہ سفیدی کر کر بہت اچھی نقاشی کی ہے اس محل میں ایک نہر ہے نری سنگ مرمر کی تین گز چوڑی اور سنگ مرمر ہی کا

35
ایک حوض ہے کہ اس حوض سے نہر ہو کر چادر کی طرح صحن میں گرتی ہے اور صحن میں سڑسٹھ (67) گز مربع کا باغچہ تھا ۔ اور اس کے بیچ میں پچیس گز کے قطر کا ہشت پہل حوض تھا اور اس میں پچیس فوارے کسی زمانے میں چھوٹتے تھے ۔
امتیاز محل یا بڑا رنگ محل
یہ محل دیوان عام کی پشت پر واقع ہے اور اتنا بڑا اور کوئی محل نہیں ۔ صحن اس کا نہایت وسیع تھا کہ اس میں نہریں جاری تھیں فوارے چھوٹتے تھے ۔ باغ لگا ہوا تھا اب سب برباد ہو گیا اور اس صحن دلکشا میں سڑیل سڑیل مکان بن گئے ہیں ۔ اگلے زمانےمیں اس محل کے صحن میں ایک حوض تھا پچاس گز سے اڑتالیس گز میں اور پانچ فوارے اس میں چھوٹتے تھے ۔ اور ایکنہر تھی کہ اس میں پچیس فوارے لگے تھے ۔ اور باغچہ تھا ایک سو سات گز کا لمبا اور ایک سو پندرہ گز کا چوڑا اور اس کے گرد سنگ سرخ کا محجر لگا ہوا تھا ۔ اور اس پر دو ہزار سنہری کلسیاں لگی ہوئی تھیں ۔ اور تین طرف اس صحن کے سترہ گز کے عرض سے مکان دلکشا اور ایوان ہائے دلربا بنے ہوئے تھے ۔ اور جانب غرب میں مشرف بدریا اور پائیں باغ تھا ۔چہرہ اس کا باہر سے یوں ہے کہ کرسی دے کر ایک چبوترہ بنایا ہے ۔ اور اس کے نیچے دو تہ خانے ہیں بہت خوب اور اس چبوترے پر گویا پچدرہ تہرا دالان بنایا ہے ۔ ستاون گز کا لمبا اور چھبیس گز کا چوڑا ۔ بیچ کے در کے آگے صحن کی طرف ایک حوض ہے سنگ مرمر کا بہت بڑا ایک پتھر کا پایہ دار کہ اس میں ڈیڑھ گز کی اونچائی سے تین گز کی چوڑی چادر پڑتی ہے اور اس میں سے
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 36​
ابل کر نیچے کے حوض میں آتی ہے اور وہاں سے نہر میں بہتی ہے اور صحن کے حوض میں جا کر باغیچے کی ہر ہر روش اور پٹری میں بہتی تھی روکار اس کی تمام سنگ مرمر کی تھی اور وہ تحفہ تحفہ محرابیں اور مرغولیں بنائی ہیں اور وہ منبت کاری کی ہے کہ آدمی کی عقل دیکھ کر حیران ہوتی ہے اور اس کی چھت کے چاروں کونوں کر چار چوکھنڈیاں بنائی ہیں کہ اس سے رفعت و شان اس عمارت کی دوگنی ہوگئی ہے۔ اس محل کے کونوں پر چار بنگلے سنگین بنے ہوئے تھے تاکہ گرمیوں میں خسکی ٹٹیاں لگا کر خس خانہ بنایا جائے جس طرح اس کی روکار میں پانچ در محراب دار بنائے ہیں اسی طرح اس کے اندر بھی محراب دار در ہیں کہ ان محرابوں کے بنانے سے بیچوں بیچ میں ایک چوکھنڈی سی واقع ہوگئی ہے اس میں ایک حوض ہے کہ اس کی خوبیاں بیان نہیں ہو سکتی۔ اس حوض کو سنگ مرمر سے اس طرح بنایا گیا ہے کہ ایک کھلا ہوا پھول معلوم ہوتا ہے اور پھر اس میں رنگ برنگ کے پتھروں سے ایسی پچکاری کی ہے اور گل بوٹے بیل پتی بنائے ہیں کہ جس کا کچھ بیان نہیں ہو سکتا اگرچہ یہ حوض ساڑھے سات گز مربع ہے لیکن گہراؤ اس کا بہت کم ہے بعینہ ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح بنایا ہے اس میں خوبی یہ ہے کہ جس وقت پانی بھرتا ہے اور لہراتا ہے تمام بیل بوٹے اس حوض کے ہلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوض میں ایک کاسہ سنگ مرمر کا کمرکی بنا ہوا بہت خوبصورت ایک پھول معلوم ہوتا ہے لیکن اس پر بھی اس کی ہر ایک مڑوڑ اور مرغول پر رنگین پتھروں سے گل بوٹے اور بیل پتی بنائے ہیں کہ پھول میں پتی بیل اور بیل میں سے​
 

نایاب

لائبریرین
4
صوبے دار رہتا تھا اس کے بعد جوگیوں کی حکومت میں یہ شہر پھر دارالحکومت ہو گیا ۔ تیسرا زمانہ وہ ہے کہ جب رائے پتھورا نے اجمیر کا قلعہ بنایا اور وہاں دارالحکومت ٹھہرایا ۔ اور دلی میں کھانڈے راؤ اپنے بھائی کو صوبہ دار چھوڑا ۔ چوتھا زمانہ وہ ہے کہ سن 587 ہجری مطابق سن1191 عیسوی کے سلطان شہاب الدین نےفتح کے بعد غزنی کو مراجعت کی ( تاج المائر ۔۔ تاریخ فرشتہ ) اور قطب الدین ایبک سپہ سالار کو دلی کا صوبہ کر کے چھوڑا ۔ پانچواں زمانہ وہ ہے کہ جب سن 737 ہجری مطابق سن 1336 عیسوی سلطان محمد تغلق شاہ کو یہ خیال آیا کہ دارالسلطنت ایسے مقام کو قرار دیا جانا چاہیئے جو تمام ممالک محروسہ کہ بیچ میں ہو تو اس نے دلی کو چھوڑ کر دیوکر میں دارالسلطنت کیا اور دولت آباد اس کا نام رکھا ۔ اور جو کہ یہ بادشاہ نہایت سفاک اور ظالم تھا اس سبب سے دفعتہ دلی کے رہنے والوں کو حکم دیا کہ سب کے سب دلی سے اٹھ کر دولت آباد جا رہیں ۔ اور ایسا سخت حکم تھا کہ کوئی شخص دلی میں رہنے نہ پائے ۔ ناچار سب لوگ دلی کو چھوڑ کر چلے گئے اور دلی کا یہ حال ہوگیا کہ درحقیقت دلی میں ایک آدمی نام کو بھی نہ رہا ۔ یکایک دلی ویران ہو گئی جنگل کے جانور دن رات دلی میں رہنے لگے ۔ جو کہ دیوکر یعنی دولت آباد مغلوں کی سرحد سے بہت دور جا پڑا تھا اس واسطے بادشاہ نے سن 742 ہجری مطابق سن 1341 عیسوی کے پھر دلی میں مراجعت کی اور سب کو حکم دیا کہ جس کا دل چاہے دلی میں جا کر بسے ۔


16
اس قلعہ میں جا چھپتا تھا تو وہاں سے نہ پکڑتے تھے لیکن اس کا سبب معلوم نہ ہوا ۔ کہ اس قلعہ کا یہ نام کیوں رکھا ۔ اس واسطے کہ مرغزن یا مرزغن کے معنی دوزخ کے ہیں مگر اس مقام کے مناسب نہیں کچھ عجب نہیں کہ بادشاہ نے یہ نام نہ رکھا ہو بلکہ ایک مدت بعد کسی سبب سے لوگوں نے اس نام سے مشہور کر دیا ہو ۔ اور اصلی نام اس کا غیاث پور ہی ہو جیسے اب مشہور ہے ۔
کیلو کھڑی یا قصر معزی
اس قلعہ کو سلطان معزالدین کیقباد (2) نے سن 685 ہجری مطابق سن 1286 عیسوی میں بنایا تھا ۔ اور کیلو کھڑی گاؤں کا نام تھا ۔ چنانچہ اب بھی ہمایوں کا مقبرہ اسی قلعہ کی زمین میں ہے الا قلعہ کا کچھ نشان نہیں رہا ۔ سلطان جلال الدین فیروز خلجی اسی قلعہ میں رہتا تھا اور بن بنی عمارتوں کو بنایا تھا ۔ تاریخ کی کتابوں میں اس قلعہ کا قصر معزی (3) بھی نام لکھا ہے اور حضرت امیر خسرو نے اسی قلعہ کی تعریف قران السعدیں میں لکھی ہے
شعر
قصر نگویم کہ بہشتی فراخ
روفتہ طوبی در اور البشاخ
کوشک لال یا نیا شہر
یہ دوسرا کوشک لال ہے ۔سلطان جلال الدین فیروز خلجی (4) بادشاہ ہوا اور سن 688 ہجری مطابق سن 1289 عیسوی میں تخت پر بیٹھا شہر کے رئیسوں کی طرف سے مطمئن نہ تھا اس واسطے کیلو کھڑی میں رہنا اختیار کیا اور جو اس کے ناتمام عمارتیں تھیں ان کو پورا کیا ۔
(1)
(2)آئین اکبری (خلاصہ التواریخ و تاریخ فرشتہ )۔
(3)تاریخ فرشتہ
(4)تاریخ فرشتہ
 
Top