33
بغل میں دروازہ ہے ۔ اور اندر سے بھی آنے کا رستہ ہے ۔ بادشاہ اس تخت پر دربار عام کے دن اجلاس کرتے تھے ۔ اس تخت کے آگے ایک تخت سنگ مرمر کا بچھا ہوا ہے ۔ امرا میں سے جس کسی کو عرض کرنا ہوتا تھا اس تخت پر چڑھ کر بادشاہ سے عرض کرتا تھا ۔ یہ تخت اتنا اونچا ہے کہ اس تخت کے چڑھنے پر بھی آدمی کا گلا تخت تک پہنچتا ہے ۔
دالان دربار
اس تخت کے آگے تہ گھا دالان در دالان ہے ۔ سرسٹھ (67) گز کا لمبا اور چوبیس (24) گز کا چوڑا ہر ایک دالان کے نو نو در ہیں ۔ ہر ہر دالان میں سنگ سرخ کے ستون لگائے ہیں اور ان پر بہت خوبصورت محرابیں بنائی ہیں ۔ اور اس پر سفیدی گھوٹ کر سنہری نقاشی کی ہے ۔ باہر کے دالان میں بیچ کے در چھوڑ کر سنگ مرمر کا کٹہرا لگایا ہے اور اس پر سنہری کلسیاں بہت خوشنما لگائی تھیں ۔ کہ اب ان کلسیوں میں سے ایک بھی باقی نہیں ۔ یہ دالان امرا اور وزرا اور وکلا کے حسب مرتبہ کھڑے رہنے کا تھا ۔
گلال باڑی
یہ دربان کا دالان درحقیقت ایک چبوترے پر بنا ہوا ہے جس کا ایک سو چار (104) گز کا طول اور ساٹھ (60) گز کا عرض ہے ۔ اس چبوترے کے بیچ میں یہ دالان ہے اور باقی چبوترہ اس کے تین طرف باقی ہے اس چبوترے کے گرد قد آدم سنگ سرخ کا
34
کٹہرا لگا ہوا ہے اور اس پر سنہری کلسیاں بہت خوشنمائی سے لگی ہوئی تھیں ۔ مگر اب ان کلسیوں کا نام نشان نہیں رہا ۔ یہ جگہ چوبدار اور نقیب اور احدی وغیرہ لوگوں کے کھڑے رہنے کی تھی ۔ یہ سب مکان بہت خراب ہو گئے تھے اور گلال باڑی اکثر جگہ سے اکھڑ گئی تھی ۔ ابو الظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ بادشاہ حال نے سن 1 حد جلوسی مطابق سن 1253 ہجری موافق سن 1837 عیسوی کے اس دیوان عام کی مرمت کی اور گلال باڑی کو درست کیا ۔ برس روز کی بات ہے کہ تین بادشاہت کا دیکھنے والا تو ایک شخص موجود تھا اور وہ بیان کرتا تھا کہ عالمگیر ثانی کے وقت سے تو کسی بادشاہ نے اس دیوان عام میں جلوس نہیں کیا اور غالب ہے کہ محمد شاہ کے بعد کسی نے نہ کیا ہو ۔ بلکہ محمد شاہ کے جلوس کرنے میں بھی شک ہے اس کے آگے دوسو چار (204) گز لمبا اور ایک سو ساٹھ (160) گز چوڑا صحن ہے اور اس کے چاروں طرف قرینے اور موقع سے مکانات بنے ہوئے ہیں اور شمال کی طرف دیوان خاص میں جانے کا دروازہ ہے ۔
خاص محل یا چھوٹا رنگ محل
یہ محل بیگمات خاص کے رہنے کا پچدرہ تہ گھا دالان ہے تینتیس (33) گز کا لمبا اور اس کے پیچھے ایک اور درجہ ہے سولہ (16) گز کا لمبا اور آٹھ (
گز کا چوڑا ۔ یہ عمارت اجارہ تک بالکل سنگ مرمر کی ہے اور اس سے اوپر بہت پختہ سفیدی کر کر بہت اچھی نقاشی کی ہے اس محل میں ایک نہر ہے نری سنگ مرمر کی تین گز چوڑی اور سنگ مرمر ہی کا
35
ایک حوض ہے کہ اس حوض سے نہر ہو کر چادر کی طرح صحن میں گرتی ہے اور صحن میں سڑسٹھ (67) گز مربع کا باغچہ تھا ۔ اور اس کے بیچ میں پچیس گز کے قطر کا ہشت پہل حوض تھا اور اس میں پچیس فوارے کسی زمانے میں چھوٹتے تھے ۔
امتیاز محل یا بڑا رنگ محل
یہ محل دیوان عام کی پشت پر واقع ہے اور اتنا بڑا اور کوئی محل نہیں ۔ صحن اس کا نہایت وسیع تھا کہ اس میں نہریں جاری تھیں فوارے چھوٹتے تھے ۔ باغ لگا ہوا تھا اب سب برباد ہو گیا اور اس صحن دلکشا میں سڑیل سڑیل مکان بن گئے ہیں ۔ اگلے زمانےمیں اس محل کے صحن میں ایک حوض تھا پچاس گز سے اڑتالیس گز میں اور پانچ فوارے اس میں چھوٹتے تھے ۔ اور ایکنہر تھی کہ اس میں پچیس فوارے لگے تھے ۔ اور باغچہ تھا ایک سو سات گز کا لمبا اور ایک سو پندرہ گز کا چوڑا اور اس کے گرد سنگ سرخ کا محجر لگا ہوا تھا ۔ اور اس پر دو ہزار سنہری کلسیاں لگی ہوئی تھیں ۔ اور تین طرف اس صحن کے سترہ گز کے عرض سے مکان دلکشا اور ایوان ہائے دلربا بنے ہوئے تھے ۔ اور جانب غرب میں مشرف بدریا اور پائیں باغ تھا ۔چہرہ اس کا باہر سے یوں ہے کہ کرسی دے کر ایک چبوترہ بنایا ہے ۔ اور اس کے نیچے دو تہ خانے ہیں بہت خوب اور اس چبوترے پر گویا پچدرہ تہرا دالان بنایا ہے ۔ ستاون گز کا لمبا اور چھبیس گز کا چوڑا ۔ بیچ کے در کے آگے صحن کی طرف ایک حوض ہے سنگ مرمر کا بہت بڑا ایک پتھر کا پایہ دار کہ اس میں ڈیڑھ گز کی اونچائی سے تین گز کی چوڑی چادر پڑتی ہے اور اس میں سے