صفحہ50
کسے را زندگانی شاد باشد کہ در شاہ جہاں آباد باشد
جب کہ یہ قلعہ بن چکا اور بادشاہ اس میں رہنے لگے یعنی 1058ہجری مطابق 1648 عیسوی جب ہی سے یہ شہر بھی آباد ہونا شروع ہوا۔ چنانچہ میر یحیی کاشی نے یہ تاریخ کہی
شد شاہجہاں آباد از شاہجہاں آباد
24 جلوسی مطابق 1060 ہجری موافق 1650 مسیحی شاہجہاں کے حکم بموجب مٹی اور پتھر سے چار مہینے کے عرصے میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہو کر شہر کی فصیل تیار ہوئی مگر دوسرے برس برسات میں اکثر جگہ سے گر پڑی۔ اس واسطے شاہجہاں نے چونے اور پتھر سے از سر نو بننے کا حکم دیا اور سات برس کے عرصے میں یعنی 1049 ہجری مطابق 1658 میں چار لاکھ روپیہ خرچ ہوکر یہ فصیل تیار ہو گئی طول اس چھ ہزار چھ سو چونسٹھ گز کا ہے اور چار گز کی چوڑی اور نو گز کی اونچی ہے اور اس میں ستائیس برج دس گز کے قطر سے ہیں۔ 1802 عیسوی مطابق 1218 ہجری کے جب سرکار انگریزی کی عملداری ہوئی تو یہ فصیل ہر جگہ سے ٹوٹ رہی تھی۔ سرکار کے حکم سے اس کی مرمت ہوئی اور خندق اور دیوار بہت آراستگی سے درست کی گئی۔ اجمیری دروازے کے باہر غازی الدین خان فیروز جنگ پدر نظام الملک آصف جاہ کا مقبرہ تھا جو مدرسہ کر کر مشہور ہے۔ اس کو بھی شہر پناہ کے اندر لے لیا اور قریب 1811 عیسوی مطابق 1226 ہجری کے اس مدرسے کے گرد بھی شہر پناہ سرکار کے حکم سے بنائی گئی۔ اس نئے شہر پناہ کے برج پر سنگ مرمر میں یہ کتبہ کھود رکھا ہے۔
برج اکبر شاہ