لال مسجد آپریشن شروع

خاور بلال

محفلین
السلام علیکم!
اس تھریڈ پر اچھی خاصی گفتگو ہوچکی ہے، اکثر احباب اس معاملے میں دونوں طرف کی غلطی مانتے ہیں جو بلاشبہ ایک صحیح طرز عمل ہے، جبکہ مذہب بیزار، نام نہاد روشن خیال اور لبرل حضرات بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں، اور انہیں اس خون خرابے کے پیچھے اپنے نظریے کی فتح محسوس ہورہی ہے۔

مذہب بیزار طبقے کی پرورش میں بھی اصل میں مذہبی ٹھیکیداروں کاہی ہاتھ ہے، ایک طرف نام نہاد مولویوں نے مذہب کی آڑ میں نفرتیں پھیلائی ہیں، کولہو کے بیل کی طرح مذہب کو بھی صرف ٹوپی، داڑھی اور پائنچے کے گرد ہی گھمایا ہے۔ شیعہ کافر کے نعرے ایجاد کیے ہیں۔لگتا ہے دیوبند مکتبہ فکر کے کچھ انتہا پسند عناصر بچے کے کان میں اذان دینے کیساتھ کافر کافر شیعہ کافر کہنا نہیں بھولتے۔ مساجد کے واش رومز میں شیعہ مخالف چاکنگ ایبسٹریکٹ آرٹ کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف بھی مذہب کو مذاق بنادیا گیا ہے امام حسین (رض) کی انقلابی فکر کو پس پشت ڈال کر روایات و خرافات کا ایسا تانا بانا بن دیا گیا ہے کہ اچھا بھلا آدمی چکرا کر رہ جاتا ہے۔ علامہ طالب جوہری رونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کربلا کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں جیسے خود وہاں موجود تھے اور کسی درخت پر چڑھے سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ یہ مذہبی کھیل تو ایک عرصے سے جاری ہے لیکن اب ایک تیسرا عنصر بھی اس میں شامل ہوگیا ہے جو اپنے آپ کو روشن خیال کہتا ہے۔ایک وقت تھا جب لبرل طبقہ اتنا روشن خیال ضرور ہوتا تھا کہ اپنی فکر کو مذہب سے justify نہیں کرتا تھا۔ لیکن اب ایسے لوگوں کی تعداد کثیر ہوگئی ہے جو ہر غلط کام مذہب کے نام پر کرتے ہیں، پوری مسلم دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلام کے شاندار قالین میں سیکولر ازم کے ٹاٹ کا پیوند لگانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، اس فعل قبیح کیلئے وہ طرح طرح کے جواز فراہم کرتے ہیں۔ وہ کبھی مغرب کا حوالہ دیتے ہیں، کبھی معتزلہ کی عقل پرستی کا، وہ کبھی غزالی کو کوستے ہیں اور کبھی ابن رشد کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ نام یہ اسلام کا لیتے ہیں رال ان کی مغرب پر بہتی ہے۔ تاریخ نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ بدعنوانوں کے سرپرستوں، قاتلوں، چوروں اور لٹیروں نے اپنی بد اعمالیوں کے جواز میں کبھی مذہب کو پیش کیا ہو۔۔۔ لیکن پرویز مشرف اور الطاف بھائی تو اس سے بھی آگے کھڑے ہیں۔ آخر کھیلنے کے لئے کوئی اور چیز نہیں رہ گئی؟ یہ لوگ مذہب سے ہی کیوں کھیلتے ہیں؟
 

خاور بلال

محفلین
کچھ احباب سمجھتے ہیں کہ انتشار کی ذمہ داری حکومت پر نہیں ڈالنی چاہئے۔ یہ بات صحیح ہے کہ معاشرے کی اصلاح ہر شہری کی ذمہ داری ہے خاص طور پر مذہبی حلقوں کی لیکن یہ عجیب منطق ہے کہ اختیار کا سرچشمہ الف ہے اور معاشرے کی خرابی کے ذمہ دار ب اور ج ہیں؟ یعنی اختیارات باپ کے پاس ہیں اور بچوں کو بگاڑنے کا الزام پڑوسیوں پر؟

اسی تھریڈ پر کچھ حضرات کہتے ہیں کہ “اصلاح کا اصل ہدف حکمران نہیں عوام ہیں“ یہ بات اصل میں ففٹی ففٹی ہے۔ اگر بس کے مسافر چوں چوں کی ملیا جانا چاہ رہے ہیں تو ضروری ہے کہ ڈرائیور بھی اس بات پر آمادہ ہو۔ یاتو ڈرائیور کو آمادہ کردیں یا پھر اسے تبدیل کردیں تیسری صورت یہ ہے کہ اپنی خواہش تبدیل کردیں۔ ایران کا دارالحکومت تہران انقلاب سے ذرا پہلے تک ایشیا میں جدیدیت کی نمایاں ترین علامت تھا، اسے علاقے میں جوئے اور جسم فروشی کے بڑے مرکز کی حیثیت حاصل تھی، مگر امام خمینی نے شاہ پرست اور انحراف میں مبتلا قوم کو بدل ڈالا۔
سوال یہ ہے کہ کیا قائد اعظم کو قوم نے پیدا کیا یا قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ملت یا قوم بنایا؟ ١٩٤٧ میں پاکستان بنا اور ١٩٤٨ میں قائد اعظم انتقال کرگئے یہ سانحہ کیا ہوا مغرب پرست حکمرانوں کی لاٹری کھل گئی۔ جس قوم نے سات برسوں میں پاکستان بنایا اور قائد اعظم جیسا لیڈر پیدا کیا وہی قوم اب جیمز بانڈ کے ہمسائے اور ہیڈلےچیز کے چیلے پیدا کرنے لگی۔ انگریز کے مقامی غلام تو مذہب سے بیزار تھے ہی مگر ظلم تو یہ ہوا کہ مذہب کو سیاست اور معاشرت سے جدا کرنے میں مذہبی طبقے نے کھل کر کردار ادا کیا اور مذہب کو مخصوص وضع قطع، مدرسوں اور مساجد میں بند کردیا۔ اس سے دونوں طبقوں کی تمنا پوری ہوگئی ملاؤں کو اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں میسر آگئیں اور لبرل طبقے کو کھل کر مذہب پر تنقید کا موقع مل گیا۔
 

خاور بلال

محفلین
اس تھریڈ پر ظفری بھائی کی پوسٹ پڑھی، یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو پاکستان سے دور رہتے ہیں لیکن ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان کے احساسات قابل قدر ہیں لیکن مجھے کچھ باتوں سے اختلاف ہے۔
لکھتے ہیں کہ انگریزوں کیخلاف جہاد کی پالیسی سے معاشرہ سید احمد اور شاہ اسمٰعیل جیسے جلیل القدر لوگوں سے محروم ہوگیا۔ بھائی ظفری! عرض ہے کہ ان لوگوں کو جلیل القدر اسی سلئے سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے شیر کی ایک دن کی زندگی کا انتخاب کیا۔ حیدرآبادکن کا نواب نظام الدین انگریزوں کے مطالبات مان کر گیدڑ کی سو سالہ زندگی جیا جبکہ اسکے مقابلے میں ٹیپو سلطان نے غیرت و حمیت کا مظاہرہ کیا اور سر جھکانے کے بدلے سر کٹانے کو ترجیح دی۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ دلوں میں آج تک کون زندہ ہے، ٹیپو سلطان یا نواب نظام الدین؟ زندگی اصل میں نام ہی سر اٹھاکر جینے کا ہے۔
 

اظہرالحق

محفلین
ایک اور نیوز ہے مزے کی ۔ ۔ ۔

کھودا بِل ۔ ۔ ۔ نکلا ڈائنو سار ۔ ۔ ۔ ۔

جی ہاں اس ڈائنو سار کو ساری دنیا جانتی ہے ۔ ۔ ۔

پردہ ۔ ۔ ۔ تو وہ ہے جو ۔ ۔۔ جو ۔۔ ۔ بہت ساری آنکھوں پر ڈال دیا گیا ہے ۔ ۔۔ اور برقعے کے اندر ۔ ۔ ۔ ۔ جو مولانا تھے وہ تو صرف اسٹنٹ مین تھے ۔ ۔ ۔ ۔ اصل ہیرو تو کوئی اور ہے ۔ ۔ ۔ ۔

باقی غازی کو غازی ہی رہنے کی بات کی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ شہادت کے عہدے پر شاید بہت سارے ۔ ۔ ۔ فائز کئے جائیں

اور ہاں ۔ ۔ ۔ ڈائنو سار ۔ ۔ ۔ اب کھل کر سامنے آیا ہے ۔ ۔ ۔ بڑے بھائی کو بھی ڈر لگ رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ڈائنو اور ڈریگن ۔ ۔ ۔ کی لڑائی میں ہاتھی اور گدھے بھی شامل ہیں ۔ ۔ ۔شاید کچھ چیلوں اور گِدھوں کی خوراک کا کافی بندوبست کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ اور راجہ گدھ تو ۔ ۔ ۔۔ ۔ کافی زیادہ مضطرب ہے ۔ ۔ ۔

یہ کٹھ پتلیاں ۔ ۔ ۔ جنکی ڈوریاں ۔۔ ۔ وہاں سے ہلائی جا رہی ہیں جہاں اسلام ،آباد نہیں ۔۔ ۔ مگر کچھ لوگ ۔ ۔ ۔ بے چارے "ڈاکیے " کو خاکی وردی والا فوجی سمجھ رہے ہیں ۔۔ ۔

نوٹ : مبہم گفتگو کے لئے معذرت چاہوں گا ۔ ۔۔ ۔ مگر شاید کچھ لوگ یہ اشارے سمجھ جائیں ۔ ۔ ۔۔


اللہ ہم پر رحم کرے ۔ ۔ ۔
 

باسم

محفلین
حکومت میڈیا کو لال مسجد کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دے رہی جس پر ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں نے احتجاج کیا تو انہیں نکال دیا گیا اور پریس کلب سیل کردیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ میلوڈی چوک پر بھی کھڑے نہ ہوں کل شاہد مسعود نے بتایا میڈیا لال مسجد سے 100 م کے فاصلے پر ہے میڈیا نے لال مسجد کے اندر جانے کا بھی مطالبہ کیا ہے
ایک بارہ سالہ بچہ فورسز سے نظریں بچاکر کئی گھنٹے نالہ میں چھپنے کے بعد بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا تو دوڑیں لگوادی گئیں کہ کہیں پرائویٹ چینلز کے ہاتھ نہ لگ جائے پھر اسے پرائیویٹ چینلز سے بات نہیں کرنے دی گئی صرف پی ٹی وی کو انٹرویو دلوایا گیا
کل جب مجلس عمل کا وفد وہاں جانے لگا تو انہیں بھی واپس کردیا گیا اندر نہیں جانے دیا گیا اور زیادہ کوشش پر ایک رکن کو گرفتار بھی کرلیا گیا
مولوی عبدالعزیز کو پہلے نکل جانے والے مؤذن نے فون کرکے باہر آنے پر رضامند کیا کہ ایک حکومتی رکن نے آپ کی حفاظت کا انتظام کیا ہے اور پھر انکے آنے کی اطلاع فورسز کو کردی
میڈیا نے جب اس حکومتی رکن کا نام جاننا چاہا تو انہیں جواب نہیں دینے دیا گیا اس سے پہلے اعجاز الحق بھی ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ کچھ حکومتی اراکین کی لال مسجد والوں کو حمایت حاصل ہے
ان ہاتھوں کا بھی پتہ چلایا جانا بہت ضروری ہے جو انکے پیچھے ہیں۔
غازی عبدالرشید نے عدالتی تحقیقات کروانے کا کہا ہے اور مجرم ثابت ہونے پر گرفتاری دینے کا اعلان کیا ہے
کیا حکومت ابھی انہیں لال مسجد سے جانے نہیں دے سکتی کہ اس کے بعد انہیں کسی اور جگہ گرفتار کرلے اگر گرفتار کرنا چاہے
ایسا تو نہیں ہوسکتا وہ ایک دم سے غائب ہو جائیں یہ فن تو فوج ہی کو آتا ہے
حکومت کو آج نہ جانے کہاں سے 9 انتہائی اہم مطلوب افراد کی لال مسجد میں موجودگی کی اطلاع ملی ہے
شاید کچھ دیر تک اسامہ کی موجودگی کی بھی اطلاع مل جائے
 

رضوان

محفلین
سانحہ لال مسجد کا ذمہ دار کون ؟ ,,,,قلم کمان…حامد میر



اس جنگ میں کسی ایک فریق کے جیتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ جنگ دونوں اطراف نے ہاری کیونکہ دونوں طرف مسلمان تھے۔ یہ جنگ ایک ایسے شہر میں ہوئی جس کا نام اسلام آباد ہے۔ یہ جنگ کسی جنگل یا پہاڑ پر نہیں بلکہ شہر کے قلب میں واقع ایک مسجد میں ہوئی۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے مسلمانوں پر گولہ بارود برسا کر اپنے دشمنوں کو خوب ہنسنے کا موقع فراہم کیا۔ لال مسجد میں وہی کچھ ہوا جس کا نقشہ فروری 2007ء کی ایک شام میں نے مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید غازی کے سامنے کھینچا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب اسلام آباد میں کچھ مساجد کی شہادت پر عام شہریوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ ان میں ایسی مساجد بھی تھیں جو قانونی لحاظ سے بالکل جائز تھیں اور میں نے بھی اسی کالم میں یہ مساجد شہید کرنے کی مذمت کی تھی تاہم ردعمل میں لال مسجد والوں کی طرف سے ایک لائبریری پر قبضے کی میں نے شدید مخالفت کی۔ میرے کالم کی اشاعت کے بعد مولانا عبدالعزیز نے مجھے ملاقات کا پیغام بھیجا۔ میں لال مسجد سے متصل ان کی رہائش گاہ پہنچا تو وہاں ان کے چھوٹے بھائی عبدالرشید غازی بھی موجود تھے۔ قریب ہی طالبات کی درس گاہ جامعہ حفصہ سے ” شریعت یا شہادت “ کے نعروں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ دونوں بھائیوں نے مساجد کی شہادت کے بارے میں اپنا موٴقف پیش کیا اور کہا کہ حکومت جامعہ حفصہ کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے لہذا ہم نے مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے عرض کی کہ مزاحمت کے طور پر ایک چلڈرن لائبریری پر قبضہ کرنا درست نہیں آپ افہام و تفہیم سے معاملہ طے کر لیں۔ مولانا عبدالعزیز مفاہمت کیلئے تیار نہ تھے البتہ عبدالرشید غازی کے موٴقف میں لچک تھی۔ غازی صاحب کے مشورے سے میں نے کچھ حکومتی شخصیات کے ساتھ بات کی اور یوں وفاقی وزیر اعجاز الحق کے ساتھ دونوں بھائیوں کے مذاکرات شروع ہوئے۔ اعجاز الحق نے مفتی تقی عثمانی سمیت ملک کے جید علماء کو ان مذاکرات میں شامل کر لیا۔ مولانا عبدالعزیز کسی کی سننے کو تیار نہ تھے۔ ایک دن میں نے اعجاز الحق اور جاوید ابراہیم پراچہ کے ہمراہ دونوں بھائیوں سے آخری بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ لال مسجد کے ایک کمرے میں دروازہ بند کر کے خاکسار نے مولانا عبدالعزیز سے کہا کہ جناب میں نہ تو حکومت کا نمائندہ ہوں اور نہ آپ کا نمائندہ ہوں بلکہ آپ کے اور حکومت کے درمیان پل بننے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن آپ دونوں ہی اس پل کو گرانا چاہتے ہیں تو میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ اس ملاقات میں اعجاز الحق نے مولانا عبدالعزیز کی داڑھی اور قدموں کو بھی ہاتھ لگایا۔ پھر عبدالرشید غازی نے بڑے بھائی سے درخواست کی کہ آپ کچھ دیر کیلئے یہاں سے چلے جائیں۔ بڑے بھائی کو بھیج کر عبدالرشید غازی نے اعجاز الحق سے کہا کہ آپ کل ایک تحریر لے آئیں کہ تمام تباہ شدہ مساجد کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا اور آئندہ کسی مسجد کو نوٹس جاری کرنے سے قبل علماء سے مشورہ کیا جائے گا۔ یہ طے کر کے ہم باہر نکلے تو لال مسجد کے ایک استاد نے سی ڈی اے کا ایک تازہ نوٹس اعجاز الحق کے ہاتھ میں دیدیا۔ یہ نوٹس لال مسجد کو جاری کیا گیا تھا جو محکمہ اوقاف کے زیر انتظام تھی۔ نوٹس دیکھ کر اعجاز الحق کا رنگ فق ہو گیا اور انہوں نے میرے کان میں کہا کہ یہ کسی نے ہمارے مذاکرات کو ناکام بنانے کی سازش کی ہے۔ اگلے دن اعجاز الحق اور دونوں بھائیوں کے درمیان آخری مذاکرات ہوئے۔ مجھ پر یہ واضح ہوچکا تھا کہ حکومت کے اندر کچھ عناصر یہ معاملہ خراب کرنے کے درپے ہیں۔ دوسری طرف مولانا عبدالعزیز بھی کچھ ایسے عناصر کے زیراثر تھے جو طاقت کے ذریعہ نفاذ شریعت کے حامی تھے۔ میں نے اعجازالحق اور مولانا صاحب دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگرآپ نے مفاہمت نہ کی اور ایک دوسرے کے خلاف مزاحمت کی تو اسلام آباد شہر پوری دنیا میں ایک تماشہ بنے گا اور مساجد کے ساتھ ساتھ مدارس کا نام بھی خراب ہوگا۔ مولانا صاحب کا موٴقف تھا کہ حکومت نے جن مساجد کو شہید کیا انہیں دوبارہ تعمیر کرے اس کے بعد مذاکرات ہوں گے۔ ایک طرف حکومت مساجد کی تعمیر میں سنجیدگی نہیں دکھا رہی تھی دوسری طرف مولانا عبدالعزیز ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے تھے لہذا میں اس معاملے سے نکل آیا۔ پھر ایک دن جی سکس کے رہائشیوں کا ایک وفد لال مسجد آیا۔ انہوں نے اپنے علاقے میں بدکاری کا مبینہ اڈہ چلانے والی ایک عورت کی شکایت کی۔ اس وفد کا کہنا تھا کہ پولیس کو کئی مرتبہ شکایت کی گئی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی لہذا لال مسجد کے طلباء یہ اڈہ بند کروائیں۔ مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ اور مدرسہ حفصہ کی ناظمہ ام حسان نے طالبات کا ایک وفد شمیم نامی عورت کے پاس بھیجا لیکن اس عورت نے ان برقعہ پوش طالبات کو گندی گالیاں سنائیں۔ اگلے دن اس عورت کو اغواء کر لیا گیا۔ اس غیر قانونی کارروائی کی شہرت پھیلی تو مختلف علاقوں کے وفود نے لال مسجد میں آ کر ایسی ہی کارروائیوں کی فرمائشیں شروع کردیں۔ ایک دن مجھے مولانا عبدالعزیز نے فون کیا اورکہا کہ ہم کیا کریں ہمیں عریانی و فحاشی اور بدکاری سے تنگ آئے ہوئے لوگ کارروائیوں کیلئے بلا رہے ہیں آپ بھی ہمارے طلباء کے ساتھ جائیں اور ہماری کارروائی کا حال دیکھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ عوام میں ہماری کتنی پذیرائی ہے۔ میں نے بڑے ادب سے جواب دیا کہ آپ علاقے کے رکن قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیکر برائی کے خلاف پریس کانفرنس کریں، پولیس کی نا اہلی کو بے نقاب کریں لیکن خود قانون ہاتھ میں نہ لیں۔ مولانا نے یہ سن کر فون بند کردیا۔ پھر چوہدری شجاعت حسین کے لال مسجد والوں سے مذاکرات شروع ہوئے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں بھی سی ڈی اے کی طرف سے گرائی گئی مساجد کی دوبارہ تعمیر شروع نہ ہوئی۔ ایک تاثر یہ تھا کہ حکومت خود اس معاملے کو طول دے رہی ہے تاکہ عام لوگوں کی توجہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے کیس سے ہٹی رہے۔ حکومت طاقت استعمال کئے بغیر بھی یہ مسئلہ حل کر سکتی تھی۔ علماء کی اکثریت کا خیال تھا کہ لال مسجد کی بجلی اور پانی بند کردی جائے تو چند دنوں میں سب طلبہ و طالبات باہر آجائیں گے۔ چھ ماہ تک چلڈرن لائبریری پر قبضہ برقرار رہا لیکن بجلی اور پانی بند نہ ہوا۔ یہ معمولی سی کارروائی کرنے کی بجائے حکومت نے لال مسجد کے اردگرد خاردار تاریں بچھانی شروع کیں تو تصادم شروع ہوگیا۔ اس تصادم کے ابتدائی دنوں میں عام لوگ لال مسجد والوں کے خلاف تھے۔ تیسرے دن مولانا عبدالعزیز برقع پہن کر قبائلی علاقوں کی طرف فرار ہو رہے تھے تاکہ وہاں سے تحریک چلا سکیں لیکن ایک ہوشیار پولیس والی سمیرا بتول نے برقعے کے پیچھے ان کی چھپی ہوئی مردانگی کو ڈھونڈ نکالا۔ مولانا صاحب کی اس گرفتاری سے لال مسجد کے اندر موجود جنگجوؤں کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ میڈیا کو اندر سے کئی پیغامات ملے کہ ہمارے محفوظ سرنڈر کی صورت نکالیں۔ اس دوران مولانا عبدالعزیز کو دوبارہ زبردستی برقع پہنا کر پی ٹی وی کے کیمروں کے سامنے کھڑا کیا گیا اور ان کی تضحیک کی گئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کا یہ انٹرویو دیکھ کر اکثر سرکاری حکام نے کہا کہ اسے نشر نہ کیا جائے لیکن ایک صاحب نے صدر صاحب سے اجازت لیکر یہ انٹرویو نشر کروا دیا۔ اس انٹرویو نے ایک متنازعہ شخص کو مظلوم بنا دیا۔ لوگوں کی رائے بدلنے لگی۔ ایک ملزم کو مجرم بنانے کا اختیار پی ٹی وی کو نہیں بلکہ عدالت کو تھا۔ پی ٹی وی نے وہی کام کیا جو مولانا عبدالعزیز کیا کرتے تھے۔ بہرحال پی ٹی وی پر مولانا عبدالعزیز کی تذلیل نے لال مسجد کے اندر موجود جنگجوؤں کو مشتعل کر دیا اور پھر وہ جنگ و جدل پر اتر آئے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ اسلام آباد کی فضائیں کئی دن تک گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور دھماکوں سے گونجتی رہیں۔ اس جنگ نے لندن میں جاری نواز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس کو بھی پس منظر میں دھکیل دیا۔ وقتی طور پر جنرل پرویز مشرف کو ان کے مغربی اتحادیوں نے خوب داد دی لیکن مجموعی طور پر اس واقعے نے اسلام اور پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ سانحہ ہے اور اسکی عدالتی انکوائری ہونی چاہئے۔ انکوائری میں کچھ اہم سوالات کا جواب آنا چاہئے۔ وہ کون تھا جس نے مولانا عبدالعزیز کو سرکاری زمین پر مدرسہ حفصہ تعمیر کرنے کی اجازت دی، کئی سال تک آنکھیں بند رکھیں اور پھر ایک دن اچانک مدرسہ گرانے کا نوٹس جاری کر دیا ؟ وہ کون تھا جس نے اسلام آباد میں جائز اور قانونی مساجد کو شہید کرکے وفاقی دارالحکومت میں ایک بڑے سانحے کی بنیاد رکھی ؟ وہ کون تھا جو لال مسجد والوں کو بھاری اسلحہ فراہم کرتا رہا ؟ لال مسجد کو اسلحہ دینے والوں کو راولپنڈی پولیس نے گرفتار بھی کر لیا لیکن وہ کون تھا جو ان گرفتار شدگان کو تھانے سے نکال کر لے گیا ؟ وہ کون تھا جس نے پی ٹی وی پر مولانا عبدالعزیز کو زبردستی برقعہ پہنا کر پیش کیا اور ہر طرف بے چینی پھیلا دی ؟ سانحہ لال مسجد کے ذمہ دار صرف دو بھائی نہیں بلکہ کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ ان سب کو بے نقاب کرنا ضروری ہے ورنہ خدشہ ہے کہ لال مسجد جیسے مزید واقعات بھی پیش آ سکتے ہیں۔
(بشکریہ جنگ بروز 9جولائی 2007 )
 

پاکستانی

محفلین
col3.gif

col3a.gif
 

پاکستانی

محفلین
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معاملہ پر اٹارنی جنرل، سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کو چار بجے عدالت میں پیش ہونے کے لیے حکم جاری کیا ہے۔جبکہ لال مسجد انتظامیہ کے خلاف حکومتی کارروائی کے ساتویں دن مسجد کے اطراف میں کشیدگی برقرار ہے۔

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سوموار کی صبح اٹارنی جنرل کو تین بجے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ تین بجے جب جسٹس نواز محمد عباسی کی سربراہی میں قائم بینچ نے سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل کے بجائے ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو سننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اور اس میں معصوم جانوں کی زندگی کا سوال ہے اس لیے اٹارنی جنرل ہی عدالت میں پیش ہوں۔عدالت نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل کے علاوہ سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد اور انسپکٹر جنرل اسلام آباد بھی عدالت میں پیش ہوں۔

مزید
 

فرضی

محفلین
پاکستانی بھائی، رضوان بھائی نے حامد میر کا کالم قلم کمان آپ سے پہلے ہی یونیکوڈ میں پیش کیے ہوئے تھا۔ اسے تصوریری شکل میں دوبارہ پوسٹ کرنے کا کوئی خاص مقصد؟
 

پاکستانی

محفلین
فرضی بھائی، معذرت چاہوں گا، رضوان بھائی کی پوسٹ میری نظر سے نہیں گزری، ورنہ کبھی ایسا نہیں ہوتا۔
 
ابرار صاحب،
حیرت ہے کہ آپ کو ابھی تک لال مسجد کے گھناؤنے جرائم نظر نہیں آئے۔

سب کچھ چھوڑئیے کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ سالوں سے یہ لوگ ناجائز زمین پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور پھر اسے مسجد کا نام دیتے ہیں۔ کیا یہی آپکا اسلام اور لال مسجد والوں کا اسلام ہے؟
ایسی غاصبی جگہ کو مسجد کہنا خود مساجد کی توہین ہے۔ چنانچہ اسے لال مسجد کہنے کی بجائے "لال نامسجد" کہا جائے تو بہتر ہے۔

تو اس غاصبی جگہ کی برکت تھی جو یہ جگہ شروع سے ہی فساد و فرقہ بندی کا گڑھ بن گئی۔ (ایجنسیوں کو تو ایسی ہی انکی سرگرمیاں نظر نہیں آئیں) مگر کیوں آپ بھی اب تک اتنے اندھے بن رہے ہیں کہ آپکو انکی فرقہ پرستانہ سرگمیاں نظر نہیں آئیں، اور دوسرے فرقوں کے خلاف جو نفرتیں یہاں پھیلائی جا رہی تھیں اور جو خطبے بیان کیے جاتے تھے تو آپ ان خطبوں کو سننے سے ابتک بہرے بنے ہوئے ہیں۔ صد افسوس۔

اور یہ بہرا پن اُس وقت اپنے عروج پر پہنچا جب اس غاصبی نامسجد والے اپنی اسی نفرت بھری تعلیم و تربیت کا اظہار کرتے ہوئے خواتین کے اغوا کے وقت "شیعہ کافر" کے نعرے لگا رہے تھے، مگر ہمارے میڈیا کا بہرہ پن یہ تھا کہ کسی ایک چینل یا اخبار والے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس بات پر غازی برادران سے کوئی سوال کرتے یا پھر اخبارات میں لکھنے والے کالم نگار دانشوروں میں سے کوئی ایک کالم نگار بھی اپنے کالموں میں اس کی مذمت کرتا۔

اگر نفرتوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو یہ صرف "شیعہ کافر"' پر ختم ہونے والا نہیں، بلکہ اسکے بعد یہی مسلح دھشت گرد "بریلوی کافر" کے نام پر اہلسنت کا قتل عام کرنے والے ہیں، اور اسکے بعد پھر "دیو بندی" اور "اہلحدیث" ایک دوسرے پر فتوے بازیاں کرتے ہوئے ٹوٹنے والے ہیں۔ (شاید آپکو علم نہ ہو مگر اہلحدیث اور دیو بندی حضرات میں بہت عرصے سے ایک دوسرے کے خلاف فتوے بازیاں شروع ہیں اور کتابیں لکھ کر ایک دوسری کی تضحیک کی جا رہی ہے)۔

تو ابرار صاحب،
یہ لال نامسجد (جو کہ مسجدِ ضرار سے بھی زیادہ مسلم امت کے لیے نقصان دہ ہے)، کیا وجہ ہے کہ آپ کو ابھی تک انکی یہ "بنیادی" برائیاں اور جرائم ہی نظر نہیں آ سکے؟ اگر آپ یہ بنیاد ہی نہیں مانتے تو ان کے باقی گھناؤنے کردار کو آپکے سامنے رکھنا باعثِ عبث ہی ہو گا اور آپ کچھ بھی سوچنے سمجھنے دیکھنے جاننے سے قاصر رہیں گے۔

مہوش آپ نے بجائے ابرار کے سوالات کے جواب دینے کہ مسجد کی جگہ کو گفتگو کا مرکز بنا لیا اور بنا تحقیق کیے اسے غصب شدہ جگہ بھی بنا دیا اور پھر مسجد کو مساجد کی توہین بھی کہہ ڈالا اور مسجد کو نامسجد بھی کہہ ڈالا۔ اس پر مزید آپ نے کب سے لوگوں کے اسلام کو پرکھنا شروع کر دیا اور اسلام کے ورژن بھی پوچھنا شروع کر دیے۔

میں پوچھ سکتا ہوں اتنی جذباتیت اور اتنا متشدد رویہ کس وجہ سے ؟

جو جگہ غصب شدہ ہے وہ جامعہ حفصہ ہے اور اب سے نہیں کئی سالوں سے اور حکومت کو متعدد نوٹس اور اپیلیں کرنے کے باوجود اس پر کبھی کوئی تعرض نہیں کیا گیا بلکہ کسی نے کوشش کی تو اسے منظر نامے سے ہی ہٹا دیا گیا۔ اب ان حقائق کو کیا صرف اس لیے نہ بتایا جائے کہ اس سے حکومت پر تنقید ہوتی ہے۔ ایجنسیوں کا جو کردار ہے اس پر اس دھاگے پر اتنی جگہ ہی نہیں کہ وہ سمو سکے ورنہ یہ بڑھاوے اور چشم پوشیاں ان ایجنسیوں کے کارنامے ہی ہیں۔

افسوس مجھے اس چیز پر ہوتا ہے کہ جب سب لال مسجد کے طرز عمل پر تنقید کر رہے ہیں اور ان کے اس عمل کو غلط قرار دے رہے ہیں تو آپ کا اصرار کیوں ہے کہ اسے فرقہ پرستانہ رنگ بھی دیا جائے اور ایک دفعہ اگر وہ نعرے لگ گئے تھے جن کا آپ نے ذکر کیا تو اسے ہی بنیاد بنا لیا جائے اور اسی کی سخت سے سخت مذمت کی جائے۔ کیا آپ کا خیال ہے اس سے فرقہ پرستی دب جائے گی اور کیا اس سے اصل موضوع سے ہٹ کر فرقہ پرستی میں نہیں چلے جائیں گے ، فرقہ پرستی ایک لعنت ہے اس سے جتنا دور رہا جائے اتنا ہی اچھا ہے اور میرا خیال ہے سب نے یہی کوشش کی ہے مگر آپ نے بار بار اس مسئلے کو اس طرح اٹھایا ہے جیسے کبھی ‘شیعہ کافر ‘ کا نعرہ کسی نے سنا نہ ہو یا لکھا دیکھا نہ ہو یا کبھی اہل تشیع کی طرف سے جواب دیا نہ گیا ہو۔ میں ان مغلضات کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتا جو ایسے واقعات میں دی جاتی ہیں اور جس جذباتیت کا دونوں طرف سے فائدہ اٹھا کر فرقہ پرستی کو پرتشدد رنگ دیا جاتا ہے۔
مہوش ،
اس ملک میں رہنے والے تقریبا سب باشندوں کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ کس کس کو کتابوں ، منبروں اور لاؤڈ اسپیکروں سے کافر کہا جاتا ہے ، شاید کسی بھی فرقہ کا دامن اس داغ سے صاف نہیں۔ فرقہ پرستی کے نام پر بہت نفرت اور تشدد قوم نے دیکھا بھی ہے اور سہا بھی، بہت مشکل سے حالات بہتری کی طرف مائل ہوئے ہیں اور آپ پھر یہی بحث چھیڑنا چاہتی ہیں اور اس سطحی مذمت پر اصرار کیوں کر رہی ہیں۔ غازی برادران نے یہ نعرہ نہیں لگایا اور نہ یہ نعرہ سرعام لگا کر کوئی سرخرو ہو سکتا ہے اور اگر لگایا بھی ہو کسی نے تو کوئی کسی کے سامنے آ کر مانے گا نہیں تو جب ایک منافقت کا اتنا واضح طور پر علم ہو تو اس معاملے کو اصل معاملے سے بھی اوپر کس وجہ سے لایا جائے۔
مجھے امید ہے کہ فرقہ پرستی پر بات کرکے ہم اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے ورنہ مسالک کی بحثیں ایک دفعہ شروع ہو گئیں تو پھر ہم میں اور کم علموں میں کیا فرق رہ جائے گا؟
 
محب،

کبھی یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی چیز کے لیے پروگرامائزڈ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے مجھے مشرف حکومت پسند ہے تو میں شاید میں ہر عمل کی تائید کرتی رہوں۔
تو محب، کیا یہ ممکن ہے کہ آپ حکومت مخالفت کے لیے اتنے پروگرامائزڈ ہو چکے ہوں کہ اسکی ہر حرکت پر اعترا

مہوش میں آپ کی پہلی بات کی تو تائید کرتا ہوں مگر دوسری کی نہیں وہ اس لیے کہ

میں نے لال مسجد والوں کی کھل کر مذمت کی ہے اور ان کے طرز عمل کو غلط قرار دیا ہے مگر جانبداری سے کام لیتے ہوئے انہیں ہی سارے قصہ کا قصوروار نہیں ٹھہرایا بلکہ جس حکومت کی شہ پر یہ ہوا ہے اس پر بھی اتنی کڑی تنقید کی ہے جس کی وہ حقدار ہے۔

میں لال مسجد والوں سے اپنی بیزاری کا اعلان کرتا ہوں اور ان کے اس عمل کو انتہائی غلط اور ملک و قوم کے لیے تباہ کن قرار دیتا ہوں مگر میں حکومت کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا اور جو مجرمانہ غفلتیں اور چھوٹیں حکومت نے دی ہیں ان پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ بھی نہیں کر سکتا۔
 

سید ابرار

محفلین
محب، آئیے آپکے اس اعتراض کو تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ مگر پہلے یہ بتائیں کہ کیا آپ اللہ کے اس قرانی فرمان کو مانتے ہیں کہ اہل فتنے کو قتل کرو اور اس حد تک قتل کرو یہ یہ ختم نہ ہو جائے یا پھر اپنے فتنے سے تائب نہ ہو جائے؟ (اور خدارا اب یہ بحث نہ شروع کر دیجئے گا کہ یہ حکم صرف کفار کے لیے ہے۔

علی ابن ابی طالب (خلیفہ چہارم) کا خارجی مسلمانوں کا قتلِ عام

خارجی مسلمانوں کا وہ گروہ ہے جو اپنے تقوے، راستگوئی اور دینداری اور بہادری میں باقی تمام مسلم گروہوں سے آگے تھا۔ اس گروہ میں بڑے بڑے تابعین موجود تھے اور دیندار اتنے تھے کہ جب میدان میں فوج اکھٹی ہوئی اور کھجور کے درخت کاٹ کر نماز ادا کرنے کا وقت ہوا تو پہلے اس جگہ اور درختوں کی قیمت وہاں کے مالک کو ادا کی (لال مسجد والوں کے برعکس جو دوسری جگہوں پر غاصبوں کے طرح قبضہ آور ہو رہے ہیں)۔

جبتک یہ خارجی پارسا مسلمان صرف زبانی کلامی حکومت پر تنقید کرتے رہے اُس وقت تک علی ابن ابی طالب نے ان کو کچھ نہ کہا، مگر جب انہوں نے مسلح ہو کر وارداتیں شروع کیں اور مار کٹائی کرنے لگے تو پہلے انہیں شہر بدر کیا گیا۔ مگر جب ان دیندار خارجی تابعین نے پھر بھی توبہ نہ کی اور کاروائیاں بڑھا دیں تو اس فتنے کو واحد حل وہی قرانی حکم باقی رہ گیا کہ اہل فتنہ کو قتل کرو حتیٰ کہ وہ جڑ سے ختم نہ ہو جائے یا پھر توبہ نہ کر لے۔

تو نتیجہ یہ نکلا کہ خلیفہ چہارم نے نہروان کے مقام پر اس تابعین کے گروہ سے جنگ کر کے انکا قتل عام کیا حتی کہ سوائے چار پانچ لوگوں میں سے کوئی نہ بچا۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

محب،
میں آپکے نظریات سے متفق نہیں ہو پائی کیونکہ ایک طرف آپ 6 ماہ پہلے کاروائی کرنے کا کہہ رہے ہیں، تو دوسری طرف جب حکومت نے بلوچستان میں کاروائی کر کے مسلح دھشت گردی سے وطن کو نجات دلائی تو آپ کی بندوق کا رخ پھر حکومت کے طرف ہو گیا اور بلوچستان کے ان مسلح لوگوں کو آپ نے دھشت گرد نہیں کہا۔ (جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم پر اسلحے کو وجہ سے فورا آپ نے دھشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا تھا۔ )

اور اب جب یہ لال مسجد والے پچھلے چھ ماہ سے مذاکرات کے نام پر اپنے فتنے کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور کوئی بات نہیں مانتے اور جب جی چاہتا ہے پولیس کی گاڑیوں کو حکومتی اہلکاروں سمیت اٹھا لیتے ہیں، اور کبھی اسلحے کے ساتھ ہی انہیں اغوا کر لیتے ہیں، نہ حکومت کی سنتے ہیں اور نہ اپنے دیگر ملا بھائیوں کی۔۔۔۔۔۔ تو ان سب کے باوجود آپ اب کہہ رہے ہیں کہ ان سے مذاکرات کرو؟؟؟؟ تو یہ بتائیے کہ حکومت کیا کرے کہ آپ کو خوش کر سکے؟
اور اگر حکومت اب بھی ان کو رہا کر دے تو کیا گارنٹی ہے کہ مستقبل میں انہیں پھر جہاد کی بشارت نہ ہو؟ اور انہیں پھر جہادی بشارت ہو گئی اور پھر انکی شرارتوں سے لوگ مارے گئے تو آپ ہی ہوں گے جو پھر اسی حکومت پر بڑھ چڑھ کر اعتراضات کر رہے ہوں گے۔

صورتحال یہ ہے کہ غازی برادران کے لیے حکومت نے اب بھی راستہ کھلا رکھا ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر گرفتاری دے دیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت قتل و غارت نہیں چاہتی۔ مگر غازی برادران کی غیر مشروط گرفتاری سے کم کوئی چیز قبول نہیں ہو سکتی۔ اور اگر آپ اب بھی اس حکومتی مطالبے پر اعتراضات کریں تو میرے مطابق ہر کسی کو خوش کرنا ممکن نہیں ہوتا اور ایسا کرنے والا خود بے وقوف ہوتا ہے۔

براہ کرم غازی برادران کو خارجیوں سے تشبیہ نہ دیں خارجیوں کے نظریات صریحا کفر تھے نیز انہوں نے ایک شرعی طریقہ سے قائم کردہ خالصتا اسلامی حکومت سے بغاوت کی تھی مذکورہ صورت میں نہ تو لال مسجد والوں کے عقاید کفریہ ہیں اور نہ انہوں نے ایک خالص شرعی حکومت کی مخالفت کی ہے ان کے مطالبات کیا تھے ایک مرتبہ دوبارہ ضرور پڑھ لیں مسجدوں کی دوبارہ تعمیر ،خالصتا شرعی حکومت کے قیام کا مطالبہ تاکہ اللہ کی رحمتیں آسمانوں سے اتر سکیں ظاہر ہے یہ پاکستانی آئین کے اعتبار سے قابل گردن زدنی جرم تو نہیں ہے ہاں تشبیہ دینا چاہیں تو واقعہ کربلا سے تشبیہ دیں جس میں ایک طرف حضرت حسیں تھے اپنے موقف کے ساتھ جس کی تائید میں اس مبارک دور میں بھی گنے چنے لوگ تھے اور دوسری طرف یزید اپنی حکومت اور لشکر سمیت تھا
 
مہوش علی
میں نہیں سمجھتا کہ محب یہ سب کچھ محض حکومت کی مخالفت میں لکھ رہا ہے بلکہ یہ زمینی حقائق ہیں جو صرف یہاں رہتے ہوئے ہی بندہ بھگتتا ہے اور اسی کیے مطابق ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔ میرے حساب سے تنقید یا تائید سے کوئی پروگرامڈ نہیں ہوجاتا ہاں جس رنگ کی عینک پہن رکھی ہو اس سے منظر ضرور رنگا جاتا ہے۔
میں مشرف اور ملّا دونوں ہی کی مخالفت کرتا ہوں لیکن ان کی چالوں کا تجزیہ غیر جانبدار ہو کر کیجیے۔ آپ مدلّل گفتگو جاری رکھیے لیکن یاد رکھیے کہ پاکستانی سوسائٹی میں تمام مزہبی فرقے سماجی آزادی کے لیے ایک جیسی نجس سوچ رکھتے ہیں بس فرق اتنا ہے کہ کسی کا لاؤڈ اسپیکر آن ہے تو کوئی صرف مجالس میں آگ لگاتا ہے۔ ان کی معاش اسی کام سے وابستہ ہے اور اس کے علاوہ یہ کوئی ہنر نہیں جانتے اب بیچارے آگ نہ لگائیں تو روٹی کیسے پکے گی ہاں اس آگ کا ایندھن ساری عوام ہے سنی شیعہ مسلمان ہندو اورعیسائی کی کوئی تفریق نہیں۔
اہلِ محفل سے گزارش ہے کہ عینکیں صاف رکھیے

سچ کہا ہے رضوان ، قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے ۔

اگر مذہب پر تنقید روا ہے تو حکومت کوئی مقدس گائے تو نہیں اس پر تنقید کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ مشرف صاحب نے تو صدر ، فوج اور عدلیہ ( عدلیہ کا دم چھلہ شاید تکلفا لگا لیا ورنہ جو حال اور جو مذاق عدلیہ کا اڑایا ہے اس کے بعد اور کی گنجائش تو نہیں (‌ پر تنقید کو غیر قانونی قرار دیا ہوا ہے۔ کیا ہم بھی اس کو مان لیں اور جو ہوتا جائے اس پر آنکھیں بند کرکے بیٹھیں رہیں۔
 

qaral

محفلین
براہ کرم غازی برادران کو خارجیوں سے تشبیہ نہ دیں خارجیوں کے نظریات صریحا کفر تھے نیز انہوں نے ایک شرعی طریقہ سے قائم کردہ خالصتا اسلامی حکومت سے بغاوت کی تھی مذکورہ صورت میں نہ تو لال مسجد والوں کے عقاید کفریہ ہیں اور نہ انہوں نے ایک خالص شرعی حکومت کی مخالفت کی ہے ان کے مطالبات کیا تھے ایک مرتبہ دوبارہ ضرور پڑھ لیں مسجدوں کی دوبارہ تعمیر ،خالصتا شرعی حکومت کے قیام کا مطالبہ تاکہ اللہ کی رحمتیں آسمانوں سے اتر سکیں ظاہر ہے یہ پاکستانی آئین کے اعتبار سے قابل گردن زدنی جرم تو نہیں ہے ہاں تشبیہ دینا چاہیں تو واقعہ کربلا سے تشبیہ دیں جس میں ایک طرف حضرت حسیں تھے اپنے موقف کے ساتھ جس کی تائید میں اس مبارک دور میں بھی گنے چنے لوگ تھے اور دوسری طرف یزید اپنی حکومت اور لشکر سمیت تھا

سید ابرار آپ نے لال مسجد والوں کو حضرت حسین سے تشبیہ دے ڈالی اب میں کیا کہوں آپ خود صاحب خرد ہیں اور اتنا تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ لال مسجد والوں کے فدائی ہیں نہیں ایساآپ نے صرف اور صرف گورنمنٹ کی مخالفت میں لکھا یعنی آپ بھی بس مخالفت برائے مخالفت کے قائل ہیں افسوس ہوا یہ دیکھ کر اگر محوش گورنمنٹ کےحق میں کچھ زیادہ لکھ دیتی ہیں تو آپ لوگ مخالفت میں حد کر دیتے ہو باقی رہی لال مسجد والوں کے مقاصد کی بات تو خدا کو مقصدوں کو نہیں نیتوں کودیکھا کر تاہے اور لال مسجدوالوں کی نیت میں فتور ہے یہ اب واضح ہو چکا ہے باقی چھوڑیئے وہ تو اسلام کی روح کو مسخ کر رہے تھے وہ کیسا اسلام لاتے ؟؟؟؟؟؟؟؟
 
ظفری کی پوسٹ میں بہت اچھے نکات ہیں (میرا خیال ہے کہ ظفری نے جنگ اخبار کے کالم سے مواد لیا ہے، بہرحال انہیں یہاں پوسٹ کرنے کا شکریہ۔

رضوان،
آپکی بات بالکل درست ہے کہ انتہا پسندوں کا کوئی دین مذھب نہیں ہوتا۔ کوئی مسجد میں آگ لگاتا ہے تو کوئی مجالس میں اور اسی طرح اپنی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں کہ اگر وہ یہ نہ کریں تو شاید انہیں کوئی سننے نہ آئے۔

مگر ایک حقیقت ہے کہ اختلاف رائے ہے اور اسی اختلاف رائے کی وجہ سے پورے پورے فرقے وجود میں آئے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اختلاف کو صرف اختلاف رکھنے کی بچائے انہیں فتنہ بنا دیا گیا ہے۔ مثلا مولانا مودودی کے اپنے نظریات ہیں اور انہوں نے اہل تشیع کے نظریات پر اپنی کتابوں اور خاص کر ماہنامہ ترجمان القران میں اکثر گرفت کی ہے۔ میں مودودی صاحب سے پوری متفق ہوں کہ انہیں حق حاصل ہے کہ وہ گرفت کریں اور اپنے نظریات کی حقانیت کے لیے دلائل پیش کریں۔

مگر مودودی صاحب اور سپاہ صحابہ میں پھر بھی ہمیں فرق کرنا چاہیے۔ اختلاف دونوں جگہ ہے مگر ایک جگہ صرف اختلافِ رائے تک محدودی ہے جبکہ دوسری طرف فتنے تک پہنچ جانا ہے۔ تو اس دوسری قسم کی ہر جگہ تنقید کی جانی چاہیے اور یہ اتنی کھل کر ہو تاوقتیکہ وہ اپنا فتنہ ختم کر کے اختلاف رائے تک محدود نہ ہو جائیں۔ لیکن یہاں ہو یہ رہا ہے کہ ان فتنے والوں کو ہیرو بنایا جا رہا ہے اور کوئی کھل کر اس پر تنقید نہیں کر رہا۔ تو پھر بتائیں کہ یہ فتنہ کیسے ختم ہو گا؟


اختلاف رائے پر میں آپ کے ساتھ ہوں اور اختلاف رائے بذات خود کوئی بری شے نہیں ہوتا بلکہ اس سے تو علم کے دریچے وا ہوتے ہیں اگر اسے مثبت انداز میں لیا جائے۔ ہر جگہ ایسا ہوتا ہے اور کوئی علم کوئی نظریہ اس سے مستثنی نہیں۔ مولانا مودودی کی چند باتوں کو آپ سراہتی ہیں اور چند سے اختلاف ہے مگر اختلاف کی بنیاد پر آپ انہیں برا نہیں کہتیں اور نہ اختلاف کرنے کے ان کے حق سے اختلاف کرتی ہیں یہ ایک احسن سوچ ہے مگر آپ نے انہیں ملایا کس کے ساتھ ہے

سپاہ صحابہ کے ساتھ اور لکھا ہے کہ ان دونوں میں ہمیں پھر بھی فرق کرنا چاہیے۔ کہاں ایک جید عالم اور کہاں ایک فرقہ پرست تنظیم ، کوئی موازنہ بنتا ہے ان دونوں کا۔ ویسے میں پوچھ سکتا ہوں کہ سپاہ صحابہ کا تذکرہ کرتے ہوئے دوسری مخالف متشدد تنظیم کا ذکر کس لیے نہیں کیا۔ تشدد کسی کی طرف سے بھی ہو اس کی بھرپور مذمت ہونی چاہیے اور معاملات کو افہام و تفہیم اور گفتگو سے حل کرنا چاہیے اور اس روش کو فروغ دینا چاہیے نہ کہ طاقت سے مسائل کو حل کرنے کی حمایت ۔ سپاہ صحابہ اپنے لیڈروں سمیت ختم ہوگئی اسی پرتشدد رویے کی وجہ سے اور انشاللہ باقی پرتشدد تنظمیں بھی عوام پنپنے نہیں دے گی اگر اسے رائے کا اظہار کرنے دیا جائے اور اعتماد میں لیا جائے۔
 
سید ابرار آپ نے لال مسجد والوں کو حضرت حسین سے تشبیہ دے ڈالی اب میں کیا کہوں آپ خود صاحب خرد ہیں اور اتنا تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ لال مسجد والوں کے فدائی ہیں نہیں ایساآپ نے صرف اور صرف گورنمنٹ کی مخالفت میں لکھا یعنی آپ بھی بس مخالفت برائے مخالفت کے قائل ہیں افسوس ہوا یہ دیکھ کر اگر محوش گورنمنٹ کےحق میں کچھ زیادہ لکھ دیتی ہیں تو آپ لوگ مخالفت میں حد کر دیتے ہو باقی رہی لال مسجد والوں کے مقاصد کی بات تو خدا کو مقصدوں کو نہیں نیتوں کودیکھا کر تاہے اور لال مسجدوالوں کی نیت میں فتور ہے یہ اب واضح ہو چکا ہے باقی چھوڑیئے وہ تو اسلام کی روح کو مسخ کر رہے تھے وہ کیسا اسلام لاتے ؟؟؟؟؟؟؟؟


قرال کی بات سے متفق ہوں کہ خدارا اکابرین سے تشبیہات نہ دیں وہ بہت معتبر اور مخلص شخصیات تھیں انہیں اس دور کے کسی بھی شخص‌سے چاہے وہ کیسا ہی بلند ہمت اور مخلص‌نہ ہو نہ ملایا جائے۔ مثالیں دینی ہی ہیں تو پچھلی صدی سے دےلی جائیں وہاں بھی بہت شخصیات ہیں ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میری سب دوستوں سے اور خاص طور پر مہوش سے درخواست ہے کہ اپنے لب و لہجے پر قابو پائیں۔ یہ آپ کی صحت کے لیے بھی مضر ہے۔
 

سید ابرار

محفلین
سید ابرار آپ نے لال مسجد والوں کو حضرت حسین سے تشبیہ دے ڈالی اب میں کیا کہوں آپ خود صاحب خرد ہیں
جناب محسن صاحب یہ صرف جواب برائے جواب تھا یا آپ اسے الزامی جواب کہ لیجئے کہ اگر تاریخ ہی کو معیار مانا جائے تو زیادہ وجوہ تشبیہ واقعہ کربلا کے ساتھ پائی جاتی ہیں ، نہ کے خارجیوں کے ساتھ ، ورنہ میرے نزدیک تو لال مسجد والے بھی پاگل ہیں اور جنرل پرویز مشرف بھی، جو انسانی جانوں سے اس طرح کھیل رہے ہیں ، ویسے میرا تعلق حیدرآباد دکن انڈیا سے ہے اس لئے ذاتی طور پر مجھے پرویز مشرف سے کوئی عداوت نہیں ہے ،در اصل جو شخص بھی غیر جانبدارانہ حالات کا تجزیہ کرے گا وہ اسی نتیجہ پر پہونچے گا کہ ،مقاصد سے قطع نظر ، دونوں سے طریقہ کار اور حکمت عملی متعین کرنے میں انتہای فاش غلطیاں ہوئی ہیں جس کے "دور رس اثرات" مرتب ہونگے
 

سید ابرار

محفلین
سید ابرار آپ نے لال مسجد والوں کو حضرت حسین سے تشبیہ دے ڈالی اب میں کیا کہوں آپ خود صاحب خرد ہیں
جناب محسن صاحب یہ صرف جواب برائے جواب تھا یا آپ اسے الزامی جواب کہ لیجئے کہ اگر تاریخ ہی کو معیار مانا جائے تو زیادہ وجوہ تشبیہ واقعہ کربلا کے ساتھ پائی جاتی ہیں ، نہ کے خارجیوں کے ساتھ ، ورنہ میرے نزدیک تو لال مسجد والے بھی پاگل ہیں اور جنرل پرویز مشرف بھی، جو انسانی جانوں سے اس طرح کھیل رہے ہیں ، ویسے میرا تعلق حیدرآباد دکن انڈیا سے ہے اس لئے ذاتی طور پر مجھے پرویز مشرف سے کوئی عداوت نہیں ہے ،در اصل جو شخص بھی غیر جانبدارانہ حالات کا تجزیہ کرے گا وہ اسی نتیجہ پر پہونچے گا کہ ،مقاصد سے قطع نظر ، دونوں سے طریقہ کار اور حکمت عملی متعین کرنے میں انتہای فاش غلطیاں ہوئی ہیں جس کے "دور رس اثرات" مرتب ہونگے
 
Top