لانگ مارچ اتوار کی صبح نو بجے شروع ہوگا

طالوت

محفلین
جی درست فرمایا آپ نے۔ بدقسمتی سے پراپگینڈے کے نام پر ہم یہودیوں کے نقش قدم پر ہیں کہ جھوٹ ارنا بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے۔
لانگ مارچ ڈیکلریشن پڑھتے ہیں کہ آخر اتنی جھک جھک کے بعد حاصل کیا ہوا۔

شکریہ الف نظامی اسی کا انتظار تھا۔
 

arifkarim

معطل
جی درست فرمایا آپ نے۔ بدقسمتی سے پراپگینڈے کے نام پر ہم یہودیوں کے نقش قدم پر ہیں کہ جھوٹ ارنا بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے۔
چنداں جنونی صیہونیوں کو بنیاد بنا کر دنیا کے تمام یہودیوں پر جھوٹے الزام لگانا کی کیا منطق ہے؟ کیا تمام یہودی جھوٹ بولتے ہیں؟ حد ہوتی ہے پراپیگنڈا کی بھی!
 

شمشاد

لائبریرین
اور یہ بھی کہ "الیکشن ہی فلٹریشن ہے"
دھرنا گند ہی گند ہے۔ لہذا دھرنا نامنظور
خان صاحب مانا کہ آپ بہت عقلمند ہیں، بہت پڑھے لکھے ہیں اور درس و تدریس سے وابستہ ہیں لیکن الفاظ کا چناؤ شخصیت کا آیئنہ ہوتا ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اگر دھرنے میں شریک افراد کو "بے وقوف" بھی بنایا گیا ہو تب بھی وہ ہمارے لیے نہایت "محترم" ہیں ۔۔۔ ان کی نیک نیتی اور خلوص پر شبہ کرنا مناسب نہیں ہے ۔۔۔
 
خان صاحب مانا کہ آپ بہت عقلمند ہیں، بہت پڑھے لکھے ہیں اور درس و تدریس سے وابستہ ہیں لیکن الفاظ کا چناؤ شخصیت کا آیئنہ ہوتا ہے۔
متفق ہوں

پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی رائے پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے اندھی عقیدت مند لوگ اسلام اباد کو یرغمال بنانے کے لیے اگئے۔ یہ تو تعفن زدہ حرکت ہے۔

بہرحال اچھا ہی ہوا کہ منہاج القران کی اصلیت پہچانی گئی۔ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے غلط بیانی اور گمراہ کن حرکات پہچانی گئی۔

قوم اب سیاست میں ان مذہبی لیڈروں کی مداخلت برداشت نہیں کرسکتی۔

ریاست بچاو۔ سیاست سے مذہب ہٹاو۔ یہ نعرہ ہونا چاہیےاب
 

ساجد

محفلین
ریاست بچاو۔ سیاست سے مذہب ہٹاو۔ یہ نعرہ ہونا چاہیےاب
آپ کا سابقہ مؤقف اس بات پر ادھار کھائے بیٹھا ہے کہ جبکہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوا اس لئے اس کے حصے بخرے کر دینے چاہئیں اور آج آپ مذہب ہٹاؤ کے نام پر ایک اور قلابازی مار گئے۔
 
130118060233_1.jpg


منہاج القران کے دھرنے کے بعد ڈی چوک کوڑا چوک بن گیا بی بی سی
 
آپ کا سابقہ مؤقف اس بات پر ادھار کھائے بیٹھا ہے کہ جبکہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوا اس لئے اس کے حصے بخرے کر دینے چاہئیں اور آج آپ مذہب ہٹاؤ کے نام پر ایک اور قلابازی مار گئے۔

ساجد
نو ریپلائی ٹو یو۔
اپ کے کمنٹز تعصب زدہ ہیں۔
 
ریاست کے ائین کے لیے اصول دین سے اخذ کیے جاسکتے ہیں
مگر مذہبی سیاست پر پابندی ہونی چاہیے۔ خصوصا این جی اوز اور مسلکی گروپسز کے سیاست میں حصہ لینے یا پریشر گروپس کی طرح عمل کرنے سے پاکستان کی ریاست کچھ اچھے نتائج حاصل نہیں کرپائی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اسلام آباد … عمران خان نے کہا ہے کہ لانگ مارچ میں شرکت کرکے حکومت کو سیاسی شہید نہیں بناسکتے تھے، اتحاد کیلئے طاہر القادری سے بات کرسکتے ہیں، شفاف انتخابات کیلئے صدر زرداری کا مستعفی ہونا ضروری ہے ۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ انتخابات کا کسی صورت میں بائیکاٹ نہیں کریں گے، اتحاد کیلئے طاہرالقادری کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں، مجھے نہیں پتا کہ طاہر القادری کی جماعت انتخابات میں حصہ لے گی یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ طاہر القادری سے مذاکرات میں کئی اچھی باتیں کی گئیں، طاہر القادری سے کی گئی اچھی باتوں پر عملدرآمد کیسے کیا جائے گا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ لانگ مارچ میں شرکت کرکے حکومت کو سیاسی شہید نہیں بناسکتے تھے، شفاف انتخابات کیلئے صدر زرداری کا مستعفی ہونا ضروری ہے۔

تبصرہ:
لانگ مارچ اور سیاسی شہید
آپ سمجھ رہے تھے کہ شاید لانگ مارچ تشدد کا راستہ اپنائے گا اور فوج مداخلت کرئے گی جس کے نتیجہ میں حکومت سیاسی شہید ہو کر مظلوم بن جائے گی
لیکن!
حکومت کو سیاسی شہید تو ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی نہیں کیا اور پرامن لانگ مارچ و دھرنا دیا اور حکومت کو انتخابی اصلاحات پر عمل در آمد کے لیے معاہدہ کرنے پر مجبور کیا۔
معاہدہ کے نکات پر عمل در آمد
اب بھی اگر آپ بھی آرٹیکل 62 63 اور 218(3) اور سپریم کورٹ کے انتخابی اصلاحات کے فیصلہ کے نفاذ کی بات پوری شدت سے کریں اور حکومت پر پریشر ڈالیں تو عملدرآمد ضرور ہوگا اور اس کا سیاسی فائدہ بھی آپ کو ہوگا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
دھرنے کی وجہ سے اپوزیشن نے کرپشن، نااہلی، غیرذمہ داری اوربے ضابطگی کی کیچڑ میں لت پت حکومت کو اپنا کندھا پیش کیا تاکہ وہ مضبوط پوزیشن کے ساتھ طاہر القادری سے مذاکرات کرسکے۔ ملی بھگت اور مک مکا معلوم نہیں اس کے سوا کس چڑیا کا نام ہے۔ بدھ کے روز مذہبی و غیر مذہبی اپوزیشن نے اپنا وزن ظلم، زیادتی، ناانصافی، جبر و استحصال، لاقانونیت، بدامنی اور دھن دھونس دھاندلی کے پلڑے میں ڈال کر اپنے آپ کو ایکسپوز کیا۔ طاہر القادری کی مخالفت میں کسی کو یہ توفیق تک نہ ہوئی کہ دس نکاتی اعلامیہ میں ایک پیرا آئین کے آرٹیکل 63,62,218پر عملدآمد کے سلسلے میں ڈال دیتے گویا یہ سب کے سب جعلی ڈگری ہولڈرز، ٹیکس چوروں، قرضہ خوروں، جرائم پیشہ افراد پر مشتمل پارلیمینٹ کے حق میں نہیں اور انہیں موجودہ انتخابی نظام میں اصلاح سے اختلاف ہے کم از کم سید منور حسن، علامہ ساجد میر اور قاری زوار بہادر کو اس پر زور دینا چاہئے تھا۔ حضرت مولانا فضل الرحمن تو صادق و امین کی شرط کو ضیاء الحق کا تحفہ سمجھتے ہیں۔
عمران خان اور تحریک انصاف نے لانگ مارچ اور دھرنا کے مقاصد سے اتفاق کے باوجود شریک نہ ہو کر نوجوان کارکنوں اور ووٹروں کو مایوس کیا۔ پی ٹی آئی میں فیصلہ سازی کا عمل خراب اور سست ہونے کا تاثر ابھرا اور بالواسطہ طور پر سٹیٹس کو کے حامی لیڈروں کی مانی گئی۔ تنہا پرواز کے اسی شوق نے ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی راہ کھوٹی کی اور اب بعض لوگ عمران خان کو اسی راستے پر چلانے کے خواہشمند ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ اگر خدانخواستہ نوجوان نسل کو پرامن تبدیلی کی راہیں مسدود نظر آئیں تو وہ انتہا پسندی کی راہ پر چل کر کیا قیامت ڈھا سکتے ہیں۔ عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کا فون نہ سن کر جو غلطی کی اب اس کا ازالہ رابطے میں پہل کے ذریعے کرنا چاہئے یہی تحریک انصاف کی ضرورت اور نوجوانوں کی آرزو ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
علامہ صاحب اگر عمران خان صاحب سے اتحاد کریں گے تو کافی دل چسپ "کہانی" بن جائے گی ۔۔۔ "طالبان" کے حوالے سے دونوں کی سوچ میں کافی فرق پایا جاتا ہے ۔۔۔ اس اتحاد سے عمران خان پنجاب میں مزید مقبول ہو سکتے ہیں لیکن خیبر پختون خواہ میں ان کی مقبولیت میں کمی ہونے کا امکان ہے ۔۔۔ البتہ علامہ صاحب کے لیے ہر صورت میں یہ اتحاد فائدہ مند ثابت ہو گا ۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
لاریب ڈاکٹر طاہر القادری نے تندوتیز مخالف ہواﺅں کے باوجود منظم پر امن اورکامیاب تاریخی لانگ مارچ کرکے سیاسی معجزہ کردکھایا ہے۔ 23 دسمبر مینار پاکستان کے عظیم اجتماع سے لیکر 17 جنوری اسلام آباد ڈیکلریشن تک کا سیاسی سفر ہماری تاریخ کا نیا سنہری باب بن گیا ہے جسے تنہا ڈاکٹر طاہرالقادری نے تحریر اور تخلیق کیا ہے۔ انہوں نے دنیا کے نوے ملکوں میں اسلامی مراکز قائم کرکے پاکستان کے ہرشہر میں تحریک مہناج القرآن کی شاخیں کھول کر اور تعلیمی ادارے قائم کرکے اور اسلامی تاریخ اور قرآن و سیرت پر سینکڑوں کتب تحریر کرکے اسلامی اور دینی مفکر کی حیثیت سے پہلے ہی منفرد مقام حاصل کرلیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب واحد مذہبی سکالر اور رہنما ہیں جنہوں نے اصل اسلام کی روح کے عین مطابق طالبان کے خودکش حملوں کیخلاف مفصل اور جامع فتویٰ دیا۔ اب انہوں نے تنہا نتیجہ خیز مثالی لانگ مارچ کرکے کامیاب سیاستدان کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوالیا ہے۔ کرپٹ سیاسی مافیا نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ ان کیخلاف کردار کشی کی مہم چلائی گئی۔ ان کو بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ ان کو پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ جوڑا گیا مگروہ نامساعد حالات کے باوجود ثابت قدمی کیساتھ ڈٹے رہے۔ ان کو اپنے موقف اور ایجنڈے کی صداقت پر پورا یقین تھا۔ انہوں نے وقت کا درست انتخاب کیا۔ ان کی نیت نیک تھی خدا اور مخلوق خدا نے ان کو سرخرو کیا۔

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دئیے ہیں اندازِ خسروانہ​

دلی مبارکباد کے مستحق ہیں وہ ہزاروں افتادگان خاک جو سخت سردی اور بارش کے باوجود لانگ مارچ میں شریک ہوئے اور خوف و ہراس کے باوجود اسلام آباد کی ٹھنڈی سڑکوں پر ڈٹے رہے۔ لانگ مارچ کے شرکاءنوجوان ،بزرگ ، خواتین اور بچے حقیقی جمہوریت کے ہیرو ہیں جنہوں نے اشتعال کے باوجود مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ قائداعظم نے قوم کو امن، ڈسپلن، تنظیم، اتحاد اور یقین محکم کا پیغام دیا تھا۔ لانگ مارچ کے شرکاءنے قائد کے اس پیغام پر عمل کرکے سیاسی جماعتوں کیلئے روشن ماڈل پیش کیا ہے۔ میڈیا بھی مبارکباد کا مستحق ہے جو عوام کے ساتھ کھڑا رہا۔ لانگ مارچ کے شرکاءنے پر امن رہ کر دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر کیا ہے۔ رب کائنات کا یہ فرمان ایک بار پھر درست ثابت ہوا کہ عوام حرکت کریں تو خدا اس میں برکت ڈالتا ہے۔ لانگ مارچ کے شرکاءکی نیت نیک تھی اور ان کامقصد مقدس تھا لہذا خالق نے اپنی مخلوق کو شیطانی ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھا اور شیطان عوام کی عدالت میں مردود ٹھہرا۔ دھرنے کے دوران ڈاکٹر طاہرالقادری کے انقلابی سیاسی خطبے یادگار رہیں گے۔ انکے آئینی اور جمہوری خطبات نے کروڑوں پاکستانیوں کے ذہنوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے پاکستان اور عوام کا مقدمہ بڑی مہارت، آئین اور قوانین کے مستند حوالوں اور دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ اس طرح وہ عوام کے کامیاب وکیل کے طور پر سیاسی منظر پر نمودار ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے سٹیٹس کو کے حامیوں ، کرپٹ سیاستدانوں کو عوام کے سامنے ایکسپوز کرکے رکھ دیا ہے۔ سیاسی ڈاکو چور لٹیرے پہلی بار عوام کی عدالت میں بے نقاب ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے انٹرنیشنل کمیونٹی، پاکستان کے عوام اور مقتدر قوتوں پر واضح کردیا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں عوام کو بہتر قیادت فراہم کرسکتے ہیں۔ پر امن لانگ مارچ کی کامیابی کے بعد پاکستان کے سیاستدان اب انکے سامنے بونے لگنے لگے ہیں۔ افسوس عمران خان وقت پر سیاسی تدبر اور بصیرت کا مظاہرہ نہ کرسکے اور ایجنڈے پر متفق ہونے کے باوجود عوامی لانگ مارچ سے الگ تھلگ رہے۔ اب بھی اگر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان انتخابی اتحاد کرلیں تو عوام کو کرپٹ سیاستدانوں سے نجات مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے دہشت گردوں پر یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر نیت نیک ہو اور مشن مقدس ہو تو جنگ امن کے ہتھیار سے بھی جیتی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے غریب عوام کو مکمل انقلاب کا راستہ دکھادیا ہے۔ اگر آنیوالے انتخاب میں ووٹ کے ذریعے عوام کا مقدر تبدیل نہ ہوا تو عوامی طاقت سے مکمل انقلاب برپا کرکے پاکستانی سیاست کا قبلہ درست کیا جائیگا۔ لانگ مارچ کی کامیابی کے بعد مکمل انقلاب کے امکانات اب روشن ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کرپٹ مافیا کیخلاف جہاد کررہے ہیں۔ یہ کرپٹ مافیا ان کو سیاسی منظر سے ہٹانے کی کوشش کریگا۔ خدا ان کا حامی و ناصر ہو۔ ان کو اب کینڈین شہریت ترک کرکے انتخابات کی تیاری شروع کردینی چاہیئے تاکہ ان کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک ہم خیال جماعتوں سے اتحاد کرکے ایسے اُمیدوار سامنے لاسکے جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورے اُترتے ہوں۔ انتخابات کیلئے نیک نام اور اہل اُمیدوار تلاش کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔ اس کیلئے پوری سنجیدگی کیساتھ کام کرنا ہوگا تاکہ اسلام آباد ڈیکلریشن پر عملدرآمد کیا جاسکے اور لانگ مارچ کے منطقی اور آخری معرکے پولنگ ڈے پر بھی عوام سرخرو ہوسکیں۔
جو افراد ڈاکٹر طاہرالقادری کا تمسخر اُڑاتے تھے وہ آخر کار عوامی طاقت کے سامنے سرینڈر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے تنہا دس رکنی حکومتی وفد سے کامیاب مذاکرات کرکے اپنا مقدمہ جیت لیا اور مطالبات تسلیم کرالیے۔ اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن اب تاریخی دستاویز بن گیا ہے جسے امن، جمہوریت، آئین، عوام اور بصیرت کی فتح سے منسوب کیا جائیگا۔ ڈیکلریشن کے متن کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیاں 16 مارچ سے قبل تحلیل کردی جائیں گی تاکہ الیکشن کمیشن کو اُمیدواروں کی سکروٹنی کیلئے ایک ماہ کا وقت مل سکے۔ اگر اسمبلیاں آئینی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہوتیں تو آئین کے مطابق 60 روز کے اندر انتخابات کرانے پڑتے۔ اب معاہدہ کیمطابق 90 روز میں انتخابات ہوں گے۔ ڈیکلریشن کیمطابق آئین کے آرٹیکل نمبر 62، 63 ، 218/3 اور 1976ءکے عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 77 سے 82 اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کیا جائیگا۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کیلئے مذاکرات ہونگے اور نگران وزیراعظم کا انتخاب ڈاکٹر طاہرالقادری کی مشاورت اور مکمل اتفاق رائے سے ہوگا۔ اگر الیکشن کمیشن نے اپنی قومی ذمے داری پوری کی تو پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار ٹیکس چور، قرضہ خور، جعلی ڈگری ہولڈرز اور جرائم میں ملوث افراد انتخابات سے باہر ہوجائینگے اور نیک نام تعلیم یافتہ افراد کیلئے مواقع پیدا ہونگے۔ طاقتور کرپٹ عناصر اسلام آباد ڈیکلریشن کو منسوخ کرانے یا اس پر عملدرآمد نہ کرانے کی کوشش کرینگے۔ اب یہ پڑھے لکھے نیک نام افراد کی ذمے داری ہے کہ وہ عوامی ڈیکلریشن پر پہرہ دے کر کرپٹ عناصر کی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔ جس طرح حکومتی اتحاد نے دانائی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کے آئینی مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے اسی طرح سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کو بھی عوامی فتح کو دل سے قبول کرکے اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دینا چاہئے۔ میاں نواز شریف نے بروقت اپوزیشن جماعتوں کا رائے ونڈ میں اجلاس بلا کر جمہوریت کے ساتھ کمٹ مینٹ کا اظہار کرکے غیر سیاسی قوتوں کو واضح اور دو ٹوک پیغام بھیجا۔ تاریخی لانگ مارچ سے یہ ثابت ہوا ۔۔۔

ظلم کی جب اجارہ داری ہو
التجاوں سے کچھ نہیں ہوتا
حکمران جب شکست خوردہ ہوں
پھر دعاوں سے کچھ نہیں ہوتا​
 
Top