لاریب ڈاکٹر طاہر القادری نے تندوتیز مخالف ہواﺅں کے باوجود منظم پر امن اورکامیاب تاریخی لانگ مارچ کرکے سیاسی معجزہ کردکھایا ہے۔ 23 دسمبر مینار پاکستان کے عظیم اجتماع سے لیکر 17 جنوری اسلام آباد ڈیکلریشن تک کا سیاسی سفر ہماری تاریخ کا نیا سنہری باب بن گیا ہے جسے تنہا ڈاکٹر طاہرالقادری نے تحریر اور تخلیق کیا ہے۔ انہوں نے دنیا کے نوے ملکوں میں اسلامی مراکز قائم کرکے پاکستان کے ہرشہر میں تحریک مہناج القرآن کی شاخیں کھول کر اور تعلیمی ادارے قائم کرکے اور اسلامی تاریخ اور قرآن و سیرت پر سینکڑوں کتب تحریر کرکے اسلامی اور دینی مفکر کی حیثیت سے پہلے ہی منفرد مقام حاصل کرلیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب واحد مذہبی سکالر اور رہنما ہیں جنہوں نے اصل اسلام کی روح کے عین مطابق طالبان کے خودکش حملوں کیخلاف مفصل اور جامع فتویٰ دیا۔ اب انہوں نے تنہا نتیجہ خیز مثالی لانگ مارچ کرکے کامیاب سیاستدان کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوالیا ہے۔ کرپٹ سیاسی مافیا نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ ان کیخلاف کردار کشی کی مہم چلائی گئی۔ ان کو بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ ان کو پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ جوڑا گیا مگروہ نامساعد حالات کے باوجود ثابت قدمی کیساتھ ڈٹے رہے۔ ان کو اپنے موقف اور ایجنڈے کی صداقت پر پورا یقین تھا۔ انہوں نے وقت کا درست انتخاب کیا۔ ان کی نیت نیک تھی خدا اور مخلوق خدا نے ان کو سرخرو کیا۔
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دئیے ہیں اندازِ خسروانہ
دلی مبارکباد کے مستحق ہیں وہ ہزاروں افتادگان خاک جو سخت سردی اور بارش کے باوجود لانگ مارچ میں شریک ہوئے اور خوف و ہراس کے باوجود اسلام آباد کی ٹھنڈی سڑکوں پر ڈٹے رہے۔ لانگ مارچ کے شرکاءنوجوان ،بزرگ ، خواتین اور بچے حقیقی جمہوریت کے ہیرو ہیں جنہوں نے اشتعال کے باوجود مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ قائداعظم نے قوم کو امن، ڈسپلن، تنظیم، اتحاد اور یقین محکم کا پیغام دیا تھا۔ لانگ مارچ کے شرکاءنے قائد کے اس پیغام پر عمل کرکے سیاسی جماعتوں کیلئے روشن ماڈل پیش کیا ہے۔ میڈیا بھی مبارکباد کا مستحق ہے جو عوام کے ساتھ کھڑا رہا۔ لانگ مارچ کے شرکاءنے پر امن رہ کر دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر کیا ہے۔ رب کائنات کا یہ فرمان ایک بار پھر درست ثابت ہوا کہ عوام حرکت کریں تو خدا اس میں برکت ڈالتا ہے۔ لانگ مارچ کے شرکاءکی نیت نیک تھی اور ان کامقصد مقدس تھا لہذا خالق نے اپنی مخلوق کو شیطانی ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھا اور شیطان عوام کی عدالت میں مردود ٹھہرا۔ دھرنے کے دوران ڈاکٹر طاہرالقادری کے انقلابی سیاسی خطبے یادگار رہیں گے۔ انکے آئینی اور جمہوری خطبات نے کروڑوں پاکستانیوں کے ذہنوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے پاکستان اور عوام کا مقدمہ بڑی مہارت، آئین اور قوانین کے مستند حوالوں اور دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ اس طرح وہ عوام کے کامیاب وکیل کے طور پر سیاسی منظر پر نمودار ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے سٹیٹس کو کے حامیوں ، کرپٹ سیاستدانوں کو عوام کے سامنے ایکسپوز کرکے رکھ دیا ہے۔ سیاسی ڈاکو چور لٹیرے پہلی بار عوام کی عدالت میں بے نقاب ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے انٹرنیشنل کمیونٹی، پاکستان کے عوام اور مقتدر قوتوں پر واضح کردیا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں عوام کو بہتر قیادت فراہم کرسکتے ہیں۔ پر امن لانگ مارچ کی کامیابی کے بعد پاکستان کے سیاستدان اب انکے سامنے بونے لگنے لگے ہیں۔
افسوس عمران خان وقت پر سیاسی تدبر اور بصیرت کا مظاہرہ نہ کرسکے اور ایجنڈے پر متفق ہونے کے باوجود عوامی لانگ مارچ سے الگ تھلگ رہے۔ اب بھی اگر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان انتخابی اتحاد کرلیں تو عوام کو کرپٹ سیاستدانوں سے نجات مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے دہشت گردوں پر یہ ثابت کردیا ہے کہ
اگر نیت نیک ہو اور مشن مقدس ہو تو جنگ امن کے ہتھیار سے بھی جیتی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے غریب عوام کو مکمل انقلاب کا راستہ دکھادیا ہے۔ اگر آنیوالے انتخاب میں ووٹ کے ذریعے عوام کا مقدر تبدیل نہ ہوا تو عوامی طاقت سے مکمل انقلاب برپا کرکے پاکستانی سیاست کا قبلہ درست کیا جائیگا۔ لانگ مارچ کی کامیابی کے بعد مکمل انقلاب کے امکانات اب روشن ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کرپٹ مافیا کیخلاف جہاد کررہے ہیں۔ یہ کرپٹ مافیا ان کو سیاسی منظر سے ہٹانے کی کوشش کریگا۔ خدا ان کا حامی و ناصر ہو۔ ان کو اب کینڈین شہریت ترک کرکے انتخابات کی تیاری شروع کردینی چاہیئے تاکہ ان کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک ہم خیال جماعتوں سے اتحاد کرکے ایسے اُمیدوار سامنے لاسکے جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورے اُترتے ہوں۔ انتخابات کیلئے نیک نام اور اہل اُمیدوار تلاش کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔ اس کیلئے پوری سنجیدگی کیساتھ کام کرنا ہوگا تاکہ اسلام آباد ڈیکلریشن پر عملدرآمد کیا جاسکے اور لانگ مارچ کے منطقی اور آخری معرکے پولنگ ڈے پر بھی عوام سرخرو ہوسکیں۔
جو افراد ڈاکٹر طاہرالقادری کا تمسخر اُڑاتے تھے وہ آخر کار عوامی طاقت کے سامنے سرینڈر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے تنہا دس رکنی حکومتی وفد سے کامیاب مذاکرات کرکے اپنا مقدمہ جیت لیا اور مطالبات تسلیم کرالیے۔ اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن اب تاریخی دستاویز بن گیا ہے جسے امن، جمہوریت، آئین، عوام اور بصیرت کی فتح سے منسوب کیا جائیگا۔
ڈیکلریشن کے متن کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیاں 16 مارچ سے قبل تحلیل کردی جائیں گی تاکہ الیکشن کمیشن کو اُمیدواروں کی سکروٹنی کیلئے ایک ماہ کا وقت مل سکے۔ اگر اسمبلیاں آئینی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہوتیں تو آئین کے مطابق 60 روز کے اندر انتخابات کرانے پڑتے۔ اب معاہدہ کیمطابق 90 روز میں انتخابات ہوں گے۔ ڈیکلریشن کیمطابق آئین کے آرٹیکل نمبر 62، 63 ، 218/3 اور 1976ءکے عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 77 سے 82 اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کیا جائیگا۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کیلئے مذاکرات ہونگے اور نگران وزیراعظم کا انتخاب ڈاکٹر طاہرالقادری کی مشاورت اور مکمل اتفاق رائے سے ہوگا۔
اگر الیکشن کمیشن نے اپنی قومی ذمے داری پوری کی تو پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار ٹیکس چور، قرضہ خور، جعلی ڈگری ہولڈرز اور جرائم میں ملوث افراد انتخابات سے باہر ہوجائینگے اور نیک نام تعلیم یافتہ افراد کیلئے مواقع پیدا ہونگے۔ طاقتور کرپٹ عناصر اسلام آباد ڈیکلریشن کو منسوخ کرانے یا اس پر عملدرآمد نہ کرانے کی کوشش کرینگے۔ اب یہ پڑھے لکھے نیک نام افراد کی ذمے داری ہے کہ وہ عوامی ڈیکلریشن پر پہرہ دے کر کرپٹ عناصر کی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔ جس طرح حکومتی اتحاد نے دانائی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کے آئینی مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے اسی طرح سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کو بھی عوامی فتح کو دل سے قبول کرکے اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دینا چاہئے۔ میاں نواز شریف نے بروقت اپوزیشن جماعتوں کا رائے ونڈ میں اجلاس بلا کر جمہوریت کے ساتھ کمٹ مینٹ کا اظہار کرکے غیر سیاسی قوتوں کو واضح اور دو ٹوک پیغام بھیجا۔ تاریخی لانگ مارچ سے یہ ثابت ہوا ۔۔۔
ظلم کی جب اجارہ داری ہو
التجاوں سے کچھ نہیں ہوتا
حکمران جب شکست خوردہ ہوں
پھر دعاوں سے کچھ نہیں ہوتا