ہمارے سیاسی میدان میں جہاں ہر طرف ’’انتخابات ہی ہمارے مسائل کا حل ہیں‘‘ کے نعرے بلند ہورہے ہیں، طاہر القادری کی آمد سے بھونچال آگیا ہے۔ طاہر القادری نے اپنے نئے سیاسی سفر کا آغاز 23 دسمبر کو مینار پاکستان سے کیا۔ مینار پاکستان کے اردگرد بیسیوں میل دور تک لاکھوں انسانوں کا جو سیلاب امنڈ آیا تھا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے۔ اس سیلاب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے جو مطالبات کیے ہیں جو اعلانات کیے ہیں وہ کسی حوالے سے بھی نئے نہیں ہیں لیکن ان مطالبات ان اعلانات کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ یہ اعلانات یہ مطالبات پاکستان کی سیاست کے ساکت سمندر میں جوار بھاٹا بن گئے ہیں۔
مولانا نے موجودہ انتخابی نظام میں ایسی اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے جن سے انتخابی سیاست سے چند خاندانوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوسکے۔ مولانا نے ملک میں 65 سال سے سایہ فگن جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ مولانا نے اعلیٰ سطحی کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ مولانا نے پاکستانی سیاست پر مسلط خاندانی حکمرانیوں کے خاتمے کی بات کی ہے۔ مولانا نے ایسی جمہوریت لانے کا اعلان کیا ہے جس میں مٹھی بھر ایلیٹ کے بجائے ملک کے مزدوروں، کسانوں، مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے باصلاحیت لوگوں کو برتری حاصل ہو۔
میں نے ان مطالبات ان بیانات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا ہے مجھے ان مطالبات میں سے ایک بھی مطالبہ نہ غلط لگا نہ عوامی مفادات سے متصادم لگا۔ مولانا پر سخت تنقید کرنے والے سیاسی رہنما اور ٹی وی دانشور بھی ان مطالبات کے برحق ہونے پر اعتراض نہیں کر رہے ہیں۔ مولانا کے مخالفین کا موقف یہ ہے کہ مولانا ملک کی انتخابی فضا میں اچانک ٹارزن کی طرح اس وقت کیوں کود پڑے ہیں جب انتخابات لب بام رہ گئے ہیں۔ مولانا پر اس حوالے سے جو تنقید کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ مولانا ملک میں موجود جمہوری نظام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، دوسرا الزام مولانا پر یہ ہے کہ مولانا کوئی بڑا سیاسی ایجنڈا لے کر آئے ہیں، مولانا پر تیسرا الزام یہ ہے کہ مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے کی فنانسنگ بعض خفیہ ہاتھ کر رہے ہیں، کچھ لوگ بہ بانگ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ مولانا کو اس جلسے کے لیے ایک بھاری رقم آصف علی زرداری نے مہیا کی ہے جس کا مقصد پنجاب میں میاں برادران کے ووٹ بینک کو توڑنا ہے۔ میاں برادران کے نو رتن مولانا کو ایک مداری اور شعبدہ باز کہہ رہے ہیں، ان کا یہ کہنا بھی ہے کہ روایتی خفیہ ہاتھ ملک میں موجود جمہوری نظام کا تیا پانچہ کرنا چاہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
ہماری سیاست میں سیاسی ٹارزنوں کی آمد کوئی نئی بات نہیں اور اس حوالے سے مولانا کی اچانک سیاست میں طوفان کی طرح انٹری پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی کوئی غیرمنطقی نہیں۔ ہم فرض کرلیتے ہیں کہ مولانا کسی بڑے سیاسی ایجنڈے کے ساتھ میدان سیاست میں وارد ہوئے ہیں۔ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مولانا کسی خفیہ ہاتھ کے اشارے پر پاکستان آئے ہیں، ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مولانا کی کوئی فنڈنگ کر رہا ہے، ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا کے لانگ مارچ سے انتخابات ملتوی ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے، ہم اس الزام کو بھی من و عن قبول کرلیتے ہیں کہ مولانا کے منصوبوں سے جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اتر سکتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ مولانا جو مطالبات کر رہے ہیں، جو بیانات دے رہے ہیں کیا وہ غلط ہیں؟
مثلاً مولانا کا مطالبہ ہے کہ ہمارے طریقہ انتخاب میں عام آدمی مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے حصہ لینے کا کوئی امکان ہی نہیں کہ وہ 20-10 کروڑ روپے اپنی انتخابی مہم پر خرچ کرسکتا ہے، نہ قانون ساز اداروں میں پہنچ سکتا ہے۔ مثلاً مولانا جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سیاست میں جاگیردارانہ نظام 65 برسوں سے سانپ کی طرح پھن نکالے کھڑا ہے کسی ’’ایرے غیرے‘‘ کو سیاست کے قریب آنے نہیں دیتا۔ ہمارے قانون ساز اداروں میں ہماری اسمبلیوں میں یہی طبقہ قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ طاہر القادری ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اعلیٰ سطحی اربوں کھربوں کی کرپشن نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے ملک کی معاشی بدحالی کی ایک بڑی وجہ کرپشن ہے۔
وہ کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں؟ وہ ملکی سیاست سے خاندانی حکمرانی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ان کا یہ مطالبہ کس حوالے سے جمہوریت کی نفی کرتا ہے؟ اور اگر ایسی جمہوریت کی بات کرتے ہیں جس میں عوام کو بالادستی حاصل ہو تو یہ مطالبہ کس طرح جمہوریت دشمن کہلاسکتا ہے؟ طاہر القادری اگر ملک میں طاعون کی طرح پھیلی ہوئی دہشت گردی کے سخت خلاف ہیں تو ان کا یہ مطالبہ کس طرح ناجائز ہے؟ اگر مذہبی انتہاپسندی کی مخالفت کرتے ہیں تو کیا یہ غلط کرتے ہیں؟
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ مولانا کا کوئی مطالبہ غلط یا صحیح ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مولانا کے یہ مطالبے لب بام رہ جانے والے انتخابات میں کھنڈت ڈال رہے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مولانا کے لانگ یا شارٹ مارچ سے اپریل یا مئی میں ہونے والے انتخابات کا انعقاد خطرے میں پڑسکتا ہے اور یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کے خوف سے سارے سیاستدانوں، سارے مذہبی رہنماؤں، سارے میڈیائی جمہوریت پسند دانشوروں کو اختلاف ہے ان میں اکابرین کا خیال ہے کہ جمہوریت کی گاڑی ڈی ریل ہوجائے گی۔
جیساکہ ہم نے پہلے مان لیا ہے کہ مولانا پر لگائے جانے والے سارے الزامات ہوسکتا ہے درست ہوں،
لیکن ہمارا پھر وہی سوال ہے کہ مولانا جو مطالبات کر رہے ہیں ان میں ایک مطالبہ بھی غلط نہیں بلکہ یہ سارے مطالبات 65 سال سے کیے جارہے ہیں خود ہماری سیاسی اور قلمی زندگی کا ایک بڑا حصہ ان ہی مطالبات کی حمایت کرتے گزرا ہے۔ اس ملک میں جمہوریت کو متعارف کرانے والے پہلے سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ملک میں مزدور کسان راج کی بات کی تھی اس ملک کی ساری ترقی پسند جماعتیں 65 برسوں سے یہی مطالبات دہرا رہی ہیں۔ لیکن ان مطالبات کی اس شدت سے مخالفت اس لیے نہیں کی جارہی تھی کہ اس قسم کے مطالبات کرنے والے اپنے ان مطالبات کو ایک بڑی تحریک نہیں بناسکے تھے۔
آج ان مطالبات کی اس شدت سے مخالفت اس لیے کی جارہی ہے کہ مطالبہ کرنے والے کے ارد گرد اس کے پہلے ہی جلسے میں لاکھوں غریب انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور یہ منطقی مطالبے ایک بڑی تحریک میں بدلتے نظر آرہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو 65 سال سے عوام کے سروں پر مسلط سیاسی مافیا کی ایسی تیسی ہوجائے گی۔
جو سیاست جاگیردارانہ سرمایہ دارانہ نظام کی سرپرستی میں 65 سال سے اس ملک میں کی جارہی ہے کیا اس کا کوئی تعلق عوامی جمہوریت یا جمہوریت پر عوام کی بالادستی سے ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس کے تسلسل کا عوام کو کیا فائدہ ہوسکتاہے؟ اگر 2013 کے انتخابات بروقت ہوجائیں تو کون لوگ کون سی سیاسی جماعتیں برسر اقتدار آئیں گی، اگر ان ہی سیاسی جماعتوں کو برسر اقتدار آنا ہے جو ماضی میں برسر اقتدار رہی ہیں تو عوام کو کیا ملے گا؟ عوام کے مسائل کس طرح حل ہوں گے، کون کرے گا؟
اس قسم کے سوالات عوام کے ذہنوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہے ہیں اور ان ہی سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اس ملک کے غریب عوام ہر اس رہنما کی طرف ہجوم کرتے ہیں جو ان سوالات کے جواب مختلف دلفریب نعروں کی شکل میں لے کر ان کے پاس آتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلا سیاسی رہنما تھا جو روٹی کپڑا ، مکان، مزدور کسان راج کے نعرے لے کر عوام کے سامنے آیا۔ عوام اس کے سامنے فرش راہ بن گئے۔ لیکن بھٹو کے نعروں کو وڈیروں، جاگیرداروں نے صدا بہ صحرا بنا دیا۔ لیکن بھٹو کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کی مختصر سیاسی تاریخ میں پہلی بار عوام کو زبان دی۔ عوام کو ان کی اجتماعی طاقت سے آگاہ کیا، طاہر القادری نے بھٹو کے 35 برس بعد ہماری ساکت سیاست کی جھیل میں انقلاب کا پتھر پھینک کر ایک ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش کو سیاست کی جھیل کے مگرمچھ سازش، دھوکا، اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا وغیرہ کا نام دے رہے ہیں۔
ہم ان الزامات کو درست مان لیتے ہیں لیکن الزامات لگانے والوں سے دوبارہ وہی سوال کرتے ہیں۔ کیا طاہر القادری کا یہ مطالبہ غلط ہے کہ اس ملک سے جاگیردارانہ نظام ختم ہونا چاہیے؟ کیا طاہر القادری کا یہ مطالبہ غلط ہے کہ انتخابی نظام میں تبدیلی ہونی چاہیے؟ کیا طاہر القادری کا یہ مطالبہ غلط ہے کہ اس ملک سے کرپشن ختم ہونی چاہیے؟ کیا طاہر القادری کا یہ مطالبہ غلط ہے کہ اس ملک سے خاندانی سیاست ختم ہونی چاہیے؟اگر یہ مطالبات درست ہیں تو ہمارے سیاستدان ان مطالبات کو اپنے منشور کا حصہ بنالیں اور ان ہی مطالبات کے ساتھ میدان میں آئیں، طاہر القادری کینیڈا واپس بھاگ جائے گا،
لیکن ہمارے خاندانی سیاستدان یہ بات یاد رکھیں کہ اب عوام صرف نعروں سے مطمئن نہیں ہوں گے، اگر عوام کو اب صرف نعروں پر ٹرخانے کی کوشش کی گئی تو عوام ان نعرے بازوں کا حشر محمد قذافی اور حسنی مبارک سے بدتر کر دیں گے۔