یہ موسم کہاں سے اترا ہے؟
فوٹو: فائل
وہ میرے ساتھ کھڑا تھا، ہم دونوں باتیں کر رہے تھے کہ ایک شخص آیا، سلام کیا اور میرے ساتھ باتیں کرنا شروع کر دیں، وہ میرے ساتھ کافی دیر باتیں کرتا رہا، اس دوران میرا دوست خاموش رہا۔
جب وہ شخص چلا گیا تو میرے دوست نے پوچھا کہ یہ بوسیدہ کوٹ والا کون تھا؟ میں نے بتایا کہ یہ بیس پچیس سال پہلے ایک اخبار میں بطور سب ایڈیٹر آیا تھا اور اپنی ’’بھرپور صلاحیتوں‘‘ کے باوجود سب ایڈیٹر سے آگے نہ جا سکا۔بس یہ سب ایڈیٹر بھی پورا ہی تھا۔
دراصل یہ کسی بیورو کریٹ کا بیٹا ہے، ابا جی کی سفارش پر بیٹا اخبار میں بھرتی ہو گیا اور بس پھر اخبار والوں نے بھی یہ بوجھ برداشت کر لیا۔ میرا خیال ہے کہ جو سرکاری افسران اپنی اولادوں کو رزق حرام کھلاتے ہیں ان کی اولادیں ایسی ہی ہوتی ہیں، میں اسے برسوں پہلے دیکھتا تھا، میرا اس کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ تو نہیں کیونکہ میں اخبار کے دوسرے سیکشن میں کام کرتا تھا مگر اس ’’شہزادے‘‘ کے بارے میں اس وقت بھی سنتا تھا کہ یہ ’’شہزادہ‘‘ کئی کئی روز تک نہاتا نہیں، کام اسے آتا نہیں، پتا نہیں لوگ ایسے لوگوں کو دیکھتے بھی ہیں تو عبرت کیوں حاصل نہیں کرتے۔
جو سرکاری افسران اپنی اولادوں کو رزق حرام کھلاتے ہیں ان کی اولادیں ایسی ہی ہوتی ہیں
میرا دوست خاموشی سے میری باتیں سنتا رہا، جونہی گاڑی میں بیٹھا تو اس نے ایک قصہ شروع کر دیا ۔کہنے لگا ’’میں اسلام آباد میں پڑھا ہوں، ہمارا ایک کلاس فیلو بھی ایسا ہی تھا، وہ بھی ایک سینئر بیورو کریٹ کا اکلوتا بیٹا تھا، وہ بھی کئی کئی روز تک نہاتا نہیں تھا، اس کے منہ پر اکثر کھانے پینے کی چیزوں کی نشانیاں لگی ہوتی تھیں، ہم باقی کلاس فیلو کہتے تھے کہ یار تمہیں کوئی تمیز نہیں سکھاتا، کھانے کے بعد منہ صاف کرتے ہیں مگر اس لاڈلے کو ذرہ برابر اثر نہ ہوتا۔
وہ ہمیں بتاتا کہ اس کے باپ نے اس کیلئے پلازہ خرید لیا ہے، پانچ چھ گھر خرید لئے ہیں اور کم و بیش اتنے ہی پلاٹ۔ وقت گزر گیا، اب برسوں بعد یہ صورتحال ہوئی کہ جائیدادیں بنانے والا باپ مر گیا، لاڈلے بیٹے نے جائیدادیں بیچنا شروع کیں، اب اس لاڈے کے پاس نہ پلازہ ہے نہ کوئی گھر اور نہ ہی پلاٹ، سنا ہے کہ اب وہ کرائے کے ایک کمرے میں رہتا ہے۔
بات کرتے کرتے میرے دوست کی آواز رنجیدہ ہوئی، وہ لمحے بھر کیلئے رکا اور پھر بولا سر جی! اگر اولاد ذہین ہو تو اس کے لئے بھی جائیداد نہیں بنانی چاہئے اور اگر نالائق ہو تو اس کے لئے بھی نہیں بنانی چاہئے کیونکہ اگر بچے ذہین اور لائق ہوں گے تو وہ خود بنالیں گے اور اگر کند ذہن اور نالائق ہوں گے تو وہ سنبھال نہیں سکیں گے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے اس نکمے کلاس فیلو کے باپ نے کس کس کو لوٹ کر یقیناً اس میں ملک بھی شامل ہے، کس طرح جائیدادیں بنائی ہوں گی، کس طرح اس نے سوچا ہوگا کہ میرا اکلوتا بیٹا خوش رہے گا، اسے کیا پتا تھا کہ یہ سب کچھ اس کے مرتے ہی بک جائے گا۔ آپ اگر دے سکتے ہیں تو اپنے بچوں کو رزق حلال دیں کیونکہ رزق اپنا آپ دکھاتا ہے۔
میں نے گاڑی کا رخ بودی شاہ کے گھر کی طرف کروا دیا، بودی شاہ میرے ساتھ ایک دوست کو دیکھ کر زیادہ جلالی نہ ہوا۔ ہم نے یہ مقدمہ بودی شاہ کے سامنے رکھا تو وہ بولا پاکستانی معاشرہ بدقسمتی کی تصویر بن گیا ہے۔
دولت کی دوڑ میں انسان اندھے ہو گئے وہ ہر جائز ناجائز طریقے سے دولت حاصل کرنے میں لگ گئے نام نہاد جمہوری لیڈروں نے ملک کو خوب لوٹا۔
چالیس سال پہلے اس معاشرے میں دولت سخیوں کے پاس تھی پھر دولت خسیسوں کے ہاتھوں میں آنا شروع ہو گئی اور پھر اس کے بعد دولت کی دوڑ لگ گئی۔ اس دوڑ میں انسان اندھے ہو گئے وہ ہر جائز ناجائز طریقےسے دولت حاصل کرنے میں لگ گئے نام نہاد جمہوری لیڈروں نے ملک کو خوب لوٹا۔
افسران تنخواہوں سے زیادہ دولت کے مالک بن گئے۔ معاشرے کے کاروباری افراد نے بھی لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا شروع کر دیا، ہر چیز میں ملاوٹ ہونے لگی، ملاوٹ روکنے والے ملاوٹ کرنے والوں کے ساتھ مل گئے۔ اس معاشرے میں کتوں، گدھوں اور مردہ جانوروں کا گوشت بکنے لگا۔
دولت کی دوڑ میں لوگ اخلاقیات کو کچلنا شروع ہو گئے۔ روایات کا درس بھول گئے۔ لوگوں نے ایک دوسرے کا احترام چھوڑ دیا۔ معاشرے کے تمام طبقے ہی زوال پذیر ہو گئے۔ آج کالے اور سفید کوٹ کی لڑائی معاشرے کا منحوس ’’چہرہ‘‘ سامنے لائی ہے۔
یہ دراصل چالیس سالہ فصل کی کٹائی ہے، یہ چالیس سالوں کا ثمر ہے، یہ بے حسی کا موسم چالیس سالہ ہوائوں کے باعث اترا ہے۔ ہم نے چالیس سالوں میں تعلیم کو تجارت بنا دیا۔ لوگ پیسے کے زور پر ڈگریاں لیتے ہیں آج کے بہت سے وکلا، ڈاکٹرز اور دوسرے شعبے کے لوگوں نے تعلیم خریدی ہے، ڈگریاں دولت سے حاصل کی ہیں، آج معاشرے میں اعلیٰ تربیت دینے والے اساتذہ نظر نہیں آتے، پرائیویٹ تعلیم نے سب کچھ ہی تو برباد کر دیا ہے۔
اگر آپ کا معاشرہ سیالکوٹ میں مرنے والے دو لڑکوں کو انصاف دیتا تو حالات یہ نہ ہوتے۔ آپ کو یاد ہے نا کہ سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو بری طرح گھسیٹا گیا تھا، ڈنڈے مار مار کر قتل کر دیا گیا تھا اور لوگوں کا ہجوم ویڈیو بنا رہا تھا۔
اگر تمہارا معاشرہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو سزا دیتا تو یہ حالات نہ ہوتے، اگر تم لوگ قصور میں زیادتی کے پورے نیٹ ورک کو سزا دیتے تو یہ حالات پیش نہ آتے، اگر تم لوگ سانحہ ساہیوال کے مجرموں کو سزا دیتے تو لاہور کے کالے واقعات نہ ہوتے، اگر ناجائز دولت اور رزق حرام کو روکتے تو گیارہ دسمبر کے واقعات پیش نہ آتے۔ اب تو حالات یہ ہیں کہ اظہر سہیل کا پنجابی شعر یاد آتا ہے کہ؎
ویلا خورے کیہڑا نقش مٹا دیوے
مینوں رج کے ویکھ لَو میرے نال دیو
(وقت پتا نہیں کونسا نقش مٹا دے اس لئے میرے ساتھیوں مجھے جی بھر کے دیکھ لو)