لاہور میں وکلاء کا امراض قلب کے اسپتال پر حملہ، آپریشن تھیٹر میں توڑ پھوڑ

جاسم محمد

محفلین
ہسپتال میں روزانہ لوگ مرتے ہیں، آج بھی مر گئے: صدر لاہور ہائیکورٹ بار حفیظ الرحمان چوہدری
12/12/2019 نیوز ڈیسک



صدر لاہور ہائیکورٹ بار حفیظ الرحمان چوہدری کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں روزانہ لوگ مرتے ہیں، آج بھی مر گئے۔ پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال میں آج کوئی بھی مریض وکلاء کی وجہ سے جان کی بازی نہیں ہارا۔

واضح رہے کہ ڈاکٹروں کی جانب سے مبینہ طور پر اشتعال انگیز ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے معاملے پر وکلاء نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا ، ہسپتال کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی۔ علاج معالجہ معطل ہونے سے مبینہ طور پر چھ مریض جاں بحق ہو گئے ،مشتعل وکلاء نے پولیس موبائل کو نذر آتش کردیا اورصوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان اور میڈیا نمائندوں کو بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔

وکلاء نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ویڈیواپ لوڈ کرتے ہوئے پی آئی سی آنے کا چیلنج کیا گیا جس پر بڑی تعداد میں وکلاء لاہور بار سے ریلی کی صورت میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے لئے روانہ ہوئے جس کی وجہ سے شاہراہوں پر ٹریفک کا نظام معطل ہو گیا ۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ موسم کہاں سے اترا ہے؟
210139_9994982_updates.jpg

فوٹو: فائل

وہ میرے ساتھ کھڑا تھا، ہم دونوں باتیں کر رہے تھے کہ ایک شخص آیا، سلام کیا اور میرے ساتھ باتیں کرنا شروع کر دیں، وہ میرے ساتھ کافی دیر باتیں کرتا رہا، اس دوران میرا دوست خاموش رہا۔

جب وہ شخص چلا گیا تو میرے دوست نے پوچھا کہ یہ بوسیدہ کوٹ والا کون تھا؟ میں نے بتایا کہ یہ بیس پچیس سال پہلے ایک اخبار میں بطور سب ایڈیٹر آیا تھا اور اپنی ’’بھرپور صلاحیتوں‘‘ کے باوجود سب ایڈیٹر سے آگے نہ جا سکا۔بس یہ سب ایڈیٹر بھی پورا ہی تھا۔

دراصل یہ کسی بیورو کریٹ کا بیٹا ہے، ابا جی کی سفارش پر بیٹا اخبار میں بھرتی ہو گیا اور بس پھر اخبار والوں نے بھی یہ بوجھ برداشت کر لیا۔ میرا خیال ہے کہ جو سرکاری افسران اپنی اولادوں کو رزق حرام کھلاتے ہیں ان کی اولادیں ایسی ہی ہوتی ہیں، میں اسے برسوں پہلے دیکھتا تھا، میرا اس کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ تو نہیں کیونکہ میں اخبار کے دوسرے سیکشن میں کام کرتا تھا مگر اس ’’شہزادے‘‘ کے بارے میں اس وقت بھی سنتا تھا کہ یہ ’’شہزادہ‘‘ کئی کئی روز تک نہاتا نہیں، کام اسے آتا نہیں، پتا نہیں لوگ ایسے لوگوں کو دیکھتے بھی ہیں تو عبرت کیوں حاصل نہیں کرتے۔

جو سرکاری افسران اپنی اولادوں کو رزق حرام کھلاتے ہیں ان کی اولادیں ایسی ہی ہوتی ہیں
میرا دوست خاموشی سے میری باتیں سنتا رہا، جونہی گاڑی میں بیٹھا تو اس نے ایک قصہ شروع کر دیا ۔کہنے لگا ’’میں اسلام آباد میں پڑھا ہوں، ہمارا ایک کلاس فیلو بھی ایسا ہی تھا، وہ بھی ایک سینئر بیورو کریٹ کا اکلوتا بیٹا تھا، وہ بھی کئی کئی روز تک نہاتا نہیں تھا، اس کے منہ پر اکثر کھانے پینے کی چیزوں کی نشانیاں لگی ہوتی تھیں، ہم باقی کلاس فیلو کہتے تھے کہ یار تمہیں کوئی تمیز نہیں سکھاتا، کھانے کے بعد منہ صاف کرتے ہیں مگر اس لاڈلے کو ذرہ برابر اثر نہ ہوتا۔

وہ ہمیں بتاتا کہ اس کے باپ نے اس کیلئے پلازہ خرید لیا ہے، پانچ چھ گھر خرید لئے ہیں اور کم و بیش اتنے ہی پلاٹ۔ وقت گزر گیا، اب برسوں بعد یہ صورتحال ہوئی کہ جائیدادیں بنانے والا باپ مر گیا، لاڈلے بیٹے نے جائیدادیں بیچنا شروع کیں، اب اس لاڈے کے پاس نہ پلازہ ہے نہ کوئی گھر اور نہ ہی پلاٹ، سنا ہے کہ اب وہ کرائے کے ایک کمرے میں رہتا ہے۔

بات کرتے کرتے میرے دوست کی آواز رنجیدہ ہوئی، وہ لمحے بھر کیلئے رکا اور پھر بولا سر جی! اگر اولاد ذہین ہو تو اس کے لئے بھی جائیداد نہیں بنانی چاہئے اور اگر نالائق ہو تو اس کے لئے بھی نہیں بنانی چاہئے کیونکہ اگر بچے ذہین اور لائق ہوں گے تو وہ خود بنالیں گے اور اگر کند ذہن اور نالائق ہوں گے تو وہ سنبھال نہیں سکیں گے۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے اس نکمے کلاس فیلو کے باپ نے کس کس کو لوٹ کر یقیناً اس میں ملک بھی شامل ہے، کس طرح جائیدادیں بنائی ہوں گی، کس طرح اس نے سوچا ہوگا کہ میرا اکلوتا بیٹا خوش رہے گا، اسے کیا پتا تھا کہ یہ سب کچھ اس کے مرتے ہی بک جائے گا۔ آپ اگر دے سکتے ہیں تو اپنے بچوں کو رزق حلال دیں کیونکہ رزق اپنا آپ دکھاتا ہے۔

میں نے گاڑی کا رخ بودی شاہ کے گھر کی طرف کروا دیا، بودی شاہ میرے ساتھ ایک دوست کو دیکھ کر زیادہ جلالی نہ ہوا۔ ہم نے یہ مقدمہ بودی شاہ کے سامنے رکھا تو وہ بولا پاکستانی معاشرہ بدقسمتی کی تصویر بن گیا ہے۔

دولت کی دوڑ میں انسان اندھے ہو گئے وہ ہر جائز ناجائز طریقے سے دولت حاصل کرنے میں لگ گئے نام نہاد جمہوری لیڈروں نے ملک کو خوب لوٹا۔
چالیس سال پہلے اس معاشرے میں دولت سخیوں کے پاس تھی پھر دولت خسیسوں کے ہاتھوں میں آنا شروع ہو گئی اور پھر اس کے بعد دولت کی دوڑ لگ گئی۔ اس دوڑ میں انسان اندھے ہو گئے وہ ہر جائز ناجائز طریقےسے دولت حاصل کرنے میں لگ گئے نام نہاد جمہوری لیڈروں نے ملک کو خوب لوٹا۔

افسران تنخواہوں سے زیادہ دولت کے مالک بن گئے۔ معاشرے کے کاروباری افراد نے بھی لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا شروع کر دیا، ہر چیز میں ملاوٹ ہونے لگی، ملاوٹ روکنے والے ملاوٹ کرنے والوں کے ساتھ مل گئے۔ اس معاشرے میں کتوں، گدھوں اور مردہ جانوروں کا گوشت بکنے لگا۔

دولت کی دوڑ میں لوگ اخلاقیات کو کچلنا شروع ہو گئے۔ روایات کا درس بھول گئے۔ لوگوں نے ایک دوسرے کا احترام چھوڑ دیا۔ معاشرے کے تمام طبقے ہی زوال پذیر ہو گئے۔ آج کالے اور سفید کوٹ کی لڑائی معاشرے کا منحوس ’’چہرہ‘‘ سامنے لائی ہے۔

یہ دراصل چالیس سالہ فصل کی کٹائی ہے، یہ چالیس سالوں کا ثمر ہے، یہ بے حسی کا موسم چالیس سالہ ہوائوں کے باعث اترا ہے۔ ہم نے چالیس سالوں میں تعلیم کو تجارت بنا دیا۔ لوگ پیسے کے زور پر ڈگریاں لیتے ہیں آج کے بہت سے وکلا، ڈاکٹرز اور دوسرے شعبے کے لوگوں نے تعلیم خریدی ہے، ڈگریاں دولت سے حاصل کی ہیں، آج معاشرے میں اعلیٰ تربیت دینے والے اساتذہ نظر نہیں آتے، پرائیویٹ تعلیم نے سب کچھ ہی تو برباد کر دیا ہے۔

اگر آپ کا معاشرہ سیالکوٹ میں مرنے والے دو لڑکوں کو انصاف دیتا تو حالات یہ نہ ہوتے۔ آپ کو یاد ہے نا کہ سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو بری طرح گھسیٹا گیا تھا، ڈنڈے مار مار کر قتل کر دیا گیا تھا اور لوگوں کا ہجوم ویڈیو بنا رہا تھا۔

اگر تمہارا معاشرہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو سزا دیتا تو یہ حالات نہ ہوتے، اگر تم لوگ قصور میں زیادتی کے پورے نیٹ ورک کو سزا دیتے تو یہ حالات پیش نہ آتے، اگر تم لوگ سانحہ ساہیوال کے مجرموں کو سزا دیتے تو لاہور کے کالے واقعات نہ ہوتے، اگر ناجائز دولت اور رزق حرام کو روکتے تو گیارہ دسمبر کے واقعات پیش نہ آتے۔ اب تو حالات یہ ہیں کہ اظہر سہیل کا پنجابی شعر یاد آتا ہے کہ؎

ویلا خورے کیہڑا نقش مٹا دیوے

مینوں رج کے ویکھ لَو میرے نال دیو

(وقت پتا نہیں کونسا نقش مٹا دے اس لئے میرے ساتھیوں مجھے جی بھر کے دیکھ لو)
 

جاسم محمد

محفلین
گرفتار وکلا کی درخواست ضمانت، جسٹس انوار الحق کا کیس کی سماعت سے انکار
Last Updated On 13 December,2019 11:32 am
523025_66382178.jpg

لاہور: (دنیا نیوز) جسٹس محمد انوار الحق پنوں نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر گرفتار وکلا کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔



پولیس نے لاہور ہائیکورٹ میں وکلاء کے خلاف انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمات درج ہونے کی رپورٹ پیش کی۔ جسٹس محمد انوار الحق پنوں نے کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دی۔ عدالت کے باہر وکلا کی بڑی تعداد جمع تھی۔

ادھر وکلاء جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے جسٹس مظاہر علی نقوی سےعدالتی امور بند کرنے کی استدعا کی جس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا عدالت اپنا کام کرے گی، یہ میری ذمہ داری ہے، سینئر اور نوجوان وکلا گلدستے لے کر پی آئی سی جائیں، وکلا ڈاکٹروں سے گلے مل کر معاملہ ختم کریں۔

جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے استدعا کی کہ پیش نہ ہونے والے وکلاء کے مقدمات عدم پیروی پر خارج نہ کئے جائیں۔ جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کوئی وکیل پیش نہیں ہونا چاہتا تو اس کی اپنی مرضی ہے، مقدمات عدم پیروی پرخارج نہیں کئے جائیں گے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
فی الحال تو کیس میں جان ہے۔ بعد میں دیکھتے ہیں کیسے مٹی ڈالی جاتی ہے۔

وکلا کی جرات کیسے ہوئی اسپتال پر حملہ کرنے کی، لاہور ہائیکورٹ
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے

1915891-lahorepic-1576240769-623-640x480.jpg

اسپتال پر حملہ تو جنگوں میں بھی نہیں ہوتا، جسٹس علی باقر نجفی وکلا پر سخت برہم فوٹو:فائل


لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ وکلا کی جرات کیسے ہوئی اسپتال پر حملہ کرنے کی اور ایسا تو جنگوں میں بھی نہیں ہوتا۔

صبح سویرے لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس محمد انوار الحق پنوں پر مشتمل سنگل بنچ نے پی آئی سی حملے میں گرفتار وکلاء کی رہائی کی 4 درخواستوں پر سماعت کی۔وکلا کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں جمع ہوئی۔ تاہم جسٹس محمد انوار الحق پنوں نے کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس کو بھجوادی۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں نیا دو رکنی بنچ تشکیل دیا جس نے دوپہر کو کیس کی سماعت کرنی تھی۔ وکلا کی بڑی تعداد دوبارہ جسٹس قاسم خان کی عدالت میں جمع ہوئی تو جسٹس اسجد جاوید گورال کی عدم دستیابی کے باعث سماعت نہ ہوسکی اور فائل دوبارہ چیف جسٹس کو ارسال کردی گئی۔

پھر شام کو جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے اعجاز احمد ایڈووکیٹ سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔ تو پولیس نے عدالت میں وکلاء کے خلاف انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمات درج ہونے کی رپورٹ پیش کی۔

درخواست گزار اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ وکلاء برادری پی آئی سی واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتی ہے، کچھ لوگوں نے موقع پر کپڑے تبدیل کئے اور افسوسناک واقعہ پیش آیا، ڈاکٹر کی ویڈیو وائرل ہونا وقوعہ ہونے کی وضاحت نہیں ہے۔

پروفیشن میں کالی بھیڑیں

جسٹس علی باقر نجفی نے وکلا پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پروفیشن میں کالی بھیڑیں ہیں، آپ اس کو وقوعہ کہتے ہیں؟، آپ نے اسپتال پر حملہ کیا، آپ کی جرات کیسے ہوئی اسپتال پر حملہ کرتے، کیا آپ ایک وضاحت دے سکتے ہیں کہ کیوں حملہ کیا گیا، آپ کو اندازہ نہیں ہم کس دکھ میں ہیں، ہم بڑی مشکل سے اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں، اگر آپ کہتے ہیں تو ابھی اس کیس کو ٹرانسفر کر دیتے ہیں، دکھ اس بات کا ہے آپ اس پر وضاحت دے رہے ہیں۔

جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دیے کہ ایک ویڈیو بڑی عجیب ہے جس میں وکیل کہہ رہا ہے یہ ڈاکٹر کی موت ہے، کیا اس کی بھی توقع ہے کہ کوئی بار کونسل اس پر کوئی کارروائی کرے؟۔

آپ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا

جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ آپ سر عام تسلیم کریں، آپ نے لاہور بار میں حملے کی پلاننگ کی ہے، ہمیں آپ نے کہیں کا نہیں چھوڑا، اس طرح تو جنگوں میں بھی نہیں ہوتا۔

درخواست گزار اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ چمڑیاں ادھیڑنے والی پریکٹس درست نہیں ہے، 2009 میں بھی ایسا ہوا تھا، ایسا وقوعہ کراچی میں ہوا تھا، سیالکوٹ میں بھی ہوا تھا تو پھر وہ بھی ٹھیک ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وکلا ڈاکٹروں سے گلے مل کر معاملہ ختم کریں، لاہور ہائیکورٹ

اسپتال میں تمام آلات توڑ دیے

جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ وہ ٹھیک تھا یا نہیں تھا مگر یہ ٹھیک نہیں ہوا، اس وقت ایک کاز تھا اس کی کوئی وضاحت ہے آپ کے پاس؟، آپ نے اسپتال میں تمام آلات توڑ دیئے ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارا ایک بار لیڈر بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس وقوعہ کی وضاحت دینے کی کوشش کی ہو، جو ملوث ہیں وہ لائسنس معطل کئے جائیں گے، اس معاملے کا اینڈ (اختتام) بھی تو ہے۔

جو کیا وہ جنگل کا قانون ہے

علی باقر نجفی نے کہا کہ اینڈ تو ہو گا ہی، ہم وہ کریں گے، ہم نے حلف اٹھایا ہوا ہے، جنگل کے قانون میں معاشرے نہیں بچتے اور جو انہوں نے کیا وہ جنگل کا قانون ہے، یہ بتائیں ایک درخواست میں 2 ایف آئی آرز کو کیسے خارج کیا جا سکتا ہے؟۔

عدالت نے درخواستوں پر عائد اعتراضات ختم کرتے ہوئے مقدمات میں نامزد نہ کئے گئے وکلاء کی بازیابی کی درخواست پر سی سی پی او لاہور سے رپورٹ طلب کر لی۔
درخواست گزار احسن بھون نے کہا کہ جو وکلا زخمی ہیں انکا میڈیکل کروانے کا حکم دے دیا جائے۔

عدالت نے انسداد دہشت گردی کے میڈیکل کروانے کے حکم پر عملدرآمد کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کردی
 

جاسم محمد

محفلین
وزیر اعظم عمران خان کا بھانجا حسان نیازی بھی اس توڑ پھوڑ میں شامل ہے۔ دیکھتے ہیں وزیر اعظم انصاف کرتے ہیں یا اقربا پروری۔
پولیس کا وزیراعظم کے بھانجے حسان نیازی کے گھر پر چھاپہ
ویب ڈیسک جمع۔ء 13 دسمبر 2019

1915515-___n-1576229670-382-640x480.jpg

حسن نیازی گھر پر نہ ہونے کہ وجہ سے گرفتار نہ ہوسکے، پولیس۔ فوٹو فائل


لاہور: پولیس نے وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تاہم وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔

پولیس کے مطابق ریس کورس میں وکیل حسان نیازی کے گھر چھاپہ مارا گیا تاہم گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے عمران خان کے بھانجے گرفتار نہ ہوسکے، پولیس کا کہنا ہے کہ حسان نیازی کی گرفتاری کےلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں۔

پولیس کے مطابق پی آئی سی میں وکلا اور ڈاکٹروں کے تصادم میں حسان نیازی کی فوٹیجز بھی سامنے آئی تھیں جس کی بنا پر کارروائی کی گئی۔
 
پولیس کا وزیراعظم کے بھانجے حسان نیازی کے گھر پر چھاپہ
ویب ڈیسک جمع۔ء 13 دسمبر 2019

1915515-___n-1576229670-382-640x480.jpg

حسن نیازی گھر پر نہ ہونے کہ وجہ سے گرفتار نہ ہوسکے، پولیس۔ فوٹو فائل


لاہور: پولیس نے وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تاہم وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔

پولیس کے مطابق ریس کورس میں وکیل حسان نیازی کے گھر چھاپہ مارا گیا تاہم گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے عمران خان کے بھانجے گرفتار نہ ہوسکے، پولیس کا کہنا ہے کہ حسان نیازی کی گرفتاری کےلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں۔

پولیس کے مطابق پی آئی سی میں وکلا اور ڈاکٹروں کے تصادم میں حسان نیازی کی فوٹیجز بھی سامنے آئی تھیں جس کی بنا پر کارروائی کی گئی۔
او مامے کول چُھپے آ جے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حسان کو وزیراعظم کا بھانجا اورمیرا بیٹا ہونے پر نشانہ بنایا جارہاہے،حفیظ نیازی
14 دسمبر ، 2019

710675_4975554_hassan_akhbar.jpg

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان ابصاء کومل نے حفیظ اللہ نیازی سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اسپتال حملے میں آپ کے صاحبزادے حسان نیازی کی شرکت نظر آرہی ہے، آپ کے صاحبزادے نے اس پر معذرت کرلی ہے اور ا ن کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں، آپ کا اس معاملہ پر کیا کمنٹ ہوگا؟ جس پر حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ اسپتال پر وکلاء کے حملے کو کوئی بھی درست قرار نہیں دے سکتا ہے، وکیلوں کو قطعی زیب نہیں دیتا تھا کہ قانون ہاتھ میں لیں، مجھے نہیں پتا اس واقعہ میں حسان کی کتنی انوالمنٹ ہے لیکن اسے سنگل آؤٹ کرنے کی دو وجوہات ہیں ایک وزیراعظم کا بھانجا ہونا دوسرا میرا بیٹا ہونا، وہ اکیلا تو نہیں تھا دو سو لوگ ہوں گے، ابھی تک جتنی بھی ویڈیوز آئی ہیں اس میں نظر نہیں آیا کہ تشدد میں اس کا کوئی کردار تھا، حسان نیازی کی ہمدردیاں اپنے ماموں کے ساتھ ہیں، ینگ ڈاکٹرز کے ہاتھوں بھی دو دفعہ اسپتال کے شیشے ٹوٹ چکے اور مریض مرچکے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی…
صابر شاکر
ہم مسلمان ہیں‘ ہم اشرف المخلوقات ہونے کے دعویدار ہیں‘ ہم اللہ تعالیٰ کو ماننے والے ہیں‘ ہم آخری پیغمبرنبی رحمت حضرت محمدمصطفی ﷺ پر ایمان لانے والے ہیں‘ ہم قرآن مجید کے پیروکار ہیں‘ اسلامی تعلیمات پر عمل کے پابند ہیں ‘اپنے اپنے دائرہ کار اور دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ایک اسلامی اور فلاحی معاشرے کی تشکیل ہمارے فرائض میں شامل ہے ‘ہم پر فرض ہے کہ ہم بطورِ مسلمان نہ صرف اپنے مسلم بہن بھائیوں کے لیے مددگار بنیں بلکہ اپنے گرد وپیش اور اپنے زیر سایہ غیر مسلموں کے لیے بھی امن و آشتی کا گہوارہ بنیں۔
ہرمسلمان پر لازم ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے انسان محفوظ رہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ اپنے اخلاق سے پہچانا جائے‘ ہمارے پیارے نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے عملی نمونہ اور مشعلِ راہ ہے۔ ہم نے ایک آزاد وطن بھی اسی لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں ہم اپنے عقیدے کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ ایک ایسا معاشرہ قائم کرسکیں جسے دیکھتے ہی زمانہ اسے ایک حقیقی فلاحی اور اسلامی معاشرہ کہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم گزشتہ ستر برسوں میں ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو غیروں نے اپنایا اور فلاحی معاشرے قائم کئے‘ جہاں انسانیت کی خدمت‘ انسان کی جان‘ مال اور آبرو کی حفاظت بلا رنگ و نسل پہلی ترجیح گردانی جاتی ہے‘ جہاں قانون کی عملداری ہے‘ جہاں کوئی بلوہ ہوتا ہے تو وزیراعظم اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے وطن واپس پہنچتا ہے‘ دن رات عدالتیں لگتی ہیں اور مجرموں کو چْن چْن کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا ہے۔جہاں بچوں کے‘ بچیوں کے خصوصی حقوق ہیں۔ یہ سب ہماری ہی تعلیمات ہیں‘ سب روایات ہماری ہی میراث ہیں‘ہمارا ماضی‘ ہمارا فخر ہے‘ لیکن یہ ظلم عظیم ہے کہ ہماری تعلیمات‘ ہماری میراث‘ ہماری درخشاں روایات کو غیروں نے اپنایا اور مثالی معاشرے قائم کرلیے ‘ مگر ہم اخلاقی گراوٹوں میں اس انتہا تک گر چکے ہیں کہ شرم سے سر جھک جاتے ہیں۔
معاشرے کا ہر طبقہ ایک مافیا کی طرح ایکٹ کرتا ہے اور اپنے آپ کو قانون سے بالا تر اور ناقابل ِاحتساب سمجھتا ہے۔مسلم معاشرے میں بچوں اور کم سن بچیوں سے جنسی زیادتی‘بہنوں ‘ بھائیوں ‘بیٹیوں کو تاوان کے لیے اغوا کرنا‘ جائیداد میں خواتین کو حصہ دینے کی بجائے ان کی زندگیوں کا خاتمہ کردینا‘ ایسی خوفناک خبریں ہیں کہ ایسے معاشرے کا اسلامی کہلانا پوری دنیا میں باعث ندامت ہے۔ ہم ایک ایٹمی قوت بن گئے‘ فوجی قوت بن گئے‘ لیکن افسوس کہ ہم مسلم معاشرہ تشکیل نہ دے سکے۔
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں گزشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کی سینیٹر روبینہ خالدکی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں پولیس حکام نے ایک تحقیقاتی رپورٹ پر بریفنگ دی‘ جس کے مطابق چائلڈ پورنوگرافی کے ملزم سہیل ایاز کے کمپیوٹر سے ایک لاکھ پورنوگرافک تصاویرملی ہیں اور ملزم کے موبائل کا تمام ڈیٹا بھی حاصل کر لیا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق موبائل فون سے بچوں کے ایکسچینج کے حوالے سے بھی پیغامات ملے ہیں۔ ملزم سہیل ایاز پولی گرافک ٹیسٹ میں جھوٹ بولتا رہا اور یہ کہ ملزم اورمتاثرہ بچوں کے ڈرگ ٹیسٹ بھی پوزیٹوآئے ہیں۔متاثرہ بچوں کو آئس اور چرس کا نشہ کرایا جاتا تھا ۔سہیل ایاز کے خلاف کیس 100 فیصدمضبوط ہے۔
ادھر ایک تازہ افسوسناک واقعہ لاہور میں پیش آیا ہے جس میں کالے کوٹ اور سفید کوٹ کی ذاتی دشمنی نے ہسپتال میں مریضوں کو بھی نہ بخشا اور زیر علاج مریض جو جان بچانے کے لیے ہسپتال پہنچے لیکن کالے کوٹ میں چھپے کالے من کی دہشتگردی کا نشانہ بن گئے۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ قانون موجود ہے‘ ادارے موجود ہیں‘ سسٹم موجود ہے لیکن ان مافیاز کو سزا کوئی نہیں دیتا۔ ہر آنے والا دن زوال کی طرف جارہا ہے ہم ایک قوم سے کئی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ایک ہجوم کی شکل اختیار کرچکے ہیں‘ نہ مسلمان رہے نہ انسان رہے‘ بلکہ شرمناک حد تک برائیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ہر طبقہ بلا امتیاز یہ سمجھتا ہے کہ صرف ان کے مفادات کا تحفظ باقی رہے‘ باقی کچھ بچے نہ بچے اس کو پروا نہیں ‘بلکہ لاقانونیت کی انتہا ہے کہ اب تو عام شہری بھی سینہ تان کر قانون شکنی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
یہ وطن پاکستان ہم نے کیسے حاصل کیا ؟بر صغیر پاک و ہند کا چپہ چپہ اور تاریخ دان اس بات کے گواہ ہیں کہ مملکت خداداد انتھک محنت‘ طویل جدوجہد اور ناقابلِ بیان قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی۔ یہ آزاد وطن ہمیں کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا‘ ایسا نہیں کہ مسلمان ایک رات سو کر صبح اٹھے تو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوچکاتھا۔ نہیں ہرگز نہیں‘ بلکہ مذہبی اور سیاسی شناخت منوانے کے لیے ہمارے آباؤاجداد نے اول روز سے لے کر پاکستان پہنچنے تک اپنے تن من دھن اور عزت و آبرو کی بے پناہ قربانیاں دیں۔ پھر اس آزادی پر بار بار حملے بھی کئے گئے اور وطن عزیز کو دولخت کردیا گیا ‘گو کہ اس میں ہمارے اپنوں کی بھی ریشہ دوانیاں شامل تھیں۔آزادی و خودمختاری کو برقرار رکھنے کے لیے آج تک پاکستانی قوم کے سپوت اپنا خون پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد بیگانی جنگ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے عام شہریوں سے لے کر ہمارے سول اور فوجی سکیورٹی اداروں تک نے بلاامتیاز قربانیاں پیش کیں جو آج تک جاری ہیں۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے پاکستان کا خواب دیکھا‘ آزاد وطن کا تصور پیش کیا ‘جسے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں عملی تعبیر ملی۔ 1905ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزادی کا سفر شروع کیا گیا۔سلطنت برطانیہ کے بادشاہوں نے برصغیر کے عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کے کشکول میں سیاسی مطالبات پورے کرنے کی رفتار کچھوے کی رفتار سے بھی کم رکھی اور سیاسی حقوق دینے کا انداز کْچھ اس طرح اپنایا جیسا کہ بڑے بڑے شاپنگ مالز میں گھومنے پھرنے والے کروڑوں‘ اربوں پتی سرمایہ دار فقیروں کے کشکول میں چند سکے ڈالتے ہیں۔ بالکل یہی انداز برٹش حکمرانوں کا تھا۔ہر دس سال بعد انگریز حکمران ریزگاری کی طرح کْچھ حقوق کشکول میں ڈال دیتے تھے۔ 1909ء میں عوامی دباؤ پر منٹواور مارلے کو ملکہ برطانیہ نے ہندوستان بھیجا‘ جن کی سفارشات پر چند سیاسی حقوق برصغیر کے عوام کو دیئے گئے۔ انہیں منٹو مارلے اصلاحات کا نام دیا گیا۔ یہ آزادی کی طرف بارش کا پہلا قطرہ تھا۔برصغیر کے عوام نے سیاسی حقوق کے حصول کی جدوجہد جاری رکھی اور دس سال بعد انگریز سرکار نے 1919ء میں مانٹیگو چیمسفورڈ کی سربراہی میں ایک اور کمیشن بھیجا‘ جس کے نتیجے میں محکوم عوام کو کچھ مزید حقوق عطا کئے گئے‘ جو ماضی سے کْچھ بہترتھے۔ 1935ء میں مزید حقوق ہمارے جھولی میں ڈالے گئے اور 1939ء کی کانگریسی وزارتوں نے ہندوؤں کا اصل چہرہ بے نقاب کیا جس کے نتیجے میں حتمی طور پر الگ وطن کا فیصلہ ہوا اور تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت‘ اور اس دوران ہونے والے ظلم ستم کی بھی تاریخ گواہ ہے۔
ہم اپنی باہمی لڑائیوں اور کمزوریوں سے دو ٹکڑے پہلے ہی ہوچکے ہیں‘ لیکن ہم اپنی اصلاح کے لیے تاحال تیار نہیں ہیں۔ اس زوال کی انتہا میں ہمارے علما ‘سیاسی و غیر سیاسی زعما ‘ہمارے حکمران‘ ہمارا میڈیا‘ ہمارا عدالتی نظام سب برابر کے نہ صرف شریک ہیں بلکہ ذمہ دار بھی ہیں‘ جو آج بھی باہم دست و گریبان ہیں۔جو قومیں اپنی اصلاح نہیں کرتیں وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق بھی اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھتی ہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 

جاسم محمد

محفلین
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی ایمرجنسی بحال، ڈاکٹرز نے کام شروع کردیا
Last Updated On 13 December,2019 11:18 pm

523105_70876028.jpg

لاہور: (دنیا نیوز) وزیراعلیٰ پنجاب نے 24 گھنٹے میں پی آئی سی کی ایمرجنسی بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم دیگر شعبے آج بھی غیر فعال ہیں جس سے ہزاروں مریض متاثر ہوئے، خوفزدہ عملہ بھی ڈیوٹی پر نہ پہنچا، او پی ڈی ہفتے کو کھلنے کا امکان ہے۔

تفصیلات کے مطابق لاہور میں وکلا گردی کا نشانہ بنے والی پی آئی سی کی ایمرجنسی کو تین روز بعد کھول دیا گیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ثاقب شفیع نے کہا کہ مریضوں کو پہلے سے زیاد بہترین علاج کی سہولیات فراہم کریں گے۔ ادھر وکلا رہنما بھی پھول لے کر پی آئی سی پہنچ گئے، انہوں نے مریضوں کی عیادت کی۔

PIC-Emergency3.jpg


اس سے قبل مارچ برائے تحفظ پنجاب انسٹیٹیوٹ کارڈیالوجی کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈاکٹروں سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ریلی کے شرکا نے ہاتھوں میں شمعیں اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔

بعد ازاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے گرینڈ ہیلتھ لائنس کے چیئرمین ڈاکٹر حسیب نے کہا کہ وکلا کی توڑ پھوڑ سے پی آئی سی میں زیر علاج مریضوں سمیت ہسپتال میں موجود ہر کسی کو جان کے لالے پڑے گئے تھے۔

PIC-Emergency4.jpg


سی ای او پی آئی سی ڈاکٹر ثاقب کا کہنا تھا کہ وکلا کی توڑ پھوڑ کے بعد بحالی کا کام مکمل کر لیا گیا ہے، ایمرجنسی کو اوپن کر دیا گیا ہے جبکہ او پی ڈی بھی کل کھول دی جائے گی۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر قاسم کا کہنا تھا کہ صوبائی وزیر قانون اور وزیر صحت ڈاکٹر یاسین راشد اگر پہلے معاملے کو سنجیدگی سے لیتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔
 

عدنان عمر

محفلین
دروغ بر گردنِ راوی:

This is a real recorded dialogue between. Dr & lawyer in a Session Court, USA.

Lawyer to Dr during cross-examination:
Before U performed the Post-mortem, did U check his pulse?
Dr: No
Lawyer: His BP?
Dr: No
Lawyer: His breathing?
Dr: No
Lawyer: So how did U know he was dead?
Dr: B'coz his brain was in a jar on my table
Lawyer: But its still possible That he could have been alive?
Dr: Yes its posible he could have been Alive & practising law somewhere​
 
Top