وہ جتھہ لے کر نہیں چڑھ دوڑے تھے گو کہ ریاستی رٹ کو للکارنے کی ان کی روش بھی غلط تھی۔ میں یہ کہتا ہوں کہ حکومت اور اپوزیشن کو مل کر اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ آئندہ ایسی نا خوشگوار صورت حال پیدا نہ ہو ورنہ اگلا جتھہ طالبان والے لے کر آئیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ آج سے تحریک لبیک دوسری بڑی سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ پہلے نمبر پر کسی کو بھی رکھ لیں۔
کالعدم تنظیموں اور جماعتوں کیخلاف ریاستی کریک ڈاؤن کی قانون سازی پہلے سے موجود ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت کو کیا کرنا چاہیے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت جو کچھ بھی کرتی ہے ضرورت سے زیادہ ذہین عوام اس کے ہر اقدام میں سے کیڑے نکال لیتی ہے۔
اگر حکومت تحریک لبیک کو آزادی سے دھرنے دینے دے اور بالکل کوئی مداخلت نہ کرے تو عوام حکومت پر چڑھ دوڑتی ہے کہ ریاستی رٹ قائم کریں، دھرنے کو اٹھوائیں۔
حکومت پر امن طریقہ سے دھرنا ختم کرنے کیلئے مذاکرات کر لے تو وہی عوام حکومت پر چڑھ دوڑتی ہے کہ ان جتھوں کیساتھ مذاکرات کیوں کئے؟ ریاست نے گھٹنے کیوں ٹیکے؟
اور اگر حکومت دھرنے والوں کے مطالبات تسلیم کیے بغیر ان پر طاقت کا استعمال کرے تو وہی عوام حکومت پر چڑھ دوڑتی ہے کہ یزیدیوں نے عاشقین رسول شہید کر دیے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں پوری دنیا کو حکومت کے خلاف اکٹھا کر لیتی ہیں کہ دیکھیں کیسے حکومت جمہوری انقلابیوں پر جبر و تشدد کر رہی ہے۔
ایسی عجیب صورت حال میں بتائیں کونسا قانون اور کونسی حکومت ان جتھوں کیخلاف کوئی کامیاب کاروائی کر سکے گی؟ جب عوام خود شدید کنفیوژن کا شکار ہو کہ اسے حکومت سے چاہئے کیا ہے۔