.* لعاب پاک ھوتا ھے یا پلید

نیرنگ خیال

لائبریرین
‎ لعاب پاک ھوتا ھے یا پلید
مصر پراحمدبن طولون کی حکومت تھی .حکمران لوگوں پر ظلم ڈھارھےتھے،منکرات میں اضافہ ھوگیاتھا.لوگ خاصے پریشان تھے،حاکم کے پاس جاکر شکایت کرنےکی کسی میں جرات نہ تھی. ڈرتھاکہ اگرشکوہ کیاتوالٹے مصیبت میں پھنس جائیں گے لیکن علمائے حق ہردورمیں کلمہ حق جابر حکمران کے سامنے کہتے آئے ھیں.ابو الحسن بنان بن محمد حمدان بن سعید اپنے وقت کے مشہورعالم اورزہاد تھے.وہ حاکم کےسامنے پیش ھوئے اورحکومت کی غلطیوں کی نشاندھی کی.اس کو ظلم وستم پرٹوکااورحق بیان کیا. ابن طولون سے حق کیسے براداشت ھوتا.طولون کواس حق گوئی پر بہت غصہ آیا.حکم دیاکہ اس کوگرفتارکرکے قیدخانے میں ڈال دیاجائے.حکم کی تعمیل ھوئی اوراگلاحکم بھی جاری ھوگیاکہ ابوالحسن کوبھوکے شیر کے سامنے ڈال دیاجائے.
ایک بہت بڑے ببرشیر کوکئ دنوں تک بھوکارکارکھاگیا.
لوگوں میں منادی کروائی گئ کہ منظردیکھنےکےلیے جمع ھوجائیں.ایک بہت بڑے میدان میں لوگ اکٹھے ھوئے.شیخ ابو الحسن کوہتھکڑیاں لگائے ھوئے میدان میں لایاگیا.شیرکوپنجرے سے نکالاگیااورشیخ ابوالحسن کو شیرکے سامنے سامنے ڈال دیاگیا.مجمع میں شیخ ابوالحسن کے شاگرد اورچاہنے والے بھی تھے.یہ دیکھ کران کی چیخیں نکل گئیں.لوگوں نے دم روک لئے ،ان کاخیال تھاکہ چشم زدن میں شیرشیخ ابوالحسن کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا.مگر دیکھنے والوں نے دیکھاشیر ان کی طرف تیزی سے لپکا.قریب ھواان کےجسم کوسونگھنے لگ گیااور پھر ایسامحسوس ھواکوئی طاقت شیر کو شیخ ابوالحسن سے دور کررھی ھے اور لوگوں نے دیکھا شیر بڑے ادب سے دور ھٹ کر کھڑاھوگیا.
لوگوں نے بلند آواز سے لاالہ الااللہ اور اللہ اکبر پکارناشروع کردیا.ابن طولون کاسر شرم سے جھک گیا.اس نے حکم دیاکہ شیخ کو باعزت رھاکردیاجائے.اس متقی اور زاہد سے لوگوں نے سوال کیا:ابوالحسن!جب شیر آپ کی بڑھ رھاتوآپ کیاسوچ رھےتھے.جواب دیا"مجھے قطعاکوئی خوف اورڈرمحسوس نھیں ھوا.میں تواس وقت یہ سوچ رھاتھاکہ درندے کے منہ نکلنے والالعاب پاک ھوتاھے یاپلید."
پھر فرمایا: بلاشبہ اللہ کاوعدہ سچاھے.
بے شک اللہ ان لوگوں کی طرف دفاع کرتاھے جو ایمان لائے ،بے شک اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو بڑا خائن ،بہت ناشکراھو(سورۃ الحج:38 )
پھر کیا نتیجہ نکلا؟
 
نیلم! آپ کو ایک مشورہ دوں؟
اس تاگے کا نام بدل لیجئے۔ بہت سے شکوے از خود ختم ہو جائیں گے۔
بزرگوں کے اقوال، حکایات کا احترام اپنی جگہ، سب جانتے ہیں کہ ایمانیات اور عقائد کا منبع قرآن و حدیث ہے۔
اللہ نیکی کی توفیق عطا فرمائے۔
 

نیلم

محفلین
نیلم! آپ کو ایک مشورہ دوں؟
اس تاگے کا نام بدل لیجئے۔ بہت سے شکوے از خود ختم ہو جائیں گے۔
بزرگوں کے اقوال، حکایات کا احترام اپنی جگہ، سب جانتے ہیں کہ ایمانیات اور عقائد کا منبع قرآن و حدیث ہے۔
اللہ نیکی کی توفیق عطا فرمائے۔
جی بہت شکریہ:)
تدوین کاآپشن نہیں ہے،،ویسے بھی اب تو کوئی شکواہ نہیں کسی کو،،میں نے صلح کروادی تھی:)
 
Top