اس نے اک شام بلا کر جو پلائی چائے
مجھکو میٹھی لگی اس ہاتھ کی پھیکی چائے
اس طرح لمس لیا اسکے لبوں کا میں نے
پی گیا اسکی، مزے لے کے میں جوٹھی چائے
بن گئی تھی اسی اک لمحے میں وہ چائے شراب
مسکرائی تھی وہ، جب اس نے مجھے دی تھی چائے
کبھی سگریٹ جلادیتا ھے انگلی میری
اسکی یادیں کبھی کردیتی ہیں ٹھنڈی چائے
جب سے انکار کیا اس نے مری چائے سے
چھوڑدی میں نے سدا کیلئے پینی چائے
آج بھی اسکی جلن یاد بہت آتی ھے
جلے تھے ہونٹ مرے گرم تھی اتنی چائے
آج تک میں نے وہ پیالی نہیں دھوئی ھے کماؔل
اس نے اک گھونٹ ہی جس پیالی میں پی تھی چائے
(احمد کمال حشمی)