محمد بلال اعظم

لائبریرین
کل ڈانٹ کھا کر تو پوچھا تھا ان سے ۔۔اتنی تھکی ہونے کے باوجود انھوں نے مجھے جواب بتا دیا میری سمجھ کے اکارڈنگ:p اب تو میری گچی دبا دینی ہے انھوں نے :D
اچھا تو یہ اُن سے پوچھا تھا۔
ویسے "گچی" کسے کہتے ہیں؟
 
در عشق و هوسناکی دانی که تفاوت چیست
آن تیشهٔ فرهادی این حیلهٔ پرویزی
..... پیامِ مشرق ۔ نظم بہ عنوان: ’’صد نالهٔ شبگیری صد صبح بلا خیزی‘‘
مختصر ترجمہ:
۔(اے مخاطب) تو جانتا ہے کہ عشق اور ہوسناکی میں کیا فرق ہے؟ وہ (عشق) فرہاد کا تیشہ ہے اور یہ (ہوس) پرویز کا حیلہ ہے۔

پوری نظم یہاں ملاحظہ فرمائیے:
http://ganjoor.net/iqbal/payam-mashregh/sh234/
 

فلک شیر

محفلین
زبیر بھائی! کہاں کے استاد ہیں ہم!!!!!!!!:)...........
نیرنگ خیال........وہ نا زبیر بھائی ویسے کہہ رہے ہوں گے........وہ جو کہتے ہیں نا.......’’تو بڑا اُستاد ہے!!!!!‘‘:)
فقیر یہاں سیکھنے آتا ہے........اور خدا گواہ ہے، بہت کچھ سیکھ کے جاتا ہے.........
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اسے زندگی کے بہت سارے مسائل کے حل کے لئے بھی آزما سکتے ہیں۔ بس مساوات سے لفظ "میں" ہٹا دیجیئے
"میں" کا لفظ ہٹ جائے تو ہم کامیاب و کامران ہیں۔
پھر تو ہم خودی کی منازل بھی طے کر لیں گے۔
اصل مسئلہ ہی اس "میں" کا ہے۔
 

فلک شیر

محفلین
عرض کچھ یوں ہے، کہ زندگی، انسان ، خدا ، زمانے اور کائنات کے باہم تعلق کی مانند محبّت بھی ایسا اسرار ہے، جسے علم کی ہر شاخ کے لوگوں نے مخصوص تناظر میں دیکھا اور جانا ہے............
اہلِ شریعت (اسلامی) کے ہاں اصل متون میں محبّت لفظ ملتا ہے.........عشق نہیں.......اور اُس کا مفہوم کامل اطاعت اور خود سپُردگی کاہے........
اہلِ طریقت یعنی راہِ سلُوک کے مسافر،جو دنیا کے ہر کلچر اور مذہب کے ماننے والے ہوتے ہیں ..........اُن کے ہاں عشق کا لفظ زیادہ مستعمل ہے....اور ظاہر ہے کہ ایشیائی زبانوں میں..........
تیسری طرف اگر اِن دونوں الفاظ کا اہلِ سُخن یعنی شعراء کے ہاں استعمال دیکھا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ اِن کا استعمال اساتذہ تک کے ہاں قریب قریب ایک ہی معنی میں ہوتا چلا آیا ہے...........فراق کا شعر دیکھیے:
ترکِ محبّت کرنے والو، کون بڑا جگ جیت لیا​
عشق سے پہلے کے دن سوچو، کون ایسا سُکھ ہوتا تھا​
اس کی یہ تقسیم میرے انتہائی محدودعلم کے مطابق اقبال سے زیادہ واضح ہونا شروع ہوئی، اور میرے خیال میں کچھ زیادہ لمبا چلی نہیں..........کیونکہ اہلِ طریقت محبّت کے مدارج گنواتے ہیں، جومحبّت سے چلتے چلتے خُلّت (مقامِ ابراہیمیّ)تک جاتے ہیں اور اقبال اس فلسفہ حیات سے ایک حد تک متاثر بھی تھے......البتہ باقی ادبی روایات اور تحاریک نے اِس کا کوئی لمبا چوڑا اثر قبول نہیں کیا...........​
اگر ہم محبّت کو زمین اور عشق کو آسمان سے جوڑیں، تو معاملہ پھر بھی نہیں سلجھتا..........​
اگر ہم محبّت کو محض کارِ طفلاں قرار دیں...........اور عشق کو اِس سے بے حد آگے کی چیز قرار دیں، تو میری دانست میں معاملہ پھر بھی کچھ زیادہ آگے نہیں بڑھتا........کیونکہ حدیثِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم میں خود آنجناب اپنی محبّت کو ایمان کے اہم ترین متقاضیات میں سے قرار دیتے ہیں..........آپ صرف اِسی ایک مثال سے معاملے کو سمجھ سکتے ہیں،کہ محبّت اور عشق میں کوئی میلوں کی تفاوت ہر گز نہیں............آج بھی اہل عرب اعلیٰ ترین محبّت یعنی کسی دوسرے سے محض خدا کے لیے محبت کا اظہار ’’انی احبک فی اللہ‘‘ کہہ کر کرتے ہیں.............اور یہی جذبہ برصغیر پاک و ہند میں عشق کے نام سے زیادہ معروف ہے............​
سراج اورنگ آبادی کا شعر ہے، کہ​
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی، لیا درس نسخہ عشق کا​
کہ کتاب عقل کی طاق میں ، جیوں دھری تھی تیوں دھری رہی​
سو اگر لامحالہ یہ تقسیم ضروری ہو، تو یوں کہہ لیتے ہیں کہ محبّت ’’شعور و حواس کے ساتھ کسی ذات کے ساتھ وابستگی ‘‘...................جب کہ عشق ’’عقل کی کتاب طاق میں رکھ کر اُس ذات سے وابستگی‘‘.........اسی کو شاید مغربی علماء crimson loveبھی کہتے ہیں.........اور اِس کے ساتھ دیگر platonic lovesکے حقدار تو متعدد ہوتے ہیں............اعزہ و اقارب وغیرہ وغیرہ​
اور اردو ادب میں ذرا اس اعلیٰ ترین وابستگی اور کامل ترین اطاعت و تسلیم کا نمونہ یہ شعر دیکھیے .........شاید یہی عشق ہے:​
دور بیٹھا غبارِ میر اُس سے​
عشق بن یہ ادب نہیں آتا​
اب اگر یہ بات چل ہی نکلی ہے، تو اِس موضوع کے میرے چند انتہائی پسندیدہ اشعار بھی سنتے جائیے:​
اختر الایمان کا شعر ہے...........الوہی عشق کی طرف بہت عمدہ اشارہ ہے:​
بِنائے عشق ترا حُسن ہی نہیں اے جان​
وہ ایک شعلہ جو عریاں نہیں ہے،وہ بھی ہے​
اور رئیس فروغ کا یہ شعر:​
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے​
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے​
اور آخر میں اطہر نفیس کا یہ شعر غالباً محبّت سے عشق کا سفر بیان کرتا ہے:​
عشق فسانہ تھا جب تک، اپنے بھی بہت افسانے تھے​
عشق صداقت ہوتے ہوتے کتنا کم احوال ہوا​
 
ماشاء اللہ
بقول شاعر عاشق تو ہوتے ہیں ایسے کہ
تِرے منچلوں کا جگ میں یہ عجب چلن رہا ہے
نہ کِسی کی بات سُننا نہ کِسی سے بات کرنا


شبِ غم نہ پُوچھ کیسے تِرے مُبتلا پہ گُزری
کبھی آہ بھر کے گِرنا کبھی گِر کے آہ بھرنا

وہ تِری گلی کے تیور وہ نظر نظر پہ پہرے
وہ مِرا کِسی بہانے تُجھے دیکھتے گُزرنا


اب کچھ میرے جیسے نام نہاد نا سمجھ نادان ۔۔ لوگ عشق کو ایک گندہ لفظ قرار دیتے ہوے اس لفظ کو اپنی ذندگی کی ڈکشنری سے خارج تصور کرتے ہیں ۔

بس ھم تو اتنا جانے " محبت کا بلند تر درجہ عشق کہلاتا ہے اور یہی محبت کسی درجے پر جا کر جنوں کہلاتی ہے۔ عشق کا محرک مجازی یا حقیقی ہو سکتا ہے۔ یہ عشق نا ممکن کو ممکن بنا ڈالتا ہے ۔ کہیں فرہاد سے نہر کھد واتا ہے تو کہیں سوہنی کو کچے گھڑے پر تیرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ عشق ہی کی بدولت کوئی صدیق اکبر کہلاتا ہے تو کوئی سیدنا بلال بنتا ہے۔
 
ایک ہندی شاعر نے درجہ بندی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پیار کا پہلا لفظ آدھا عشق کا دوسرا لفظ آدھا ،محبت کا تیسرا لفظ آدھا ہوتا ہے مگر چاہت کے تمام الفاظ پورے ہوتے ہیں لہذا ہم عشق و محبت نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
زبیر بھائی! کہاں کے استاد ہیں ہم!!!!!!!!:)...........
نیرنگ خیال........وہ نا زبیر بھائی ویسے کہہ رہے ہوں گے........وہ جو کہتے ہیں نا.......’’تو بڑا اُستاد ہے!!!!!‘‘:)
فقیر یہاں سیکھنے آتا ہے........اور خدا گواہ ہے، بہت کچھ سیکھ کے جاتا ہے.........
یہ نیچے جو تقریر لکھی ہے۔ اسی بابت ہی استاد کے درجہ پر فائز کیا تھا محترم زبیر مرزا بھائی نے (y)

عرض کچھ یوں ہے، کہ زندگی، انسان ، خدا ، زمانے اور کائنات کے باہم تعلق کی مانند محبّت بھی ایسا اسرار ہے، جسے علم کی ہر شاخ کے لوگوں نے مخصوص تناظر میں دیکھا اور جانا ہے............
اہلِ شریعت (اسلامی) کے ہاں اصل متون میں محبّت لفظ ملتا ہے.........عشق نہیں.......اور اُس کا مفہوم کامل اطاعت اور خود سپُردگی کاہے........
اہلِ طریقت یعنی راہِ سلُوک کے مسافر،جو دنیا کے ہر کلچر اور مذہب کے ماننے والے ہوتے ہیں ..........اُن کے ہاں عشق کا لفظ زیادہ مستعمل ہے....اور ظاہر ہے کہ ایشیائی زبانوں میں..........
تیسری طرف اگر اِن دونوں الفاظ کا اہلِ سُخن یعنی شعراء کے ہاں استعمال دیکھا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ اِن کا استعمال اساتذہ تک کے ہاں قریب قریب ایک ہی معنی میں ہوتا چلا آیا ہے...........فراق کا شعر دیکھیے:
ترکِ محبّت کرنے والو، کون بڑا جگ جیت لیا​
عشق سے پہلے کے دن سوچو، کون ایسا سُکھ ہوتا تھا​
اس کی یہ تقسیم میرے انتہائی محدودعلم کے مطابق اقبال سے زیادہ واضح ہونا شروع ہوئی، اور میرے خیال میں کچھ زیادہ لمبا چلی نہیں..........کیونکہ اہلِ طریقت محبّت کے مدارج گنواتے ہیں، جومحبّت سے چلتے چلتے خُلّت (مقامِ ابراہیمیّ)تک جاتے ہیں اور اقبال اس فلسفہ حیات سے ایک حد تک متاثر بھی تھے......البتہ باقی ادبی روایات اور تحاریک نے اِس کا کوئی لمبا چوڑا اثر قبول نہیں کیا...........​
اگر ہم محبّت کو زمین اور عشق کو آسمان سے جوڑیں، تو معاملہ پھر بھی نہیں سلجھتا..........​
اگر ہم محبّت کو محض کارِ طفلاں قرار دیں...........اور عشق کو اِس سے بے حد آگے کی چیز قرار دیں، تو میری دانست میں معاملہ پھر بھی کچھ زیادہ آگے نہیں بڑھتا........کیونکہ حدیثِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم میں خود آنجناب اپنی محبّت کو ایمان کے اہم ترین متقاضیات میں سے قرار دیتے ہیں..........آپ صرف اِسی ایک مثال سے معاملے کو سمجھ سکتے ہیں،کہ محبّت اور عشق میں کوئی میلوں کی تفاوت ہر گز نہیں............آج بھی اہل عرب اعلیٰ ترین محبّت یعنی کسی دوسرے سے محض خدا کے لیے محبت کا اظہار ’’انی احبک فی اللہ‘‘ کہہ کر کرتے ہیں.............اور یہی جذبہ برصغیر پاک و ہند میں عشق کے نام سے زیادہ معروف ہے............​
سراج اورنگ آبادی کا شعر ہے، کہ​
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی، لیا درس نسخہ عشق کا​
کہ کتاب عقل کی طاق میں ، جیوں دھری تھی تیوں دھری رہی​
سو اگر لامحالہ یہ تقسیم ضروری ہو، تو یوں کہہ لیتے ہیں کہ محبّت ’’شعور و حواس کے ساتھ کسی ذات کے ساتھ وابستگی ‘‘...................جب کہ عشق ’’عقل کی کتاب طاق میں رکھ کر اُس ذات سے وابستگی‘‘.........اسی کو شاید مغربی علماء crimson loveبھی کہتے ہیں.........اور اِس کے ساتھ دیگر platonic lovesکے حقدار تو متعدد ہوتے ہیں............اعزہ و اقارب وغیرہ وغیرہ​
اور اردو ادب میں ذرا اس اعلیٰ ترین وابستگی اور کامل ترین اطاعت و تسلیم کا نمونہ یہ شعر دیکھیے .........شاید یہی عشق ہے:​
دور بیٹھا غبارِ میر اُس سے​
عشق بن یہ ادب نہیں آتا​
اب اگر یہ بات چل ہی نکلی ہے، تو اِس موضوع کے میرے چند انتہائی پسندیدہ اشعار بھی سنتے جائیے:​
اختر الایمان کا شعر ہے...........الوہی عشق کی طرف بہت عمدہ اشارہ ہے:​
بِنائے عشق ترا حُسن ہی نہیں اے جان​
وہ ایک شعلہ جو عریاں نہیں ہے،وہ بھی ہے​
اور رئیس فروغ کا یہ شعر:​
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے​
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے​
اور آخر میں اطہر نفیس کا یہ شعر غالباً محبّت سے عشق کا سفر بیان کرتا ہے:​
عشق فسانہ تھا جب تک، اپنے بھی بہت افسانے تھے​
عشق صداقت ہوتے ہوتے کتنا کم احوال ہوا​
 
Top