محفل چائے خانہ

میں کراچی گیا تو انشا جی کے دفتر ملنے پہنچا۔ انشا بیٹھا کام کررہا ہے، ہم گپ لگا رہے ہیں۔ ادھر کی باتیں ادھر کی باتیں۔ بہت خوش۔ ایک لڑکی آئی۔ اس کی صحت بہت خراب تھی۔ اس کی آنکھوں میں یرقان اتنا نمایاں تھا کہ جیسے رنگ بھرا ہو پیلا۔ اس نے چھپانے کے لیے اپنی آنکھوں میں سرمے کی بہت موٹی تہہ لگا رکھی تھی تو کالا برقع اس نے پہنا ہوا، آ کر کھڑی ہوگئی۔ انشاء جی کے سامنے۔ اس نے ایک خط ان کو دیا وہ خط لے کر رونے لگا۔ پڑھ کر اس لڑکی کی طرف دیکھا۔ پھر میز پر رکھا، پھر دراز کھولا۔ کہنے لگے: بی بی! میرے پاس اس وقت یہ تین سو روپے ہی ہیں۔ یہ تو تم لے لو، پھر بعد میں بات کریں گے۔ کہنے لگی، بڑی مہربانی۔ وہ پچکی سی ہوگئی۔ بیچاری، اور ڈر سی گئی، گھبرا سی گئی۔ اس نے کہا، بڑی مہربانی دے دیں۔ وہ لے کر چلی گئی۔ جب چلی گئی تو میں نے انشا سے کہا، انشا! یہ کون تھی۔ کہنے لگا پتا نہیں۔ میں نے کہا، اور تجھ سے پیسے لینے آئی تھی۔ تو نے تین سو روپے دے دیے تو اس کو جانتا نہیں۔ کہنے لگا، نہیں۔ میں تو اتنا ہی جانتا ہوں۔ یہ خط ہے۔ اس میں لکھا تھا۔ محترم انشا صاحب! میں آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتی ہوں، اور ان سے بہت خوش ہوتی ہوں اور میں یہاں پر لیاری میں ایک پرائمری سکول میں ٹیچر ہوں، اور میری 130 روپے تنخواہ ہے۔ میں اور میرا بابا ایک کھولی میں رہتے ہیں، جس کا کرایہ ایک 160 روپے ہوگیا ہے، ا ور ہم وہ ادا نہیں کرسکتے، اور آج وہ بندہ سامان اٹھا کے باہر پھینک رہا ہے۔ اگر آپ مجھے 160روپے دے دیں تو میں آہستہ آہستہ کرکے 10-10 روپے کرکے اتار دوں گی۔ میں کراچی میں کسی اور کو نہیں جانتی سوائے آپ کے، وہ بھی کالم کی وجہ سے۔ میں نے کہا، اوئے بے وقوف آدمی اس نے تجھ سے 160 روپے مانگے تھے تو نے تین سو دے دیئے۔ کہنے لگا، میں نے بھی تو ’’دتوں میں سے دیا ہے، میں نے کون سا پلے سے دیا ہے۔‘‘ اس کو بات سمجھ آگئی۔ یہ نصیبوں کی بات ہے۔ یعنی میری سمجھ میں نہیں آئی۔ میں جو بڑے دھیان سے جاتا، ڈکٹیشن لیتا تھا، کوششیں کرتا تھا جاننے کی۔ میں نے کہا، اوئے یہ فقرہ تو میں نے کہیں سنا ہوا ہے۔ کہنے لگا، میں نے کچھ کالم لکھے تھے۔ یہ ان کا معاوضہ تھا۔ یہ تین سو روپے میرے پاس ایسے ہی پڑے تھے۔ میں نے دے دیئے۔ تو کوئی آٹھ مہینے کے بعد میری پھر اس سے ملاقات ہوئی۔ لاہور آیا تو کہنے لگا، وہ جو فلسفہ تیرے بابا کا ہے، بڑا خوفناک ہے اور بہت بڑا ہے۔ اس میں سے تو آدمی باہر نہیں نکل سکتا۔ میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگا، میں نے اس لڑکی کو تین سو روپے دیے تھے تو میری جان عذاب میں پڑ گئی۔ میں تو ٹوکیو ایک میٹنگ اٹینڈ کرنے گیا تھا۔وہاں مجھے یونیسکو سے خط آیا۔ تمہارے ایک ہزار ڈالر ہمارے پاس پڑے ہیں، وہ بتائیں ہم آپ کو کہاں بھیجیں۔ میں نے اس کے جواب میں لکھا، میں چونکہ سرکاری ملازم ہوں اور سرکاری حیثیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اس لیے میری گورنمنٹ نے مجھے سارا D.A, T.A دے دیا تھا۔ انہوں نے کہا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہماری طرف سے ہے جو سارے Participants کو تحفے میں دی ہوئی رقم ہے، تو میں نے فوراً خط لکھا کہ خبردار اس کو ہاتھ نہ لگانا، وہیں رکھنا۔ اس زمانے میں یہی حالات تھے۔ ڈالر کے، جو آج کل چل رہے ہیں۔ میں وہاں آ کر لے لوں گا۔ اس کی یہ کیفیت ہوئی، اس ایک سال کے اندر اندر یورش ہوگئی پیسوں کی۔ ایسی جگہ سے آنے شروع ہوگئے کہ اس نے سوچا تک نہیں تھا
اشفاق احمد کی یاداشتیں
 
ایک دفعہ ایبٹ آباد کے علاقے میں ایک مندر کے زینہ پر ایک درویش کو بیٹھے دیکھا، جو دھونی رمائے راکھ ڈھیری پر نظریں جمائے ہوئے تھا، میں نے اور حکیم نیر واسطی نے اسے سلام کیا اور نذر پیش کی، درویش نے ایک قہقہہ مارا اور آنکھیں بند کرلیں، دیکھتے ہی دیکھتے اس کی بند آنکھوں سے آنسو پھوٹ پڑے، ہم دونوں حیران ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہے!
میں نے سلسلہ گفتگو کے لیے پوچھا!’’جناب آپ یہاں کب سے بیٹھے ہیں؟‘‘ درویش نے جواب دیا!’’جوانی سے‘‘ میں نے کہا!’’عجیب جوانی تھی کہ اچھے خاصے انسان کو قید کردیا اور کھیلنے کھانے نہ دیا۔‘‘ درویش نے کہا !’’جوانی نے نہیں بٹھایا، بٹھانے والے نے بٹھایا ہے، بیٹا۔‘‘
پھر ہمارے اصرار پر اس نے بتلایا کہ میں اس علاقے کا نامی گرامی چور تھا، یہیں اسی مندر میں ایک درویش بیٹھتا تھا، جو دن بھر مستحق لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا، میں سمجھا یہ مال دار اسامی ہے اس سے اس کی جمع جوکھوں ہتھیالینا چاہیے، چنانچہ رات کو دوبجے ایسا اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا، میں نے موقعہ غنیمت جانا فوراً چل پڑا اور اس مندر میں آکر درویش سے کہا ! بتائو دولت کہاں ہے؟ اس نے نہایت اطمینان سے کہا !’’تجھے کتنی دولت چاہیے ؟‘‘ میں نے کہا!’’جتنی تیرے پاس ہے سب دیدے۔‘‘ اس نے کہا !آجامیری جگہ۔‘‘
میں اس کے پاس گیا تو اس نے بوریئے کا ایک سرا اٹھایا، اس کے نیچے بہت سے روپے پھیلے ہوئے تھے۔ کہنے لگا! یہاں میری جگہ بے فکری سے بیٹھ جا میں تیرے لیے اور دولت لاتا ہوں، یہ بوریئے کے نیچے تو بہت تھوڑا مال ہے۔ میں تجھے خزانہ دوں گا۔ تو بھی کیا یاد کرے گا۔
مجھے اس کی باتوں سے اطمینان ہوگیا،
وہ میری کمر پر ایک تھپکی دے کر چلا گیا۔ میں بیٹھ گیا اور آپ کے سامنے بیٹھا ہوں، اس کا انتظار ہے، وہ اب تک نہیں آیا،
یہاں جو خدمت وہ کرتا تھا، میرے سپرد ہے، کہ صبح سے شام تک بچوں اور غریبوں کو پیسے تقسیم کروں، اس دن سے بھوکا کبھی نہیں سویا، اور ضمیر میں کوئی کانٹا نہیں کھٹکا۔ جتنا مولا دیتا ہے، اتنا ہی تقسیم کردیتا ہوں، اور ہررات محسوس کرتا ہوں کہ وہ صبح ہی آجائے گا، بعض وقت اپنے آس پاس کوئی سایہ سا بھی محسوس کرتا ہوں، مگر کوئی جسم سامنے نہیں آتا،
ہم دونوں حیران و پریشان رہ گئے، کہ دیکھئے کیسے لوگوں کو کیسے باکمال لوگ مل جاتے ہیں، اور ہمیں شہروں میں بے وفا دوستوں کے علاوہ کوئی نہیں ملتا۔

جہان دانش ازاحسان دانش
 
مولانا اشرف علی تھانوی کی طبیعت میں مزاح اور برجستگی بہت تھی۔ زبان و بیان محاورے اور الفاظ کے الٹ پھیر سے خوب کام لیتے تھے۔ ایک بار کسی بے تکلف دوست نے کہا
’’حضرت فلاں شخص بڑے مسخرے ہیں‘‘
مولانا تھانوی نے مسکرا کر کہا ’’جی ہاں کسی ’’خر‘‘ سے ’’مس‘‘ ہوگئے ہوں گے۔
 
154869_426434107438583_628629506_n.jpg
 
مصطفی زیدی پہلے تیغ الہ آبادی تخلص کیا کرتے تھے۔ انہی دنوں الہ آباد کے ایک مشاعرے میں ان سے ایک بزرگ دریافت کرنے لگے۔ کیوں میاں تیغ! کیا تمہاری شادی ہو چکی ہے۔
تیغ کے جواب دینے سے پہلے ہی شمیم کرمانی کہنے لگے۔ جی قبلہ! کون باپ ایسا ہوسکتا ہے جو اپنی بیٹی کو تہ تیغ کرانے پر راضی ہو۔
 
ایک بار "داغ " اپنے شاگرد کنور اعتماد علی خان کے گھر گئے، مکان کے برامدے میں جگہ جگہ پنجرے لٹکے ہوئے تھے جن میں طوطے، بلبلیں، اور خوش نوا پرندے بند تھے۔
کنور صاحب کے چھ سالہ بچے نے ایک بلبل نکال کر اس کا پاؤں ڈور سے باندھ کر اڑانے لگا، دونوں بچے کی اس حرکت کو دیکھ رہے تھے۔
کنور صاحب پر گو شاعر تھے فوراً داغ کی طرف دیکھ کر مصرع پڑھا:۔
پر کے بدلے پاؤں باندھا _ بلبلِ ناشاد کا
داغ" نے فوراً گرہ لگائی:۔
کھیل کے دن ہیں لڑکپن ہے ابھی صیّاد کا
 

شمشاد

لائبریرین
سنگتروں پر یاد آیا۔

تلقین شاہ (بابا اشفاق مرحوم) اپنے ایک پروگرام میں اپنے نوکر سے کہتے ہیں کہ رات کو پھلوں والی منڈی جانا اور وہاں سے ٹوکرا بھر کر سنگتروں اور مالٹوں کے چھلکے لا کر اپنے دروازے کے آگے پھینک دینا۔
نوکر نے پوچھا وہ کس لیے تو تلقین شاہ نے کہا کہ اس سے محلے والوں پر رُعب شُوب پڑے گا کہ انہوں نے اتنے سنگترے اور مالٹے کھائے ہیں۔

اگلی صبح جب اشفاق صاحب گھر سے باہر نکلے تو اصل میں ان کے گھر کے آگے بہت سے سنگتروں اور مالٹوں کے چھلکے پڑے تھے۔
 
عورت کا دل بچے کی جیب ہے، جس میں وہ جو کچھ ملتا ہے، پر شوق ہاتھوں سے ڈال لیتا ہے۔
ٹوٹا ہوا تاگا، مرجھایا ہوا پھول، کھوٹا سکہ، پتھر کا ٹکڑا، چاقو کا دستہ ۔ ۔ ۔ یہ سب اشیا ناکارہ ہیں۔ ان کو سمجھ دار دنیا نفرت ک نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اور حقارت سے ٹھوکر لگا کر راستے سے پرے ہٹا دیتی ہے۔ مگر چھوٹے بچے کے لیے یہ عجائبات دنیا سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ وہ ان پر اپنی جانِ عزیز چھڑکتا ہے۔ ۔
عورت کا دل بھی نچے کی جیب ہے، جس میں اسے جو کچھ ملتا ہے، شوق سے ڈال لیتی ہے ۔
نفرت کے دو لفظ، محبت کا ایک کلمہ، لاپروائی کا قہقہہ، شوق بھری آواز نگاہیں، جعلی سرد آہیں، یہ سب اشیاء ناکارہ ہیں۔ سمجھ دار (مردوں کی دنیا) انہیں دیکھ کر چونک اٹھتی ہے۔ مگر عورت کے لیے یہ بیش قیمت خزانہ ہے۔ وہ اسے مردوں سے چھپا کر رکھتی ہے۔

اقتباس : ادبِ لطیف
 
جو لوگ خود کوئی تعمیری نصب العین نہیں رکھتے وہ کسی تعمیری کام کو محض اس لئے نہیں ہونے دینا چاہتے کہ کہ ایسا ہونے سے خود ان کا کھوکھلا پن دنیا کے سامنے نمایاں ہونے لگتا ہے۔

مولانا نعیم صدیقی
 
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ، ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کیے ہیں ہم نے عزیزو، چا رگریباں تم سے زیادہ
چاک جگر محتاج رفو ہے، آج تو دامن صرف لہو ہے
اک موسم تھا ، ہم کو رہا ہے شوق بہاراں تم سے زیادہ

مجروح سلطان پوری
 
جب کسی شخص کو دیکھو کہ وہ اختلاف کرنے والے کے خلاف بدتمیزی اور بدزبانی کی سطح پر آ گیا ہے تو سمجھو کہ وہ اس کے مقابلے میں دلیل کی بازی بھی ہار چکا اور اخلاق کے مقابلے میں بھی شکست کھا چکا۔ اب یہ ہرا ہوا کھلاڑی محض دل کا بخار نکال رہا ہے۔

مولانا نعیم صدیقی
 
ایک بار لکھنو میں ’ادب میں فحاشی‘ کے موضوع پر سمینار منعقد کیا گیا۔ فراق گورکھپوری سب کی باتوں کو خاموشی سے سن رہے تھے۔ یکایک انہوں نے سوال کیا ”آخر یہ فحاشی ہے کیا؟“
کسی شخص نے جواب دیا کہ ”فحاشی وہ کام ہے جو چھپ کر کیا جائے“۔
اس پر فراق صاحب نے انتہائی معصومیت سے پوچھا ”جیسے میں پیشاب کرتا ہوں"
 
مولانہ رومی کہ رمز و کنایہ میں سب کچھ کہہ جاتے ہیں، ایک اندھیری رات کی بات سناتے ہیں۔فرماتے ہیں کہ جنگل بیابان میں ایک بچہ اپنی ماں سے چمٹ کر کہنے لگا کہ امی! اندھیرے میں مجھے ایک کالا دیو نظر آتا ہےاور مارے ڈر کہ میری تو گھگی بندھ جاتی ہے۔ ماں نے جواب دیا، بیٹا!تو مرد بچہ ہے، خوف کو دل سے نکال دے، اب کی دفعہ جیسے ہی وہ دکھائی دے، آگے بڑھ کر حملہ کر دینا۔ وہیں پتا چل جائے گا کہ حقیقت ہے یا محض تیرا وہم۔بچے نے پوچھا، امی!اگر کالے دیو کی امی نے بھی اسے یہی نصیحت کر رکھی ہو تو۔۔۔
مشتاق احمد یوسفی
 
درد شکم کا ہو گیا ملا کو عارضہ
حلوے کا پور ا تھال تھا ظالم اڑا گیا

پوچھا جو ڈاکٹر نے تو بولا خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے کھا گیا
 
Top