سید شہزاد ناصر
محفلین
میں کراچی گیا تو انشا جی کے دفتر ملنے پہنچا۔ انشا بیٹھا کام کررہا ہے، ہم گپ لگا رہے ہیں۔ ادھر کی باتیں ادھر کی باتیں۔ بہت خوش۔ ایک لڑکی آئی۔ اس کی صحت بہت خراب تھی۔ اس کی آنکھوں میں یرقان اتنا نمایاں تھا کہ جیسے رنگ بھرا ہو پیلا۔ اس نے چھپانے کے لیے اپنی آنکھوں میں سرمے کی بہت موٹی تہہ لگا رکھی تھی تو کالا برقع اس نے پہنا ہوا، آ کر کھڑی ہوگئی۔ انشاء جی کے سامنے۔ اس نے ایک خط ان کو دیا وہ خط لے کر رونے لگا۔ پڑھ کر اس لڑکی کی طرف دیکھا۔ پھر میز پر رکھا، پھر دراز کھولا۔ کہنے لگے: بی بی! میرے پاس اس وقت یہ تین سو روپے ہی ہیں۔ یہ تو تم لے لو، پھر بعد میں بات کریں گے۔ کہنے لگی، بڑی مہربانی۔ وہ پچکی سی ہوگئی۔ بیچاری، اور ڈر سی گئی، گھبرا سی گئی۔ اس نے کہا، بڑی مہربانی دے دیں۔ وہ لے کر چلی گئی۔ جب چلی گئی تو میں نے انشا سے کہا، انشا! یہ کون تھی۔ کہنے لگا پتا نہیں۔ میں نے کہا، اور تجھ سے پیسے لینے آئی تھی۔ تو نے تین سو روپے دے دیے تو اس کو جانتا نہیں۔ کہنے لگا، نہیں۔ میں تو اتنا ہی جانتا ہوں۔ یہ خط ہے۔ اس میں لکھا تھا۔ محترم انشا صاحب! میں آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتی ہوں، اور ان سے بہت خوش ہوتی ہوں اور میں یہاں پر لیاری میں ایک پرائمری سکول میں ٹیچر ہوں، اور میری 130 روپے تنخواہ ہے۔ میں اور میرا بابا ایک کھولی میں رہتے ہیں، جس کا کرایہ ایک 160 روپے ہوگیا ہے، ا ور ہم وہ ادا نہیں کرسکتے، اور آج وہ بندہ سامان اٹھا کے باہر پھینک رہا ہے۔ اگر آپ مجھے 160روپے دے دیں تو میں آہستہ آہستہ کرکے 10-10 روپے کرکے اتار دوں گی۔ میں کراچی میں کسی اور کو نہیں جانتی سوائے آپ کے، وہ بھی کالم کی وجہ سے۔ میں نے کہا، اوئے بے وقوف آدمی اس نے تجھ سے 160 روپے مانگے تھے تو نے تین سو دے دیئے۔ کہنے لگا، میں نے بھی تو ’’دتوں میں سے دیا ہے، میں نے کون سا پلے سے دیا ہے۔‘‘ اس کو بات سمجھ آگئی۔ یہ نصیبوں کی بات ہے۔ یعنی میری سمجھ میں نہیں آئی۔ میں جو بڑے دھیان سے جاتا، ڈکٹیشن لیتا تھا، کوششیں کرتا تھا جاننے کی۔ میں نے کہا، اوئے یہ فقرہ تو میں نے کہیں سنا ہوا ہے۔ کہنے لگا، میں نے کچھ کالم لکھے تھے۔ یہ ان کا معاوضہ تھا۔ یہ تین سو روپے میرے پاس ایسے ہی پڑے تھے۔ میں نے دے دیئے۔ تو کوئی آٹھ مہینے کے بعد میری پھر اس سے ملاقات ہوئی۔ لاہور آیا تو کہنے لگا، وہ جو فلسفہ تیرے بابا کا ہے، بڑا خوفناک ہے اور بہت بڑا ہے۔ اس میں سے تو آدمی باہر نہیں نکل سکتا۔ میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگا، میں نے اس لڑکی کو تین سو روپے دیے تھے تو میری جان عذاب میں پڑ گئی۔ میں تو ٹوکیو ایک میٹنگ اٹینڈ کرنے گیا تھا۔وہاں مجھے یونیسکو سے خط آیا۔ تمہارے ایک ہزار ڈالر ہمارے پاس پڑے ہیں، وہ بتائیں ہم آپ کو کہاں بھیجیں۔ میں نے اس کے جواب میں لکھا، میں چونکہ سرکاری ملازم ہوں اور سرکاری حیثیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اس لیے میری گورنمنٹ نے مجھے سارا D.A, T.A دے دیا تھا۔ انہوں نے کہا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہماری طرف سے ہے جو سارے Participants کو تحفے میں دی ہوئی رقم ہے، تو میں نے فوراً خط لکھا کہ خبردار اس کو ہاتھ نہ لگانا، وہیں رکھنا۔ اس زمانے میں یہی حالات تھے۔ ڈالر کے، جو آج کل چل رہے ہیں۔ میں وہاں آ کر لے لوں گا۔ اس کی یہ کیفیت ہوئی، اس ایک سال کے اندر اندر یورش ہوگئی پیسوں کی۔ ایسی جگہ سے آنے شروع ہوگئے کہ اس نے سوچا تک نہیں تھا
اشفاق احمد کی یاداشتیں
اشفاق احمد کی یاداشتیں