عمر سیف
محفلین
گرمی کے حالات؟
گرمی تو ہے۔ پر آج کل ہوا بہت چل رہی ہے۔ ہر طرف ریت ۔ دل تنگ پڑ گیا ہے اتنی ریت دیکھ کر۔
گرمی کے حالات؟
در اصل ہمیں مدھوا کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ اگر یہ کوئی جگہ ہے تو ہمیں اس کا علم نہیں۔ ہاں کرشنا اور گوپیوں کی داستانوں میں پنگھٹ سے پانی بھرنا، گائے چرانا، دودھ اور مکھن وغیرہ سے کھیلنے کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً ایک فلمی نغمہ ہے:
بھور بھیو پنگھٹ پہ
موہے نٹ کھٹ شیام ستائے
میری چنریا لپٹی جائے
میں کا کروں ہائے رام، ہائے ہاائے
اگر یہ اس حوالے سے ہے تو "مدھوا" کی جگہ "مدھوبن" بھی ہو سکتا ہے جو کہ وہ جگہ تھی جہاں ان داستانوں کے مطابق کرشنا گوپیوں کے ساتھ گائیں چرانے جاتے تھے۔ اس حوالے سے کئی فلمی نغمے اور ہندی کی کویتائیں مل جائیں گی آپ کو۔ مثلاً:
مدھوبن میں جو کنھیا کسی گوپی سے ملے
کبھی مسکائے، کبھی چھیڑے، کبھی بات کرے
رادھا کیسے نہ جلے، رادھا کیسے نہ جلے
ایک اور امکان ہے کہ یہ "مدھوا" کے بجائے "مادھو" ہو جو کہ ایک بذرگ کا نام تھا۔ جب کرشنا جنگ کے لیے وہ جگگہ چھوڑ کر چلے گئے تھے جہاں گوپیوں کے ساتھ ان کا بچپن گزرا تھا تو کچھ عرصہ بعد ان کے پیار میں پاگل گوپیوں کو سمجھانے کی غرض سے یہ بزرگ کرشنا کے پاس سے تشریف لائے تھے۔ لیکن اس شعر میں "مادھو" کا محل نہیں ہے۔
غالباً یہ چشمہ معرفت کو مدھو بن کہا گیا ہے اہل تصوف کے ہاں اور اس سے ملنے والی مے کو مدھوا کہا گیا ہے.............اسی لیے امیر خسرو کے کلام میں متعدد جگہ پہ اس کا تذکرہ ملتا ہے..........
"مدھو" تو ہندی میں شہد کو کہتے ہیں۔ لیکن "مدھوا" کا پھر بھی نہیں معلوم۔ ممکن ہے کہ اسی کی بگڑی ہوئی شکل ہو۔
اب اس خیال خوانی کا کیا قصہ ہے؟
ٹیلی پیتھی.............
معرفت نفس...........
بگڑی ہوئی شکل ہی لگتا ہے واقعتاً...............
مدھوبن شاید نیم مدہوشی کے معنوں میں استعمال ہوا ہو...........جیسے عالم سرشاری
خیال خوانی کا مطلب تو معلوم تھا، بس "فرہاد کی طریوں" کے حوالے سے کچھ جاننا چاہ رہے تھے۔
مدھوبن کا یہ معنی ہمارے علم میں نہیں ہے۔ مدھو شہد کو بھی کہتے ہیں اور شراب کو بھی۔ جس سے مدھو شالہ یعنی میکدہ کا لفظ بنا ہے۔ لیکن بن یا ون جنگل کو کہتے ہیں اور مدھوبن ایک جگہ کا نام ہے۔
یہ فرہاد صاحب بھی پاکستانی سسپنس ڈائجسٹ کے طویل سلسلہ وار ناول دیوتا کے خیال خوانی فرمانے والے احباب میں سسے ایک سرکردہ ہستی ہیں.........نا کہ تیشے والے فرہاد............
دیوتا کے بارے میں اتنا علم ہے کہ یہ محی الدین نواب صاحب کی لازوال تخلیق ہے اور اردو دنیا کی طویل ترین داستان ہے۔ اور اس میں شاید کوئی کردار ہیں تیمور (نام میں شاید ہمیں مغالطہ ہو رہا ہو) جو اپنی سوچ کی انگلیوں سے لوگوں کے دماغوں کو ٹٹولتے ہیں۔ ویسے کبھی اسے پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
جی بالکل یہی والا دیوتا................. اور فرہاد اسی کے ایک کردار ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔عرصہ دراز تک ہم بھی اس جتن میں رہے کہ ٹیلی ہیتھی ہی سیکھ لیں................یہ پڑھائی تو فضول کام ہے..........
یہ سیکھ کر انٹرنیشنل کالنگ گیٹ وے کھول لیجیے اور سستی شرح پر بین الاقوامی روابط کروائیے۔
وہ تو یار لوگ ایف آئی اے کی نگاہ پہ چند ورق باندھ کر سر بازار کھولے بیٹھے ہوتے ہیں مرشد! خیال خوانی کی کیا ضرورت ہے بھلا اس ضمن میں؟
البتہ رقیب روسیاہ کی ذہنی گوشمالی کا خوشگوار فریضہ ادا کیا جا سکتا ہے بحسن و خوبی.......
بے چارہ رقیب رو سیاہ!
لیجیے مرشد! انشاءاللہ دوبارہ ملتے ہیں ............
السلام علیکم...............
ہاں یاد آیا..........جاتے جاتے ایک سوال.........
’’حسن ظاہر میں اتم ہے یا باطن میں‘‘..................
ٹھیک ہے بھیامرشد سے درخواست کرتے ہیں...........کہ ہم دونوں بہن بھائیوں کو سکھا ہی ڈالیں ایک آدھ ماہ میں...........