بار بار محفل کھول کے صرف ان کا ذکر کرنے اور پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ وارث بھائی کے جاننے اور چاہنے والے صرف اس محفل پر نہیں بلکہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر فارسی اشعار تلاش کرنے اور پڑھنے والے اس نام سے واقف ہیں۔ یہ نام اپنے کام کے ساتھ زندہ رہے گا۔
بالکل درست کہا آپ نے وارث میاں اپنے کام کے ساتھ زندہ رہیں گے ۔۔۔
ہم انکے کام اور قابلیت کے تو قدر دان تھے ہی پر بار بار ہم انکی عجز وانکساری کے گرویدہ کبھئ کوئی بات پوچھنی ہوئی تو اس ادب سے اور احترام سے سمجھایا کہ معنی کبھی نہ بھولے ۔۔۔نہ کبھی اپنے زیادہ جاننے کا رعب و دبدبہ جتلایا نہ ہماری کم علمی کو ٹارگٹ کیا نہ ہمیں یہ کہا آپ وہاں سے پڑھ لیں تو سمجھ جائیں گی ۔۔اس عزت و احترام سے سمجھایا کہ کیا کوئی استاد سمجھائے گا پر کہیں بھی عزت و احترام پر آنچ نہ آئی ابھئ ہم کسی کہ کمنٹ پر انکا جواب پڑھ رہے تھے آپ کے ساتھ شئیر کرتے تلخ بات بھی اس خوبصورت پرائے میں لکھتے کہ بندہ بار بار پڑھے
محمد وارثDecember 19, 2009 at 9:14 PM
'بھوپال صاحب اور افضل صاحب، جو لوگ 'پبلک فگر' ہوتے ہیں انکی انتہائی ذاتی اور نجی زندگی میں قاضی آ ہی جاتے ہیں، ورنہ ہم جیسوں کو ہم جیسے لوگوں کی بیویوں کے حالات جانے کی قطعاً فکر نہیں ہوتی، خیر بات جملۂ معترضہ سے شروع کرنے پر معذرت چاہتا ہوں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ منٹو کے مرنے کے بعد انکی بیوی صفیہ بیگم اور ان کی بچیوں کے بے شمار انٹرویوز چھپے اور انکی کئی ایک تحاریر منصۂ شہود پر آئیں، ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو اپنے شوہر اور اپنے باپ سے سوا دنیا میں کوئی اور عزیز نہ تھا۔
جہاں تک نشے کی بات ہے تو جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں اور اسکا خمیازہ بھی بھگتے ہیں، اب فنونِ لطیفہ سے ہی تعلق رکھنے والے زیادہ تر ایسا کیوں کرتے ہیں تو یہ ایک اچھا موضوع ہے، اس پر تو ایک مستند اور ثقہ قسم کی پی ایچ ڈی لکھی جا سکتی ہے یا کسی پروفیسر کے حلوے مانڈے کا مستقل انتظام ہو سکتا ہے۔
رہا منٹو کا موضوع، تو میں نے عرض یہ کیا تھا کہ جس موضوع پر منٹو کی یہ کتاب 'آتش پارے' ہے اس کو پذیرائی نہیں ملی وگرنہ منٹو سے زیادہ پذیرائی کسے ملی ہے، عوام اور حکومت دونوں کی عدالت میں۔
گھٹیا موضوع خوب کہا آپ نے افضل صاحب، اپنے ناسوروں کا جائزہ لینا اور ان کو اطباء و حکماء کے سامنے کھول کر رکھنا کیا واقعی گھٹیا ہے؟ ڈی ایچ لارنس نے برطانیہ کی عدالت کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ کیا کوئی، کسی ایک بھی طوائف کا نام بتا سکتا ہے جس نے کوئی کتاب پڑھ کر یہ پیشہ شروع کیا ہو؟ جسکی ساری زندگی ہی ایک گالی ہے اس کو کسی گالی سے کیا فرق پڑے گا، سوچنا تو انہیں چاہیئے جو معاشرے کے ٹھیکیدار ہیں جو کسی بھی جگہ کسی بھی بد دیانتی اور بد عنوانی پر احتجاج کرتے ہیں چاہے وہ معاشی ہو یا سیاسی، مذہبی ہو یا علمی لیکن جب اخلاقی بددیانتی کا ذکر آئے
تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔