یہ تو ہوگئی اجتماعی دھڑا بندی اور فرقہ بازی۔ اب آئیے انفرادی انفرادی کھیلتے ہیں۔ تو چلتے ہیں اس انفرادی نما اجتماعی کیفیت کی طرف جس کا ہر فرد انفرادی طور پر شکار ہے۔ یہ وہ کیفیاتِ فطریہ ہیں جن کی قید سے رہائی روح کے قفس عنصری سے رہا ہونے تک محال سمجھیے۔
فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق سب لوگ عمر رفتہ کے ساتھ ساتھ جسمانی و ذہنی شکستگی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کے پہیہ کا ایسا چکر ہے جسے روکنا کسی کے بس میں نہیں۔ ایسے لوگ جوانی میں بڑے چول باز ہوتے تھے اور جگتیں مارنے میں ان کا کوئی ثانی نہ ہوتا تھا لیکن وقت گزرنے کے بعد چول بازوں اور جگتیں مارنے والوں کو یہی لاثانی لوگ شرم دلا دلا کر پانی پانی کردیتے ہیں۔ یہ عالمِ خشک سالی ان کی پیرانہ سالی کے باعث ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ پیدا ہی خشک سالی کا شکار بنے ہوتے ہیں۔ہر دو صورتوں میں ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ جہاں کوئی زور سے ہنسا ان کو اس کی صورت پر پھکڑ پن دکھائی دیا۔ چاہے وہ صورت لاکھ من موہنی ہو ان کا من ککھ وی نہیں موہ سکتی۔ ان لوگوں کے نزدیک ہنسنا بولنا صرف اس وقت پھکڑ پن نہیں ہوتا جب وہ خود اس فعل کو انجام دے رہے ہوں۔
درست صد فی صد درست جب کہ عالمِ دنیا یہ ہے
پھر بھی باز نہ آئیں گے یہ جفا کار
ہنسنے رونے سے گئے، ربط بڑھانے سے گئے
ایسی اُفتاد پڑی سارے زمانے سے گئے
وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی
اپنے سجدوں سے گئے، رزق کمانے سے گئے
دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
اس قدر قحط ِ وفا ہے مرے اطراف کہ اب
یار یاروں کو بھی احوال سُنانے سے گئے
بہت خوب لکھا ایک لفظ سچا !!!!!!
سچ دنیا کو لوگوں نے سب کچھ بنالیا اپنے لئے کچھ اور پیرا میڑز ہیں اور دوسروں کے لئے اور ۔۔