مزاحیہ اشعار

شمشاد

لائبریرین
بیگم بھی ہیں کھڑی ہوئی میدان حشر میں
مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
ہاشم عظیم آبادی
 

شمشاد

لائبریرین
ہم نے کتنے دھوکے میں سب جیون کی بربادی کی
گال پہ اک تل دیکھ کے ان کے سارے جسم سے شادی کی
سید ضمیر جعفری
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے ساتھ کی سب لڑکیاں اب نانیاں ہوں گی
کبھی بسکٹ تھیں لیکن اب وہ باقر خانیاں ہوں گی

ہمارے رہنماؤں نے کچھ ایسے بیج بوئے ہیں
جہاں تربوز اگتے تھے وہاں خوبانیاں ہوں گی
(خالد عرفان)
 

شمشاد

لائبریرین
وہ ہمیں بے وفا کہتے ہیں تو کہتے رہیں فراز
امی کہتی ہیں جو کہتا ہے وہ خود ہوتا ہے
بنت شمشاد اگر تمہاری امی کہتی ہیں تو ٹھیک ہی کہتی ہوں گی۔

اردو محفل کا اصول ہے کہ پہلے اپنا تعارف دیتے ہیں تاکہ دوسرے اراکین محفل بھی متعارف ہو سکیں۔ تو پہلے اپنا تعارف دیں۔

یہ رہا تعارف کا زمرہ
 

شمشاد

لائبریرین
بعد شعر و شاعری کھانے کا رکھیے انتظام
یہ غلط دستور ہے پہلے طعام اور پھر کلام
دلاور فگار
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
پنڈ کے بوہڑ تھلے ہم عشق لڑایا کرتے تھے
وہ پانڈے مانجا کر تی تھی ہم مج نہوایا کرتے تھے

وہ ہر کام میں اگے تھی ہم ہر کام میں پھاڈی تھے
وہ سبق مکا کے بہہ جاتی تھی ہم پنسل گھڑیا کرتے تھے
 

شمشاد

لائبریرین
جدوں میری بے بے اس کے گھر رشتہ لین گئی
وہ کالج جایا کرتی تھی ہم درس میں پڑھیا کرتے تھے

گرمیوں میں سِکھر دوپہری ہم بیری پہ چڑہیا کرتے تھے
منہ سج پڑولا ہوتا تھا جب ڈیموں لڑیا کرتے تھے

پنڈکے چھپڑکنڈے جب وہ مینوں ملنے آتی تھی
_شیدا، گاما، فضلو، طیفا مفت میں‌سڑیا کرتے تھے
 

شمشاد

لائبریرین
موسیٰ صفت تھا کوئی تو کی بات طور کی
عاشق کو سوجتی ہیں محبت میں دور کی

ہر روز ان كے کوچے میں دیتا ہوں یہ صدا
مہندی فرید آباد کی ، میتھی قصور کی
 

شمشاد

لائبریرین
عشق كے میدان میں دوڑے تو نہیں تھے
اب بھی گدھے ہو پہلے بھی گھوڑے تو نہیں تھے

آفس بے لیٹ آئے ہو اور کان بھی ہے لال
بیگم نے رات کو کان مروڑے تو نہیں تھے

شکایت کیوں کی اپنے باپ سے جا کر
پاکری تھے ہاتھ تیرے توڑے تو نہیں تھے

کل شام مجھے دیکھ کر تم بھاگے کیوں اِس طرح
ساغر كے ہاتھ میں کوئی روڑے تو نہیں تھے
 

شمشاد

لائبریرین
پرانی محبوبہ کے نام

اِس طرح ستانے کی ضرورت کیا تھی
کمینی دِل کو جلانے کی ضرورت کیا تھی

جو نہیں تھا عشق تو بھونک دیتی
اپنی اوقات دکھانے کی ضرورت کیا تھی

معلوم تھا کے یہ خواب ٹوٹ جائے گا
او منحوس پِھر نیند میں آنے کی ضرورت کیا تھی

مان لو اگر یہ ایک طرفہ محبت تھی
تو پِھر چوہی كے منہ والی
مجھے دیکھ کر مسکرانے کی ضرورت کیا تھی
 

سیما علی

لائبریرین
دیکھا جو زلفِ یار میں کاغذ کا ایک پھول
میں کوٹ میں گلاب لگا کر چلا گیا
پوڈر لگا کے چہرے پہ آئے وہ میرے گھر
میں ان کے گھر خضاب لگا کر چلا گیا
 

سیما علی

لائبریرین
یوں تو خاصی دیر میں جا کر عشق کا شعلہ بھڑکا ہے
چھوٹی عمر میں شادی کے نقصان کا پھر بھی دھڑکا ہے

دلہا اور دلہن کی عمریں پوچھی تو معلوم ہوا
پچپن سال کی لڑکی ہے او ساٹھ برس کا لڑکا ہے

ڈاکٹر انعام الحق جاوید
 
Top