ش
شہزاد احمد
مہمان
شب خوں کے لیے فلک پھرے ہے
کھینچے ہوئے تیغ، کہکشاں سے ۔۔۔۔۔
نہ لازم نیستی اُس کو، نہ ہستی ہی ضروری ہے
بیاں کیا کیجیے اے درد! ممکن کی تباہی کو
اور افزونی طلب کی بعد مرنے کے ہوئی
خاک ہونے نے، کیا ہر ذرہ گرمِ جستجو
کھینچے ہوئے تیغ، کہکشاں سے ۔۔۔۔۔
نہ لازم نیستی اُس کو، نہ ہستی ہی ضروری ہے
بیاں کیا کیجیے اے درد! ممکن کی تباہی کو
اور افزونی طلب کی بعد مرنے کے ہوئی
خاک ہونے نے، کیا ہر ذرہ گرمِ جستجو