مشکل اور پیچیدہ اشعار کی تشریح

ش

شہزاد احمد

مہمان
شب خوں کے لیے فلک پھرے ہے
کھینچے ہوئے تیغ، کہکشاں سے ۔۔۔۔۔


نہ لازم نیستی اُس کو، نہ ہستی ہی ضروری ہے
بیاں کیا کیجیے اے درد! ممکن کی تباہی کو


اور افزونی طلب کی بعد مرنے کے ہوئی
خاک ہونے نے، کیا ہر ذرہ گرمِ جستجو
 

الف عین

لائبریرین
پہلا شعر تو مجھے بھی پسند ہے۔
فلک کیونکہ جور و ستم کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، تو اس کے ہاتھ میں تلوار دے دی گئی ہے اور وہ بھی کہکشاں کی۔ کہکشاں بھی ایسی ہی خمدار ہوتی ہے نا جیسے تلوار!
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
پہلا شعر تو مجھے بھی پسند ہے۔
فلک کیونکہ جور و ستم کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، تو اس کے ہاتھ میں تلوار دے دی گئی ہے اور وہ بھی کہکشاں کی۔ کہکشاں بھی ایسی ہی خمدار ہوتی ہے نا جیسے تلوار!
شکریہ ۔۔۔ ویسے میری صلاح یہ تھی کہ اس فورم پر کوئی ایسا سلسلہ بھی شروع کیا جائے، اگر پہلے سے موجود نہیں ہے، جہاں پیچیدہ اور مشکل اشعار کی تشریح کا کوئی "مناسب انتظام" موجود ہو ۔۔۔
 

کاتب

محفلین
محترم شہزاد احمد صاحب، پیچیدہ اور مشکل اشعار کی تشریح کے سلسلے کی تجویز نہ صرف بہت اچھی بلکہ نہایت اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ اس سے مجھ جیسے محدود علم کے حامل افراد نہ صرف مستفید ہو سکیں گے بلکہ یہ سلسلہ فروغ علم و ادب کا باعث بھی بنے گا۔ لہٰذا آپ کی تجویز سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے آپ کو اس کار خیر پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

پیچیدہ اور مشکل اشعار کی تشریح کے سلسلےکو آگے بڑھاتے ہوئے، میں صاحبان علم سے درخواست گزار ہوں کہ درج ذیل شعر جو مجھے کافی عرصہ سے پریشان کئے ہوئے ہے، کے الفاظ و معانی کی تشریح سے نوازیں۔ شکریہ

غالبا اقبال کا شعر ہے:

مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست
مور بے پر حاجتِ پیشِ سلیمانے مبر

اس شعر کا بقیہ کلام کیا ہے؟
مومیائی کا کیا مطلب ہے؟
فارسی شعر کا کیا مطلب ہے؟

اضافی سوال؟ اس فورم میں دو زبر کیسے لگاتے ہیں؟
شکریہ:)
 

محمد وارث

لائبریرین
محترم شہزاد احمد صاحب، پیچیدہ اور مشکل اشعار کی تشریح کے سلسلے کی تجویز نہ صرف بہت اچھی بلکہ نہایت اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ اس سے مجھ جیسے محدود علم کے حامل افراد نہ صرف مستفید ہو سکیں گے بلکہ یہ سلسلہ فروغ علم و ادب کا باعث بھی بنے گا۔ لہٰذا آپ کی تجویز سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے آپ کو اس کار خیر پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

پیچیدہ اور مشکل اشعار کی تشریح کے سلسلےکو آگے بڑھاتے ہوئے، میں صاحبان علم سے درخواست گزار ہوں کہ درج ذیل شعر جو مجھے کافی عرصہ سے پریشان کئے ہوئے ہے، کے الفاظ و معانی کی تشریح سے نوازیں۔ شکریہ

غالبا اقبال کا شعر ہے:

مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست
مور بے پر حاجتِ پیشِ سلیمانے مبر

اس شعر کا بقیہ کلام کیا ہے؟
مومیائی کا کیا مطلب ہے؟
فارسی شعر کا کیا مطلب ہے؟

اضافی سوال؟ اس فورم میں دو زبر کیسے لگاتے ہیں؟
شکریہ:)

مومیائی - موم کی طرح نرم ایک دوا جو زخموں پر لگائی جاتی ہے۔
مور - چیونٹی
مبر - نہ کر

مانگے تانگے کی دوا سے بہتر ہے کہ غیرت مند انسان زخموں سے ٹوٹ پھوٹ جائے۔ تو اگر بغیر پروں والی چیونٹی بھی ہے تو سلیمان یعنی دنیاوی بادشاہوں کے سامنے حاجت پیش نہ کر۔ اس میں چیونٹی اور حضرت سلیمان ع کے واقعے کی طرف اشارہ یعنی تلمیح ہے۔

یہ شعر علامہ کی طویل نظم خضرِ راہ کا ایک شعر ہے، کتاب بانگِ درا
 

کاتب

محفلین
السلام و علیکم

عزیز و قابلِ صد احترام، برادر محمد وارث صاحب۔ تاخیر سے حاضری و سپاس گذاری کی معذرت قبول فرمائیے۔

بے حد مشکور و ممنون احسان ہوں کہ آپ نے نہایت آسان لفظوں اور تفصیل سے علامہ اقبال کے کلام کی تشریح و وضاحت فرمائی جس کی کافی عرصہ سے مجھے ضرورت تھی۔ آپ کی بلاگ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا جس سے جناب کے مرتبہ علمی کا علم ہوا۔ اور یہ پیاسا ان شا اللہ گاہے بگاہے اس چشمہ علم سے سیرابی حاصل کرتا رہے گا۔

اللہ کریم آپ کے علم و فضل میں برکت و اضافہ اور طالبان علم کو آپ سے فیضیابی کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین۔

والسلام و علیکم
 

کاتب

محفلین
غالب کی غزل کے درج ذیل شعر کے پہلے مصرعہ کا مفہوم و پس منظر کیا ہے۔ میں اپنی ناقص دانست میں یہ سمجھتاآیا ہوں کہ اس سے مراد ایک خفیف طنز ہے۔

مقطع میں آ پڑی ہے، سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے


مقطع:
صادق ہوں اپنے قول میں، غالبؔ! خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ، جھوٹ کی عادت نہیں مجھے


مزید یہ کہ درج بالا شعر اصل مقطع کے ساتھ کوئی تعلق رکھتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو براہ کرم مکمل مفہوم یا تشریح سے نوازیں۔ بہت شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
غالب کی غزل کے درج ذیل شعر کے پہلے مصرعہ کا مفہوم و پس منظر کیا ہے۔ میں اپنی ناقص دانست میں یہ سمجھتاآیا ہوں کہ اس سے مراد ایک خفیف طنز ہے۔

مقطع میں آ پڑی ہے، سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

مقطع:
صادق ہوں اپنے قول میں، غالبؔ! خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ، جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

مزید یہ کہ درج بالا شعر اصل مقطع کے ساتھ کوئی تعلق رکھتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو براہ کرم مکمل مفہوم یا تشریح سے نوازیں۔ بہت شکریہ

درست مصرع یوں ہے

مقطع میں آ پڑی تھی سخن گسترانہ بات

مقطع سے یہاں مراد اِس قطعہ معذرت کا مقطع نہیں بلکہ اُس سہرے کا مقطع ہے جو اصل فساد کی جڑ تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے بیٹے کی شادی کے موقع غالب نے ایک سہرا لکھا تھا اور کہا جاتا ہے کہ غالب صنف سہرا کا موجد ہے، اور اس سہرے کے مقطع میں لکھا تھا کہ دیکھیے اس سہرے سے بڑھ کر سہرا کون لکھتا ہے۔ سہرے کا مقطع یہ ہے

ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا

اس سے بادشاہ اور بادشاہ کا استاد ذوق دونوں اس کو چوٹ سمجھ کر غالب سے ناراض ہو گئے تھے اور ذوق نے پھر ایک سہرا لکھ کر بھی دکھایا، اس کے بعد مجبوراً غالب کو قطعہ معذرت بعنوان بیان مصنف لکھنا پڑا جس کے اشعار آپ نے درج کیے ہیں۔

پورا واقعہ، ذوق کا جوابی سہرا، اور دونوں سہروں کی حیثیت پر مولانا غلام رسول مہر نے نوائے سروش میں سیر حاصل بحث کی ہے، مطالعہ سود مند ثابت ہوگا، انشاءاللہ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام و علیکم

عزیز و قابلِ صد احترام، برادر محمد وارث صاحب۔ تاخیر سے حاضری و سپاس گذاری کی معذرت قبول فرمائیے۔

بے حد مشکور و ممنون احسان ہوں کہ آپ نے نہایت آسان لفظوں اور تفصیل سے علامہ اقبال کے کلام کی تشریح و وضاحت فرمائی جس کی کافی عرصہ سے مجھے ضرورت تھی۔ آپ کی بلاگ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا جس سے جناب کے مرتبہ علمی کا علم ہوا۔ اور یہ پیاسا ان شا اللہ گاہے بگاہے اس چشمہ علم سے سیرابی حاصل کرتا رہے گا۔

اللہ کریم آپ کے علم و فضل میں برکت و اضافہ اور طالبان علم کو آپ سے فیضیابی کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین۔

والسلام و علیکم

ذرہ نوازی ہے آپ کی محترم، نوازش آپ کی۔
 

کاتب

محفلین
درست مصرع یوں ہے

مقطع میں آ پڑی تھی سخن گسترانہ بات

مقطع سے یہاں مراد اِس قطعہ معذرت کا مقطع نہیں بلکہ اُس سہرے کا مقطع ہے جو اصل فساد کی جڑ تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے بیٹے کی شادی کے موقع غالب نے ایک سہرا لکھا تھا اور کہا جاتا ہے کہ غالب صنف سہرا کا موجد ہے، اور اس سہرے کے مقطع میں لکھا تھا کہ دیکھیے اس سہرے سے بڑھ کر سہرا کون لکھتا ہے۔ سہرے کا مقطع یہ ہے

ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا

اس سے بادشاہ اور بادشاہ کا استاد ذوق دونوں اس کو چوٹ سمجھ کر غالب سے ناراض ہو گئے تھے اور ذوق نے پھر ایک سہرا لکھ کر بھی دکھایا، اس کے بعد مجبوراً غالب کو قطعہ معذرت بعنوان بیان مصنف لکھنا پڑا جس کے اشعار آپ نے درج کیے ہیں۔

پورا واقعہ، ذوق کا جوابی سہرا، اور دونوں سہروں کی حیثیت پر مولانا غلام رسول مہر نے نوائے سروش میں سیر حاصل بحث کی ہے، مطالعہ سود مند ثابت ہوگا، انشاءاللہ :)

برادرم و استاذِ گرامی قدر محمد وارث صاحب!

سب سے پہلے تو تصحیح کا شکرگزار ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کی عنایت کردہ وضاحت سے معلومات اور علم میں گرانقدر اضافہ ہوا جس کے لئے احسان مند اور دعا گو ہوں۔

معلوم نہیں کہ ایسا کہنا (علمی) بے ادبی ہو یا نہیں لیکن سوء ادب ہر گز مقصود نہیں۔ آپ کی عطا کردہ معلومات کے رد عمل میں بہادر شاہ ظفر اور استاد ابراہیم ذوق کا شعر و ادب کے حوالے سے (شب گزشتہ) ایک سرسری مطالعہ کیا۔ مجھے ایک گونہ افسوس ہوا کہ نالائق اور بزدل بادشاہ اور حسد و غرور میں مبتلا ذوق نے غالب کی نا قدر شناسی کی اور غالب کو معذرت پر مجبور کیا۔

مولانا غلام رسول مہر کی نوائے سروش کا مطالعہ تجویز فرمانے کا بہت شکریہ۔ میں اپنی اردو زبان کی اہلیت کو بہتر بنانے میں مصروف ہوں اور الحمد اللہ یہاں کافی مدد مل رہی ہے اور جلد ہی نوائے سروش کا حصول اور مطالعہ ہو گا۔

مجھے امید ہے کہ گاہے بگاہے اس زمرہ میں سوالات پوچھ کر آپ اور دیگر رفقا جوابات سے اسی طرح نواز کر میرے اور مجھ جیسے نو آموزان کی تعلیم اور ادبی تربیت کو جاری و ساری رکھیں گے جو نہ صرف اس دھاگے کا بنیادی مقصد بلکہ آپ جیسے محسنین کا وصف و کمال ہے۔

بہت شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
نوازش آپ کی محترم۔

غالب اور ذوق کی چپقلش یا زیادہ واضح الفاظ میں ذوق کا حسد واقعی ایک تاریک باب ہے اور اسی وجہ سے غالب نے انتہائی کسمپرسی اور افلاس کی زندگی بسر کی کہ اس وقت بادشاہ اور نوابین اور تعلقہ دار وغیرہ ہی شعرا کے مربی ہوتے تھے، دہلی میں بادشاہ ہی سب سے بڑا سہارا تھا اور غالب اسکے دربار سے دور رکھا گیا۔ ذوق کی وفات کے بعد چند سال آسودگی سے گزرے تو 1857ء کی جنگِ آزادی میں سب کچھ مٹ گیا اور غالب ایک بار پھر خاک نشین ہو گیا۔
 

فاخر رضا

محفلین
نہ لازم نیستی اُس کو، نہ ہستی ہی ضروری ہے
بیاں کیا کیجیے اے درد! ممکن کی تباہی کو

اس شعر میں شاعر وجود کی قسموں پر روشنی ڈال رہا ہے
فلسفے کے اعتبار سے وجود کی تین قسمیں ہی ممکن ہیں
واجب الوجود، یعنی وہ وجود جس کا ہونا لازمی ہے اور اسے ہونے کے لئے کسی اور وجود کی ضرورت نہی ہوتی، وہ وجود خود سے قائم ہوتا ہے. خود سے قائم رہنے کے لئے غنی اور صمد ہونا ضروری ہے، ظاہر ہے کہ یہ وجود مادی نہیں ہوسکتا کیونکہ مادہ نہ خود سے وجود میں آسکتا ہے نہ قائم رہ سکتا ہے. مادے کے وجود کا انحصار حرکت پر ہے، اب چاہے یہ حرکت اندرونی ہو جیسے الیکٹران کی حرکت یا بیرونی مثلاً دنیا کی اپنے محور اور مدار میں

دوسرا وجود ممتنع الوجود ہے جس کا ہونا کسی صورت ممکن نہیں، مثلاً ایک انڈا ایک ہی وقت میں انڈا بھی ہو اور چوزہ بھی ہو جو دانہ چگتا ہے

وجود کی آخری قسم ممکن الوجود ہے جسے اپنے ہونے اور نہ ہونے کے لئے کسی سبب کی ضرورت ہوتی ہے. یہ مادی دنیا ممکن الوجود ہی ہے اور اسے اپنے ہونے کے لئے ایک واجب الوجود کی ضرورت ہے
شاعر نے اس ممکن الوجود کی نازک صورتحال پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے وجود کو ہر لمحے لاحق خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے تباہی سے تشبیہ دی ہے. یہ وجود ہر لمحہ واجب کا محتاج ہے یعنی تباہی کے دہانے پر ہے. فلسفی نقطہ نگاہ سے خدا اور کائنات کا تعلق گھڑی ساز اور گھڑی والا نہیں ہے، بلکہ یہ تعلق سورج اور اس کی کرنوں والا ہے. ایک لمحے کےلیے سورج سے قطع تعلق کرنوں کی نابودی کا سبب بن جاتا ہے

پڑھنے کے لئے شکریہ
 
نہ لازم نیستی اُس کو، نہ ہستی ہی ضروری ہے
بیاں کیا کیجیے اے درد! ممکن کی تباہی کو

اس شعر میں شاعر وجود کی قسموں پر روشنی ڈال رہا ہے
فلسفے کے اعتبار سے وجود کی تین قسمیں ہی ممکن ہیں
واجب الوجود، یعنی وہ وجود جس کا ہونا لازمی ہے اور اسے ہونے کے لئے کسی اور وجود کی ضرورت نہی ہوتی، وہ وجود خود سے قائم ہوتا ہے. خود سے قائم رہنے کے لئے غنی اور صمد ہونا ضروری ہے، ظاہر ہے کہ یہ وجود مادی نہیں ہوسکتا کیونکہ مادہ نہ خود سے وجود میں آسکتا ہے نہ قائم رہ سکتا ہے. مادے کے وجود کا انحصار حرکت پر ہے، اب چاہے یہ حرکت اندرونی ہو جیسے الیکٹران کی حرکت یا بیرونی مثلاً دنیا کی اپنے محور اور مدار میں

دوسرا وجود ممتنع الوجود ہے جس کا ہونا کسی صورت ممکن نہیں، مثلاً ایک انڈا ایک ہی وقت میں انڈا بھی ہو اور چوزہ بھی ہو جو دانہ چگتا ہے

وجود کی آخری قسم ممکن الوجود ہے جسے اپنے ہونے اور نہ ہونے کے لئے کسی سبب کی ضرورت ہوتی ہے. یہ مادی دنیا ممکن الوجود ہی ہے اور اسے اپنے ہونے کے لئے ایک واجب الوجود کی ضرورت ہے
شاعر نے اس ممکن الوجود کی نازک صورتحال پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے وجود کو ہر لمحے لاحق خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے تباہی سے تشبیہ دی ہے. یہ وجود ہر لمحہ واجب کا محتاج ہے یعنی تباہی کے دہانے پر ہے. فلسفی نقطہ نگاہ سے خدا اور کائنات کا تعلق گھڑی ساز اور گھڑی والا نہیں ہے، بلکہ یہ تعلق سورج اور اس کی کرنوں والا ہے. ایک لمحے کےلیے سورج سے قطع تعلق کرنوں کی نابودی کا سبب بن جاتا ہے

پڑھنے کے لئے شکریہ
ایسی تشریح کبھی نہیں پڑھی پتہ ہی نہیں چلا شعر کے بارے میں ہے یافلسفے کا لیکچر ہے ؟؟
کلاس ختم
 

فاخر رضا

محفلین
ایسی تشریح کبھی نہیں پڑھی پتہ ہی نہیں چلا شعر کے بارے میں ہے یافلسفے کا لیکچر ہے ؟؟
کلاس ختم
اگرچہ آپ نے نہیں پڑھی مگر دیگر صاحبان نظر نے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے. دوسری بات یہ ہے کہ یہ تشریح میں نے پہلی دفعہ کی ہے اور یہاں پوسٹ کی ہے تو کیسا ممکن تھا کہ آپ پڑھتے. تیسری بات یہ ہے کہ آپ کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے.
 
اگرچہ آپ نے نہیں پڑھی مگر دیگر صاحبان نظر نے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے. دوسری بات یہ ہے کہ یہ تشریح میں نے پہلی دفعہ کی ہے اور یہاں پوسٹ کی ہے تو کیسا ممکن تھا کہ آپ پڑھتے. تیسری بات یہ ہے کہ آپ کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے.
ہمیں لگتا ہے آُپ نے ہمارا کومنٹ نہیں پڑھا
 

مزمل اختر

محفلین
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہو تجھے ایسا بھی نہیں ہے

اس شعر کی کچھ وضاحت کریں دونوں چیزیں کیسے ممکن ہے
 

فرقان احمد

محفلین
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں ہے

اس شعر کی کچھ وضاحت کریں دونوں چیزیں کیسے ممکن ہے

شاعر محبوب کو مکمل طور پر بھلا نہ پایا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ محبوب کی یاد اب بھی کبھی کبھار اسے بے طرح ستاتی ہے۔
ناصر کاظمی کا ایک شعر یاد آ گیا۔
اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی!!!
 
Top