فلسطین کے انسانوں کو دو ٹانگوں والے جانور ، گراس ہوپر ، ڈاگز ،non-existent people کہا جاتا ہے۔
اگر یہاں کوئی تخصیص ہے یا آیت واضح نہ ہے تو پھر فرمائیے۔
اب صاحب تاگہ (مرشد) کو ہی اس کا خیال نہ رہا تو میں (مرید) مرتا کیا نہ کرتا، ماسوائے بھٹک جانے کے۔
غیر سید سوچ رہے ہوں گے اور ایک طرح کے غم میں ہوں گے کہ اس ساری گفتگو کے ذریعے تو ہم ایک دوسرے درجے کے مومن بن کر رہ گئے!
چاہے کچھ کر لیں۔
یہ غم ایک بدعت کی وجہ سے ہے جو اس لڑی میں میں نے برپا کی ہے۔ دیکھیں انسانی ضمیر کس قدر باشعوراور پاک ہوتاہے، چاہے کتاب نہ بھی پڑھی ہو، کیسے بدعت کی نحوست پر تڑپ اٹھتا ہے۔
وہ بدعت جو میں نے کی وہ یہ ہے کہ بطور آل محمد ص ، خود سے محبت اور اکرام کا تعارف خود ہی کر دیا۔ یہ بدعت بھی ہے اور بے حیائی بھی ہے۔ اس کی تصریح قرآن کی آیت مودت ہے، جو مومنین سے آل محمد ص سے مودت کا تقاضہ کرتی ہے نا کہ آل محمد ص مومنین سے کہیں کہ ہم سے محبت کرو، ہمیں مخلص جانو اور ہم سے دین سیکھو۔
آیت پیش ہے:
(اے میرے رسول!) کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت کے عوض) پر کوئی معاوضہ (اور مزد و اجرت) نہیں مانگتا سوا (میرے) قرابت داروں (اور اہل خاندان) کی محبت کے۔
سورہ شوری آیت 23
دیکھیں آیت میں اللہ رسول ص کے ذریعے کہلوا رہے ہیں تاکہ اصل بار رسول ص پر بھی نہ رہے چا جائے کسی آل محمد ص پر! ویسا تو قرآن سب کا سب کلام اللہ ہے، لیکن اس مقام پر اللہ نے خاص کر رسول ص کی عظیم حیا کا پاس رکھا۔
دو رکعت کا امام بھی لوگ کہیں تو بنتا ہے ناکہ خود صلوۃ الجماعت کے لیے آگے بڑھ جائے۔ یہ ادب کے خلاف بات اور کھلی بے حیائی ہے۔ لوگ منتخب کرتے ہیں کسی فرد کو اسکی نیکی یا پاکی کی وجہ سے اور خود اپنی پاکی بیان کرنا ہی حرام ہے بلکہ ڈرنے کا مقام ہے۔
پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے۔ سورہ النجم 32
میں نے کہا اس راز کا فاش کر دوں تاکہ لوگ اطمینان میں آئیں۔
میں خود ایک غیر سید بزرگ مولانا الیاس قادری سے ارادت رکھتا ہوں۔ انکی تعلیمات سے اپنی دھلائی کرتا رہتا ہوں اور ابھی بہت داغ باقی ہیں۔ بقیہ علم سیکھنے کے معاملے میں میرا مسلک یہ ہے کہ علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے، جہاں کہیں بھی اسے پائے وہ اسے حاصل کر لینے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ سو مسلم شیعہ سنی دیوبندی بریلوی اہل حدیث، غیر مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، یہودی وغیرہ جس سے جو حکمت کی بات ملے سیکھ لیتا ہوں۔