مصطفی جاگ گیا ہے - تبصرے

علی وقار

محفلین
خود بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ مقدر کو دعا بدل سکتی ہے۔ اچھی صحبتیں بھی دعا حاصل کرنے اور برے مقدر کو بدلنے ذریعہ ہے۔

کنعان اوباش، مکار اور فطین مرد تھا۔ علم سب تھا،باپ سے ڈھٹائی کر رہا تھا۔ قرآن میں مذکور ہے کہ پہاڑی پر چڑھ گیا اور سیدنا نوح آواز دیتے رہے گئے کہ کشتی میں سوار ہو جا آج ڈوبنے سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ لیکن اسکا عقیدہ یہ تھا کہ میری لاجک کہہ رہی ہے کہ پہاڑی اونچا محفوظ مقام ہے۔
میرا خیال ہے کہ میرے پاس جواب موجود ہے، نوح پیغمبر تھے، کنعان پیغمبر نہ تھا۔نوح علیہ السلام کے پاس اللہ کا عطا کردہ غیب کا علم تھا۔

یوں تو دونوں ہی سید تھے۔ ہے نا یہی بات! :)
 
آخری تدوین:

اربش علی

محفلین
ضَرَبَ اللّ۔ٰهُ مَثَلًا لِّلَّ۔ذِيْنَ كَفَرُوْا امْرَاَتَ نُ۔وْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّ۔ٰهِ شَيْئًا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ ال۔دَّاخِلِيْنَ

اللہ کافروں کے لیے ایک مثال بیان کرتا ہے نوح اور لوط کی بیوی کی، وہ ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں پھر ان دونوں نے ان کی خیانت کی سو وہ (نبی) اللہ کے غضب سے بچانے میں ان (بیویوں) کے کچھ بھی کام نہ آئے، اور کہا جائے گا کہ دونوں دوزخ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔

وَضَرَبَ اللّ۔ٰهُ مَثَلًا لِّلَّ۔ذِيْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ ۢ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِىْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِى الْجَنَّ۔ةِ وَنَجِّنِىْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِ۔هٖ وَنَجِّنِىْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَ

اور اللہ ایمان داروں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے، جب اس نے کہا کہ اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کام سے نجات دے اور مجھے ظالموں کی قوم سے نجات دے۔

وَمَرْيَ۔مَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِىٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُ۔تُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِيْنَ

اور مریم عمران کی بیٹی (کی مثال بیان کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا پھر ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کو اور اس کی کتابوں کو سچ جانا اور وہ عبادت کرنے والو ں میں سے تھی۔

(التحریم: 10-12)
 

اربش علی

محفلین
حدثنا قتيبة بن سعيد ، وزهير بن حرب ، قالا: حدثنا جرير ، عن عبد الملك بن عمير ، عن موسى بن طلحة ، عن ابي هريرة ، قال: " لما انزلت هذه الآية وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم قريشا، فاجتمعوا، فعم، وخص، فقال: يا بني كعب بن لؤي، انقذوا انفسكم من النار، يا بني مرة بن كعب، انقذوا انفسكم من النار، يا بني عبد شمس، انقذوا انفسكم من النار، يا بني عبد مناف، انقذوا انفسكم من النار، يا بني هاشم، انقذوا انفسكم من النار، يا بني عبد المطلب، انقذوا انفسكم من النار، يا فاطمة، انقذي نفسك من النار، فإني لا املك لكم من الله شيئا، غير ان لكم رحما سابلها ببلالها "

جریر نےعبد الملک بن عمیر سے حدیث سنائی، انھوں نے موسیٰ بن طلحہ اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب یہ آیت اتری: ”اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا۔ جب وہ جمع ہو گئے تو آپ نے عمومی حیثیت سے (سب کو) اور خاص کر کے (الگ خاندانوں اور لوگوں کے ان کے نام لے لے کر) فرمایا: ”اے کعب بن لؤی کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے مرہ بن کعب کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے عبدمناف کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے بنو ہاشم کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے عبد المطلب کی اولاد! اپنےآپ کو آگ سے بچالو، اے فاطمہ (بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے (کسی مؤاخذے کی صورت میں) تمھارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، تم لوگوں کے ساتھ رشتہ ہے، اسے میں اسی طرح جوڑتا رہوں گا جس طرح جوڑنا چاہیے۔“

(صحیح مسلم: 204)
 

سید رافع

محفلین
اس کی لاجک کیوں کہہ رہی تھی، سید کنعان کی؟ یہی تو میرا بنیادی سوال ہے۔
وہ اپنی ماں پر پڑ گیا تھا جو کافرہ تھی۔ مکار عورت تھی۔ سیاسی ذہن تھا۔ چالاک و عیار بلکہ بے حد سخت دل تھی۔ قابیل کی نسل سے تھی۔

چوتھے مہینے ماں کے پیٹ میں بچے کی شقاوت طے ہوتی ہے۔ یا سعادت۔ دعا کرتے رہیں۔ اسباب اختیار کرتے رہیں۔

ماں باپ دونوں بھی صالح مومن ہوں تب بھی بیٹا کافر بن جاتا ہے۔ سورہ کہف میں خضر کا بچے کو قتل کرنے اور یہی دلیل دینے کا قرینہ دیکھیں۔
 

سید رافع

محفلین
اگر ایک سید گم راہ ہو سکتا ہے تو پھر ہدایت کے لیے کس سید سے رجوع کیا جائے؟
یہ ہدایت اتنا بھی خفیہ معاملہ نہیں۔

ہدایت تو معروف ہے۔ آپ کے سینے میں ہے۔ یہ انبیاء رسل اور آل محمد ص تو یاد دھانی کرا رہے ہیں کہ ایک رب کو مانو،قتل نہ کرو، چوری نہ کرو، زنا کے قریب نہ پھٹکووغیرہ۔

توحید کی تفصیلات کی ہدایت کے لیے بہرحال آپ کو آل محمد ص سے رجوع کرنا ہو گا۔ ایک سید جو اللہ بھیجتا ہے یعنی رسول یانبی وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ہدایت پر ہوتا ہے۔ اسکی حفاظت خود اللہ کرتا ہے۔ اب جو سید اس کے طریقے سے جتنا قریب ہو گا اتنا محفوظ و معصوم ہو گا۔ سید کے پاس اصل دین یعنی اخلاص عموما موجود ہوتا ہے۔ غیر سید میں اخلاص ڈھونڈنے پر کوشش سے ملتا ہے۔

یہ کیسے معلوم ہو کہ فلاں سید گم راہ نہیں۔
اگر وہ رسول کے راستے پر ہے۔ کنعان کو دیکھا جائے گا کہ وہ کتنا کتنا سیدنا نوح ع کے راستے پر ہے۔ اب یہ دیکھا جائے گا کہ سید کتنا سیدنا محمد ص کے طریقے پر ہے۔

سیدوں سے غیر سید نکاح نہ کریں بلکہ کوشش کریں کہ خود بھی اذیت سے بچیں اور انکو بھی سیدوں میں شادی کرکے اعلی اخلاص سے مزین آل محمد ص پیدا ہو لینے دیں۔
ڈر آپکو نہیں لگتا۔ آپ کمال ہوشیاری سے اگلے سوالوں کے لیے تیار کر رہے ہوتے ہیں۔
 

اربش علی

محفلین
غیر سید میں اخلاص ڈھونڈنے پر کوشش سے ملتا ہے۔

سیدوں سے غیر سید نکاح نہ کریں بلکہ کوشش کریں کہ خود بھی اذیت سے بچیں اور انکو بھی سیدوں میں شادی کرکے اعلی اخلاص سے مزین آل محمد ص پیدا ہو لینے دیں۔
اب یہاں دوسروں کے اخلاص کا فیصلہ کیا جائے گا! جو صرف خدا کا اختیار ہے۔
 

سید رافع

محفلین
حدثنا قتيبة بن سعيد ، وزهير بن حرب ، قالا: حدثنا جرير ، عن عبد الملك بن عمير ، عن موسى بن طلحة ، عن ابي هريرة ، قال: " لما انزلت هذه الآية وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم قريشا، فاجتمعوا، فعم، وخص، فقال: يا بني كعب بن لؤي، انقذوا انفسكم من النار، يا بني مرة بن كعب، انقذوا انفسكم من النار، يا بني عبد شمس، انقذوا انفسكم من النار، يا بني عبد مناف، انقذوا انفسكم من النار، يا بني هاشم، انقذوا انفسكم من النار، يا بني عبد المطلب، انقذوا انفسكم من النار، يا فاطمة، انقذي نفسك من النار، فإني لا املك لكم من الله شيئا، غير ان لكم رحما سابلها ببلالها "

جریر نےعبد الملک بن عمیر سے حدیث سنائی، انھوں نے موسیٰ بن طلحہ اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب یہ آیت اتری: ”اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا۔ جب وہ جمع ہو گئے تو آپ نے عمومی حیثیت سے (سب کو) اور خاص کر کے (الگ خاندانوں اور لوگوں کے ان کے نام لے لے کر) فرمایا: ”اے کعب بن لؤی کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے مرہ بن کعب کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے عبدمناف کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے بنو ہاشم کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے عبد المطلب کی اولاد! اپنےآپ کو آگ سے بچالو، اے فاطمہ (بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے (کسی مؤاخذے کی صورت میں) تمھارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، تم لوگوں کے ساتھ رشتہ ہے، اسے میں اسی طرح جوڑتا رہوں گا جس طرح جوڑنا چاہیے۔“

(صحیح مسلم: 204)
حالانکہ فاطمہ علیہ السلام جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ پھر اس بات کو اے فاطمہ (بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنے آپ کو آگ سے بچالو کہنے کا کیا مقصد ہوا؟ رسول تکلفات میں نہیں پڑتا نہ ہی لغو کلام کرتا ہے۔
 

اربش علی

محفلین
حالانکہ فاطمہ علیہ السلام جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ پھر اس بات کو اے فاطمہ (بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنے آپ کو آگ سے بچالو کہنے کا کیا مقصد ہوا؟ رسول تکلفات میں نہیں پڑتا نہ ہی لغو کلام کرتا ہے۔
یعنی آپ نے حدیث کو ماننے ہی سے انکار کر دیا۔ ما شاء الله۔ لگے رہیں ۔
پھر ذرا بتائیں قرآن کی اس آیت کا کیا مقصد ہوا، جس کی بنا پر رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل تھا ؟
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ
(الشعراء: 214)
 

سید رافع

محفلین
میرا خیال ہے کہ میرے پاس جواب موجود ہے، نوح پیغمبر تھے، کنعان پیغمبر نہ تھا۔نوح علیہ السلام کے پاس اللہ کا عطا کردہ غیب کا علم تھا۔

یوں تو دونوں ہی سید تھے۔ ہے نا یہی بات! :)
شرافت سے رہنے کے لیے اور اوباش غنڈوں میں نہ رہنے کے لیے کیا غیب کے علم کی ضرورت ہے بھئ؟
 

سید رافع

محفلین
یعنی آپ نے حدیث کو ماننے ہی سے انکار کر دیا۔ ما شاء الله۔ لگے رہیں ۔
سوال پوچھا ہے کہ آپ کے علم حدیث کو جان لوں کہ بین الاحادیث تطبیق کرنے علم سے واقف ہیں یا زیادہ وقت منتشر الخیال علوم کے کسب میں صرف کرتے ہیں؟
 

اربش علی

محفلین
سوال پوچھا ہے کہ آپ کے علم حدیث کو جان لوں کہ بین الاحادیث تطبیق کرنے علم سے واقف ہیں یا زیادہ وقت منتشر الخیال علوم کے کسب میں صرف کرتے ہیں؟
آپ کے پاس کسی بات کا جواب ہی نہیں ہے۔ جب بھی آپ کے اپنے گھڑے ہوئے موقف کے خلاف دلیل آتی ہے، یا تو اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں، یا بات گھما کر لفاظی اور جملہ سازی میں مگن ہو جاتے ہیں۔
میں نے بھی اسی مراسلے میں آپ سے ایک سوال پوچھا ہے، ازراہِ کرم توجہ فرمائیں۔
 
Top