صد فی صد درست بات کہی ہے وارث میاں !!!!!!!زمینی حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی اس وقت سارے ریکارڈز توڑ چکی ہے اور جب تک مرکزی اور پنجاب حکومت مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کرتیں تب تک عامۃ الناس کو کسی قسم کی تسلی دینا بھی انتہائی مشکل کام ہے!
عامتہ الناس کو تسلی کیا کہہ کر دی جائے !!!!!یہ ایک مشکل ترین مسلہ ۔۔۔۔۔۔تب تک عامۃ الناس کو کسی قسم کی تسلی دینا بھی انتہائی مشکل کام ہے!
مجھے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی سرکار اور انکی میڈیا ٹیم نے اب حکومت کی معاشی "کامیابیوں" کا ڈھونڈرا پیٹنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ معاشی انڈیکیٹرز کسی حد تک بہتر بھی ہو رہے ہیں، لیکن ان اعداد و شمار اور گرافس سے آپ کچھ ہی لوگوں کی ذہنی تسلی کروا سکتے ہیں جو پہلے ہی سے مطمئن ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی اس وقت سارے ریکارڈز توڑ چکی ہے اور جب تک مرکزی اور پنجاب حکومت مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کرتیں تب تک عامۃ الناس کو کسی قسم کی تسلی دینا بھی انتہائی مشکل کام ہے!
یعنی عوام کو مشرف و نواز شریف کا معاشی ماڈل چاہیے جس میں ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کر کے عوام کو کچھ عرصہ کیلئے مہنگائی و بیروزگاری سے ریلیف دے دیا جائے۔ اور جس کے سنگین نتائج آنے والی حکومت عوام سمیت بھگتے۔عامتہ الناس کو تسلی کیا کہہ کر دی جائے !!!!!یہ ایک مشکل ترین مسلہ ۔۔۔۔۔۔
اب ہم میڈیا ٹیم کے ان گرافوں کو کھایا کریں گے۔یعنی عوام کو مشرف و نواز شریف کا معاشی ماڈل چاہیے جس میں ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کر کے عوام کو کچھ عرصہ کیلئے مہنگائی و بیروزگاری سے ریلیف دے دیا جائے۔ اور جس کے سنگین نتائج آنے والی حکومت عوام سمیت بھگتے۔
ذیل میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مشرف و نواز شریف دور کے اختتام پر ملکی تاریخ کا ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا۔ ان بڑھتے ہوئے خساروں کی موجودگی میں ملکی معیشت کا پہیہ زیادہ دیر چل نہیں سکتا اور بالآخر آئی ایم ایف سے مدد لینی پڑتی ہے۔ جس کے بعد معاشی گروتھ دھڑام سے نیچے آجاتی ہے۔
ملکی معیشت کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ جیسے آپ اپنے گھر میں آمدن سے زائد خریداری نہیں کرتے، ادھار نہیں لیتے۔ تو پورے ملک میں کیسے آمدن سے زائد خریداری (درآمداد) اور ادھار (بیرونی قرضوں) کی اجازت دے سکتے ہیں؟ لیکن یہ سب کچھ ماضی کی حکومتوں میں ہوتا رہا ہے۔ عوام کو عارضی ریلیف دینے کے چکروں میں ملکی معیشت کا طویل مدتی استحکام تباہ کیا جاتا رہا ہے۔
ذیل میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آج ۲۰۲۱ میں بھی ملکی برآمداد یعنی آمدن ۲۰۱۱ والی جگہ پر ہی کھڑی ہیں۔ جبکہ بیرونی قرضہ یعنی اخراجات کی ادائیگی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
جب آپ کے گھر کی معیشت آمدن سے زیادہ اخراجات پر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی ہے تو ملکی معیشت کیسے چل سکتی ہے؟ بہرحال عوام کو ان عوام سے غرض نہیں۔ ان کو بس فی الفور سرکاری ریلیف چاہیے۔ بیشک ملک کے طویل مدتی معاشی استحکام کو تباہ کر کے ملے۔ کیونکہ اس کے پاس ووٹ کی طاقت ہے۔ اور حکومتیں ووٹر کو عارضی طور پر خوش کرنے کے چکر میں طویل مدتی ملکی معاشی استحکام تباہ کر دیتی ہیں۔
کیا کریں جاسم پر عوام کا پیٹ گراف سے نہیں بھرتا اور مشکل گراف بھی سمجھ نہیں آتے یہ المیہ تو ہے اپنی جگہ۔۔۔۔یعنی عوام کو مشرف و نواز شریف کا معاشی ماڈل چاہیے جس میں ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کر کے عوام کو کچھ عرصہ کیلئے مہنگائی و بیروزگاری سے ریلیف دے دیا جائے۔ اور جس کے سنگین نتائج آنے والی حکومت عوام سمیت بھگتے۔
ذیل میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مشرف و نواز شریف دور کے اختتام پر ملکی تاریخ کا ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا۔ ان بڑھتے ہوئے خساروں کی موجودگی میں ملکی معیشت کا پہیہ زیادہ دیر چل نہیں سکتا اور بالآخر آئی ایم ایف سے مدد لینی پڑتی ہے۔ جس کے بعد معاشی گروتھ دھڑام سے نیچے آجاتی ہے۔
ملکی معیشت کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ جیسے آپ اپنے گھر میں آمدن سے زائد خریداری نہیں کرتے، ادھار نہیں لیتے۔ تو پورے ملک میں کیسے آمدن سے زائد خریداری (درآمداد) اور ادھار (بیرونی قرضوں) کی اجازت دے سکتے ہیں؟ لیکن یہ سب کچھ ماضی کی حکومتوں میں ہوتا رہا ہے۔ عوام کو عارضی ریلیف دینے کے چکروں میں ملکی معیشت کا طویل مدتی استحکام تباہ کیا جاتا رہا ہے۔
ذیل میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آج ۲۰۲۱ میں بھی ملکی برآمداد یعنی آمدن ۲۰۱۱ والی جگہ پر ہی کھڑی ہیں۔ جبکہ بیرونی قرضہ یعنی اخراجات کی ادائیگی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
جب آپ کے گھر کی معیشت آمدن سے زیادہ اخراجات پر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی ہے تو ملکی معیشت کیسے چل سکتی ہے؟ بہرحال عوام کو ان عوام سے غرض نہیں۔ ان کو بس فی الفور سرکاری ریلیف چاہیے۔ بیشک ملک کے طویل مدتی معاشی استحکام کو تباہ کر کے ملے۔ کیونکہ اس کے پاس ووٹ کی طاقت ہے۔ اور حکومتیں ووٹر کو عارضی طور پر خوش کرنے کے چکر میں طویل مدتی ملکی معاشی استحکام تباہ کر دیتی ہیں۔
اب ہم میڈیا ٹیم کے ان گرافوں کو کھایا کریں گے۔
یہی تو المیہ ہے۔ عوام اپنے پیٹ کو دیکھ کر ووٹ دیتی ہے اور حکومتیں ووٹر کو عارضی ریلیف دینے کے چکر میں طویل مدتی معاشی استحکام تباہ کر دیتی ہیں۔کیا کریں جاسم پر عوام کا پیٹ گراف سے نہیں بھرتا اور مشکل گراف بھی سمجھ نہیں آتے یہ المیہ تو ہے اپنی جگہ۔۔۔۔
سچ جاسم ہم لوگوں کو عوام الناس کی غربت کا قعطناً اندازہ نہیں ابھی کچھ دن پہلے ہمارے سب سے چھوٹے بھائی نے ہمیں بتایا کہ اُسکے کوئی جاننے والے اسٹیٹ بینک میں تھے انکا انتقال ہوگیا تو بیگم کو پینشن ملتی تھی پھر اُنکی بیگم کا بھی کوڈ میں انتقال ہوگیا تو پینشن رک گئی ایک ہی بیٹی ہے وہ کسی ادارے میں کام کرتیں تھیں اور اس پینڈمک کے دوران وہ بے روزگار ہوگئیں تو حالات بے حد خراب ہو گئے ۔قصہ مختصر پڑھے لکھے لوگ ہونے کے باوجود یہ نہیں پتہ کہ غیر شادی شدہ بیٹی پینشن کی حقدار ہوتی ہے قانونی طور پر !پھر بڑی بھاگ دوڑ کرکے کچھ کروایا ہے اللّہ کرے اس کو والد کی پینشن ملنا شروع ہوجائے سفید پوش لوگوں کے حالات خراب ہوجائیں تو اور مشکل ہوجاتی ہے اس پر ہمارے ادارے اس قدر نالائق ہیں۔۔۔۔۔آپ کتنی دیر تک عوام کو عارضی ریلیف دیں لیں گے؟ ایک نہ ایک دن اس کی قیمت تو چکانی پڑے گی۔
اس فرسودہ نظام کو بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ یہ پیناڈول سے ٹھیک ہونے والا نہیںسچ جاسم ہم لوگوں کو عوام الناس کی غربت کا قعطناً اندازہ نہیں ابھی کچھ دن پہلے ہمارے سب سے چھوٹے بھائی نے ہمیں بتایا کہ اُسکے کوئی جاننے والے اسٹیٹ بینک میں تھے انکا انتقال ہوگیا تو بیگم کو پینشن ملتی تھی پھر اُنکی بیگم کا بھی کوڈ میں انتقال ہوگیا تو پینشن رک گئی ایک ہی بیٹی ہے وہ کسی ادارے میں کام کرتیں تھیں اور اس پینڈمک کے دوران وہ بے روزگار ہوگئیں تو حالات بے حد خراب ہو گئے ۔قصہ مختصر پڑھے لکھے لوگ ہونے کے باوجود یہ نہیں پتہ کہ غیر شادی شدہ بیٹی پینشن کی حقدار ہوتی ہے قانونی طور پر !پھر بڑی بھاگ دوڑ کرکے کچھ کروایا ہے اللّہ کرے اس کو والد کی پینشن ملنا شروع ہوجائے سفید پوش لوگوں کے حالات خراب ہوجائیں تو اور مشکل ہوجاتی ہے اس پر ہمارے ادارے اس قدر نالائق ہیں۔۔۔۔۔
مجھے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی سرکار اور انکی میڈیا ٹیم نے اب حکومت کی معاشی "کامیابیوں" کا ڈھونڈرا پیٹنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ معاشی انڈیکیٹرز کسی حد تک بہتر بھی ہو رہے ہیں، لیکن ان اعداد و شمار اور گرافس سے آپ کچھ ہی لوگوں کی ذہنی تسلی کروا سکتے ہیں جو پہلے ہی سے مطمئن ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی اس وقت سارے ریکارڈز توڑ چکی ہے اور جب تک مرکزی اور پنجاب حکومت مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کرتیں تب تک عامۃ الناس کو کسی قسم کی تسلی دینا بھی انتہائی مشکل کام ہے!
بھوکے کو چاند میں روٹی نظر آتی ہےاصل مسئلہ یہ ہے!
غریب کا دال دلیہ پورا نہ ہو تو اوپر چڑھتے ہوئے لال پیلے گراف کسی کام کے نہیں ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے!
غریب کا دال دلیہ پورا نہ ہو تو اوپر چڑھتے ہوئے لال پیلے گراف کسی کام کے نہیں ہیں۔
غریب کا دال دلیہ پورا کرنے کیلئے ڈالر مصنوعی سستا رکھنا پڑتا ہے۔ جس سے ملکی درآمداد کو پر لگ جاتے ہی اور برآمداد گر جاتی ہیں۔ ملک اجناس و دیگر اشیا ضروریہ سے مالا مال ہو جاتا ہے اور یوں عوام کو وقتی طور پر مہنگائی و بیروزگاری سے ریلیف مل جاتا ہے۔بھوکے کو چاند میں روٹی نظر آتی ہے
مہنگائی و بیروزگاری کا مستقل مسئلہ ملکی معیشت کو طویل مدتی مضبوط بنیادوں پر مستحکم کئے بغیر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل نہیں ہوگا۔
یہ تصویر مکمل نہیں۔ آپ صرف یہ بتائیے کہ موجودہ حکومت نے اب تک کتنا قرض لیا ہے؟ اس کا تقابلی جائزہ گزشتہ تین حکومتوں کے ساتھ کریں، وہ بھی تب جب آپ کے پاس وقت ہو۔ اپنی مرضی کے گرافس تو پچھلی حکومتیں بھی بار بار اخبارات میں شائع کروایا کرتی تھیں۔غریب کا دال دلیہ پورا کرنے کیلئے ڈالر مصنوعی سستا رکھنا پڑتا ہے۔ جس سے ملکی درآمداد کو پر لگ جاتے ہی اور برآمداد گر جاتی ہیں۔ ملک اجناس و دیگر اشیا ضروریہ سے مالا مال ہو جاتا ہے اور یوں عوام کو وقتی طور پر مہنگائی و بیروزگاری سے ریلیف مل جاتا ہے۔
مگر یہ پالیسی زیادہ دیر تک چلتی نہیں اور نئی حکومت کو آتے ساتھ ملک دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلیے ڈالر کی مصنوعی سستی قیمت ختم کرنی پڑتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں درآمداد گرتی ہیں، معیشت سکڑنا شروع ہو جاتی ہے اور مہنگائی و بیروزگاری واپس آجاتی ہے۔
یوں یہ مستقل مہنگائی و بیروزگاری کو ختم کرنے کا عارضی ریلیف پیکیج سارے فساد کی جڑ ہے۔ پچھلے ۲۰ سالوں میں تین بار اسے آزمایا جا چکا ہے مگر عوام کی مجموعی معاشی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ کیونکہ عارضی ریلیف پیکیج کبھی بھی کسی مستقل مسئلہ کو حل نہیں کر سکتا۔ مہنگائی و بیروزگاری کا مستقل مسئلہ ملکی معیشت کو طویل مدتی مضبوط بنیادوں پر مستحکم کئے بغیر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل نہیں ہوگا۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
یہ تصویر مکمل نہیں۔ آپ صرف یہ بتائیے کہ موجودہ حکومت نے اب تک کتنا قرض لیا ہے؟ اس کا تقابلی جائزہ گزشتہ تین حکومتوں کے ساتھ کریں، وہ بھی تب جب آپ کے پاس وقت ہو۔ اپنی مرضی کے گرافس تو پچھلی حکومتیں بھی بار بار اخبارات میں شائع کروایا کرتی تھیں۔
کوئی بھی ملک راتوں رات ترقی نہیں کر سکتا۔ آج جو امیر و ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ کسی زمانہ میں پاکستان سے بھی زیادہ غریب و پس ماندہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے ملکی ترقی کیلئے طویل مدتی مستحکم معاشی پالیسی اپنائی۔ جس سے ان قوموں کو کچھ سال شدید تکلیف اٹھانا پڑی مگر اس صبر کے نتیجے میں جو ان کو ریلیف کا پھل ملا وہ عارضی نہیں تھا بلکہ مستقل تھا۔
کوئی بھی ملک راتوں رات ترقی نہیں کر سکتا۔ آج جو امیر و ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ کسی زمانہ میں پاکستان سے بھی زیادہ غریب و پس ماندہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے ملکی ترقی کیلئے طویل مدتی مستحکم معاشی پالیسی اپنائی۔ جس سے ان قوموں کو کچھ سال شدید تکلیف اٹھانا پڑی مگر اس صبر کے نتیجے میں جو ان کو ریلیف کا پھل ملا وہ عارضی نہیں تھا بلکہ مستقل تھا۔
ذیل میں ورلڈ بینک کی ویبسائٹ سے پاکستان، بنگلہ دیش اور ویتنام کی برآمداد کا تقابل پیش کر رہا ہوں۔ سنہ ۲۰۰۰ میں پاکستان کی برآمداد بنگلہ دیش سے بہتر تھی اور ویتنام کے برابر تھی۔ آج ۲۰ سال بعد بنگلہ دیش کی برآمداد پاکستان سے دگنی اور ویتنام کی برآمداد پاکستان سے ۲۰ گنا زیادہ ہو گئی ہیں۔
Exports of goods and services (current US$) - Vietnam, Bangladesh, Pakistan | Data
یعنی پاکستان کا اصل معاشی مسئلہ مہنگائی، بیروزگاری نہیں بلکہ آمدن کے ذرائع یعنی برآمداد میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ جانا ہے۔ بیرونی آمدن کے ذرائع نہ ہونے کے باعث پاکستان کو ہر پانچ سال بعد دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب تک جو بھی حکومتیں آئی انہوں نے ملک کی طویل مدتی برآمداد بڑھانے پر کوئی کام نہیں۔ یہ حکومت بھی بس کوششیں کر رہی ہے اور برآمداد کیساتھ ساتھ زرمبادلہ بڑھانے پر زور ہے۔ اگر یہ بھی ناکام ہوگئی تو ۲۰۲۳ میں ملک دوبارہ آئی ایم ایف کے گروی ہوگا۔
ہماری حکومت کو برآمد کرنا آسان بنانا ہوگا تھوڑا ریلیف بھی دیں عوام کو تاکہ عوام اِس طرف آسکےکوئی بھی ملک راتوں رات ترقی نہیں کر سکتا۔ آج جو امیر و ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ کسی زمانہ میں پاکستان سے بھی زیادہ غریب و پس ماندہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے ملکی ترقی کیلئے طویل مدتی مستحکم معاشی پالیسی اپنائی۔ جس سے ان قوموں کو کچھ سال شدید تکلیف اٹھانا پڑی مگر اس صبر کے نتیجے میں جو ان کو ریلیف کا پھل ملا وہ عارضی نہیں تھا بلکہ مستقل تھا۔
ذیل میں ورلڈ بینک کی ویبسائٹ سے پاکستان، بنگلہ دیش اور ویتنام کی برآمداد کا تقابل پیش کر رہا ہوں۔ سنہ ۲۰۰۰ میں پاکستان کی برآمداد بنگلہ دیش سے بہتر تھی اور ویتنام کے برابر تھی۔ آج ۲۰ سال بعد بنگلہ دیش کی برآمداد پاکستان سے دگنی اور ویتنام کی برآمداد پاکستان سے ۲۰ گنا زیادہ ہو گئی ہیں۔
Exports of goods and services (current US$) - Vietnam, Bangladesh, Pakistan | Data
یعنی پاکستان کا اصل معاشی مسئلہ مہنگائی، بیروزگاری نہیں بلکہ آمدن کے ذرائع یعنی برآمداد میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ جانا ہے۔ بیرونی آمدن کے ذرائع نہ ہونے کے باعث پاکستان کو ہر پانچ سال بعد دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب تک جو بھی حکومتیں آئی انہوں نے ملک کی طویل مدتی برآمداد بڑھانے پر کوئی کام نہیں۔ یہ حکومت بھی بس کوششیں کر رہی ہے اور برآمداد کیساتھ ساتھ زرمبادلہ بڑھانے پر زور ہے۔ اگر یہ بھی ناکام ہوگئی تو ۲۰۲۳ میں ملک دوبارہ آئی ایم ایف کے گروی ہوگا۔
یہ 'ترقی'اگر قرض کی بنیاد پر ہے تو نا پائیدار ہے۔ میرا سوال اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ کیا یہ بتانے میں کوئی حرج ہے کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ تین حکومتوں کی بہ نسبت کتنا قرض لیا؟کوئی بھی ملک راتوں رات ترقی نہیں کر سکتا۔ آج جو امیر و ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ کسی زمانہ میں پاکستان سے بھی زیادہ غریب و پس ماندہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے ملکی ترقی کیلئے طویل مدتی مستحکم معاشی پالیسی اپنائی۔ جس سے ان قوموں کو کچھ سال شدید تکلیف اٹھانا پڑی مگر اس صبر کے نتیجے میں جو ان کو ریلیف کا پھل ملا وہ عارضی نہیں تھا بلکہ مستقل تھا۔
ذیل میں ورلڈ بینک کی ویبسائٹ سے پاکستان، بنگلہ دیش اور ویتنام کی برآمداد کا تقابل پیش کر رہا ہوں۔ سنہ ۲۰۰۰ میں پاکستان کی برآمداد بنگلہ دیش سے بہتر تھی اور ویتنام کے برابر تھی۔ آج ۲۰ سال بعد بنگلہ دیش کی برآمداد پاکستان سے دگنی اور ویتنام کی برآمداد پاکستان سے ۲۰ گنا زیادہ ہو گئی ہیں۔
Exports of goods and services (current US$) - Vietnam, Bangladesh, Pakistan | Data
یعنی پاکستان کا اصل معاشی مسئلہ مہنگائی، بیروزگاری نہیں بلکہ آمدن کے ذرائع یعنی برآمداد میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ جانا ہے۔ بیرونی آمدن کے ذرائع نہ ہونے کے باعث پاکستان کو ہر پانچ سال بعد دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب تک جو بھی حکومتیں آئی انہوں نے ملک کی طویل مدتی برآمداد بڑھانے پر کوئی کام نہیں۔ یہ حکومت بھی بس کوششیں کر رہی ہے اور برآمداد کیساتھ ساتھ زرمبادلہ بڑھانے پر زور ہے۔ اگر یہ بھی ناکام ہوگئی تو ۲۰۲۳ میں ملک دوبارہ آئی ایم ایف کے گروی ہوگا۔