٭
عالمی ادارہ صحت دنیا بھر میں انسانی صحت کو لاحق خطرات کے حوالے سے کام کرنے ولا ادارہ ہے۔ جب دنیا بھر کے لوگ کرونا جیسی بدترین وبا کا شکار ہوئے اور عالمی سطح پر انسانی صحت کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے مربوط عالمی کوششوں کی ضرورت سب سے زیادہ بڑھی تو امریکہ نے عالمی ادارہ صحت کے فنڈز روک دئے اور اس پر چائنا سے جانبداری برتنے کے الزامات عائد کردئے۔ جس کی پوری دنیا نے مذمت کی کیونکہ کرونا سے نمٹنے کے لئے اس ادارے کی عالمی سطح کی کوششوں کی شدید ترین ضرورت تھی، اور حالات کا تقاضا یہ تھا کہ اس ادارے سے تعاون مزید بڑھایا جائے۔
٭
امریکہ نے ایران، شمالی کوریا، شام، کیوبا، اور وینزویلا پر لگائی گئی اپنی پابندیاں کرونا جیسی عالمی وبا کے دوران بھی برقرار رکھیں۔ جس سے ان ممالک کے لئے اپنے کروڑوں شہریوں کے لئے عالمی برادری سے طبی امداد حاصل کرنے میں بے پناہ مشکلات پیش آئیں۔ اور اس سے ان ممالک میں بے شمار قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ انسانی جانوں کا یہ نقصان پابندیاں ختم یا نرم کرکے بڑی حد تک کم کیا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
٭
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشل بیچلیٹ نے 24 مارچ 2020 کو اس حوالے سے بیان بھی جاری کیا کہ یہ پابندیاں ان ممالک میں طبی خدمات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوں گی اور ان سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوگا لھذا انہیں ختم یا نرم کرکے قیمتی انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے مگر اسے نظر انداز کردیا گیا۔
٭ دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 24 سینئر سفارتکاروں نے امریکہ سے اپیل کی کہ ایران پر پابندیاں نرم کی جائیں تاکہ لاکھوں انسانی جانیں بچائی جا سکیں۔ مگر یہ اپیل بھی نظر انداز کردی گئی۔
٭ 30 اپریل 2020 کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے امریکہ سے اپیل کی کہ کیوبا پر عائد پابندیوں کے نتیجے میں یہ ملک نہ تو کرونا سے نمٹنے کے لئے درکار طبی آلات خرید سکے گا اور نہ ہی ادویات اور دیگر ضروری طبی سامان لھذا یہ پابندیاں ختم یا نرم کی جائیں تاکہ یہ ملک کرونا کے بحران سے نمٹ سکے۔ مگر یہ اپیل بے اثر رہی۔
٭ انسانی حقوق، غربت، اور صاف پانی سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندگان نے 6 مئی 2020 کو مشترکہ بیان جاری کرکے امریکہ سے کہا کہ وینزویلا پر عائد امریکی پابندیاں انسانی حقوق کے سنگین مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ انہوں نے امریکہ سے اپیل کی یہ پابندیاں فوری طور پر اٹھائی جائیں تاکہ کرونا کے شکار اس ملک کے شہریوں کو بچایا جاسکے۔ مگر یہ اپیل بھی نظر انداز کردی گئی۔
٭ 29 دسمبر 2020 کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ ایلینا ڈوہن نے امریکہ سے اپیل کی کہ وہ شام پر عائد اپنی یکطرفہ پابندیاں اٹھائے تاکہ انسانی حقوق کے حوالے سے پہلے ہی مشکلات کا شکار یہ ملک کرونا سے نمٹنے میں عالمی مدد حاصل کر سکے مگر یہ اپیل بھی نظر انداز کردی گئی۔
٭
امریکہ نے نومبر 2020 میں ایک اور عالمی معاہدے کو یوں زک پہنچائی کہ وہ پیرس ایگریمنٹ سے نکل گیا جو گرین ہاؤس گیسز کے حوالے سے ایک عالمی معاہدہ ہے۔ حالانکہ امریکہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ جس کے تدارک کے لئے اس کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ ہے۔ یہ اس معاہدے میں شامل 200 ممالک میں سے واحد ملک ہے جو اس سے نکلا۔ ماحولیات کی بڑی سائنسی ماہر اور ماحولیات پر اقوام متحدہ کی رپورٹ کی شریک مصنفہ نیتالی مہولڈ نے امریکہ کے اس اقدام کو انسانی جانوں کو خطرات سے دوچار کرنے والا قدم قرار دیا اور عالمی برادری نے بھی اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے غیر سائنسی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدام قرار دیا۔
٭
11 جون 2020ء کو امریکہ نے عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کا تیسرا قدم یوں اٹھایا کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے ان اہلکاروں پر سفری و مالیاتی پابندیاں عائد کردیں جو افغانستان میں امریکی فوج اور اس کے انٹیلی جنس اداروں کے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیق کے لئے جانا چاہتے تھے۔ اس معاملے کا تعلق بھی معصوم انسانی جانوں اور ان کے حقوق سے تھا۔
٭
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ذیلی ادارے نے 30 دسمبر 2020 کو جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بلیک واٹر کے ایسے اہلکاروں کو عام معافی دی ہے جو عراق میں جنگی جرائم کے مرتکب تھے۔صرف یہی نہیں بلکہ کونسل نے جنیوا کنونشن کے تمام ممبر ممالک سے اپیل بھی کی کہ امریکی صدر کے اس اقدام کی مذمت کی جائے۔ بلیک واٹر کے ان قاتلوں نے 2007ء میں بغداد میں 14 عام شہریوں کو قتل اور 17 کو شدید زخمی کیا تھا۔
چینی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ “
یو ایس ہیومن رائٹس وائلیشنز 2020” امریکہ میں جمہوریت کی مخدوش صورتحال کا بھی تفصیلی احاطہ لئے ہوئے ہے۔ رپورٹ کے ان نکات کی جانب جاتے ہوئے یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ
امریکہ خود “جمہوریت کا عالمی ٹھیکیدار” سمجھتا ہے اور اس حوالے سے وہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک ہی نہیں بلکہ روس اور چین جیسے بڑے ممالک کو لیکچرز دیتا رہتا ہے۔ یہ رپورٹ امریکہ میں جمہوریت کے حوالے سے صورتحال جائزہ کچھ یوں پیش کرتی ہے۔
٭ 2020ء امریکہ میں انتخابات کا سال تھا۔ امریکی انتخابات کا سارا زور سرمائے کے دم سے چلتا ہے۔ سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق ٹاپ 10 معلوم ڈونرز نے ان انتخابات میں جو چندہ دیا وہ وہ 640 ملین ڈالرز تھا۔ لیکن دوسری طرف ایک تشویشناک رپورٹ اور بھی ہے جو نیویارک یونیورسٹی کے برینن سینٹر فار جسٹس نے جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ کے 2020ء کے صدارتی انتخابات میں بطور چندہ جو “کالا دہند” دیا گیا اس کی مقدار 750 ملین ڈالرز تھی۔ جب پوری دنیا میں منی لانڈرنگ کے خلاف مہم جاری تھی تو امریکی انتخابات میں اس بڑے پیمانے کی منی لانڈرنگ جاری تھی۔
٭ امریکی انتخابات کی شفافیت پر عوامی اعتماد بدترین بحران سے دوچار دیکھا گیا۔ گلیپ کی 8 اکتوبر 2020ء کو جاری کی گئی سروے رپورٹ کے مطابق انتخابات کی شفافیت پر صرف 19 فیصد امریکی شہریوں کواعتماد تھا۔
٭ 9 نومبر 2020ء کو شائع ہونے والی وال سٹریٹ جنرل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 2020ء کے انتخابات کو ہمیشہ اس اعتبار سے یاد رکھا جائے گا کہ ان میں جمہوریت کے بنیادی بلاکس پر عوامی یقین سب سے کم ترین سطح پر تھا۔
٭ انتخابی مہم کے دوران سیاسی کشمکش اتنی بڑھ گئی کہ دونوں جماعتوں نے اہم ترین قومی مفادات اور جاری سرکاری خدمات پر بھی سیاست کرکے ڈیڈلاک کی صورتحال پیدا کردی جس کا سارا خمیازہ امریکی شہریوں کو بھگتنا پڑا۔ یہاں تک کرونا ریلیف فنڈ ز پر بھی ڈیڈلاک پیدا کرکے کروڑوں امریکی شہریوں کو نقصان پہنچایا گیا جو پہلے ہی بے روزگاری اور کار و بار کی بندش کا شکار تھے۔ صورتحال اس حد تک خراب رہی کہ انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے پر غیرملکی ایجنٹ ہونے تک کے الزامات لگائے گئے۔ سیاسی تفریق اس ھد کو چھو رہی تھی کہ شہریوں میں سے دونوں کیمپس کے 90 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اگر مخالف پارٹی جیت گئی تو اس کے نتیجے میں امریکہ کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔
٭ اس سیاسی کشمکش کا سب سے بدترین اثر ریاستی سطح پر یوں ظاہر ہوا کرونا وائرس کے تدارک سے متعلق ڈیموکریٹ اور ریپبلکن حکومتوں والی ریاستوں کی پالیسیاں ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھیں جن کے نتیجے میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔
٭ ایک موقع پر ریاست میساچوسٹس نے اپنے شہریوں کے لئے تین ملین این 95 ماسک خریدے تو سیاسی مخالف وفاقی حکومت نے انہیں نیویارک کی بندرگاہ پر ضبط کرلیا۔
٭ امریکی صدر نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اور اپنے حامیوں کو کانگریس کی جانب سے ان نتائج کی سرٹیفکیشن میں رکاوٹیں ڈالنے کی ہدایت کی جس کے نتیجے میں کیپٹل ہل پر حملے جیسا سنگین واقعہ اور بحران پیدا ہوا۔ اراکین کانگریس کو گیس ماسک پہنا کر بمشکل ریسکیو کیا گیا۔ اس واقعے میں بدترین تشدد ہوا، گولیاں چلیں، انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور واشنگٹن میں کرفیو لگانا پڑگیا۔ صدر کے حامیوں نے پائپ، کیمکل، اور دیگر اقسام کے ہتھیار استعمال کرکے 50 سے زائد پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا۔ لیکن صدر کے حامی ان ہزاروں حملہ آوروں میں سے پولیس نے صرف سو کے لگ بھگ ہی گرفتار کئے۔ امریکی پارلیمنٹ پر ہونے والا یہ حملہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود امریکی صدر نے کرایا اور اس کے لئے اپنے حامیوں کو بھڑکایا۔