مغرب ’ہولوکاسٹ‘ کی طرح توہین رسالت کرنے والوں پربھی پابندی لگائے، وزیراعظم

الف نظامی

لائبریرین
مغرب کی ترقی پرافٹ میکسیمائزیشن اور کنٹرول کی دوڑ ہے ، انسان اس دوڑ میں سرمایہ ہے جو ہیومن کیپیٹل کی سرمایہ دارانہ اصطلاح سے واضح ہے۔
اے آئی ایتھکس کی ضرورت کس لیے محسوس ہوئی کہ مشین انسان کو ری پلیس کرنے کے مرحلے پر آ گئی۔
capital intensive technology
بمقابلہ
labour intensive technology
میں لیبر کو ترجیح کیوں دی جائے جب مشینیں کام کرنے کے لیے موجود ہیں
ہر چیز کی آٹومیشن ہو چکی تو انسانوں کو روزگار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ بڑے بڑے مالز قائم ہو گئے تو چھوٹی دکانوں والوں کی دکانداری ختم ہونا شروع ہو گئی۔
ٹیکنالوجی نے دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز کر دیا۔
یہاں کسی کو نارمل ڈسٹری بیوشن یاد نہیں آتی۔
انسان دوست شماریاتی علوم کون پڑھائے۔ یہاں شماریاتی علوم و مشین لرننگ اور آری ٹیفیشنل انٹیلیجنس کا بنیادی مقصد ہی پرافٹ میکسمائزیشن ہے ، حصولِ منافع کی اندھا دھند دوڑ لگی ہے۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
معاف کیجیے گا سید صاحب، میں آپ کی کوئی بات سمجھ نہیں پایا، اور شاید سمجھا بھی نہیں پایا۔ میں نے کہیں نہیں لکھا کہ ہم "غیر انسانی سوچ کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں"،میں صرف اتنا عرض کر رہا تھا کہ دنیا میں ہمیشہ ایک سوچ سے بہتر، ایک قوم سے بہتر کوئی دوسری قوم، کوئی دوسری سوچ رائج ہو جاتی ہے۔ اس دعوے پر دلیل انسانی ہزاروں سال کی تاریخ ہے۔ ویسے آپ بہتر جانتے ہونگے اس آیت کو جس میں بہتر لوگ لے آنے کی بات ہے!

وارث صاحب آپ قوموں کا عروج و زوال بیان کر رہیں جو اپنی جگہ درست ہے۔ ہر چند سو سال بعد کوئی نہ کوئی بالا دست قوم ظاہر ہوتی ہے۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!

سوال یہ ہے کہ کیا مغرب سے ابھرنے والی موجودہ قوم اور اس کے رائج کردہ توہین کے قانون خود انکی قوم میں مقبول ہیں؟ جواب ہے نہیں۔

ان قوموں کی حکومتیں خاص کر فرانس کسی ایجنڈے پر ہے۔ فرانسیسی قوم سمندر پر مسلم برقینی اتروانے جیسے معمولی معاملے پر حکومت کو مسترد کر چکی ہے۔ اگر اسی نوع کی باتیں بڑھتی ہیں تو مغربی حکومتیں اپنے عوام کے دباو میں آئیں گی۔ سو ہمیں دباو بڑھانا چاہیے اور تجارت اور سیاست کے نئے راستے اس تبدیل ہوتی دنیا میں تلاش کرنے چاہیں۔

جہاں تک آیت ہے تو اللہ یونہی ایک مسلمان قوم کو مسترد کر کے دوسری قوم کو مسلمان نہیں بنا دیتا بلکہ اس آیت میں مسلمانوں کو پورا زور لگانے کی تلقین ہے۔

سورہ توبہ ٩ آیت ٣٩

اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کرے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو اقدام کا ایسا حکم دیا جا رہا ہے کہ جس کے بعد دردناک عذاب سے انکا خاتمہ اور دوسری مسلمان قوم کی پیدائش ہو گی۔

حق کی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ پاکستانی مسلمان اس معاملے میں حق بجانب ہیں۔ جیسے رزق اللہ کی تقسیم ہے ویسے ہی نصرت بھی اللہ کی تقسیم ہے۔ فتح و نصرت اللہ پر بھروسا کر کے خوب محتاط قدم اٹھانے میں ہے۔ جب چہار طرف کے مسلمان علماء اور صالحین کسی بات کا کہیں تو ہمت کرنی چاہیے اور دعا کرنی چاہیے۔
 

سید رافع

محفلین
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللہُ بِقَوْمٍ يُحِبُّہُمْ وَيُحِبُّوْنَہٗٓ۝۰ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۝۰ۡيُجَاہِدُ وْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاۗىِٕمٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۵۴ [٥:٥٤]
اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور الله بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے۔


کافروں کو دبا کر رکھنا عین سلامتی ہے ورنہ دیکھ لیں ان احمقوں کو اور انکی پارلیمنٹ کو۔
 

زیک

مسافر
آپ کی بات درست ہے قریشی صاحب، اس خطے میں یہی ان پڑھ، جاہل، انگریزی نہ بولنے والے اور ڈگریاں نہ رکھنے والے ہی سولہویں اور سترہویں صدی میں دنیا کی سب سے بڑی جی ڈی پی تھے لیکن یہ ادھوری بات ہے! ہوا کیا؟ آپ انسانی تاریخ کے پانچ سات ہزار سال پر طائرانہ نظر ڈال لیجیئے، ہر عہد میں کسی کی de facto سوپریمسی نظر آئے گی۔ہر بار چند صدیوں کے الٹ پھیر سے یہ بدل جاتی ہے یہاں بھی ایسا ہی ہوا ، کیونکہ یہاں حرم بڑے کر لیے اور یہ کہہ کر ملک میں پریس لگوانے سے نے انکار کر دیا کہ اس سے ہمارے کاتب بیروزگار ہو جائیں گے۔ ان سے زیادہ بہتر آ گئے، یہی قانونِ قدرت ہے، یہی رسمِ دنیا ہے!
یہی عروج و زوال ہے کہ مغرب کو ناموس رسول کے نام پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن لاکھوں ایغور مسلمانوں پر مظالم کے خلاف کوئی ایک حرف بھی بولنے کو تیار نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہی عروج و زوال ہے کہ مغرب کو ناموس رسول کے نام پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن لاکھوں ایغور مسلمانوں پر مظالم کے خلاف کوئی ایک حرف بھی بولنے کو تیار نہیں۔
پروپیگنڈہ دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ آج کے مغرب سے بڑا انسانی مساوات و تعمیری مسابقت کا اس دنیا میں کوئی چیمپئن ہی نہیں ہے۔ لیکن حقیقت دیکھیں تو صنعت و تجارت کے میدان میں چائنا کی پر امن مسابقت نے مغرب کے ہوش پراں کر دئے ہیں۔ اور وہ اب ترقی کے میچ میں اپنی شکست روکنے کے لئے “بال ٹیمپرنگ” سے ملتی جلتی حرکتوں پر اتر آیا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کو صاف نظر آرہا ہے کہ دنیا کی قیادت مغرب سے مشرق کی طرف منتقلی کا وقت سر پر آپہنچا ہے۔
چین ہمارے ہی مسلط کردہ صنعت، تجارت اور سیاست کے عالمی قوانین کی مکمل پاسداری کرکے بھی ہم سے آگے نکل رہا ہے۔ حالانکہ وہ قوانین تو ہم نے تشکیل ہی اس بند وبست کے ساتھ دئے تھے کہ ترقی ہمیشہ ہماری ہی یقینی رہے۔ مثلا زیادہ عرصہ نہیں ہوا بل کلنٹن کے دور کی بات ہے جب مغرب نے مل کر اس بات پر زور لگانا شروع کیا کہ چین ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا حصہ بنے اور اپنی مارکیٹ سب کے لئے کھولے۔
اس زمانے کے عالمی تجزئے نکال کر پڑھئے تو نظر آئے گا کہ سب کو یقین تھا کہ اگر چین نے امریکہ اور اس کے حواریوں کا یہ مطالبہ مانا تو نتیجتا چین ختم ہوجائے گا۔ اور اگر نہ مانا تو تب بھی تنہائی کا شکار ہوکر ختم ہوجائے گا۔ لیکن ہوا کیا ؟ 2001ء میں چین ڈبلیو ٹی او کا حصہ بھی بنا اور اوپن مارکیٹ اکانومی کی مدد سے سب کو پیچھے بھی چھوڑ گیا۔ آج امریکہ کا بس نہیں چلتا کہ کسی طرح اسے ڈبلیو ٹی او سے واپس نکال باہر کردے۔


بال ٹیمپرنگ کے لئے امریکہ اور اس کے حواریوں نے اپنی جیبوں میں بوتلوں کے جو ڈھکن سنبھال رکھے ہیں وہ تین ہیں۔ پہلے ڈھکن کا نام ہے آزادی،، دوسرا ڈھکن ڈیموکریسی، اور تیسرا ڈھکن انسانی حقوق کہلاتا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری جب کسی ملک کا تیا پانچہ کرنے کا فیصلہ کرلیں تو وہ ان تین ڈھکنوں کی مدد سے ہی بال ٹیمپرنگ کرتے ہیں۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ چین کے خلاف حالیہ بال ٹیمپرنگ کا آغاز کیسے ہوا۔
2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اچانک خواب آیا کہ امریکہ اور چین کے مابین تجارتی معاہدے تو بہت ہی غیر منصفانہ ہیں۔
ان معاہدوں کے نتیجے میں چین مزے کر رہا ہے جبکہ امریکہ سخت نقصان اٹھا رہا ہے۔ مگر ٹرمپ نے یہ نہیں بتایا کہ ان معاہدوں کے لئے معصوم سے امریکہ کا بازو مروڑا کس نے تھا ؟ چینی ترقی کی رفتار اور امریکہ کی عالمی اجارہ داری کو لاحق خطرے کا الزام کسی پر تو رکھنا تھا۔ چنانچہ تجارتی معاہدوں پر رکھدیا گیا۔ اور یکطرفہ طور پر چین کے سٹیل اور دیگر مصنوعات پر ڈیوٹی اتنی بڑھا دی گئی کہ کوئی امپورٹ ہی نہ کرسکے۔ ٹرمپ نے سوچا تھا کہ دھیمی سروں والا چین اس اقدام پر “مذاکرات” کی پیشکش کرے گا لیکن چین کا جواب ترکی بہ ترکی آیا۔ اس نےڈیوٹی کا جواب ڈیوٹی سے دیا۔

دال گلی نہیں تو امریکہ کی جانب سے چینی ٹیلی کام جائنٹ ہواوے کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ ہواوے کی چیف فائنانشل آفیسر مینگ وان زھو کو کینیڈا میں گرفتار کروا کر ان کی امریکہ حوالگی کا مطالبہ کردیا گیا۔ الزام ان پر یہ دھرا گیا کہ ہواوے کی ہانگ کانگ میں پارٹنر کمپنی نے ایران کو امریکی مشینری فروخت کی ہے جو امریکہ کی ایران پر پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔ چین کا موقف ہے کہ یہ اقدام اس کے ساتھ نئے تجارتی معاہدوں کے لئے دباؤ کی غرض سے اٹھایا گیا ہے جو ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ اور جوابا چین نے کینیڈا کے دو شہریوں کو جاسوسی کے الزام میں بھی دھر لیا، اور ان پر مقدمہ بھی شروع کردیا۔

کھیل ہاتھ سے نکلتا نظر آیا تو چین کے خلاف پہلے سوشل میڈیا پر ہانگ کانگ اور سنکیانک کے حوالے افواہیں پھیلانی شروع کی گئیں اور جب ان افواہوں کے نتیجے میں ہر طرف تجسس کی کیفیت پیدا ہوگئی تو پھر بی بی سی کے ذریعے رپورٹ نشر کروائی گئی کہ سنکیانک میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے اور یہ کہ وہاں دس لاکھ مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے جن سے جبری مشقت لی جا رہی ہے۔ کینیڈا نے آگے بڑھ کر اس فرضی اور من گھڑت “قتل عام” کے خلاف اپنی پارلیمنٹ سے قرارداد مذمت بھی منظور کروا لی۔

اب اگر آپ غور کریں تو اس پورے معاملے میں امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا مذکورہ تینوں ڈھکن ہی استعمال کر رہے ہیں۔ اور استعمال کی وجہ کیا؟
فقط یہ کہ امریکہ چین کے ساتھ تجارت کے طے شدہ معاہدوں میں تبدیلی چاہتا ہے۔
لیکن ان ممالک سے اس پورے معاملے میں اوور ایکٹنگ سرزد ہوگئی ہے۔ اتنی اوور ایکٹنگ کہ ان تینوں ممالک کے کچھ نامی گرامی بلاگرز اور یوٹیوبرز بھی اپنے ہی ممالک کے خلاف اور چین کے حق میں سامنے آگئے ہیں۔ اور وہ چینی موقف کی برملا حمایت کر رہے ہیں۔ چینی موقف کے چیدہ پوانٹس یہ ہیں

٭ دس لاکھ انسانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھنے کے لئے کم از کم بھی ایک ہزار کیمپ درکار ہوں گے۔ یہ کیمپ اور ان کی سیٹلائٹس پکچرز کہاں ہیں ؟
کیا گوگل ارتھ کے دور میں ایک ہزار حراستی کیمپ اور دس لاکھ انسان چھپائے جا سکتے ہیں؟

٭ پچھلے چالیس سال کے دوران سنکیانک کےا یغور مسلمانوں کی آبادی دگنی ہوئی ہے اور یہ رفتار چین کی دیگر نسلوں سے زیادہ ہے

٭ اگر وہاں قتل عام ہو رہا ہے اور دس لاکھ لوگ لاپتہ کردئے گئے ہیں تو 2010ء سے 2018ء کے مابین ایغور مسلمانوں کی آبادی میں 25 فیصد اضافہ کیسے ہوگیا ؟ سنکیانک کی جو آبادی 2010ء میں 21 ملین تھی وہ اب 25 ملین کیسے ہوگئی ؟ اور اس میں بھی بالخصوص ایغور مسلمانوں کی آبادی میں 2 اعشاریہ 55 ملین کا اضافہ کیسے ہوگیا ؟

٭ اگر چین کا سنکیانک اور اس کے مسلمانوں کے ساتھ رویہ متعصبانہ ہے تو پچھلے ساٹھ سال میں سنکیانک کی جی ڈی پی میں 200 گنا اضافہ کیسے ہوگیا ؟ اور اس کے پر کیپٹا جی ڈی پی میں 40 گنا اضافہ کیونکر ہوا ؟

٭ 1978ء میں سنکیانک کے لوگوں کی اوسط عمر 30 برس ہوا کرتی تھی۔ روزگار، خوراک، صحت اور ماحولیات کا معیار بہتر کرنے کے نتیجے میں آج اسی سنکیانک میں لوگوں کی اوسط عمر 72 سال ہے۔ کیا یہ کارنامہ کوئی متعصب حکومت انجام دے سکتی ہے ؟

٭ اگر اس علاقے میں قتل عام چل رہا تھا اور دس لاکھ افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے تو اسے تو سیل ہونا چاہئے تھا۔ اس کے برخلاف صرف 2019ء میں ملکی و غیرملکی 21 کروڑ 30 لاکھ سیاح اس علاقے میں سیر و سیاحت و تجارت کے لئے کیسے چلے گئے ؟

٭ جب حکومت خود قتل عام کر رہی تھی تو پھر یہ کیسے ممکن ہوگیا کہ کرونا جیسی مہلک وبا سے سنکیانک کے صرف تین شہری ہی جان بحق ہوئے ؟ متعصب حکومت کو تو ارادی غفلت کا مظاہرہ کرکے اس وبا کے وہاں پھیلنے کی تدبیر کرنی چاہئے تھی

حیران کن بات یہ ہے کہ چین کے اس موقف کا صرف مغربی میڈیا میں ہی مکمل بلیک آؤٹ نہیں کیا گیا بلکہ مغرب کے زیر اثر مسلم ممالک کے میڈیا میں بھی یہ چیزیں نہیں آنے دی گئیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایشیائی ملکوں کی صحافت کو خریدنے کے لئے قائم امریکہ کے “پرسیپشن منیجمنٹ فنڈ” کی برکات پاکستانی میڈیا تک بھی پہنچتی ہیں۔
اس فنڈ کی تقسیم سے نہ صرف مغرب اور اس کے نظام کے حق میں پروپیگنڈہ کروایا جاتا ہے بلکہ ساتھ ہی اس بات کا بھی بند و بست کیا جاتا ہے کہ چین اور روس کے حوالے سے صرف بری خبریں ہی نشر ہوں۔ مثلا یہ کہ چین میں سیلاب یا برفباری سے نظام زندگی درہم برہم وغیرہ وغیرہ۔ قابل غور بات ہے کہ ہالیووڈ یا بالیووڈ کی کسی اداکارہ کو کھانسی بھی ہوجائے تو ہمارا میڈیا اس کے خبر دیتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی پاکستانی میڈیا پر چائنیز شوبز کی بھی کوئی خبر دیکھی ؟


متعلقہ:
چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی
چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی (دوسری قسط)
چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی (تیسری قسط)
چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی (آخری قسط)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
آیئے رخ کرتے ہیں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے اس حصے کی جانب جو “نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر” کی ایک اپنی ہی نوعیت کی تعبیر کا درجہ رکھتا ہے۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ایک ہمہ جہت منصوبہ ہے۔ اس میں دنیا کے مختلف خطوں کے لئے الگ الگ ذیلی منصوبے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ میں مشرق وسطی کے لئے چین کا جو روڈ میپ ہے اس کا ایک سرا چین کے خود مختار علاقے ننگشیا میں ہے تو دوسرا مصر میں۔

ننگشیا چین کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ لیکن اگر آپ اسے بیجنگ اور سنکیانک کے تناظر میں دیکھیں تو یہ چین کے تقریبا وسط میں واقع ہے۔ اگرچہ اس علاقے کی مسلمان آبادی 34 فیصد ہے مگر یہ گہری اسلامی جڑیں اور شناخت رکھنے والا علاقہ ہے۔
اسلام یہاں ساتویں صدی میں تاجروں کی مدد سے پہنچا تھا۔ ان قدیمی تاجروں نے یہاں شادیاں کرلیں جن سے ان کی نسل چلی۔ مسلمانوں کی جو نسل یہاں پائی جاتی ہے یہ “ھوئی” کہلاتی ہے۔ چین میں آفیشلی 55 نسلوں کو اقلیت کا درجہ حاصل ہے۔ جنہیں چین کی سب سے بڑی نسل “ہان” کے مقابلے میں خصوصی رعایتیں حاصل ہیں۔ جی ہاں ! آپ نے درست پڑھا، چین میں اقلیتوں کو خصوصی رعایتیں حاصل ہوتی ہیں۔ مثلا “ایک بچہ” پالیسی کے دوران سنکیانک کے ایغور مسلمانوں کو دو بچوں کی پیدائش کی رعایت حاصل تھی۔ ھوئی نسل چین کی دوسری بڑی اقلیت ہے۔ منگ خاندان نے جب چین میں اپنی سلطنت قائم کی تو اس سلطنت کے قیام کے لئے اس کی فوج میں ھوئی نسل کے کئی جرنیل بھی لڑے تھے۔
اپنے ان جرنیلوں کی خدمات کے اعتراف میں منگ شہنشاہ نے چین کے ان تمام علاقوں میں مساجد تعمیر کروائی تھیں جہاں مسلمان آبادی تھی۔ ان مساجد میں سے ایک ننگشیا کی جامع مسجد ٹونگ سن بھی ہے جو تقریبا آٹھ سو سال آج بھی وہاں قائم ہے اور اسے ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ ننگشیا میں اس وقت مجموعی طور پر 3760 مساجد قائم ہیں۔ مساجد کی تعداد اگر وہاں کی مسلم آبادی پر تقسیم کی جائے تو ہر 577 افراد کے لئے ایک مسجد بنتی ہے۔ ننگشیا میں دینی رہنمائی و خدمات کے لئے 7 ہزار علماء موجود ہیں۔ ان سات ہزار علماء کے تعلیمی اخراجات خصوصی رعایتی سکیم کے تحت چائنیز حکومت نے ہی اٹھائے ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں ننگشیا کو عرب ملکوں کے لئے مرکز کی حیثیت دی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مشرق وسطی کے تاجروں اور سرکاری حکام کو اگر چین سے لین دین کرنا ہے تو انہیں ننگشیا آنا ہوگا۔ اور چینی صنعتکاروں یا تاجروں کو اگر مشرق وسطی کے ساتھ لین دین کرنا ہے تو انہیں بھی یہیں جانا ہوگا۔ اس پروجیکٹ کا چین سے باہر ایسا ہی دوسرا مرکز مصر میں قائم ہوگا۔ یعنی نیل کے ساحل پر۔ جانتے ہیں اس اقدام کے ذریعے چین کی حکومت نے کیا کیا ہے؟
اس نے مسلمانوں کے وہ صدیوں پرانے تاریخی رشتے ایک بار پھر جوڑ دئے ہیں قدیمی سلک روڈ کے ذریعے ساتویں صدی میں قائم ہوئے تھے۔ چین میں ننگشیا ہی وہ مقام ہے جہاں عربوں کی قدیمی جڑیں پائی جاتی ہیں۔ اور یہ اس لحاظ سے بھی عرب دنیا کے لئے ایک موزوں مقام ہے کہ یہاں مساجد کی کمی ہے اور نہ ہی حلال خوراک کی۔ یہاں لاتعداد عرب، ایرانی، ترکش اور پاکستانی ریسٹورنٹ پائے جاتے ہیں۔ یہ چین کے وسط میں قائم ایک چھوٹی سی اسلامی دنیا ہے۔
چین نے یہاں 2017ء میں پہلی “چین عرب ایکسپو” منعقد کی۔ اس ایکسپو میں 47 مسلم ممالک کی ایک ہزار کمپنیوں کے وسیع و عریض سٹالز قائم تھے۔ ہر ملک کا اپنا ایک گوشہ تھا اور اس گوشے میں اس کی کمپنیوں کے مختلف سٹالز ۔جہاں یہ مسلم کمپنیاں چینی تاجروں کے سامنے اپنی مصنوعات لے کر حاضر تھیں۔ عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ چین بس خود ہی چیزیں بنا بنا کر ساری دنیا کو فروخت کرتا ہے اور زر مبادلہ کھینچتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ڈیڑھ ارب گاہکوں والا ملک ہے۔ ساری دنیا کے صنعتکاروں کی ان گاہکوں پر نظر ہے اور سب ہی انہیں اپنا مال فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ سو چین عرب ایکسپو کے ذریعے عرب ممالک کے صنعتکاروں کو موقع دیا گیا کہ آپ بھی ان گاہکوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کیجئے۔ ننگشیا کی مذکورہ ایکسپو میں شریک لبنان کی خشک میوے والی ایک کمپنی کے ایکسپورٹ منیجر علی قاضی نے میڈیا کو ہنستے ہوئے بتایا تھا
“ہم ایک سال میں جتنا مال تیار کرتے ہیں وہ سارا تو چین میں کھپ گیا۔ ہمیں مستقبل کے لئے یہاں سے جو آرڈرز ملے ہیں اس کے بعد ہم چین کے سوا کسی بھی اور ملک کو اپنا مال ایکسپورٹ نہیں کر پائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ہمیں تیزی سے اپنی کمپنی اور کار و بار کو وسعت دینی ہوگی”
اس ایکسپو میں چین کے اردن کے ساتھ تین ارب ڈالرز، مصر کے ساتھ 15 ارب ڈالرز اور مجموعی طور پر تمام ممالک کے ساتھ 90 ارب دالرز کے ایک ہزار معاہدے سائن ہوئے تھے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے اس منصوبے میں مشرق وسطی کے حوالے سے مصر کو چونکہ چین “حب” کا درجہ دینے جا رہا ہے سو وہاں چین تین بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ وہ چین میں ہائی سپیڈ ٹرین اور انڈسٹریل پارک تعمیر کر رہا ہے۔ جبکہ مصر کے نئے دارالحکومت کا سینٹرل ڈسٹرکٹ بھی چین ہی تعمیر کر رہا ہے۔ یہاں چین دو ایسے ٹاورز بھی تعمیر کر رہا ہے جو افریقہ کی سب سے بلند عمارتیں ہوں گی۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ مشرق وسطی پچھلے ستر سال مستقل سلگ رہا ہے۔ پہلے عرب اسرائیل تنازعے کے سبب سلگتا رہا۔ پھر ایرانی انقلاب کے بعد فساد کی ایک نئی وجہ بھی پیدا ہوگئی۔ امریکہ اور مغربی ممالک منصوبے کے تحت اس خطے کو ستر سال سے سلگائے رکھتے آئے ہیں۔ تاکہ وہ من مانی شرائط پر تیل بھی لوٹ سکیں اور اس خطے کی جنگوں کے ذریعے اپنے اسلحے کے لئے ایک مستقل ڈیمانڈ والی مارکیٹ بھی قائم رکھیں۔ اب چین اس خطے میں قدم رکھ رہا ہے تو اس کے ارادے ان مغربی ملکوں کے بالکل برعکس ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ نے مصر کے دورے کے موقع پر کی گئی اپنی تقریر میں ان ارادوں کی جانب ایک واضح اشارہ کچھ یوں دیا تھا
“کہا جاتا ہے کہ مشرق وسطی تیل کی پیداوار والا سب سے بڑا خطہ ہے۔ لیکن اس کی بڑی پیداوار صرف تیل نہیں بلکہ بڑے تنازعات بھی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس خطے کو اقتصادی ترقی دے کر تنازعات کی پیداوار کو بند کیا جاسکتا ہے”
2017ء کی ننگشیا والی چین عرب ایکسپو کی ایک خاص بات یہی تھی کہ اس میں ایک ہی چھت کے نیچے سعودی اور ایرانی سٹالز موجود تھے۔ چین یہ سمجھتا ہے کہ غیر معمولی تجارتی سرگرمیاں مشرق وسطی کے ممالک کو باہمی مفادات سے جوڑ دیں گی۔ جس سے تنازعات کے حل اور مشترکہ مفادات کے حصول کی دوڑ کو فروغ حاصل ہوگا۔ یوں ننگشیا کی حیثیت فقط ایک تجارتی مرکز کی نہ رہے گی بلکہ رفتہ رفتہ ایک ایسے سفارتی مرکز کی بھی بن جائے گی جہاں مشرق وسطی کے تنازعات کے حل کی راہیں ڈھونڈی جا سکیں گی۔ یعنی ننگشیا مشرق وسطی کی بیٹھک بن جائے گا۔ اور چین ان تمام ممالک کے ساتھ اپنے گہرے تجارتی روابط و مشترک مفادات کے سبب انہیں تنازعات میں الجھنے سے روک سکے گا۔
چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی یہیں ختم ہوتی ہے۔ آپ ان سطور کی مدد سے بہت سے ایسے حقائق سے آگاہ ہوئے ہوں گے جو آپ کو مین سٹریم انٹرنیشنل میڈیا تو کیا لوکل میڈیا میں بھی نہیں ملے ہوں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو سوچئے کہ یہ حقائق آپ تک پہنچنے سے کون روکتا ہے ؟ وہی روکتے ہیں جنہوں نے آپ کو باور کرا رکھا ہے کہ سچ بس وہی ہے جو بی بی سی، وائس آف امریکہ اور ان کے ہمنوا میڈیا میں شائع ہوتا ہے۔

اور یہ کہ اس جدید دنیا میں “آزادی اظہار” نام کی کوئی چیز بھی پائی جاتی ہے۔ اس دنیا میں آزادی اظہار نام کی کوئی بھی چیز وجود نہیں رکھتی۔ یہاں ملکی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر سو سچ کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ جس کے پاس سرمایہ نہیں ہے وہ پیمرا کی مدد سے گھونٹتا ہے جس کا پاس خرچ کرنے کے لئے ڈالروں کے خزانے ہیں وہ یہی کام پرسیپشن منیجمنٹ فنڈ کے ذریعے کرتے ہیں۔ آپ چین سے متعلق سچ بی بی سی سنیں گے تو سچ نہیں کچھ اور ہی سنیں گے۔ دشمن بھی کبھی دشمن سے متعلق سچ بولتا ہے ؟۔ یوں قتل سے خبروں کے وہ بدنام نہ ہوتی۔ افسوس کہ ہماری اسٹیبلیشمنٹ کو پرسیپشن منیجمنٹ فنڈ کی نہ سوجھی (ختم شد)
 
یہی عروج و زوال ہے کہ مغرب کو ناموس رسول کے نام پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن لاکھوں ایغور مسلمانوں پر مظالم کے خلاف کوئی ایک حرف بھی بولنے کو تیار نہیں۔
کلیسک وٹ اباؤٹزم۔ لیکن وہ بھی مکمل درست نہیں۔ آپ نے شاید علامہ خادم حسین رضوی کے اس معاملے پر تاثرات دیکھے نہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ نیولبرز کی طرف دیکھیں گے تو وہ تو فلسطین کے استحصال کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اس موقع پر ان کے لیے مذہبی دلائل بھی معتبر ہو جاتے ہیں۔یہ تو کوئی قابلِ ذکر نکتہ ہے ہی نہیں، ہر فریق کا اپنا مفاد اور اپنی ہٹ دھرمی ہے۔

ویسے آپ کیا چاہتے ہیں کہ لوگوں سے مغرب پر تنقید کا حق بھی چھین لیا جائے؟ یہ تو وہی رجعت پسندی ہوئی جس کے آپ سخت مخالف ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق وہ تین سیاسی ہتھیار ہیں جن کے دم پر امریکہ دنیا بھر کے غیر مطیع ممالک کے خلاف پہلے میڈیا ٹرائل کے ذریعے عالمی سطح کی بدنامی کا اہتمام کرتا ہے اور پھر اس میڈیا مہم کے ذریعے پیدا کردہ ماحول کا فائدہ اٹھا کر ایسے ممالک کو یا تو بلیک میل کرکے اطاعت پر مجبور کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوسکے اور ٹارگٹ ملک عالمی سطح کی یتیمی کا شکار ہو تو پھر فوجی حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ لیکن اگر ٹارگٹ ملک پر دیگر عالمی پلیئرز کی حمایت کے سبب حملہ ممکن نہ ہو تو پھر اقتصادی و سفری پابندیاں عائد کرکے اس ملک کی ترقی کا سفر روک دیتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان مقاصد کے لئے امریکہ ہر سال کے آغاز پر “انسانی حقوق” کے حوالے سے رپورٹ جاری کرکے ٹارگٹ ممالک کو نامزد کرتا ہے۔ مگر یہ حقیقت اب دن بدن اشکار ہوتی چلی جا رہی ہے کہ امریکہ اب نہ تو پہلے جیسا عالمی اثر رکھتا ہے اور نہ ہی وہ داخلی طور پر کوئی مستحکم ملک ہے۔ وہ داخلی انتشار کے حوالے سے اس وقت دنیا کا سب سے بدتر ملک بن چکا ہے۔ دوسروں کو جمہوریت اور جمہوری اقدار کے لیکچر دینے والے اس ملک میں اب پارلیمنٹ بھی سیاسی مخالفین کے حملوں سے محفوظ نہیں۔ اور یہ حملے کوئی اور نہیں بلکہ خود امریکی صدر کراتا پایا گیا ہے۔
دوسری جانب چین ایک نئے عالمی لیڈر کے طور پر تیزی سے ابھر رہا ہے۔ اور اب چین اپنی روایتی خاموشی بھی توڑتا نظر آرہا ہے۔ 24 مارچ 2021ء کو چین نے “یو ایس ہیومن رائٹس وائلیشنز 2020” کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں خود امریکہ کے سرکاری اداروں اور امریکی و برطانوی میڈیا کی رپورٹس کو سورس بنا کر امریکہ میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کرونا وائرس سے نمٹنے میں حکومتی غفلت، سیاسی ابتری، نسلی امتیاز اور عالمی معاہدات کی خلاف ورزی جیسے چار اہم پہلوؤں سے امریکہ کی صورتحال کو پیش کیا گیا ہے۔ اس مفصل رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات پیش خدمت ہیں۔ اس پہلی قسط میں اس رپورٹ کے وہ نکات پیش کئے جا رہے ہیں جو کرونا وائرس سے نمٹنے سے متعلق امریکی حکومت کی غفلت کا احاطہ کرتے ہیں۔

متعلقہ:
امریکا میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال- پہلی قسط
امریکہ میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال -دوسری قسط
امریکہ میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال -آخری قسط

 

زیک

مسافر
کلیسک وٹ اباؤٹزم۔ لیکن وہ بھی مکمل درست نہیں۔ آپ نے شاید علامہ خادم حسین رضوی کے اس معاملے پر تاثرات دیکھے نہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ نیولبرز کی طرف دیکھیں گے تو وہ تو فلسطین کے استحصال کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اس موقع پر ان کے لیے مذہبی دلائل بھی معتبر ہو جاتے ہیں۔یہ تو کوئی قابلِ ذکر نکتہ ہے ہی نہیں، ہر فریق کا اپنا مفاد اور اپنی ہٹ دھرمی ہے۔

ویسے آپ کیا چاہتے ہیں کہ لوگوں سے مغرب پر تنقید کا حق بھی چھین لیا جائے؟ یہ تو وہی رجعت پسندی ہوئی جس کے آپ سخت مخالف ہیں۔
آپ میرے منہ میں ایسے الفاظ ڈالتے جا رہے ہیں جو میں نے نہیں کہے اور توقع رکھتے ہیں کہ میں دلائل سے آپ کا جواب دوں گا۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھکاری ملک ہے اور بھیک مانگتے ہوئے عزت کو پیچھے کرنا پڑتا ہے۔ یورپ کو کوئی ضرورت نہیں کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس ٹریڈ سٹیٹس دے۔ اگر آپ مغرب کے ٹکوں کے بغیر رہ سکتے ہیں تو رہ کر دکھائیں۔ ورنہ دنیا میں طاقت کے جو اصول آپ سعودیہ اور چین کے متعلق اچھی طرح سمجھتے ہیں انہیں باقیوں پر بھی اپلائی کریں
 

الف نظامی

لائبریرین
آپ میرے منہ میں ایسے الفاظ ڈالتے جا رہے ہیں جو میں نے نہیں کہے اور توقع رکھتے ہیں کہ میں دلائل سے آپ کا جواب دوں گا۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھکاری ملک ہے اور بھیک مانگتے ہوئے عزت کو پیچھے کرنا پڑتا ہے۔ یورپ کو کوئی ضرورت نہیں کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس ٹریڈ سٹیٹس دے۔ اگر آپ مغرب کے ٹکوں کے بغیر رہ سکتے ہیں تو رہ کر دکھائیں
جب پاکستان دنیا کو دکھائے گا کہ "دبد" کیا چیز ہے پھر سارا یورپ دم ہلاتا آئے گا پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے۔ مزید تفصیل کے لیے مغربی انٹیلی جینس سے رابطہ کریں :p
 

الف نظامی

لائبریرین
٭ عالمی ادارہ صحت دنیا بھر میں انسانی صحت کو لاحق خطرات کے حوالے سے کام کرنے ولا ادارہ ہے۔ جب دنیا بھر کے لوگ کرونا جیسی بدترین وبا کا شکار ہوئے اور عالمی سطح پر انسانی صحت کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے مربوط عالمی کوششوں کی ضرورت سب سے زیادہ بڑھی تو امریکہ نے عالمی ادارہ صحت کے فنڈز روک دئے اور اس پر چائنا سے جانبداری برتنے کے الزامات عائد کردئے۔ جس کی پوری دنیا نے مذمت کی کیونکہ کرونا سے نمٹنے کے لئے اس ادارے کی عالمی سطح کی کوششوں کی شدید ترین ضرورت تھی، اور حالات کا تقاضا یہ تھا کہ اس ادارے سے تعاون مزید بڑھایا جائے۔

٭ امریکہ نے ایران، شمالی کوریا، شام، کیوبا، اور وینزویلا پر لگائی گئی اپنی پابندیاں کرونا جیسی عالمی وبا کے دوران بھی برقرار رکھیں۔ جس سے ان ممالک کے لئے اپنے کروڑوں شہریوں کے لئے عالمی برادری سے طبی امداد حاصل کرنے میں بے پناہ مشکلات پیش آئیں۔ اور اس سے ان ممالک میں بے شمار قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ انسانی جانوں کا یہ نقصان پابندیاں ختم یا نرم کرکے بڑی حد تک کم کیا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

٭ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشل بیچلیٹ نے 24 مارچ 2020 کو اس حوالے سے بیان بھی جاری کیا کہ یہ پابندیاں ان ممالک میں طبی خدمات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوں گی اور ان سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوگا لھذا انہیں ختم یا نرم کرکے قیمتی انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے مگر اسے نظر انداز کردیا گیا۔

٭ دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 24 سینئر سفارتکاروں نے امریکہ سے اپیل کی کہ ایران پر پابندیاں نرم کی جائیں تاکہ لاکھوں انسانی جانیں بچائی جا سکیں۔ مگر یہ اپیل بھی نظر انداز کردی گئی۔

٭ 30 اپریل 2020 کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے امریکہ سے اپیل کی کہ کیوبا پر عائد پابندیوں کے نتیجے میں یہ ملک نہ تو کرونا سے نمٹنے کے لئے درکار طبی آلات خرید سکے گا اور نہ ہی ادویات اور دیگر ضروری طبی سامان لھذا یہ پابندیاں ختم یا نرم کی جائیں تاکہ یہ ملک کرونا کے بحران سے نمٹ سکے۔ مگر یہ اپیل بے اثر رہی۔

٭ انسانی حقوق، غربت، اور صاف پانی سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندگان نے 6 مئی 2020 کو مشترکہ بیان جاری کرکے امریکہ سے کہا کہ وینزویلا پر عائد امریکی پابندیاں انسانی حقوق کے سنگین مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ انہوں نے امریکہ سے اپیل کی یہ پابندیاں فوری طور پر اٹھائی جائیں تاکہ کرونا کے شکار اس ملک کے شہریوں کو بچایا جاسکے۔ مگر یہ اپیل بھی نظر انداز کردی گئی۔

٭ 29 دسمبر 2020 کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ ایلینا ڈوہن نے امریکہ سے اپیل کی کہ وہ شام پر عائد اپنی یکطرفہ پابندیاں اٹھائے تاکہ انسانی حقوق کے حوالے سے پہلے ہی مشکلات کا شکار یہ ملک کرونا سے نمٹنے میں عالمی مدد حاصل کر سکے مگر یہ اپیل بھی نظر انداز کردی گئی۔

٭ امریکہ نے نومبر 2020 میں ایک اور عالمی معاہدے کو یوں زک پہنچائی کہ وہ پیرس ایگریمنٹ سے نکل گیا جو گرین ہاؤس گیسز کے حوالے سے ایک عالمی معاہدہ ہے۔ حالانکہ امریکہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ جس کے تدارک کے لئے اس کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ ہے۔ یہ اس معاہدے میں شامل 200 ممالک میں سے واحد ملک ہے جو اس سے نکلا۔ ماحولیات کی بڑی سائنسی ماہر اور ماحولیات پر اقوام متحدہ کی رپورٹ کی شریک مصنفہ نیتالی مہولڈ نے امریکہ کے اس اقدام کو انسانی جانوں کو خطرات سے دوچار کرنے والا قدم قرار دیا اور عالمی برادری نے بھی اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے غیر سائنسی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدام قرار دیا۔

٭ 11 جون 2020ء کو امریکہ نے عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کا تیسرا قدم یوں اٹھایا کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے ان اہلکاروں پر سفری و مالیاتی پابندیاں عائد کردیں جو افغانستان میں امریکی فوج اور اس کے انٹیلی جنس اداروں کے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیق کے لئے جانا چاہتے تھے۔ اس معاملے کا تعلق بھی معصوم انسانی جانوں اور ان کے حقوق سے تھا۔

٭ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ذیلی ادارے نے 30 دسمبر 2020 کو جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بلیک واٹر کے ایسے اہلکاروں کو عام معافی دی ہے جو عراق میں جنگی جرائم کے مرتکب تھے۔صرف یہی نہیں بلکہ کونسل نے جنیوا کنونشن کے تمام ممبر ممالک سے اپیل بھی کی کہ امریکی صدر کے اس اقدام کی مذمت کی جائے۔ بلیک واٹر کے ان قاتلوں نے 2007ء میں بغداد میں 14 عام شہریوں کو قتل اور 17 کو شدید زخمی کیا تھا۔

چینی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ “یو ایس ہیومن رائٹس وائلیشنز 2020” امریکہ میں جمہوریت کی مخدوش صورتحال کا بھی تفصیلی احاطہ لئے ہوئے ہے۔ رپورٹ کے ان نکات کی جانب جاتے ہوئے یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ امریکہ خود “جمہوریت کا عالمی ٹھیکیدار” سمجھتا ہے اور اس حوالے سے وہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک ہی نہیں بلکہ روس اور چین جیسے بڑے ممالک کو لیکچرز دیتا رہتا ہے۔ یہ رپورٹ امریکہ میں جمہوریت کے حوالے سے صورتحال جائزہ کچھ یوں پیش کرتی ہے۔

٭ 2020ء امریکہ میں انتخابات کا سال تھا۔ امریکی انتخابات کا سارا زور سرمائے کے دم سے چلتا ہے۔ سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق ٹاپ 10 معلوم ڈونرز نے ان انتخابات میں جو چندہ دیا وہ وہ 640 ملین ڈالرز تھا۔ لیکن دوسری طرف ایک تشویشناک رپورٹ اور بھی ہے جو نیویارک یونیورسٹی کے برینن سینٹر فار جسٹس نے جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ کے 2020ء کے صدارتی انتخابات میں بطور چندہ جو “کالا دہند” دیا گیا اس کی مقدار 750 ملین ڈالرز تھی۔ جب پوری دنیا میں منی لانڈرنگ کے خلاف مہم جاری تھی تو امریکی انتخابات میں اس بڑے پیمانے کی منی لانڈرنگ جاری تھی۔

٭ امریکی انتخابات کی شفافیت پر عوامی اعتماد بدترین بحران سے دوچار دیکھا گیا۔ گلیپ کی 8 اکتوبر 2020ء کو جاری کی گئی سروے رپورٹ کے مطابق انتخابات کی شفافیت پر صرف 19 فیصد امریکی شہریوں کواعتماد تھا۔

٭ 9 نومبر 2020ء کو شائع ہونے والی وال سٹریٹ جنرل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 2020ء کے انتخابات کو ہمیشہ اس اعتبار سے یاد رکھا جائے گا کہ ان میں جمہوریت کے بنیادی بلاکس پر عوامی یقین سب سے کم ترین سطح پر تھا۔

٭ انتخابی مہم کے دوران سیاسی کشمکش اتنی بڑھ گئی کہ دونوں جماعتوں نے اہم ترین قومی مفادات اور جاری سرکاری خدمات پر بھی سیاست کرکے ڈیڈلاک کی صورتحال پیدا کردی جس کا سارا خمیازہ امریکی شہریوں کو بھگتنا پڑا۔ یہاں تک کرونا ریلیف فنڈ ز پر بھی ڈیڈلاک پیدا کرکے کروڑوں امریکی شہریوں کو نقصان پہنچایا گیا جو پہلے ہی بے روزگاری اور کار و بار کی بندش کا شکار تھے۔ صورتحال اس حد تک خراب رہی کہ انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے پر غیرملکی ایجنٹ ہونے تک کے الزامات لگائے گئے۔ سیاسی تفریق اس ھد کو چھو رہی تھی کہ شہریوں میں سے دونوں کیمپس کے 90 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اگر مخالف پارٹی جیت گئی تو اس کے نتیجے میں امریکہ کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔

٭ اس سیاسی کشمکش کا سب سے بدترین اثر ریاستی سطح پر یوں ظاہر ہوا کرونا وائرس کے تدارک سے متعلق ڈیموکریٹ اور ریپبلکن حکومتوں والی ریاستوں کی پالیسیاں ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھیں جن کے نتیجے میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔

٭ ایک موقع پر ریاست میساچوسٹس نے اپنے شہریوں کے لئے تین ملین این 95 ماسک خریدے تو سیاسی مخالف وفاقی حکومت نے انہیں نیویارک کی بندرگاہ پر ضبط کرلیا۔

٭ امریکی صدر نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اور اپنے حامیوں کو کانگریس کی جانب سے ان نتائج کی سرٹیفکیشن میں رکاوٹیں ڈالنے کی ہدایت کی جس کے نتیجے میں کیپٹل ہل پر حملے جیسا سنگین واقعہ اور بحران پیدا ہوا۔ اراکین کانگریس کو گیس ماسک پہنا کر بمشکل ریسکیو کیا گیا۔ اس واقعے میں بدترین تشدد ہوا، گولیاں چلیں، انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور واشنگٹن میں کرفیو لگانا پڑگیا۔ صدر کے حامیوں نے پائپ، کیمکل، اور دیگر اقسام کے ہتھیار استعمال کرکے 50 سے زائد پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا۔ لیکن صدر کے حامی ان ہزاروں حملہ آوروں میں سے پولیس نے صرف سو کے لگ بھگ ہی گرفتار کئے۔ امریکی پارلیمنٹ پر ہونے والا یہ حملہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود امریکی صدر نے کرایا اور اس کے لئے اپنے حامیوں کو بھڑکایا۔
 

زیک

مسافر
رہی بات پاکستانی مزدوروں کی تو یقیناً ان کا استحصال ہو رہا ہے لیکن ان کی بہتری کے متعلق سوچنا پاکستانی حکومت کا کام ہے یا مغرب کا؟ کیا بنگلہ دیش نے اسی مغرب کو برآمد کر کے اپنے مزدوروں کے حالات بہتر نہیں کئے؟ پھر پاکستان کیوں ایسی پالیسیوں میں اٹکا ہوا ہے جس سے ملک و قوم کا نقصان ہو؟ جی ایس پی پلس سٹیٹس کی شرائط واضح ہیں اور آن لائن دستیاب ہیں۔

کیا پاکستان میں جن پاکستانیوں پر توہین اسلام کا الزام لگا کر سزا دی جاتی ہے یا مارا جاتا ہے وہ استحصال نہیں؟ کیا ان کے متعلق سوچنا منع ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
مغرب میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال
عین عالمی وباء کے دوران سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں قتل کئے جانے والے جارج فلائڈ کی موت کے نتیجے میں پورے ملک کی سطح پر احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ یہ احتجاج امریکہ کی پچاس ریاستوں میں پھیل گیا۔ اس دوران امریکی حکومت کا کردار یہ رہا کہ طاقت کے زور پر اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ اس تحریک کے دوران احتجاجیوں میں سے 10 ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا۔ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو اس احتجاج کے دوران گرفتار بھی کیا گیا اور ان پر حملے بھی کئے گئے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مغرب میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال
سیاہ فام امریکی شہری ملک کی کل آبادی کا 13 فیصد ہیں مگر پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے امریکیوں میں ان کا تناسب 28 فیصد ہے۔ دوسری جانب پولیس کے ہاتھوں مرنے والوں کو انصاف ملنے یا نہ ملنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2013ء سے 2020ء کے مابین جتنے بھی پولیس افسران شہریوں کے قتل میں ملوث پائے گئے ان میں سے 98 فیصد باعزت بری ہو گئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یقینی طور پر، پچاس سے زائد مسلم ممالک ایسا کریں تو اس کا یہی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے مگر عملی طور پر خان صاحب کی اس تجویز کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ آیا۔ کم از کم مسلم ممالک میں ایسی کوئی تحریک نہیں چل رہی ہے کہ فرانس کے سفیر کو در بدر کر دیا جائے۔ عمران خان کا موقف درست ہے کہ فرانس کے سفیر کی دربدری مناسب حل نہیں بلکہ مسلم ممالک کو مل کر مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہیے مگر کپتان دیر سے جاگا ہے اور نومبر میں سویا پڑا رہا جب کہ اس کی ٹیم نے تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ یہ معاہدہ ہی اصل ایشو بن گیا ہے۔
عمران سویا نہیں ہوا۔ ۲۰۱۹ میں اپنے پہلے اقوام متحدہ کے دورہ پر بھی ترکی، ملائشیا وغیرہ کو ملا کر مسلم ممالک کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر سب پلان دھرے کے دھرے رہ گئے جب سعودیہ نے اس اتحاد کی مخالفت کر دی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مغرب میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال
نسلی امتیاز کی صورتحال کس قدر بدتر ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ ایف بی آئی کے تمام انتظامی عہدوں پر اس وقت سفید فام افسران براجمان ہیں۔ جبکہ اس ادارے کے 13 ہزار ایجنٹس میں سے صرف چار فیصد سیاہ فام ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس ادارے کی خواتین میں بھی سیاہ فام خواتین کی تعداد صرف ایک فیصد ہے۔
 
Top