فی الحال اسٹیٹ راضی نہیں کہ سفیر کو نکالا جائے۔
مفتی منیب نے ایک ہڑتال کے ذریعے قوم کو پیغام دیا کہ سفیر کے معاملات حکومت پارلیمان اور عمران دیکھیں۔ وہ نہیں دیکھنا چاہتے۔
ٹی ایل پی نے بھی معاملے کو پارلیمان پر چھوڑا ہے۔
مفتی تقی نے بھی سفیر کو نکالنے کی بات کی تاکہ انکے جذبات رجسٹر ہو جائیں۔
پاکستانی عوام جو ضیاء کے دور میں بڑی ہوئی سفیر نکالنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
لبرل پاکستانی کہتے ہیں کہ قرض شدہ اسٹیٹ کو چلانے کے لیے پہلے اپنے پاوں پر کھڑا ہونا سیکھو۔ پھر اپنی یا اپنے نظریات کی عزت کی بات کرنا۔ بھلا اس بلی کے کون گھنٹی باندھے گا؟
پاکستان سے مذہب کے خاتمے کی ڈیڈ لائن 2028 ہے۔ طالبان کا فوج نے مار مار کر بھرکس نکال دیا ہے۔ باقی شیعہ اور بریلویوں کا بھرکس نکالنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
مغرب سے بے عزتی کی جائے گی۔ بریلوی اچھلیں گے۔ محکمہ زراعت انکو سیاست دانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ ان سے ایسی تقریریں کرائے گا کہ شیعہ ذاکرین آگ بگولا ہو کر مذہب کا مذید تیا پاچہ کریں گے۔ لوگ آہستہ آہستہ 2028 تک مذہب کو منحوس سمجھیں گے۔ کفر شراب کی طرح عام ہو گا۔
مومنین مثنوی مولانا روم پڑھیں گے۔ صالحین کونا لیتے جائیں گے۔ صدیقین چھپ جائیں گے۔