شکیب
محفلین
اجی بقول شخصے لکھا ہے۔ انتظار حسین کا جملہ ہے۔آپ کو اپنی بات کرنے کا پورا پورا حق ہے مگر الفاظ کا چناؤ ذرا دھیان سے کیجیے
اجی بقول شخصے لکھا ہے۔ انتظار حسین کا جملہ ہے۔آپ کو اپنی بات کرنے کا پورا پورا حق ہے مگر الفاظ کا چناؤ ذرا دھیان سے کیجیے
سید عمراناب شاعری نے آپ کو کیا کہا ۔۔۔۔تھوڑا سا رنگ ہی اُڑا وہ تو اُڑنا ہی تھا ۔۔۔۔۔
قبلہ موصوف کے بارے میں اس خاکسار کو ’’تقریباً‘‘ یقینِ کامل ہے کہ یہ سرقۂ شناخت کے مرتکب ہیں۔ حضرت جونؔ بھائی کے بیٹے کا نام بھی علی زریون ہے، جبکہ ان صاحب کا اصل نام کچھ اور ہے، انہوں نے عمداً جونؔ کا سا حلیہ بنا کر اپنا ’’تخلص‘‘ علی زریون رکھ لیا ہے۔ ایسا مجھے ایک صاحب نے بتایا جو شوبزنس سے بطور آرگنائزر منسلک ہیں۔کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو
(نقل بمطابق اصل)
"قبلہ مفتی" علی زریون صاحب مدظلہ
ہمارے سر اور داڑھی کے بالوں میں تو کافی عرصہ ہوا، چاندی اترنا شروع ہو چکی تھی، مگر خود کو بوڑھا ہرگز تسلیم نہیں کیا تھا ۔۔۔ اب لگتا ہے کہ حقیقت تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہےسوچتا ہوں اتنا بوڑھا تو ابھی تک میں بھی نہیں ہوا کہ سر میں ایک بال بھی سفید نہیں پھر بھی پتا نہیں شاید آج کل لوگوں کا مزاج کچھ اور ہو گیا یا ہمارے جیسے لوگ ابھی تک ماضی کو پکڑے بیٹھے ہیں۔ پتا نہیں ہم غلط ہیں صحیح۔
اور تہذیب سے؟؟؟تہذیب کے اشعار تو وزن سے بھی گر جاتے ہیں
ایک زمانہ تھا کہ ’’عوامی شاعری‘‘ کا استعارہ حضرتِ نظیرؔ اکبر آبادی ہوا کرتے تھے ۔۔۔ خیر، وقت وقت کی بات ہے۔ اس جدید شاعری کا شفیق الرحمان نے خوب تعاقب کیا ہے۔ اپنے نثر پارے ’’ریویو‘‘ میں لکھتے ہیںان کا اپنے بارے میں بہت سادہ سا نقطہ نظر ہے کہ وہ "عوامی شاعری " کرتے ہیں جو انھوں نے مجبوراً اختیار کی ۔ ۔
آہ ۔۔۔ یہ سانحہ بھی ہماری مادرِ علمی پر گزرنا تھامعیار کا تعین اگر عوام کے ہاتھوں ہو تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے ۔ یا تومقبولیت کا سوال ہی نہ اٹھایا جائے ۔ ۔
انگشت بدنداں ہیں کہ اس غزل پر واہ واہ کیا جائے یا پھر چ چ چ ۔قصۂ قلبِ ناتواں چ چ ۔۔۔۔ دکھ بھری ہے یہ داستاں چ چ
ہر حسیں شکل پر خود آجانا ۔۔۔۔ خود ہی پھر نالہ و فغاں چ چ
الغرض شیخ جی، محبت کی ۔۔۔ ہے کچھ ایسی ہی داستاں چ چ
آہ مر گئے میر و غالب نہ جانے کیا کہتے کہتے۔۔۔جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے
کہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
نہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
وغیرہ وغیرہ!‘‘
جب Brain drain ہو جائے ۔ ۔ لوگ جگہ خالی کر دیں تو ایسے ہی حادثات و سانحات ہوتے ہیں ۔ ۔آہ ۔۔۔ یہ سانحہ بھی ہماری مادرِ علمی پر گزرنا تھا
واہ واہ ۔۔ ۔ ڈھیروں چ ۔ ۔ا
ایک زمانہ تھا کہ ’’عوامی شاعری‘‘ کا استعارہ حضرتِ نظیرؔ اکبر آبادی ہوا کرتے تھے ۔۔۔ خیر، وقت وقت کی بات ہے۔ اس جدید شاعری کا شفیق الرحمان نے خوب تعاقب کیا ہے۔ اپنے نثر پارے ’’ریویو‘‘ میں لکھتے ہیں
’’اسی سلسلے میں ہم ایک اور شاعری کی غزل پیش کرتے ہیں (یہ ہم اپنی طرف سے کر رہے ہیں)۔ پرانی شاعری میں بندشیں بہت تھیں اور ہم جذبات کا اظہار کرتے وقت گھُٹ کر رہ جاتے تھے لیکن جدید شاعری میں بڑی وسعت ہے۔ یہاں تک کہ جو کچھ ہم بولتے ہیں، اسے براہِ راست شعروں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’اماں ٹہرو بھی سہی‘ یا ’ارے ارے‘ اور ’اوں ہوں‘ کو بھی قافیہ (یا ردیف) رکھ سکتے ہیں۔
اب ہم اپنے دوست ازہرؔ صاحب کی ایک غزل پیش کرتے ہیں۔ ہم نے جہاں ’چ چ‘ لکھا ہے، اسے آپ ’چچ چچ‘‘ پڑھیے گا جو اظہارِ افسوس کے وقت منہ سے نکل جاتا ہے۔
قصۂ قلبِ ناتواں چ چ ۔۔۔۔ دکھ بھری ہے یہ داستاں چ چ
ہر حسیں شکل پر خود آجانا ۔۔۔۔ خود ہی پھر نالہ و فغاں چ چ
تیر کھا کر ہر اک کی نظروں کے ۔۔۔ اور دینا دہائیں چ چ
فصلِ گل میں غم آشیانے کا ۔۔۔ گلۂ آمدِ خزاں چ چ
درِ جاناں پہ خود ہی جا جا کے ۔۔۔ کھانا درباں کی گالیاں چ چ
اک تو یہ دل کی بےتکی باتیں ۔۔۔ اس پہ تخیل شاعراں چ چ
الغرض شیخ جی، محبت کی ۔۔۔ ہے کچھ ایسی ہی داستاں چ چ
کیا کوئی ایسی غزل آج سے پچاس سال پہلے کہ سکتا تھا؟ ہرگز نہیں! یہاں ہمیں دو شعر اور یاد آگئے
جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے
لفظ نہیں نے شعرکو چار چاند لگا دیے، کیا معصومیت پیدا ہوگئی، سبحان اللہ! دوسرا شعر ہے
کہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
نہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
وغیرہ وغیرہ!‘‘
میں نے ایک ویڈیو دیکھی ایک مشاعرے میں حافی حسبِ معمول "بے شمار لعنتیں" فرما رہے تھے۔شومئی قسمت سے انور مسعود صاحب بھی موجود تھے پھر جب تک حافی پڑھتا رہا انور مسعود صاحب کی بیچارگی دیدنی تھیجب Brain drain ہو جائے ۔ ۔ لوگ جگہ خالی کر دیں تو ایسے ہی حادثات و سانحات ہوتے ہیں ۔ ۔
ویسے طلبا کو دیکھیے ۔ ۔ کتنا " عمدہ ذوق " رکھتے ہیں ۔ ۔
بھئی عوامی انداز اور عوامی پذیرائی کے لیے پاتال کی گہرائی میں بھی اتر سکتے ہیں ۔ ۔ سب گول مال ہے ۔ ۔ اور آپ لوگ ہیں کہ اصلاح سخن میں ہمیں ایک ایک لفظ کو ناپ تول کر استعمال کرواتے ہیں ۔ ۔ لگتا ہے ہم نے تو کبھی مشہور نہیں ہونا اسطرح ۔ ۔ تو آپ سب بھی اصلاح کو "عوامی ٹچ" دیجیے ۔ ۔قبلہ موصوف کے بارے میں اس خاکسار کو ’’تقریباً‘‘ یقینِ کامل ہے کہ یہ سرقۂ شناخت کے مرتکب ہیں۔ حضرت جونؔ بھائی کے بیٹے کا نام بھی علی زریون ہے، جبکہ ان صاحب کا اصل نام کچھ اور ہے، انہوں نے عمداً جونؔ کا سا حلیہ بنا کر اپنا ’’تخلص‘‘ علی زریون رکھ لیا ہے۔ ایسا مجھے ایک صاحب نے بتایا جو شوبزنس سے بطور آرگنائزر منسلک ہیں۔
میرے خیال میں یہاں موصوف نے ’’کری‘‘ عمداً استعمال کیا ہے، تاکہ قارئین و سامعین ان کو ’’کراچی والا‘‘ ہی سمجھیں
انور مسعود کے صاحبزادے کو سیاسی ٹاک شوز میں سنیے ۔ ۔ وہ حافی سے بھی بڑی چیز ہیں ۔ ۔میں نے ایک ویڈیو دیکھی ایک مشاعرے میں حافی حسبِ معمول "بے شمار لعنتیں" فرما رہے تھے۔شومئی قسمت سے انور مسعود صاحب بھی موجود تھے پھر جب تک حافی پڑھتا رہا انور مسعود صاحب کی بیچارگی دیدنی تھی
صابر شاکر کے انکشافات کمال کے ہوتے ہیںانور مسعود کے صاحبزادے کو سیاسی ٹاک شوز میں سنیے ۔ ۔ وہ حافی سے بھی بڑی چیز ہیں ۔ ۔
سارے غم ہتھیلی پر سما گئے ۔ ۔ بہت نکلے مرے "غم" لیکن پھر بھی کم نکلے ۔ ۔ ہر کوئی واہ واہ ۔ ۔ یقیناً فیس بک کی بات ہے ۔ ۔تازہ حادثہ شاعری کا ، اور ہر کوئی واہ واہ لکھے جا رہا تھا اففف۔۔۔
سنو !
زخموں بھری تھیلی نکالی ہے !
پٹخ دی ہے ہتھیلی پر !
اسے راوی کو لے جاؤ وہاں جا کر بہا دینا !
بہانا گر نہ ہو پائے تو پھر اس کو جلا دینا !
اسی کو دل بتاتے ہو ؟
بہا ڈالو، جلا ڈالو !
ہاں مگر کبھی ان کے صاحبزادے کو بھی سنیے ۔ ۔ لگتا ہی نہیں کبھی کہ اپنےابا جان کا کوئی اثر ہے ۔ ۔ ویسے صابر شاکر "بگ نو نو " ۔ ۔صابر شاکر کے انکشافات کمال کے ہوتے ہیں
آپ کہہ رہی ہیں تو ان صاحب کو بھی سننا (جھیلنا) پڑے گاہاں مگر کبھی ان کے صاحبزادے کو بھی سنیے ۔ ۔ لگتا ہی نہیں کبھی کہ اپنےابا جان کا کوئی اثر ہے ۔ ۔ ویسے صابر شاکر "بگ نو نو " ۔ ۔