مقبولِ عام شعرا اور اچھی شاعری

سیما علی

لائبریرین
توبہ توبہ اس لڑی میں کیا کچھ پڑھنے کو ملا۔۔۔
ایک تو ہمیں ویسے ہی شاعری کا زیادہ شوق نہیں۔۔۔
اگر یہاں زیادہ دیر رہے تو جو تھوڑا بہت ہے اس سے بھی نفرت ہوجائے گی!!!
:wave::wave::wave:
اب شاعری نے آپ کو کیا کہا ۔۔۔۔تھوڑا سا رنگ ہی اُڑا وہ تو اُڑنا ہی تھا ۔۔۔۔۔:glasses-cool::glasses-cool:
 

لاریب مرزا

محفلین
معیاری بھی خوب ہے، کوئی نام والا شاعر لفظی شعبدہ بازی کرے تو صنعتوں کا استعمال ہے وہ بھی خالص گھریلو، اور اگر کوئی نیا کر لے ٹھٹھے باز ہو جاتا ہے۔ :sneaky:
آپ نے ہمارا مراسلہ ٹھنڈے دماغ سے پڑھے بغیر کی توپوں کا رخ ہماری جانب موڑ دیا. :)

بہرحال ہر انسان کا اپنا اپنا ذوق ہے. وہ اپنے ذوق کے مطابق شاعر اور اشعار کو پسند کرتا ہے. لہذا اس بحث کا یہیں اختتام کرتے ہیں.
والسلام
 

صابرہ امین

لائبریرین
میری دَوا کا وقت ہے۔ مُجھے کُچھ دیر آرام کرنا ہے۔ اب تُم چاہو تو قرار پکڑے رہو۔ مُجھ سے بہتر ہو تو پھر میں یہی سمجھوں گا کہ نا قابلِ علاج ہو۔ اچھا میاں، ناچتے کودتے رہو۔ میں تو چلا۔
دوائیں کیسے کیسے زندگی بچاتی ہیں ۔ ۔ ہمیں تو لگتا تھا کہ دونوں باباز کی محفل کی زندگی کی شام ہوئی چاہتی ہے :ROFLMAO:
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
آپ نے ہمارا مراسلہ ٹھنڈے دماغ سے پڑھے بغیر کی توپوں کا رخ ہماری جانب موڑ دیا. :)

بہرحال ہر انسان کا اپنا اپنا ذوق ہے. وہ اپنے ذوق کے مطابق شاعر اور اشعار کو پسند کرتا ہے. لہذا اس بحث کا یہیں اختتام کرتے ہیں.
والسلام
ہم بھی abdul.rouf620 کی لڑی پر فاتحہ پڑھ کر نکلتے ہیں ۔ ۔ مرحومہ لڑی بچپن اور عین جوانی تک تو جنتی تھی ۔۔ "پڑھاپے" میں عاقبت خراب کر بیٹھی ۔ ۔ :curse::curse::sad::sad:
 
آخری تدوین:

بابا-جی

محفلین
دوائیں کیسے کیسے زندگی بچاتی ہیں ۔ ۔ ہمیں تو لگتا تھا کہ دونوں باباز کی محفل کی زندگی کی شام ہوئی چاہتی ہیں :ROFLMAO:
لڑکی! حدِ ادب۔ ابھی میں کَے برس کا ہُوں۔ ساغر و مینا مُلاحظہ کرنے کی پوزِیشن میں ہُوں۔ یہ لڑی علی بابا نے ٹریک سے ہٹائی۔ مُجھے مُفت میں رگیدا گیا۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
حد "ادب" ۔ ۔ ۔؟؟ :-(:-( "ادب عالیہ" کا عظیم الشان مظاہرہ ابھی دیکھا ۔ ۔
یا اللہ ۔ ۔ اب کیا دیکھنے کو باقی ہے ۔ ۔ :dont-know::dont-know::tremble::tremble::vampire::vampire:
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

شکیب

محفلین
مقبول عام شعراء کی شاعری معیاری کیوں نہیں اور معیاری شاعری مقبولِ عام کیوں نہیں؟
کڑھنا بالکل بجا ہے، لیکن اس کے باوجود میرا موقف ہے کہ اپنی طرف سے "اچھا ادب" تخلیق کرنے اور اس کی ترویج کی کوشش تادمِ آخر جاری رکھی جائے۔ بقول شخصے:
آج کا ادب معاشرہ کا نہیں تاریخ کا ترجمان ہے۔ گویا اس کے وسیلہ سے نہ آپ خازن بن سکتے ہیں ، نہ آپ کو موٹر کار نصیب ہوسکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادیبوں کی تو اتنی بہتات ہے کہ پانچ سو تک گنتی پہنچ گئی ہے مگر لکھنے والا اکیلا رہ گیا ہے۔ زمانے کی قسم آج کا لکھنے والا خسارے میں ہے اور بے شک ادب کی نجات اسی خسارے میں ہے۔
اب یہ "اچھا ادب" آپ کے نزدیک کیا ہے آپ جانتے ہیں۔ میرے نزدیک جو ہے میں اسے ثواب سمجھ کر لکھتا پڑھتا ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کی بات بہت حد تک درست ہے، شاعری کی ہیئت یا وزن وغیرہ کی سمجھ آ جائے تو ہر کوئی شاعر ہی ہے (نثری نظموں والے تو یہ قدغن بھی اڑا دیتے ہیں) لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ شاعری صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے۔ گزارے لائق شاعری ہو جاتی ہے، لوگ کرتے بھی ہیں، اس کے بعد پی آر ہے یعنی من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو، میں دوسرے کی شاعری کی دل کھول کر تعریف کر دوں، کوئی مضمون لکھ دوں اور دوسرا میری شاعری پر زمین و آسمان کے قلابے ملا دے، پہلے یہ کام صرف مشاعروں یا اخباروں میں ہوتا تھا اب سوشل میڈیا میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

پہلے ہم سنتے اور پڑھتے تھے کہ ایک لاہور گروپ ہے (احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر سلیم اختر وغیرہ کا) اور دوسرا سرگودہا گروپ ہے (ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدید وغیرہ کا) اور یہ دونوں اپنے اپنے گروپ کے ارکان کو ہی پروموٹ کرتے تھے، اب اسطرح کے لاتعداد گروپ ہیں، بس اپنے ساتھی شاعر کی شاعری کی تعریف کرنا شرط ہے، اس کو ناصر کاظمی کہہ دہ، اس کو فیض سے ملا دو، اس کو جوش بنا دو، جواب میں وہ آپ کو غالب اور میر سے بھی آگے کر دے گا۔

اور ادبی گوہر کہاں سے برآمد ہوں، شاعر تو مطالعے کے نام ہی سے بھاگتے ہیں، اب کون بابوں کے دیوان پڑھ کر دیکھے کہ بزرگ کیا فرما گئے ہیں، اس سے ہمیں کیا لینا دینا ہم تو عہد جدید کے شاعر ہیں، پانی کو ہاتھ لگائیں تو رنگ اڑتا ہے، پانی میں داخل ہوں تو ٹانگیں بھیگ جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ :)
دیکھنا تقریر کی لذت ۔۔۔۔۔۔!
ارادہ تھا کہ فرصت ملی تو اس موضوع پر کچھ لکھوں گا ۔ ایک ذہنی خاکہ بھی بنالیا تھا ۔ لیکن وارث صاحب کا یہ مراسلہ پڑھنے کے بعد لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ۔ آپ نے بالکل بنیادی وجہ بیان کردی ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کھیل سے لے کر شعر و ادب تک ہر چیز پرایک غیرصحتمندانہ سیاست کا گہرا سایا چھایا ہوا ہے ۔ بہت سارے غنچے بن کھلے مرجھاجاتے ہیں ۔ جس آکسیجن اور آبیاری کی انہیں ضرورت ہوتی ہے وہ بوجوہ انہیں نہیں دی جاتی ۔ بلکہ اپنی پسند کے جھاڑ جھنکار کو دے دی جاتی ہے ۔ مشاعروں کی (سرِ منظر اور پس منظر) سیاست کو دیکھتے ہوئے میں نے بہت پہلے مشاعروں میں شرکت ترک کردی ۔ اردو دنیا میں ادبی گروہ بندی بہت غلیظ سطح تک پہنچ چکی ہے ۔
ایک اور اہم پہلو اس ساری صورتحال کا یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی سامعین اور قارئین کا شعری اور ادبی ذوق پچھلے بیس تیس سالوں میں بہت تیزی سے رو بہ زوال ہوا ہے ۔ پہلے تو اخبار ، ریڈیو اور ٹی وی والے اہلِ علم اور باذوق شخصیات کو ملازم رکھا کرتے تھے اور وہ شعر و ادب کی سرپرستی کیا کرتے تھے ۔ ان تینوں میڈیا پر اچھے اور معیاری شعر و ادب کو جگہ دی جاتی تھی ۔ اچھے شعرا اور ادبا کو پرگراموں میں بلایا جاتا تھا ۔ نتیجتاً سننے اور پڑھنے والوں کا ادبی ذوق نکھرتا تھا ۔ سامعین کی ذہنی نشو و نما ہوتی تھی ۔ کلاسیکی اور معیاری شعر و نثر اسکول کی نصابی کتب کا ایک لازمی حصہ ہوا کرتے تھے ۔ سو بچپن ہی سے طلبا میں معیاری زبان و ادب کا ایک ذوق پیدا کیا جاتا تھا ۔ پرائمری اسکول کی کتابوں میں اسمٰعیل میرٹھی ، صوفی تبسم ، قیوم نظر ، خوشی محمد ناظر وغیرہ جیسے مشاہیر کی نظمیں ہوا کرتی تھیں ۔ ہماری نسل نے تو اسمٰعیل میرٹھی کی " اردو کی پہلی کتاب" کی سیریز پڑھ کر اردو سیکھی ۔ پچھلی دو تین دہائیوں میں یہ سب کچھ ( بعض لوگوں کی رائے میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت) ختم کردیا گیا ہے ۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے ۔ میرے بعض بھتیجے بھانجے اردو اخبار بغیر اٹکے نہیں پڑھ سکتے چہ جائیکہ انہیں میر اور غالب کی شاعری کا ذوق ہو ۔ میڈیا سے اہلِ علم اور اصحابِ ذوق کی رخصت سے پیدا ہونے والے اس خلا کے نتیجے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ املا اور گرامر کی غلطیوں سے لبریز سرخیاں دھڑلے سے ناظرین کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں ۔ چونکہ اتنے سارے ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن وجود میں آگئے ہیں اور انہیں اپنی نشریات کا دورانیہ بھی پُر کرنا ہے سو اب ہر ایرا غیرا سوٹ پہنے میک اپ کروائے صوفے پر بیٹھا انگریزی آمیز اردو میں فلسفہ اور شعر و ادب بگھار رہا ہے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محترم ظہیراحمدظہیر ہندوستان میں جو اہلِ ریختہ اردو کی ترویج کی کاوش کر رہے ہیں آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
بھائی ، اس سوال کا زیرِ بحث موضوع سے تعلق میری سمجھ میں نہیں آیا۔ اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت فرمائیے گا ۔ نیز یہ کہ اہلِ ریختہ سے کیا مراد ہے؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بھائی ، اس سوال کا زیرِ بحث موضوع سے تعلق میری سمجھ میں نہیں آیا۔ اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت فرمائیے گا ۔ نیز یہ کہ اہلِ ریختہ سے کیا مراد ہے؟
محترم میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ریختہ فاؤنڈیشن جو کہ بھارت میں کام کر رہی ہے اگر ان کا کام شعر و ادب کی بحالی کے لیے مناسب ہے تو اس طرز کا کام پاکستان میں بھی ہونا چاہیے تاکہ عوام الناس کا ذوقِ شعر و ادب ترقی کرے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دیکھنا تقریر کی لذت ۔۔۔۔۔۔!
ارادہ تھا کہ فرصت ملی تو اس موضوع پر کچھ لکھوں گا ۔ ایک ذہنی خاکہ بھی بنالیا تھا ۔ لیکن وارث صاحب کا یہ مراسلہ پڑھنے کے بعد لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ۔ آپ نے بالکل بنیادی وجہ بیان کردی ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کھیل سے لے کر شعر و ادب تک ہر چیز پرایک غیرصحتمندانہ سیاست کا گہرا سایا چھایا ہوا ہے ۔ بہت سارے غنچے بن کھلے مرجھاجاتے ہیں ۔ جس آکسیجن اور آبیاری کی انہیں ضرورت ہوتی ہے وہ بوجوہ انہیں نہیں دی جاتی ۔ بلکہ اپنی پسند کے جھاڑ جھنکار کو دے دی جاتی ہے ۔ مشاعروں کی (سرِ منظر اور پس منظر) سیاست کو دیکھتے ہوئے میں نے بہت پہلے مشاعروں میں شرکت ترک کردی ۔ اردو دنیا میں ادبی گروہ بندی بہت غلیظ سطح تک پہنچ چکی ہے ۔
ایک اور اہم پہلو اس ساری صورتحال کا یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی سامعین اور قارئین کا شعری اور ادبی ذوق پچھلے بیس تیس سالوں میں بہت تیزی سے رو بہ زوال ہوا ہے ۔ پہلے تو اخبار ، ریڈیو اور ٹی وی والے اہلِ علم اور باذوق شخصیات کو ملازم رکھا کرتے تھے اور وہ شعر و ادب کی سرپرستی کیا کرتے تھے ۔ ان تینوں میڈیا پر اچھے اور معیاری شعر و ادب کو جگہ دی جاتی تھی ۔ اچھے شعرا اور ادبا کو پرگراموں میں بلایا جاتا تھا ۔ نتیجتاً سننے اور پڑھنے والوں کا ادبی ذوق نکھرتا تھا ۔ سامعین کی ذہنی نشو و نما ہوتی تھی ۔ کلاسیکی اور معیاری شعر و نثر اسکول کی نصابی کتب کا ایک لازمی حصہ ہوا کرتے تھے ۔ سو بچپن ہی سے طلبا میں معیاری زبان و ادب کا ایک ذوق پیدا کیا جاتا تھا ۔ پرائمری اسکول کی کتابوں میں اسمٰعیل میرٹھی ، صوفی تبسم ، قیوم نظر ، خوشی محمد ناظر وغیرہ جیسے مشاہیر کی نظمیں ہوا کرتی تھیں ۔ ہماری نسل نے تو اسمٰعیل میرٹھی کی " اردو کی پہلی کتاب" کی سیریز پڑھ کر اردو سیکھی ۔ پچھلی دو تین دہائیوں میں یہ سب کچھ ( بعض لوگوں کی رائے میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت) ختم کردیا گیا ہے ۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے ۔ میرے بعض بھتیجے بھانجے اردو اخبار بغیر اٹکے نہیں پڑھ سکتے چہ جائیکہ انہیں میر اور غالب کی شاعری کا ذوق ہو ۔ میڈیا سے اہلِ علم اور اصحابِ ذوق کی رخصت سے پیدا ہونے والے اس خلا کے نتیجے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ املا اور گرامر کی غلطیوں سے لبریز سرخیاں دھڑلے سے ناظرین کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں ۔ چونکہ اتنے سارے ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن وجود میں آگئے ہیں اور انہیں اپنی نشریات کا دورانیہ بھی پُر کرنا ہے سو اب ہر ایرا غیرا سوٹ پہنے میک اپ کروائے صوفے پر بیٹھا انگریزی آمیز اردو میں فلسفہ اور شعر و ادب بگھار رہا ہے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
پس نوشت:
سامعین کے ذوق کی صورتحال کے حوالے سے یہ بات لکھنے سے رہ گئی کہ ٹی وی مشاعرے اور پبلک مشاعرے کے سامعین میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ٹی وی مشاعرے میں سامعین کا داخلہ منتظمین کے انتخاب اور مرضی سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ اکثر اوقات وہ خواتین و حضرات بھی کہ جنہیں شاعری کا کوئی خاص شوق نہیں ہوتا محض ٹی وی نظر آنے کی غرض سے مدعو کرلئے جاتے ہیں ۔ اور کچھ ایسے ہی لوگوں کو شاعر حضرات اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔ چنانچہ اب مشاعروں میں تالیاں بجاکر داد دینا ایک عام سی بات ہوگئی ہے ۔ بقول ہمارے ایک دوست اب مجرے اور مشاعرے کے آداب میں فرق اٹھتا جارہا ہے ۔ پبلک مشاعروں میں اب بھی باذوق سامعین کی کچھ تعداد نظر آتی ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محترم میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ریختہ فاؤنڈیشن جو کہ بھارت میں کام کر رہی ہے اگر ان کا کام شعر و ادب کی بحالی کے لیے مناسب ہے تو اس طرز کا کام پاکستان میں بھی ہونا چاہیے تاکہ عوام الناس کا ذوقِ شعر و ادب ترقی کرے
اچھا ، تو اہلِ ریختہ آپ انہیں کہہ رہے ہیں ۔ :)
میں ریختہ ویب سائٹ سے اس حد تک واقف ہوں کہ کبھی کبھار کسی کتاب کو دیکھنے کی ضروت ہو تو وہاں چلا جاتا ہوں ۔ یعنی بطور کتب خانہ استعمال کرتا ہوں ۔ ریختہ والے عوام میں ادبی ذوق کی بحالی کے لئے کیا کررہے ہیں ان پروگراموں کا مجھے علم نہیں ۔ جو ذخیرۂ کتب انہوں نے جمع کیا اور جس محنت سے کیا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے ۔ بلاشبہ یہ بہت بڑا کام ہے ۔
 
پس نوشت:
سامعین کے ذوق کی صورتحال کے حوالے سے یہ بات لکھنے سے رہ گئی کہ ٹی وی مشاعرے اور پبلک مشاعرے کے سامعین میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ٹی وی مشاعرے میں سامعین کا داخلہ منتظمین کے انتخاب اور مرضی سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ اکثر اوقات وہ خواتین و حضرات بھی کہ جنہیں شاعری کا کوئی خاص شوق نہیں ہوتا محض ٹی وی نظر آنے کی غرض سے مدعو کرلئے جاتے ہیں ۔ اور کچھ ایسے ہی لوگوں کو شاعر حضرات اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔ چنانچہ اب مشاعروں میں تالیاں بجاکر داد دینا ایک عام سی بات ہوگئی ہے ۔ بقول ہمارے ایک دوست اب مجرے اور مشاعرے کے آداب میں فرق اٹھتا جارہا ہے ۔ پبلک مشاعروں میں اب بھی باذوق سامعین کی کچھ تعداد نظر آتی ہے ۔
مشاعروں میں تالیاں پیٹنے کا رواج بھی آج کے دور کی ہی ایجاد ہے اور انتہائی بھونڈی ایجاد ہے۔ درست فرماتے ہیں آپ۔ وہ سخن فہم جو مشاعروں کی زینت ہوا کرتے تھے اب عنقا ہیں۔
 
Top