آپ کی بات بہت حد تک درست ہے، شاعری کی ہیئت یا وزن وغیرہ کی سمجھ آ جائے تو ہر کوئی شاعر ہی ہے (نثری نظموں والے تو یہ قدغن بھی اڑا دیتے ہیں) لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ شاعری صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے۔ گزارے لائق شاعری ہو جاتی ہے، لوگ کرتے بھی ہیں، اس کے بعد پی آر ہے یعنی من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو، میں دوسرے کی شاعری کی دل کھول کر تعریف کر دوں، کوئی مضمون لکھ دوں اور دوسرا میری شاعری پر زمین و آسمان کے قلابے ملا دے، پہلے یہ کام صرف مشاعروں یا اخباروں میں ہوتا تھا اب سوشل میڈیا میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
پہلے ہم سنتے اور پڑھتے تھے کہ ایک لاہور گروپ ہے (احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر سلیم اختر وغیرہ کا) اور دوسرا سرگودہا گروپ ہے (ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدید وغیرہ کا) اور یہ دونوں اپنے اپنے گروپ کے ارکان کو ہی پروموٹ کرتے تھے، اب اسطرح کے لاتعداد گروپ ہیں، بس اپنے ساتھی شاعر کی شاعری کی تعریف کرنا شرط ہے، اس کو ناصر کاظمی کہہ دہ، اس کو فیض سے ملا دو، اس کو جوش بنا دو، جواب میں وہ آپ کو غالب اور میر سے بھی آگے کر دے گا۔
اور ادبی گوہر کہاں سے برآمد ہوں، شاعر تو مطالعے کے نام ہی سے بھاگتے ہیں، اب کون بابوں کے دیوان پڑھ کر دیکھے کہ بزرگ کیا فرما گئے ہیں، اس سے ہمیں کیا لینا دینا ہم تو عہد جدید کے شاعر ہیں، پانی کو ہاتھ لگائیں تو رنگ اڑتا ہے، پانی میں داخل ہوں تو ٹانگیں بھیگ جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔