سید ذیشان
محفلین
دی بیورو آف انویسٹیگیٹیو جرنلزم کی ایک رپورٹ کے مطابق جون 2004ء سے ستمبر 2012ء تک پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کے نتیجے میں 176 بچے شہید ہوئے۔ معروف برطانوی جریدے گارڈین کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2006ء میں ایک مدرسے پر کئے جانے والے ڈرون حملے کے نتیجے میں 69 بچے شہید ہوئے جبکہ بعض پاکستانی صحافیوں کے مطابق یہ تعداد 85 ہے۔ ان میں سے کئی بچوں کی عمریں دس برس سے کم تھیں۔ ان میں سے کئی بچے جنگ اور امن کی تعریف سے بھی واقف نہیں تھے۔ اس وقت جرنیلی صدارت چل رہی تھی اور روشن خیالی کا دور دورہ تھا۔ حملے کا شکار ہونے والے بچے چونکہ انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے تھے، سو نہ تو کسی کو انسانی حقوق کا خیال آیا، نہ ہی کوئی نظم کہی گئی اور نہ ذرائع ابلاغ نے اس حوالے سے شور مچانا مناسب سمجھا۔
آپ کے مضمون کے اس پیراگراف میں خودکش حملوں میں مرنے والے بچوں کا ذکر کہاں ہے؟ جبکہ سب کو معلوم ہے ڈرون حملوں میں مرنے والے بچوں کی تعداد اس تعداد کے عشر عشیر بھی نہیں ہے۔
جس بات پر آپ میڈیا پر نقطہ چینی کرتے ہیں وہی کام آپ خود کر رہے ہیں۔ طالبان کے قتل کئے ہوئے لوگ آپ کو نظر نہیں آ رہے اور ڈرون سے مرنے والے لوگوں کا آپ ذکر کر رہے ہیں۔
جہاں تک ملالہ اور میڈیا کوریج کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ملالہ کو کافی لوگ جانتے ہیں اور وہ بہادری کا اور طالبان کے خلاف مزاہمت کا ایک symbol ہے۔ جب سب لوگ طالبان کے خوف سے ڈرے ہوئے تھے تو یہ کم سن بچی ان کے خلاف لکھ رہی تھی۔ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سکول جاتی تھی اور باقی بچوں کو بھی سکول جانے پر رضا مند کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کی یہ ہیرو ہے اور ہم لوگ بزدل ہیں اور کوئی ہمیں جانتا بھی نہیں ہے۔
کسی بھی بیگناہ کے مرنے کا افسوس سب کو ہوتا ہے اگر اس نے تعصب کی عینک نہ پہن رکھی ہو۔ لیکن ملالہ کے قصے میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو اس کو باقی قصوں سے ممتاز کرتی ہے۔
جنگوں میں تو بہت مرے ہوں گے لیکن ٹیپو سلطان کا ذکر ہم خاص طور پر کرتے ہیں۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں