ہیکل مزعوم
اول:
یہ ہیکل جس کاتذکرہ ہوا ہے اسے یہود ہیکل سلیمان کا نام دیتے ہیں ۔
ہیکل کا عبرانی زبان میں مطلب ہے الٰہ کا گھر
یہودی روایات کے مطابق داؤد علیہ السلام نے ہیکل کی تعمیر کی بنیاد رکھی ، لیکن تعمیر شروع ہونے سے قبل ہی ان کی وفات ہو گئی ، اور ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام نے "جبل موریا" کے اوپر ہیکل کی تعمیر کی ، جو کہ" ہضبۃ الحرم "کے نام سے معروف ہے یہ وہ جگہ ہے جس کے اوپر مسجد اقصیٰ اور مسجد "قبۃ الصخرۃ" واقع ہے ۔
ہیکل کا یہودیوں کے دل ودماغ میں ایک خاص مقام ہے ، اور ان کے گمان میں یہ عبادت کی اہم جگہ ہے اور سلیمان علیہ السلام نے ان کیلئے اور ان کے دین کیلئے اس کی تعمیر کی ۔
دوم:
سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کی اولاد میں اختلاف پیدا ہو گیا ، چنانچہ ان کی مملکت دو حصوں میں تبدیل ہو گئی ہر مملکت پر سلیمان علیہ السلام کے بیٹوں میں سے کسی کی حکومت تھی ۔
پہلی شمال میں جسے مملکت اسرائیل یا مملکت سامرۃ کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا دارلحکومت نابلس تھا۔
اور دوسری جنوب میں جسے مملکت یہودا کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کا دارلحکومت اورشلیم ( القدس ) تھا۔
شمالی مملکت "اسرائیل" 721 ق م میں ختم اور تباہ و برباد ہو گئی ۔
اس کے 150 سال بعد دوسری مملکت مملکت یہودا بھی تباہ ہو گئی اور یہودی اپنی مملکت کی واپسی اور ہیکل کی دوبارہ تعمیر کیلئے تگ و دو کرنے لگے ۔
برٹش انسائیکلو پیڈیا طبع 1926میں تحریر ہے کہ " یہود یہودی قوم کے فلسطین میں جمع ہونے ، یہودی مملکت کی واپسی ، ہیکل کی دوبارہ تعمیر ، القدس میں تخت داؤد کے قیام اور اس پر نسل ِ داؤد سے امیر کے انتظار میں رہنے لگے ۔
سوم :
کسی بھی تاریخی کتاب ، یا قابل اعتماد مصدرسےیہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ سلیمان علیہ السلام نے ہیکل کی تعمیر کی ، اور نہ ہی اس کی تاریخ ثابت ہوتی ہے ، لیکن یہاں ہم اس" مزعومہ ہیکل "کی کتب یہود کے مطابق کچھ مختصر سی تاریخ ذکر کریں گے ، پھر ہم یہ واضح کریں گے کہ ہیکل سلیمان خرافت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ، اور حقیقتا اس کا کوئی وجود نہیں ہے !!
ہیکل کی بنیاد داؤد علیہ السلام نے رکھی ، اور عملی تعمیر اس کی سلیمان علیہ السلام نے کی ۔
تعمیر کا دورانیہ 7 سالوں پر محیط تھا اور اس کی تعمیر میں 1لاکھ 80 ہزار افراد نے حصہ لیا!!
ہیکل سلیمانی کو پہلی بار بابلی بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں 586 ق م میں تباہ کیا گیا۔
اس کے دسیوں سال بعد بابل میں محصور یہودیوں کو القدس واپسی کی اجازت ملی ، چنانچہ انھوں نے واپس لوٹ کر تقریبا 521ق م میں اس کی دوبارہ تعمیر کی ۔
دوبارہ پھر ہیکل سلیمانی رومانی بادشاہ کے بیٹے (Titus) کے ہاتھوں تباہ ہوا۔
یہ ہیکل کی دوسری تباہی تھی ۔
یہودیوں کو ان کا ہیکل بھولنے نہ پائے اور ان کی یادداشت میں اس کاتذکرہ باقی رہے ، ان کے حاخاموں نے اس ہیکل کا تذکرہ اپنے تمام رسوم ورواج میں جنہیں ہر یہودی ادا کرتا تھا شامل کر لیا تاکہ پیدائش ، وفات ، شادی ، گھر کی تعمیر وغیرہ میں انھیں ہیکل کی یاددہانی ہوتی رہے ۔
ہیکل کی دوسری تباہی 9 اگست کوہوئی تھی ، چنانچہ یہودی ہر سال اس حادثہ کی یاد میں اس دن روزہ رکھتے ہیں ۔
135 م ہارڈیا ن کے دور میں شہر کو ایک بار پھر تاراج کیا گیا ، یہودیوں کو اس سے نکال دیا گیا ، اور اس کی جگہ ایک نیا شہر قائم کیا گیا جس کا نام" ایلیا" رکھا گیا یہ نام اسی طرح قائم رہا یہاں تک کہ خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمان اس میں داخل ہوگئے اوراس کا نام "القدس" یا" بیت المقدس "پڑ گیا۔
313 م قسطنیطین نے نصرانیت قبول کر لی ، کنیساؤں کی تعمیر شروع ہوئی ، چنانچہ کنیسہ القیامہ وہ پہلا کنیسہ تھا جو کہ اس دورانئے میں تعمیر کیا گیا ، ، اور یہودیوں کی تذلیل کیلئےہیکل کی جگہ کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ بنا دی گئی ۔
یہودی اپنے غدر ، انبیاء کے قتل اور اللہ رب العزت کی نافرمانیوں کے سبب(جیساکہ خود یہود کہتے ہیں ) زمین کے مختلف خطوں میں بکھر گئے ، چنانچہ کچھ جزیرہ عرب ، کچھ عراق ،مصر اور یورپ میں پھیل گئے ، یہود" القدس "اور" ہیکل" کو فراموش کر بیٹھے ، یہاں تک کہ 19ویں صدی کی آمد ہوئی ، اور انھوں نےیہود کے وجود کے ثبوت تلاش کرنے کیلئے تاریخ کے لپٹے اوراق پلٹنا شروع کر دئیے تاکہ ان کی القدس واپسی کا جواز پیدا ہوسکے ۔
اس کیلئے انھوں نے یکے بعد دیگر کانفرنسز کا آغاز کیا ، پہلی صہیونی کانفرنس جو کہ سوئٹزرلینڈکے شہر بازل میں 1897 کو تھیوڈر ہرٹزل کی سربراہی میں منعقد کی گئی جس کا مقصد یہود کیلئے فلسطین میں ایک قومی وطن کا قیام تھا تاکہ وہ ہیکل کی دوبارہ تعمیر کرسکیں ۔
یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ دیوار گریہ ( جوکہ مسجد اقصیٰ کے مغربی جانب واقع ہے ) ہیکل سلیمانی کے باقی ماندہ آثار میں سے ہے !!
یہود کا وعویٰ ہے کہ ان کی بادشاہی کی واپسی القدس واپس لوٹنے اور ہیکل کی دوبارہ تعمیر کی صورت میں ہی ہو گی ، اور وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مسجد" اقصیٰ" ہیکل سلیمانی کے ملبے پر قائم کی گئی ۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ ہیکل کی دوبارہ تعمیر کیلئے مسجداقصیٰ کو منہدم کرنا لازم ہے ، اور مملکت یہود کا اسی صورت میں قیام ہو گا ۔
اس طرح وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہیکل اس روئے زمین پر مقدس ترین مقام ہے ۔
یہ مختصرا یہودیوں کے اعتقاد کے مطابق ہیکل کا قصہ ہے ۔
چہارم :
بہت سے دلائل ہیکل کی سلیمان علیہ السلام کی جانب نسبت کے دعویٰ کو باطل ثابت کرتے ہیں ، اور یہ کہ سلیمان علیہ السلام کی ہیکل کی تعمیر یہودکے جھوٹ کے پلندوں میں سے ایک جھوٹ ہے ، اس کے بہت سے دلائل ہیں ، جن میں سے کچھ خود یہود کے ہیکل کے بارے میں لکھی گئی باتیں ہیں !
ان دلائل میں سے :
1. ایسا کوئی بھی قابل اعتماد مصدر نہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ سلیمان علیہ السلام نے اس ہیکل کی تعمیر کی تھی ، قرآن نے ہمارے لئے داؤد اور سلیمان علیھما السلام کا بہت سے مقام پر قصہ بیان کیا ہے، سلیمان علیہ السلام کا بلقیس ، ہدہد ، چیونٹی ، اور جن کے ساتھ قصہ موجود ہے ، اور ان واقعات میں سے کچھ ہیکل کے واقعہ سے کم اہمیت کے حامل ہیں !اگر یہ یہودیوں کے دعویٰ کے مطابق اس قدر مقدس اور جلیل القدر مقام ہے تو قرآن کریم نے اس کاذکر کیوں نہیں کیا؟!
2. اس ہیکل کا یہود کی کتابوں کے علاوہ اور کہیں بھی وجود نہیں ،اوریہ کتابیں ناقابل اعتماد ہیں ، یہاں تک کہ کتاب مقدس بھی –بہت سے یہود ونصاریٰ کے علماء اور مؤرخین اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ان میں تحریف ، کمی بیشی اور اپنے مقاصد کے تحت کھلواڑ کیا جاچکا ہے ، چنانچہ یہ قابل اعتماد تاریخی مصدر نہیں ، اور نہ ہی موسیٰ علیہ السلام تک اور نہ ان کے بعد آنے والے انبیاء تک ان کی متصل سند پہنچتی ہے ،جن کی تاریخ اس کتاب میں لکھی گئی ہے ۔
الملوک اول (Kings 1)اور دوم (Kings 2)کے سفر میں ، جن میں ہیکل کے بارے میں بات کی گئی ہے ، یہود کہتے ہیں کہ ان دونوں کے کاتب" ارمیا" نبی تھے ، جبکہ یہ باطل ہے ، کیونکہ دوسرے سفر کے واقعات ارمیا کے زمانے کے بعد تک پھیلے ہوئے ہیں ، اور ان کا اس کا کاتب ہونا بالکل بھی نامعقول ہے ۔مزید تفصیل کیلئے دیکھئے : "المدخل إلى الكتاب المقدس" لحبيب سعيد (ص 99) .
فرانسیسی ڈاکٹر Maurice bucaille لکھتے ہیں کہ صموئیل اور الملوک کے اسفار کے بارے میں محققین نے ان کی تاریخی وقعت میں شک کیا ہے ، کیونکہ یہ واقعات بہت سی افسانوی واقعات کے ساتھ خلط ملط ہیں اور ان میں متعدد تاریخی غلطیاں ہیں ، اور ایک ہی واقعہ کی دوہری اور تہری روایات ہیں ۔ "دراسة الكتاب المقدس في ضوء المعارف الحديثة" (ص34) .
اسی طرح علماء نے اخبار الایام اول ودوم میں بھی شک کیا ہے ان میں بھی سلیمان علیہ السلام کی ہیکل کی تعمیر کا ذکر آیاہے ۔
اسی طرح سےیہود ونصاریٰ کے بہت سے محققین نے تمام عہد قدیم " کے قابل اعتماد مصدر ہونے کے بارے میں شک کیا ہے ، ان میں سے ول ڈیورانٹ تہذیب کی کہانی (The Story of Civilization)، یہودی فلسفی باروخ سبینوزا، فرانسیسی ڈاکٹر Maurice bucaille ۔۔۔وغیرہ شامل ہیں ۔
بیت المقدس انسائیکلوپیڈیاکے مصنف لکھتے ہیں : ہیکل کی تعمیر محض تصوراتی اور خرافاتی خیال ہے ، جس کی نسبت یہود نے سلیمان علیہ السلام کی جانب کر رکھی ہے ، اور ہیکل کی تعمیر کے قصہ کو نہ ہی تاریخ قبول کرتی ہے اور نہ ہی کوئی اور مصدر سوائے کتب یہود کے ۔
3. وہ اسفار جن میں ہیکل کا تذکرہ موجود ہے ان میں باہمی اختلاف اور تناقضات بہت زیادہ ہیں ، جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ مقدس کتابیں نہیں اور نہ ہی اللہ کی جانب سے نازل کردہ وحی ہیں ،بلکہ انسانوں کی تحریر کردہ کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں جنہیں جھوٹ اور بہتان کے ساتھ اللہ رب العزت کی جانب منسوب کیا گیا ہے۔
ان اختلافات میں سے سفر ملوک اول میں ذکر ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے وکلاء ( جو کہ کاریگروں پر نگراں تھے ) کی تعداد 3300 افراد ہے ۔( الإصحاح الخامس (14-16) .)
ایام الثانی سفر میں ذکر ہے کہ ان کی تعداد 3600 تھی۔ الإصحاح الثاني (221)
4. جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اسفار سلیمان علیہ السلام کے بعد آنے والے انبیاء پر اللہ کی جانب سے نازل کردہ وحی ہے ، چنانچہ ایسا ہونا محال ہے کہ ان میں اختلاف اور تضاد پایا جائے ۔
ہیکل کی تعمیر سے متعلقہ کتاب مقدس کی نصوص کا مطالعہ کرنے والا عجیب سے مخمصے اور حیرت کا شکار ہوگا ، بلکہ اسے یقین ہو جائے گا کہ تعمیر کا قصہ محض خرافات اور افسانوی واقعہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔
کیونکہ وہ اپنے تصورات میں ایک عظیم الشان عمارت کے سامنے کھڑا ہوگا، ایسی عظیم عمارت جو اس وقت تک انسانیت نے دیکھی نہ ہو ، کیونکہ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا مواد، مزدوروں کی تعداد ، بالکل تصوراتی سی پیش کی گئی ہے ، اور اس میں حد سے زیادہ مبالغہ کیا گیا ہے ۔
اس میں ایک لاکھ وزنۃ (وزنۃ تقریبا 16 گرام کے برابر ہے ) یعنی تقریبا 1.6ٹن سونا استعمال کیا گیا!
جبکہ استعمال ہونے والی چاندی کی مقدار 10 لاکھ وزنۃ ، یعنی تقریبا 16 ٹن !
جبکہ لوہا اور تانبہ کثرت استعمال کی وجہ سے بے حساب تھے ، لکڑی اور پتھر کا استعمال اس کے علاوہ تھا۔
اس کی تعمیر میں شریک ہونے والے افراد کی تعدا د 1لاکھ 80 ہزار تھی ، جن میں سے 30 ہزار مزدوروں کو سلیمان علیہ السلام نے لبنان وہاں سے درخت کاٹنے کیلئے بھیجا تھا۔
اور ان پر نگران افراد کی تعداد 3600 یا 3800 افراد تھی اسفار میں تعداد کے اختلاف کے مطابق۔
اس سارے مواد اور کارکنوں کے باوجود اس ہیکل کا طول وعرض اور اونچائی کتنی تھی ؟
کتاب مقدس میں مذکور ہے کہ کہ ہیکل کی لمبائی 60 بالشت (تقریبا 30 میٹر ) چوڑائی 20 بالشت (10 میٹر) اور اونچائی 30 بالشت (15میٹر ) تھی، جبکہ اس کے سامنے صحن کی لمبائی 20 ہاتھ اور چوڑائی 10 ہاتھ تھی۔
سفر الملوك الأول الإصحاح السادس ، سفر أخبار الأيام الثاني الإصحاح الثالث .
یعنی ہیکل کا حجم×15m 30m×10m تھا یعنی : اس کی زمین کا رقبہ 300 مربع میٹر اور چار یا پانچ منزلوں کی اونچائی کے برابر بلندی !!
کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کہ یہ سارا مواد استعمال کرتے ہوئے ایک لاکھ 80 ہزار کاریگروں کے ساتھ 7 سال کا عرصہ لگا دیا جائے اس چھوٹی سی عمارت کی تعمیر کیلئے ؟!
یہ محض جھوٹ اور مبالغہ آرائی ہے جس کا مقصد اس ہیکل مزعومہ کی عظمت و جلالت بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کےسوا کچھ بھی نہیں ۔
5. یہود خود بھی ایک ہیکل اور ایک جگہ پر متفق نہیں ، مملکت السامرۃ کے یہودی کہتے ہیں : ان کا ہیکل نابلس شہر میں ہے ، القدس میں نہیں ، جبکہ دوسرے کہتے ہیں کہ وہ القدس کے شمال میں "بیتین "بستی میں واقع ہے ، اور تیسرا گروہ کہتا ہے : کہ ان کا ہیکل تل القاضی "دان " پر واقع ہے ، یہ تمام تر اختلاف اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہیکل کا قصہ محض افسانوی ہے ، کیونکہ ان تمام ہیاکل کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی ان کے آثار ملتے ہیں ۔
6. جس کسی نے بھی ان ہیکل کا تذکرہ کیا ہے ان کے نزدیک یہ مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں ، القدس کو 70 م میں مکمل طور پر تباہ کیا گیا اور اس کانام ونشاں تک مٹا دیا گیا جس میں ہیکل بھی شامل ہے ، پس ایک ایسی عمارت کو تلاشنا جو 2 ہزار سال قبل مکمل طور پر تباہ کی جاچکی ہو ،عبث میں عبث کی تلاش ہے ۔
7. تاریخی دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر ابراہیم علیہ السلام یا ان کے پوتے یعقوب علیہ السلام نے کی ، اور یہ سلیمان علیہ السلام سے کئی سو سال پہلے کی بات ہے ، اور یہ بالکل ناقابل فہم بات ہے کہ سلیمان علیہ السلام ایک ایسی جگہ کو جسے ان جیسے نبی نے اللہ رب العزت کی عبادت کیلئے تعمیر کیا ہو اس لئے منہدم کر دیں کہ اس کی جگہ ہیکل قائم کیا جائے ۔
روى البخاري (3366) ، ومسلم (520) عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه ، قَالَ : " قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ : أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ ؟ قَالَ : ( الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ ) ، قُلْتُ : ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ : ( الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى ) قُلْتُ : كَمْ بَيْنَهُمَا ؟ قَالَ : ( أَرْبَعُونَ سَنَةً ".
انظر : البداية والنهاية (1/375) ، " التحرير والتنوير " (4/15).
بخاری ومسلم میں روایت ہے ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے کہا اے اللہ کے رسول : اس زمین میں سب سے پہلی مسجد کون سی تعمیر کی گئی ؟ آپ نے فرمایا: مسجد حرام ، میں نے کہا پھر کون سی ، آپ نےفرمایا: مسجداقصیٰ میں نے کہا: ان دونوں کے درمیان کتنا وقفہ تھا ؟ آپ نےفرمایا: 40 سال ۔
8. ہیکل کی تقدیس قدیم بت پرستانہ عقیدہ ہے جو کہ قدیم بت پرست ممالک عراق ، سوریا ، مصر میں موجود تھا ۔ جو اس بات کا اعتقاد رکھتے تھے کہ معبود آسمان میں رہتے ہیں ، اور جب وہ زمین پر اترنا چاہیں تو ان کی اقامت بڑے گھروں ہیکل میں ہی ہوتی ہے ۔
بہت سے محققین (جیسا کہ احمد سوسۃ جنہوں نے یہودیت سے اسلام قبول کیا) ہیکل کے نظریہ کو ، جیسا کہ یہود کی مقدس کتب میں ان کا ذکر آیا ہے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، اور ان کے خیال میں یہ نظریہ یہودیوں میں باہر سے داخل کیا گیا ہے ، اور یہ اصل میں کنعانی بت پرستانہ نظریہ ہے ۔
9. یہود نے 1968 میں مسجد اقصی ٰ کے نیچے ہیکل سلیمان کے آثار اور باقی ماندہ چیزوں کی تلاش کیلئے کھدائی کا کام شروع کیا۔
یہودی ماہر آثار اسرائیل فلنکشتاین نے ذکر کیا ہے کہ ماہرین آثار قدیمہ کو ایسے کوئی تاریخی شواہد نہیں ملے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ ہیکل واقعتا یہاں موجود تھا، اور اس کے خیال میں ہیکل کی موجودگی محض خرافات ہے جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ،اور تیسری صدی میں تورات کے لکھنے والوں نے ایسے واقعات اس میں لکھ دئیے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے ماہرین آثارقدیمہ نے جو کہ اس کھدائی میں شریک ہوئے اس کا تذکرہ کیا ہے ۔امریکی ماہر آثار قدیمہ " گورڈن فرانز " نے واضح طور پر کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ اس جگہ ( مسجد اقصیٰ ) کے نیچے ہیکل کا وجود تھا، اور جب اس سے سوال کیا گیا کہ ہیکل کی جگہ کون سی ہے ؟ تو اس نے جواب میں کہا: میں نہیں جانتا ، اور نہ ہی کوئی بھی اس سے واقف ہے ۔
جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ماہرین آثار قدیمہ نے یہاں سے داؤد اور سلیمان علیہما السلام کے زمانے کی اور کچھ اس سے پہلے کی چیزیں دریافت کی ہیں ، یہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ ہیکل سلیمان خرافات کے سوا کچھ نہیں ، جنہیں کتاب مقدس کے لکھاریوں نے لکھا اور اللہ رب العزت کی جانب جھوٹ اور بہتان کے ساتھ منسوب کر دیا، یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ) البقرة/79 .
پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایک کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے تاکہ اس کے ذریعے ایک ناچیز معاوضہ حاصل کریں، پس ہلاکت ہو ان پر اس چیز کی وجہ سے جسے ان کے ہاتھوں نے لکھا اور ہلاکت ہو ان پر اس کمائی کی وجہ سے۔
10. یہودیوں کا گمان ہے ہے دیوار براق ( جسے وہ دیوار گریہ کا نام دیتے ہیں ) ان کے مزعومہ ہیکل کا حصہ ہے ، ان کے اس گمان کو جدید علمی ریسرچ نے باطل ثابت کیا ہے اور ان کا جھوٹ واضح ہوچکا ہے ، 1930 میں ثورۃ البراق کی تحقیق کیلئے قائم کردہ بین الاقوامی کمیٹی کا وفد تحقیق کیلئے گیا ، اس کمیٹی نے علمی اور تاریخی بنیاد پر تحقیق کی ، اور اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ثابت کیا کہ دیوار براق کی ملکیت عربوں مسلمانوں کی جانب لوٹتی ہے ۔
11. مؤرخین میں سے کسی ایک نے بھی ذکر نہیں کیاکہ مسلمان جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں القدس میں داخل ہوئے وہاں انھوں نے یہودیوں کے کسی معبد کو منہدم کرکے اس کی جگہ مسجد قائم کر دی۔
12. وہ عمارت جس کے بارے میں ثابت ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اس کی عبادت گاہ کے طور پر تعمیر کی وہ مسجد اقصیٰ ہے ، سلیمان علیہ السلام نے اس کی دوبارہ تعمیر کی،سلیمان علیہ السلام کی مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو کی تائید نصرانی مؤرخ ابن العبری (متوفیٰ 1286م) نے بھی کی جس نے لکھا: سلیمان علیہ السلام نے اپنی بادشاہت کے چوتھے سال بیت المقدس میں عمارت کی تعمیر شروع کی جو کہ مسجد اقصیٰ کے نام سے معروف ہے ۔
13. اگر ہم تسلیم کر بھی لیں کہ یہ ہیکل موجود تھا اور داؤد علیہ السلام نے اس ہیکل کی بنیاد رکھی ، اور ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام نے اس کی تکمیل کی ، تو ہم –مسلم-یہودیوں سے زیادہ اس ہیکل کے حقدار ہیں ، کیونکہ داؤد اور سلیمان علیہما السلام نے اس کی تعمیر اس لئے کی تاکہ یہ ان پر اور تمام انبیاء ورسل پر ایمان لانے والوں کیلئے عبادت گاہ ہو، یہ معبد تو موحدین ، انبیاء پر ایمان لانے والوں جو کہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور وحدانیت کا یقین رکھتے ہیں ان کیلئے تھا، نہ کہ انبیاء کے قاتلوں کیلئے ہیکل ، اور نہ ان لوگوں کیلئے جنہوں نے داؤد اور سلیمان علیہماالسلام کو کافر قرار یا، ان کی نبوت کا انکار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ دونوں محض بادشاہ تھے ، بلکہ ان دونوں کی جانب شرک اور بتوں کی عبادت کی نسبت کی ۔ پس –ہم مسلمان- اس ہیکل کے اگر اس کا کوئی وجود ہے تو زیادہ حق دار ہیں جو کہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ دونوں اللہ کے معزز نبی تھے ۔
14. یہود کے ہاں معروف ہے کہ "کتاب مقدس" بابل میں محصوری کے دوران لکھی گئی ، اور ہم پیچھے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ یہود کو کچھ سالوں بعد فلسطین واپسی کی اجازت مل گئی ، شاید اس وقت کاتبوں نے ہیکل کے حوالے سے کچھ افسانوی اضافے کئے ہوں تاکہ یہود کو القدس واپسی کیلئے تحریض دی جاسکے۔
یہ سارے دلائل اور شواہداور اس کے علاوہ دیگر اس بات کی جانب واضح دلالت کرتے ہیں کہ ہیکل کا مسئلہ جنہیں کتاب مقدس کے کاتبوں نے لکھا ، اور اسے اللہ کی جانب منسوب کر دیا،تاکہ یہودیوں کا اس شہر کے ساتھ تعلق جوڑا جا سکے ،اور انھیں اس کی جانب واپسی پر ابھارا جا سکے کہ ان کی بادشاہت اس ہیکل مزعومہ کی واپسی کے بغیر ممکن نہیں ۔
اردو استفادہ از
"فلسطین کی تصویری تاریخ از ڈاکٹر طارق سویدان
هيكل سليمان عليه السلام حقيقة أم خرافة ؟ - islamqa.info