منتخب اشعار برائے بیت بازی!

جیہ

لائبریرین
شمشاد بھائی آپ کا ہر شعر ‘ی‘ پر کیوں ختم ہوتا ہے؟

یہ نہ تھی ہماری قسمت کو وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
For a change غالب کا نہیں دے رہا ہوں
الاؤ جل رہا ہے اور لوگ سب خموش ہیں
وہ ہولیاں منانے والے کس طرف چلے گئے
 

شمشاد

لائبریرین
جویریہ جی اسے محض اتفاق کہہ لیں، قصداً تو ایسا نہیں کر رہا۔

پتہ نہیں یہ شعر ہو چکا ہے کہ نہیں :

یارب غمِ ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پہ ہے وہ دستِ دعا ہوتا
(چراغ حسن حسرت)
 

الف عین

لائبریرین
اے عافیت! کنارہ کر، اے انتظام! چل
سیلابِ گریہ در پے دیوار و در ہے آج

غالب اب پھر خستگی کی داد پا رہے ہیں
 

جیہ

لائبریرین
غالب کے مشہور مرثیہ نما غزل جو کہ زین العابدین عارف کے مرنے پر کہا تھا، سے ایک سعر جو کہ اب ضرب المثل بن چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

(ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر ایل بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا)

اگلا حرف ‘ر‘
 

شمشاد

لائبریرین
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
(غالب)
 

جیہ

لائبریرین
وعدہ آنے کا وفا کیجئے۔ یہ کیا انداز ہے
تم نے کیوں سونپی ہے میرے در کی دربانی مجھے


(غالب کے کیا کہنے۔ کسی کے انتظار میں دروازے پر کھڑے رہنے کو کیا خوب دربانی کا نام دے دیا ہے۔ (ج۔س)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئے ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر تیرا چھوڑ جائیں ہم
(حبیب جالب)
 

میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا




مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا


منہ نہ کھلنے پر وہ عالم ہے کہدیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا


مقدم سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانہ عاشق مگر ساز صدائے آب تھا

سب م سے شروع ہوتے ہیں اور الف پر ختم ہوتے ہیں آپ الف سے لکھئے
 

شمشاد

لائبریرین
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشہ کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
(غالب)
 

جیہ

لائبریرین
یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا
کہ مرے عدو کو یا رب ملے میری زندگانی
(غالبِ خستہ)
 

الف عین

لائبریرین
غالب اپنی خستگی کی پھر داد پا رہے ہیں:

یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
نقشِ پا میں ہے تپِ گرمئ رفتار ہنوز
 

شمشاد

لائبریرین
زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ میری طرزِ سخن کو ترسے گا
(ناظر کاظمی)
 

جیہ

لائبریرین
اُس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کئے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کئے

(غالب اور ستم ظریفی)
 

ظفری

لائبریرین
یہی تو سوچ کر ہم ان کی محفل سے چلے آئے
ہماری خامشی کی کچھ نہ کچھ تفسیر بھی ہوگی
 

جیہ

لائبریرین
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ھے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بدآموزیِ عدو کیا ہے
(غالب اور رشک)
 

ظفری

لائبریرین
یہ دو پتھر نہ جانے کب سے آپس میں ہیں وابستہ
جبیں اپنی، تمہارا سنگ در محسوس ہوتی ہے

۔ عبدالحمید عدم ۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

غالب پھر اپنی خستگی کی داد پانے کو۔
 
Top