منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
سورج کی دمک، بجلی کی چمک، ساون کا ہرا بن دیکھا ہے
رنگین ملائم پتوں کی سر سر سے بھرا بن دیکھا ہے
دیوار فلک محراب زماں سب دھوکے آتے جاتے ہوئے
یہ ایک حقیقت ہم پہ کھلی جب سے کھلا بن دیکھا ہے
میراث جہاں اک عہد وفا کسی خواب زندہ رہنے کا
اک قصہ تنہا آدم کا جس نے تنہا بن دیکھا ہے
کبھی باب ہوا کبھی، سبز ردا، کبھی راز ہزاروں صدیوں کا
ہر لمحہ رنگ بدلتا ہوا ہر آن نیا بن دیکھا ہے
دیکھا ہے اس اس گھر میں مگر لگتا ہے منیر ایسا مجھ کو
دریا کنارے پر جیسے پانی میں گھرا بن دیکھا ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
گہری خاموشی
`
جب سے وہ بچھڑا ہے
اس گھر کی خاموشی
اس کی قبر سے بھی گہری ہے
اس کے گن
روشن آنکھوں کی طرح یہاں منڈلاتے ہیں
اور چاندی سی آوازوں سے
دکھ کو دور بھگاتے ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
اس کو یاد کرنے کی ساعتیں
`
جب تارے واپس جانے لگیں
آثار سحر کے آنے لگیں
اس وقت اسے تم یاد کرو
اور رات کے کسی علاقے میں
اور شام کے خالی خاکے میں​
 

عرفان سرور

محفلین
اپنے گھر سے چل پڑنا محفلوں کی حسرت میں
راستوں میں رہ جانا منزلوں کی حسرت میں
دیر تک کھڑے رہنا باغ کے اندھیرے میں
دیر سے جدا رہتے دلبروں کی حسرت میں
اس کی بے وفائی بھی مستقل نہیں ہوتی
دل سدا وہ رکھتا ہے دو رخوں کی حسرت میں
کوک ہے یہ کوئل کی یا پکار ازلوں سے
انت کی اداسی کی رونقوں کی حسرت سے
ضد منیر کیوں نبئے حال کے زمانے کی
اور اک زمانے کے موسموں کی حسرت میں​
 

عرفان سرور

محفلین
پتھر کا اس کا دل ہے تو محفل کا اس کا جسم
میداں ہے اس کی آنکھ میں، بادل کا اس کا جسم
شاید نظر پڑے جو در روشنی کھلے
اتنی سیاہ رات میں کاجل کا اس کا جسم
موسم کی مستیوں میں اسے دیکھنا ذرا
ٹھنڈی ہوا کی زد پہ ہے پیپل کا اس کا جسم
تازہ ہوئی ہے اس کے سبب روح عصر بھی
پھوٹا ہے ایسے رنگ سے کونپل کا اس کا جسم
تبدیلیوں کے دن ہیں زمانے میں اے منیر
ہے آج مختلف سا بہت، کل کا اس کا جسم​
 

عرفان سرور

محفلین
خواب و خیال گل سے کدھر جائے آدمی
اک گلشن ہوا ہے، کدھر جائے آدمی
دیکھتے ہوئے سے لگتے ہیں رستے، مکاں، مکیں
جس شہر میں بھٹک کے جدھر جائے آدمی
دیکھتے ہے وہ نگر کہ ابھی تک ہوں خوف میں
وہ صورتیں ملی ہے ڈر جائے آدمی
یہ بحر ہست و بود ہے بے گوہر مراد
گہرائیوں میں اس کی اگر جائے آدمی
پردے میں رنگ و بو کے سفر در سفر منیر
ان منزلوں سے کیسے گزرجائے آدمی​
 

عرفان سرور

محفلین
طلسمات صبح کاذب
`
کچھ اندھیرے کی خبر تھی کچھ اجالے کی خبر
صبح صادق سے سوا تھا صبح کاذب کا اثر
اک سیہ دیوار پر آثار روشن کی رمق
ظاہر باطل کے آگے نور کا چہرہ تھا فق​
 

عرفان سرور

محفلین
اب میں اسے یاد بنا دینا چاہتا ہوں
`
میں اس کی آنکھوں کو دیکھتا رہتا ہوں
مگر میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
میں اس کی باتوں کو سنتا رہتا ہوں
مگر میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
اب اگر وہ مجھ سے ملے
تو میں اس سے بات نہیں کروں گا
اس کی طرف دیکھوں گا بھی نہیں
میں کو شش کروں گا
میرا دل کہیں اور مبتلا ہو جائے
اب میں اسے یاد بنا دینا چاہتا ہوں​
 

عرفان سرور

محفلین
موسم سرما کی بارش کا یہ پہلا روز ہے
`
موسم سرما کی بارش کا یہ پہلا روز ہے
دھند ہے اطراف میں سورج کے خواب پر گرم
میں کہ جو محصور ہوں آرام حسن یار میں
اک حفاظت سی ہے مجھ کو جسم کی مہکار میں
یاد اور موجود دونوں کی حقیقت اس میں ہے
غم کی طاقت کو غلط کرنے کی ہمت اس میں ہے
سحر اتنا ہے جمال مہربان یار میں
جتنے اس سرما کی بارش کے حسیں اسرار میں​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک بیراگی سے مکالمہ
`
کیوں بیراگ لیا رے بھائی
کیوں بیراگ لیا
کس کارن ان سکھ کے دنوں میں
جگ کو تیاگ دیا
یہ ریکھائیں اور ورشائیں جن کا تجھ کو گیان نہیں
لے جائیں گی ایسی جگہ پر جس کی تجھے پہچان نہیں
تج دے گا جس دھرتی کو تو نے نیا سہاگ دیا​
 

عرفان سرور

محفلین
ڈرائے گئے شہروں کے باطن
`
ان دنوں یہ حالت ہے میری خواب ہستی میں
پھر رہا ہوں میں جیسے اک خراب بستی میں
خوف سے مفر جیسے شہر کی ضرورت ہے
عیش کی فرادانی اس کی ایک صورت ہے
ان دنوں میں مے نوشی فعل سود لگتا ہے
عورتوں کی صحبت میں دل بہت سود لگتا ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
ہر مکھ پر خوبصورتی کا مقام
`
ہر کسی کے چہرے میں
اک ضیاء سی ہوتی ہے
رخ کے ایک حصے میں
حسن کے علاقے کی
اک ادا سی ہوتی ہے
اس کو میں نے دیکھا تھا
گرم خو مہینوں میں
اک خوشی کی محفل میں
شہر کے مکینوں میں
اک طرف کھڑے تنہا
جس طرف کو رستے تھے
جن کے ساتھ گلیاں تھیں
جن میں لوگ بستے تھے
بے کشش مکانوں میں
جیسے چاند راتیں تھیں
اس کے سرد چہرے میں
خوشگوار آنکھیں تھیں​
 

عرفان سرور

محفلین
دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرا سا ہو گیا
میں فقط خوشبو سے اس کی تازہ دم سا ہو گیا
اس کے ہونے سے ہوا پیدا خیال جاں فزا
جیسے اک مردہ زمیں میں باغ پیدا ہو گیا
پھر ہوائے عشق سے آشفتگی خوباں میں ہے
ان دنوں میں حسن بھی آزار جیسا ہو گیا
ہے کہیں محصور شاید وہ حقیقت عہد کی
جس کا رستہ دیکھتے اتنا زمانہ ہو گیا
غم ربا ہے حال کہنا دل کا اس بت سے منیر
جس کے غم میں اپنے دل حال ایسا ہو گیا​
 

عرفان سرور

محفلین
میں اگر ٹھہر جاتا
`
میں اگر ٹھہر جاتا
اس نظر کے کہنے سے
میں قیام کر لیتا
یوں سفر میں رہنے سے
اس دیار غربت کے
درد مند لوگوں میں
اپنے جیسے دنیا کے
فکر مند لوگوں میں​
1
 

عرفان سرور

محفلین
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
خراب صدیوں کی خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان انت خلاؤں میں کیا دیتے
ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انھیں بس ایک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے
شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے
منیر دشت شروع سے سراب ایسا تھا
اس آئینے کو تمنا آب کیا دیتے​
 

عرفان سرور

محفلین
شکوہ کریں تو کس سے شکایت کریں تو کیا
اک رائیگاں عمل کی ریاضت کریں تو کیا
جس شے نے ختم ہونا ہے آخر کو ایک دن
اس شے کی اتنے دکھ سے حفاظت کریں تو کیا
حرف دروغ غالب شہر خدا ہوا
شہروں میں ذکر حرف صداقت کریں تو کیا
معنی نہیں منیر کسی کام میں یہاں
اطاعت کریں تو کیا ہے، بغاوت کریں تو کیا​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک اُمّت کے گزرنے کے بعد کا وقت
`
وہ عہد جو دھندلا گیا
اک چاند جو گہنا گیا
وہ ساتھ اپنے لے گیا
اپنی روائے دل کشا
رستے دکھاتی روشنی
گہری کشش موجودگی
ہونے کی مستی سے بھرے
رشتے گمان و لمس کے
اب اصل تو باقی نہیں
اس کا یقیں باقی نہیں
اک نقل جیسے اس کی ہے
بے روح جیسی کوئی شے
یہ درمیاں کے سلسلے
الجھے ہوئے حیرت کدے
ٹوٹی ہوئی رنگیناں
بگڑی ہوئی رعنائیاں
آنے سے پہلے خواب کے
کھلنے سے پہلے باب کے
بڑھتی ہوئی بے چینیاں
بڑھتی ہوئی تنہائیاں​
 

عرفان سرور

محفلین
ہر مشکل موسم کی حد پر
`
شروع بہار کے ہیں آثار
سبز ہوئے انجیر کے پتے
سبز ہوئی پیپل کی قطار
ہری ہری چلمن کے پیچھے
اڑتا ہے سرخی کا غبار
ایک قدیم زمانہ سا ہے
اینٹوں کی اونچی دیوار
اوٹ میں اک سنسان جگہ کی
لیے ہوئے کلیوں کے ہار
کھڑی ہے اک آسان بہار​
 

عرفان سرور

محفلین
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
میں بہت کمزور تھا اس ملک ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے
مجھ کو سیدھے راستے سے در بدر اس نے کیا
شہر میں وہ معبتر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معبتر اس نے کیا
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا​
 

عرفان سرور

محفلین
ردا اس چمن کی اڑا لے گئی
درختوں کے پتے ہوا لے گئی
جو صرف اپنے دل کے ٹھکانوں میں تھے
بہت دور ان کو صدا لے گئی
چلا میں صعوبت سے پر راہ پر
جہاں تک مجھے انتہا لے گئی
گئی جس گھڑی شام سحر وفا
مناظر سے اک رنگ سا لے گئی
نشاں اک پرانا کنارے پہ تھا
اسے موج دریا بہا لے گئی
منیر اتنا حسن اس زمانے میں تھا
کہاں اس کو کوئی بلا لے گئی​
 
Top