فاتح
لائبریرین
ایک طرحی مشاعرے کے لیے لکھی گئی خاکسار کی ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:
موت سے مت ڈرا مجھے، نیند سے مت جگا مجھے
فقر گو دلربا مجھے، خوابِ غنا دِکھا مجھے
حسن ترا فقط ملال، ذات مری بھی پائمال
اوجِ کمال و لازوال، کافی ہے اک خدا مجھے
روئے گریزِ دلبراں مرگ برائے عاشقاں
نامہ بنامِ دیگراں، قاصدا! مت دِکھا مجھے
کوچہ بہ کوچہ دل بہ دل، نقشِ وجود گِل بہ گِل
مثلِ صبا و آہِ دل پھرنا ہے جا بجا مجھے
بادۂ ناب کر کشید، شعر و سخن، کبھی نشید
چھوڑ یہ وعدہ و وعید، بزم اُٹھا، سجا مجھے
جان سے جب قریب تھا، کہتا تو کچھ حبیب تھا
"لفظ بہت عجیب تھا، یاد نہیں رہا مجھے"
فاتح الدین بشیرؔ
فقر گو دلربا مجھے، خوابِ غنا دِکھا مجھے
حسن ترا فقط ملال، ذات مری بھی پائمال
اوجِ کمال و لازوال، کافی ہے اک خدا مجھے
روئے گریزِ دلبراں مرگ برائے عاشقاں
نامہ بنامِ دیگراں، قاصدا! مت دِکھا مجھے
کوچہ بہ کوچہ دل بہ دل، نقشِ وجود گِل بہ گِل
مثلِ صبا و آہِ دل پھرنا ہے جا بجا مجھے
بادۂ ناب کر کشید، شعر و سخن، کبھی نشید
چھوڑ یہ وعدہ و وعید، بزم اُٹھا، سجا مجھے
جان سے جب قریب تھا، کہتا تو کچھ حبیب تھا
"لفظ بہت عجیب تھا، یاد نہیں رہا مجھے"
فاتح الدین بشیرؔ